عالمی افسانہ میلہ “2021”
پہلی نشست
افسانہ نمںر “13”
“نو گرل فرینڈ،نوجاب،نو پرابلم”
افسانہ نگار” رفیع حیدر انجم (ارریا, بہار (انڈیا )
رشتے میں وہ میرے ماموں لگتے تھے….. اقبال ماموں…. لیکن عمر میں ہم دونوں برابر تھے. سو رشتے کا تقاضا پیچھے رہ گیا تھا اور ہم آگے بڑھ کر شہر سے دور دریا کنارے ریت پر بیٹھ کر سگریٹ کے کش لگایا کرتے تھے. یہاں دریا میں ڈبکی لگانے والی عورتیں اور لڑکیاں ہمارے لئے خصوصی توجہ کا مرکز ہوتی ہیں. ساحل کے کنارے ان عورتوں کے رنگ برنگے ملبوسات ہوا میں لہراتے رہتے. اکثر آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا ہوتا اور بےشمار کوے شور مچایا کرتے. چند بندر بھی ریت پر گھوما کرتے تھے. انسانی تہزیب نے دریا کے کنارے اپنا پہلا مسکن بنایا تھا. لیکن یہ بندر ارتقا کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے تھے. شاید ہماری طرح ان عورتوں کو گھورنے کے لئے………… لیکن عورتوں کو ان بندروں سے کوئی خوف نہیں تھا. ہم اپنا بقیہ وقت سنیما گھروں میں یا کینٹین میں بیٹھ کر چائے پینے میں گزار دیتے تھے. کبھی کبھی اقبال پر مجھے کسی دوسرے شخص کے ہونے کا گمان ہوتا تھا. یہ احساس تب ہوتا تھا جب وہ فلسفیانہ قسم کی باتیں کرنے لگتا تھا. ایک بار ہم اپنے شہر کے ایک پارک ‘رینو کنج’ میں بیٹھے تھے. اس نے پارک کا سرسری جائزہ لیا اور فنیشور ناتھ رینو کے اسٹیچو کی طرف دیکھ کر کہا. “اس پارک میں رینو کا کیا کام؟ یہاں تو لوگ گداز جسموں والی عورتوں کو گھورنے کے لئے آتے ہیں. ” اس نے ایک قہقہ لگایا اور پھر ایک دم سے سنجیدہ ہوکر کہنے لگا. “کیا تم اپنا اسٹیچو لگوانا پسند کروگے ؟” مجھے لگتا ہے کسی شے کے چھوٹ جانے یا کسی اندیشے کی دھند میں لپٹے ہوئے ہونے کا احساس اسے خوشی کے موقع پر بھی اداس کر دیتی ہے. دوچار مہینوں کے وقفہ پر میں اس کے شہر یا وہ میرے شہر میں آجاتا تھا. دوچار دنوں کے لئے ہمارا ساتھ رہتا اور پھر دوچار مہینوں کے لئے ہم جدا ہو جاتے تھے. یہ سلسلہ گزشتہ کئی برس سے جاری تھا. جدائی کے دنوں میں ہم ایک دوسرے کو خط لکھا کرتے تھے کہ ان دنوں موبائل کا چلن عام نہیں ہوا تھا. اس کی اردو کمزور تھی لہٰذا خطوں میں املا کی بہت سی خامیاں ہوا کرتی تھیں. میں اپنے خط میں ان کی نشاندہی کردیا کرتا تھا. وہ میرا احسان مند تھا کہ اس طرح میں اس کی اصلاح کر رہا ہوں. لہذا اس کا اصرار ہوتا کہ میں اس کے ہر خط کا جواب ضرور دیا کروں.
