Skip to content

نفسانفسی کی بھیڑ میں

عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 77

نفسانفسی کی بھیڑ میں

شبیہ زہرا حسینی کاموپوری

نیوجرسی ۔ امریکہ

لال جوڑے میں قیمتی زیورات سے مزین، دلہن کی شکل میں اپنے آپ کو آئینہ میں دیکھ کر مدیحہ خوشی سے پھولی نہیں سمائی تھی۔ سولہ سال کی بچی تھی۔ جب سے ہوش سنبھالا تھادو کمروں پرمشتمل کرایہ کے مکان میں چار بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ساتھ اپنے والدین کو دشوارکن آزمائش سے گزرتے دیکھا تھا۔ خود بھی ہرچیز کے لیے ترستی ہی رہی۔ بس دو وقت کی روٹی کا انتظام ہوجاتا تھا….ایسے صبر آزما حالات میں ا چانک خوشیوں کی بارش ہوگئی۔ امریکہ سے آئے ہوئے ڈاکٹر کی بیوی نے اپنے پڑھے لکھے بیٹے کے لیے اس کو پسند کر لیا تھا۔ اس کے ساتھ کی لڑکیاں اور ان کی مائیں بھی اس کی قسمت پر رشک کر رہی تھیں۔ ”جس کو چاہے اللہ چھپڑ پھاڑ کر دے دیتا ہے“یہ سنا تو سب نے تھالیکن اب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ ایک ہفتہ میں اس کی اور اس کے پورے کنبہ کی قسمت بدل گئی۔ لڑکی کو مہر میں سجاسجایا تین بیڈ روم کا فلیٹ ملا تھا اور ہر ماہ ایک معقول رقم کا وعدہ بھی کیاتھا تاکہ دوسرے بچوں کو اچھی تعلیم دلائی جاسکے- پھر بھی اس کی ماں کے آنسو نہیں رک رہے تھے،باربار بیٹی کو گلے لگا کر رو پڑتیں۔

اللہ نے تمہاری بیٹی کی قسمت کھول دی ہے، امریکہ جارہی ہے۔تمہاری غربت کے بادل چھٹ گئے ہیں سمجھو….کبھی سوچا تھا اتنے بڑے ہال سے اتنی شان کے ساتھ اپنی بیٹی کو وداع کروگی“اپنی نند کو روتے دیکھ کر زیبا نے دلاسہ دیا۔

”وہ تو ہے بھابھی….لیکن“ الفاظ اس کے آنسوؤں میں بہہ گئے۔

”لیکن کیا؟ کمسن ہے اوربہت دورجارہی ہے، یہی کہنا چاہتی ہو…نا؟ تو لڑکیاں تو ہوتی ہی ہیں پرایا دھن۔ امیر گھر جا رہی ہے، برابر آتی رہے گی۔“

”جی بھابھی…لیکن“

”پھر وہی لیکن….اللہ کا شکر ادا کرو، تمہارے اور بچوں کی قسمت کھل گئی ہے“

”آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں بھابھی۔ ہائی اسکول کے بعد آفاق کو امریکہ پڑھانے کے لیے بلائیں گے….یہ بھی وعدہ کیا ہے“

”ایسے نیک لوگ کہاں ملتے ہیں؟ لیکن یہ بھی بات ماننی پڑے گی کہ ان لوگوں نے بھی گدڑی میں سے لعل چن لیا ہے۔ ہماری مدیحہ بھی لاکھوں میں ایک ہے…… میلاد میں منقبت کیا پڑھی، سنتے ہی ڈاکٹر کی بیوی اس کی دیوانی ہوگئیں۔“

”اچھی طرح سے سب دیکھ بھا ل لیا ہے؟مجھے تو لگتا ہے لڑکے میں کوئی بڑاعیب ہوگا، ورنہ اس طرح مخمل میں ٹاٹ کا پیوند کون لگاتا ہے“مدیحہ کی چچی نے اس کی ماں سے رازدارانہ انداز میں اپنے شک کا اظہار کیا۔

اس سے پہلے کہ مدیحہ کی ماں کچھ جواب دیتیں، زیبا ان کے دفاع میں بول پڑی۔

”بھابھی جان آپ….کوتو حسد مار ڈالے گی۔ دوسروں کی خوشی میں کبھی خوش ہوتی ہی نہیں ہیں….اس لیے اپنا منہ بندہی رکھیں۔“

خوشیوں کے دوش پر سوار….اونچی اڑان بھرتی ہوئی مدیحہ بھی اس وقت یہی سمجھتی تھی….چچی جان حاسد ہیں اور اس کی خوشی ان سے دیکھی نہیں جارہی ہے۔ شادی کے تین سال کس طرح گزر گئے اسے خود ہی خبر نہیں ہوئی۔ غربت کی دھوپ میں جھلسی ہوئی اس کمسن بچی کو دولت کی ریل پیل، امریکہ کی رعنائیوں، ساس سسر کی شفقت اور نندوں کی محبت نے یہ احساس ہی نہیں ہونے دیا کہ اس کا شوہر اس سے بیس سال بڑا ہے اور نفسیاتی بیماری کا شکار ہے۔تین سال میں دو بچوں کی ماں بن گئی۔

وقت کے ساتھ ساتھ لڑکپن گیا تو جوان دل نے انگڑائی لی۔ چاہے جانے اور سراہے جانے کی خواہش نے سر اٹھایا….تب اس کو شدت سے احساس ہونے لگا کہ اس کا ہم سفر تو بس پتھر کی مورت ہے،جس میں جب حرکت ہوتی ہے تو صرف اس کو نوچ ڈالتا ہے….بالکل درندوں کی طرح –

بھوک و پیاس کئی نوعیت کی ہوتی ہے۔ تمام آرام وآسائش کا سامان میسر ہونے کے باوجود وہ محرومی کے سمندر میں غوطے لگانے لگی….اس بے چین مچھلی کی طرح جو سمندر میں رہ کر بھی پیاسی رہ جائے۔گھٹن کا احساس جب زیادہ بڑھنے لگا تو اس نے اپنی ساس کی اجازت سے پارٹ ٹائم نوکری کرلی تاکہ گھر کے تھکے ہوئے ماحول سے کچھ دیر دور رہ سکے۔ زیادہ پڑھی لکھی تو تھی نہیں، ایک اسٹور میں معمولی سی نوکری مل گئی۔ لیکن باہر کی کھلی ہوا اور ایک نئی دوست کرسٹی اسے تازہ دم کردیتی۔کچھ دنو ں بعد اس نے فل ٹائم نوکری کرلی تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت گھر سے باہر گزار سکے۔ اس کا شوہر تو پہلے ہی اس کے کام کرنے کے خلاف تھا….طرح طرح مردوں سے ملے گی، شک وشبہات اور مختلف وہموں نے اس کی ہذیانی کیفیت میں اضافہ کردیا -اس کا اس طرح گھر سے باہر رہنا اس کے سسرال والوں کو بھی گراں گزرنے لگا۔

”اپنے شوہر اور بچوں کا بالکل خیال نہیں ہے تم کو ……دن بھر غائب رہتی ہو“ ایک دن ترش لہجہ میں اس کی ساس نے اس کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا۔

”نوکری کرتی ہوں…..باہر تفریح کے لیے تو جاتی نہیں ہوں۔“اس نے بھی تنک کرجواب دیا۔

”ہمیں تو تمہاری کمائی کی ضرورت نہیں ہے، تمہارا بھی سب ہم ہی پورا کرتے ہیں“ ساس کے لہجہ میں مزید سختی آگئی۔

”آپ سب نے میرا سودا کیا ہے“ اس کا دل چاہا کہ کہہ دے لیکن خاموش رہی۔

”تمہارے شوہر اور بچوں کو تمہاری ضرورت ہے، قادر کی طبیعت اب اور بگڑ تی جا رہی ہے۔“ اس کو خاموش دیکھ کر اس کی ساس نے ایک بار پھر اس کو اس کی غلطی کا احساس دلانا چاہا۔