ہمارے رنج و مسرت تقریباً ایک جیسے تھے. ہم دونوں بےروزگار گریجویٹ تھے اور نوکری کے لئے اسٹرگل کر رہے تھے. میں نے اقبال کو کبھی ماموں نہیں سمجھا اور نہ ہی ہمارے تعلقات کے درمیان اس رشتے کا احترام کبھی حائل ہوا. ہاں,اقبال کے بڑے بھائی اشفاق احمد میرے لئے ہمیشہ ماموں ہی رہے اور انہوں نے ماموں ہونے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا. اشفاق ماموں سراپا مذہبی رنگ میں ڈوبے ہوئے تھے. ان کے کمرے میں اسلامی لٹریچر کی موٹی موٹی کتابیں بکھری رہتی تھیں. ان کتابوں سے مجھے وحشت ہوتی تھی. وہ محکمہ امداد باہمی میں ضلعی سطح کے افسر تھے. لیکن میں ان سے ملاقات کی کوشش نہیں کرتا تھا. ہاں, جب کبھی نا دانستہ طور پر میرا ان سے آمنا سامنا ہو جاتا تو ان کا پہلا سوال یہی ہوتا ” تم نے نماز شروع کی یا نہیں ؟” ……….. اس سوال پر نہ جانے کیوں میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ جاتی جو انہیں بےحد ناگوار لگتی اور وہ دفعتاً بھڑک جاتے ………. “جب تک تم نماز پڑھنا شروع نہیں کرتے تمہیں نوکری نہیں مل سکتی. ” اس تنبیہ پر میں خاموش رہتا لیکن میری مسکراہٹ اپنی جگہ قائم رہتی اور دل ہی دل میں سوچا کرتا کہ ماموں جان پہلے اپنی روزی تو حلال کر لیجیے اور یہ نانی جان جو دن بھر ٹی وی دیکھتی رہتی ہیں انہیں راہ راست پر لاکر تو دکھائیں………….. دراصل میری نانی طبعی عمر سے نانی نہیں لگتی تھیں. نہ جانے کیوں میرے نانا نے عمر کی ڈھلان پر پھسلتے ہوئے دوسری شادی کر لی تھی اور یہ دونوں میرے سگے ماموں نہیں تھے. میں وہاں صرف اقبال سے ملنے جایا کرتا تھا. لیکن نہیں……….. شاید ایک اور وجہ تھی جو مجھے وہاں جانے کے لئے اکسایا کرتی تھی. اشفاق ماموں شادی شدہ تھے اور ان کی بیوی بےحد حسین وجمیل…
اتنی خوبصورت ممانی میں نے دوسری جگہ نہیں دیکھی. ایک بار ممانی نے مجھے بتایا تھا کہ تمہارے ماموں نے مجھے پچپن ہی میں پسند کر لیا تھا جب وہ چڈی اور فراک پہن کر اسکول جایا کرتی تھیں. ان دنوں میرے نانا ہزاری باغ میں پوسٹیڈ تھے. ممانی بے وجہ بھی ہنسا کرتی تھیں. ظاہر ہے, اشفاق ماموں کو ان کا یہ رویہ پسند نہیں تھا. ممانی ان کے سامنے محتاط رہا کرتی تھیں. ممانی سے مل کر اور ان سے باتیں کر کے میں ایک عجیب و غریب کیفیت سے گزرا کرتا تھا. اس کیفیت میں جذبہء رشک کے شعلوں کے ساتھ ساتھ جذبہء انتقام کی کوئی دبی ہوئی سی چنگاری بھی شامل تھی. حالانکہ میں اس چنگاری کو ندامت کی پھونک مار مار کر بجھاتا رہتا تھا. لیکن کبھی کبھی تنہائی میں اس ندامت کے بوجھ سے میرا سر جھک جاتا تھا اور میں سوچا کرتا کہ آخر میں اپنے ماموں سے یہ کیسا انتقام لے رہا ہوں ؟ اس انتقامی کارروائی میں ممانی کی معصومیت کا کیا قصور ہے ؟
اگر اشفاق ماموں مجھے راہ راست پر لانا چاہتے ہیں تو یقیناً اس میں میری ہی بہتری پوشیدہ ہے. نہیں……… ماموں سچ کہتے ہیں, جب تک میں نماز شروع نہیں کرتا, میرا کچھ نہیں ہو سکتا. لیکن اقبال؟ ………. اسے تو نوکری مل جانی چاہئے تھی. ووہ تو اشفاق ماموں کی نصیحت پر سو فیصد عمل کر رہا تھا. وہ پابندی سے نماز پڑھ رہا تھا. اس کے پینٹ کی جیب میں کشیدہ کی ہوئی سفید رنگ کی گول ٹوپی ہر وقت موجود رہتی تھی. کئی بار تو ایسا ہوا کہ اسے انٹرویو دینے کے لئے دوسرے شہر میں جانا ہے. گھر سے تیار ہوکر وہ اسٹیشن کے لئے نکلا ہے لیکن راستے میں اسے ظہر کی اذان سنائی دیتی ہے. وہ سیدھے مسجد کا رخ کرتا ہے. نماز سے فارغ ہو کر اسٹیشن کے لئے روانہ ہو جاتا ہے لیکن وہاں پہنچ کر اسے معلوم ہوتا ہے کہ دو بجے کی ٹرین جا چکی ہے اور اب اس روٹ کی دوسری ٹرین نہیں ہے.
میں نے اس سے کئی بار کہا کہ اسلام میں قضا کی نماز پڑھنے کی سہولت ہے. اس کا فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے ؟ میرے پوچھنے پر اس کا جواب یوتا کہ زندگی میں جو اذن پہلے میسر آئے اسی کو فوقیت دینی چاہیے. اس کی دلیل کو حتمی طور پر رد کر دینے کا میں اہل نہیں تھا کہ چند عقائد کی ڈور سے اس کی زندگی بندھی ہوئی تھی اور میں تمام بندھن توڑ کر آوارگی کی صف میں شامل تھا. آوارگی بہرحال ضابطوں سے کمزور ہوتی ہے. اپنی بےضابطہ زندگی زندگی کا محاسبہ کرتے ہوئے مجھے لگتا تھا کہ اقبال کو ایک نہ ایک دن نوکری ضرور مل جاےءگی. اس کی ریاضت رائیگاں نہیں جا سکتی.
آئندہ چند ماہ میں میرا اندازہ درست نکلا. اسے نوکری مل گئی. اس کے لئے اسے دوسرے شہر کا سفر طے کرنا تھا. لیکن رخت سفر باندھنے سے قبل اس کے اسباب میں ایک اور شے کا اضافہ ہو گیا. یہ وہ شے تھی جس کی آمد کا منتظر ہر نوجوان ہوا کرتا ہے. اقبال کو ایک لڑکی سے محبت ہو گئی تھی. یہ لڑکی اس کے پڑوس میں رہتی تھی. اقبال نے اس لڑکی سے پہلی ملاقات کی تفصیل بتائی تو مجھے لگا کہ یہ لڑکی اس کی زندگی میں اس طرح داخل ہو گئی ہے جیسے اس کی جیب میں رکھی سفید گول ٹوپی…………. اچھی طرح سے تہ کی ہوئی, احتیاط اور حفاظت کے ساتھ خوشبوءں میں بسی ہوئی. اقبال نے اب ہر نماز کے بعد اپنی دعا میں اس لڑکی کی سلامتی کے لئے بھی گنجائش نکال لی تھی.
جلدی ہی وہ دن قریب آگیا جب اسے نوکری جوائن کرنے کے لئے دوسرے شہر کے سفر پر نکلنا تھا. حسب پروگرام اقبال کو الوداع کہنے کے لئے میں اس کے ساتھ اسٹیشن تک گیا. اسٹیشن پہنچا تو ٹرین کے لئے تھوڑا انتظار کرنا پڑا. یوں بھی انتظار کی عادت میری فطرت میں شامل ہو چکی تھی. پلیٹ فارم پر کافی بھیڑ بھاڑ اور شور شرابا تھا. ہر کسی کو کہیں نہ کہیں جانا تھا. بہت سے لوگ ایسے تھے جنہیں کسی کے آنے کا انتظار تھا.
ٹرین آئی تو پلیٹ فارم پر لوگوں کی نقل و حرکت بڑھ گئی. میں پلیٹ فارم پر ٹرین کی کھڑکی کے قریب کھڑا تھا. اقبال کے چہرے سے کسی شے کے چھوٹ جانے یا کسی اندیشے کی دھند میں لپٹے ہوئے ہونے کا احساس نمایاں تھا. میں نے الوداع کے اس سوگوار لمحے میں اسے اپنا خیال رکھنے جیسا کوئی رسمی سا جملہ کہنا چاہا تبھی ٹرین اپنی جگہ سے کھسکنے لگی. میں تھوڑا آگے بڑھ گیا اور چاہا کہ اس سے مصافحہ کر لوں کہ دفعتاً کسی سے ٹکرا جانے کے سبب میرے قدم لڑکھڑا گئے اور توازن برقرار نہ رکھ پانے کے سبب میں پلیٹ فارم پر تقریباً گر پڑا. میرے دونوں ہاتھ کی کہنیوں پر فرش کی رگڑ سے خراشیں آ گئیں. اسی ایک لمحے میں ایک دراز قد نوجوان نے مجھے سنبھالا اور کہنے لگا……..
‘برادر, ٹرین کی رفتار سے آگے جانے کی کوشش خطرے سے خالی نہیں’. …… میری نظر ان خراشوں پر گئی جہاں سے خون کی ننہی ننہی بوندیں چھلک آئی تھیں. میں نے اس نوجوان کا شکریہ ادا کرنا چاہا تو دیکھا کہ وہ تھوڑا آگے نکل گیا ہے اور اب اس کی پشت میرے سامنے ہے. اس نے نیلا جینس اور سفید رنگ کا ٹی شرٹ پہن رکھا تھا. ٹی شرٹ پر سرخ رنگ کے بڑے بڑے انگریزی حروف دور سے چمک رہے تھے. وہاں لکھا تھا…….. …… ‘نو گرل فرینڈ, نو جاب, نو پرابلم’…………. کہنیوں پر لگی ہوئی چوٹ کی تکلیف کے باوجود میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی..
Comments are closed.