”میری کیا ضرورت ہے…. یہ کوئی کیوں نہیں سوچتا“ اس کا دل چاہا وہ پوچھ ہی ڈالے لیکن پھر اس نے اپنے لبوں کو سی ڈالا۔ لیکن چہرہ کھلی کتاب کی طرح ہوتا ہے، اس کی ساس نے ان کہے الفاظ اس کے چہرے پر پڑھ لئے۔

”دیکھو بی بی….تمہاری شادی سے پہلے تمہارے والدین کو ساری بات بتا دی گئی تھی اور انھوں نے ساری حقیقت جان کر تمہاری شادی قادر سے کی تھی“

مدیحہ کے سینے پر جیسے کسی نے ہتھوڑا مار دیا ہو۔ جان بوجھ کر صرف اپنے مفاد کے لیے میرے ماں باپ نے مجھے اس جہنم میں جھونکا ہے….اور میں صرف اس لیے کہ ان کو ایذا نہ پہنچے، ان سے اپنا درد چھپاتی رہی…..ان کو کما کما کر روپیہ بھجواتی رہی….اس خیال کے آتے ہی اس نے اپنی ساس کو تو کوئی جواب نہیں دیا لیکن اپنی ماں سے فون پر شکوہ کیا۔

”اماں آپ کو معلوم تھا کہ قادر کو دماغی بیماری ہے پھر بھی آ پ نے میری شادی ان سے کر دی۔“

”بیٹا دولت میں کھیل رہی ہو، دنیا گھوم لی اپنی نندوں کے ساتھ…… آرام وآسائش کا ہر سامان میسر ہے، اب کاہے کا ملال ہے۔“

”اماں جب تک عقل نہیں تھی، میں بھی ان رنگوں سے اپنی زندگی میں رنگ بھرنے لگی تھی لیکن اب…..“

”اب کیا؟“ اس سے پہلے کہ وہ اپنا جملہ پورا کرتی اس کی ماں نے پوچھا۔

”اب محسوس ہوتا ہے کہ وہ سب رنگ پھیکے تھے…لگتا ہے جیسے ٹھنڈی ہواؤں میں بھی آگ پنہاں ہے…… جھلسا دینے والی گرمی میرے پورے وجود کو بڑی بے رحمی سے پگھلائے ڈال رہی ہے….روز مرمر کے جیتی ہوں۔“….اس کا جی چاہا چیخ چیخ کر وہ یہ سب کچھ ماں کو بتا دے، لیکن اس نے صرف ایک سوال پر ہی اکتفا کی۔

”اماں….کیا شادی کے بعد زندگی صرف ساس سسر اور نندوں کے ساتھ گزاری جاتی ہے؟“

”بیٹا….خوش رہنے کی کوشش کرو، یہاں کون سا سکھ ہم تم کو دے رہے تھے۔….اور پھر بیٹا….اگر یہ شادی نہ کی ہوتی تو ہم سب اب تک مصیبت کی چکی میں پستے رہتے، دل پر پتھر رکھ کر یہ فیصلہ کیا تھا۔“

مدیحہ نے مزید اس سلسلے میں بات نہیں کی۔ ماں کے جواب نے اس کے اندر ٹوٹ پھوٹ میں اضافہ کردیا۔ سب ہی اپنے مفاد کے لیے مجھے استعمال کررہے ہیں….”اس مطلبی دنیا میں تمھیں اپنے بارے میں خود سوچنا ہوگا۔“ اسے اپنی دوست کرسٹی کی بات یاد آئی۔ وہ جب بھی زیادہ ذہنی دباؤ کی شکارہوتی، اپنی اس دوست کے کندھے پر سر رکھ کر روتی تھی۔ وہ اس کی راز داں بھی تھی اور مشیر کار بھی۔ اس سے اکثر کہتی رہتی تھی کہ محرومی اور مایوسی سے مسلسل جنگ کرنے کے بجائے اس کوخود اپنے بارے میں سوچنا ہوگا۔ ابھی وہ صرف 31سال کی ہے، گزرے ہوئے وقت کو ایک برا خواب سمجھ کر وہ ایک نئی زندگی کاآغاز کر سکتی ہے….کیونکہ اس مادہ پرست دنیا میں دینے والے کم اور لینے والے زیادہ ہیں۔

بغیر پیچھے دیکھے، زندگی کا سفر دوبارہ شروع کرنے کی تمنا تو اس کے دل میں بھی بار بار ابھرتی تھی….اپنی روح پر اپنی جسم کا بوجھ اب وہ مزید برداشت نہیں کرپارہی تھی….لیکن زمانہ کا خوف، خاندان والے کیا کہیں گے اور بچوں کے مستقبل کا خیال، اس کے ارادوں کو کمزور کردیتا۔ایک دن اس نے اپنے بیٹے اور بیٹی کی اس سلسلہ میں رائے معلوم کرنے کے لیے پوچھ ہی لیا۔

”دیکھتے ہو تم لوگ،اپنے ڈیڈی کا سلوک میرے ساتھ، اب میں تھک چکی ہوں، سوچ رہی ہوں تم دونوں کو لے کر الگ ہوجاؤں۔“

”ماما….ڈیڈی بیمار ہیں، ظالم نہیں ہیں۔schizophrenia کے مریض تو اس طرح کے hallucination اور delusion کے شکار ہوتے ہیں، اس لیے آپ کے ساتھ……“

تمہارے بیمار باپ کے ساتھ میں بھی بیمار ہوجاؤں؟“ اس سے پہلے کہ اس کا بیٹا اپنا جملہ پورا کرتا، مدیحہ غصہ سے چیخ پڑی۔

”لیکن موم(mom) آپ کی تنخواہ میں ہم تین اس طرح کی آرام دہ زندگی نہیں گزار سکتے، مکان بھی چھوٹا سا ہی رہنے کو ملے گا، کار بھی نہیں خرید پائیں گے“

”بھائی جان ٹھیک کہہ رہے ہیں ماما….اور میری دوست کہکشاں اور مرحبا مجھ پر ہنسیں گی….ایسا سوچئے گا بھی نہیں۔“ اس کی بیٹی نے اپنے بھائی کی بات پر مہر لگادی۔

نفسا نفسی کے اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں….مجبوری اور غربت نے میرے والدین کے دماغ کو اس حد تک مفلوج کردیا کہ انھوں نے مجھے ہی بیچ ڈالا….سسرال والوں نے اپنا مفاد دیکھا اور مجھے خرید لیا….میرے اپنے بچے بھی صرف اپنے بارے میں سوچ رہے ہیں….نفسا نفسی کی اس بھیڑمیں، میں کب تک خوشیوں کی تلاش میں ٹٹول ٹٹول کر چلتی رہوں گی….اس خیال کے آتے ہی،غصہ کے عالم میں اس نے خلع لینے کا ارادہ کرلیا…اور بہت بے باکی کے ساتھ اعلان بھی کردیا۔ پھر کیا تھا ایک قیامت برپا ہوگئی۔

قادر کی حالت بد سے بدتر ہو ہی چکی تھی، اس کی سمجھ میں کچھ زیادہ نہیں آیا…لیکن سسرال والوں نے اس کو خود غرض، خود پسند اور ناشکرا کہنا شروع کردیا۔

”امی ابا اور آپ سب نے صرف اپنا فائدہ دیکھا، اپنے بارے میں سوچا، صرف میں ہی قربانی دینے کے لئے رہ گئی ہوں….صرف مجھ سے ہی ایثار و قربانی کی توقع کیوں کی جارہی ہے….”میں ہی کیوں؟“ پہلی دفعہ مدیحہ نے آنکھ میں آنکھ ڈال کر اپنی ساس سے پوچھ ہی لیا۔

”بی بی مت بھولو…تم بھی اب صرف اپنے بارے میں ہی سوچ رہی ہو …… ”میں ہی کیوں؟“……خلوص عنقا…… ہونے کی وجہ یہی سوال ہے۔“ اس کی ساس نے غصہ سے جواب دیا۔

اس کے والدین نے بھی ماں اور بیوی کے مقدس رشتے کی اہمیت اور ان کے تقاضوں کو سمجھنے کی تلقین کی، بھائی نے اپنے ڈوبتے ہوئے مستقبل کی دوہائی دی، لیکن مدیحہ بغاوت پر آمادہ ہو چکی تھی۔Havenبوسٹن میں ایک تنظیم ہے جو ایسی مصیبت زدہ عورتوں کو ہر طرح کی مدد فراہم کرتی ہے۔ اس کی مدد سے مدیحہ نے بہ آسانی خلع بھی لے لیا اور رہائش کا مناسب انتظام ہو گیا۔

دبئی میں مقیم اس کے خالہ زاد بھائی اور ان کی بیوی نے بھی اس کا ساتھ دیا اور کہا کہ زندگی صرف ایک بار ملتی ہے، اپنے بارے میں سوچنے کا اسے پورا حق ہے۔خلع لینے کے بعد ذہنی دباؤ سے چھٹکارا پانے کے لیے دبئی آنے کا مشورہ بھی دیا۔

دبئی میں اس کی ملاقات ایک ریستوران میں ضیا سے ہوگئی۔ باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ دونوں ایک ہی ہوٹل میں رکے ہوئے ہیں۔ ضیا مقناطیسی شخصیت کا مالک تھا۔ پہلی ملاقات میں وہ مدیحہ کو بہت اچھا لگا۔ضیا بھی اس سے بے تکلف ہو گیا۔ روز ہی ملاقات ہونے لگی۔ ضیا گفتگو کے دوران اکثر اس کو ایسی بھرپور نظر سے دیکھتا کہ اس کا چہرہ شہابی ہو جاتا اور وہ گھبراکر نظریں چرانے لگتی۔

”یہ چاندی جیسی رنگت،سیاہ بادامی آنکھیں، ریشمی کالے بال، سرو جیسا قد…. کوئی نہ کوئی تو اب تک اس حسن کا اسیر ہو چکا ہوگا۔“ ایک دن ضیا نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ پوچھ ہی لیا۔

”بالکل نہیں….ایسا تو پہلے مجھ سے کسی نے نہیں کہا۔“ عجیب قسم کا سرور اور کیف نشہ کی صورت میں اس پر چھا گیا۔ ایک دل آویز مسکراہٹ کے ساتھ نفی میں سر ہلاتے ہوئے اس نے جواب دیا۔

تعجب ہے۔ قابل توصیف چیز کو سراہا نہ جائے تو یہ بخالت ہے۔میں تو پہلی ہی ملاقات میں آپ کا گرویدہ ہوگیا تھا…..امریکہ میں کیا بد ذوق لوگ رہتے ہیں۔“ کچھ اس انداز سے اس نے کہا کہ مدیحہ کے دل کے تا ر بے طرح بج اٹھے۔ دھوپ گھٹا بن گئی۔

سوتے جاگتے وہ خود اپنے آپ کو اس خوبرو نوجوان کے حصار میں بندھا محسوس کرنے لگی۔ لیکن جب وہ اپنے ماضی کی کتاب اس کے سامنے کھولے گی تو اس کی محبت کی دیوار بھر بھری ریت کی طرح ڈھئے جائے گی….اس خیال کے آتے ہی وہ کانپ جاتی۔ کئی دفعہ ارادہ کیا کہ سب کچھ امریکہ واپس جانے سے پہلے اس کو بتادے لیکن تذبذب اور خوف کی لہریں ہر بار اس کے ارادے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتیں۔

”جو آپ سوچ رہے ہیں وہ ممکن نہیں ہے“ ایک دن اس نے کہہ ہی دیا۔

”وہ کیوں جناب؟ کیا میں اتنا برا ہوں؟“

”تین ماہ پہلے میں نے اپنے شوہر سے خلع لیا ہے اور میرے دو بچے ہیں جو میرے ہی ساتھ رہتے ہیں….چودہ سال کا بیٹا اور تیرہ سال کی بیٹی“ مدیحہ نے جلدی سے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لیا۔

”یہ بات آپکے خالہ زاد بھائی نے ہماری دوسری ملاقات کے بعد ہی،آپ کی برتھ ڈے پارٹی کے دوران بتا دی تھی۔ آپ کے ساتھ بہت زیادتی ہوئی ہے۔“

”تو از راہِ ہمدردی آپ نے اتنا بڑا فیصلہ کر لیا ہے؟“ مدیحہ کے دل پر چوٹ سی لگی۔ خوشی اور محرومی کے ملے جلے اثرات اس کے چہرے پر نمایاں ہو گئے،

”ہر گز نہیں….آپ کو اپنی قیمت خود نہیں معلوم….میری نظروں سے دیکھئے تو اندازہ ہو جائے گا….محبت کیوں کر بیٹھا ہوں اللہ کے اس حسین شاہکار سے“کہتے ہوئے ضیا نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ کی گرفت میں لے لیا۔کام کے دوران مختلف لوگوں نے datingکی تو اس سے درخواست کی تھی، لیکن اس طرح کسی نے پہلی بار اس کا ہاتھ تھام کر محبت کے راستہ پر قدم سے قدم ملا کر چلنے کا وعدہ کیا تھا اور اس کو اس کی خوب صورتی کا احساس دلایا تھا۔ اس کے دل کی بنجر زمین پر، اسے محسوس ہواجیسے اچانک موسلا دھار بارش ہوگئی ہواور بارش کی ہر بوند کے پڑتے ہی چاروں طرف سبزہ اگ آیا ہو…..یا پھر….مایوسی کے اندھیروں میں برسوں سے ٹٹول ٹٹول کر راستہ تلاش کرتے کرتے….اچانک سویرہ ہو گیا ہو اور اسے منزل مل گئی ہو۔

امریکہ واپس آجانے کے بعد، موجود نہ ہوتے ہوئے بھی ضیا اس سے قریب ہوتا۔ محبت کی ردا میں لپٹے اس کے جملے، اس کے ہاتھ کا لمس اورخوبصورت ملاقاتوں کی یاد سرسراتی ہوئی خوشگوار ہواؤں کی طرح اس کو گدگداتی اور اپنے ساتھ لائی ہوئی خوشیوں کی خوشبو سے اس کے ماحول کو معطر کر دیتی۔

اپنے بچوں سے کس طرح بات کی جائے اور ان کو کس طرح سے ذہنی طور پر اس شادی کے لیے تیار کیا جائے -مدیحہ کیے لیے ایک بڑا مرحلہ تھا۔ ابھی وہ اسی شش و پنج میں پڑی تھی کہ ضیا کا فون آگیا۔نگاہوں میں شوق کا ایک جہاں بسائے، اس نے فون کان سے لگا لیا۔

”…..Good newsمجھے وزیٹنگ ویزا مل گیا ہے…..دو دن بعد پہنچ رہا ہوں۔ اب اور انتظار نہیں ہو رہا ہے۔“

”کیوں بھئی َ“ اس نے اٹھلا کر پوچھا۔

”پاگل جو بنا دیا ہے ایک حسین پری نے، اب تو خوابوں میں بھی ستاتی ہے۔“

مہر الفت کے رس میں ڈوبے ہوئے یہ الفاظ سن کر مدیحہ سر مستی کے عالم میں اپنی قسمت پر نازکررہی تھی کہ ایک اجنبی مرد کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔

”اچھی طرح سے سوچ لیا ہے،پھنس تو نہیں جاؤ گے شادی کرکے“

”ارے کچی گولیاں نہیں کھیلی ہیں،شہریت ملتے ہی طلاق دے دوں گا“ یہ ضیا کی آواز تھی۔ وہ فون بند کرنا بھول گیا تھا۔

Published inشبیہ زہرا حسینیعالمی افسانہ فورم
0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x