Skip to content

نذرا کملا

عالمی افسانہ میلہ 2021

تیسری نشست

افسانہ نمبر62

نذرا کملا

اقبال مٹ

خانیوال پاکستان

یہ ایک سچی کہانی سے بنا گیاافسانہ ہے۔ امید ہے آپ اسے ضرور ناپسند کریں گے۔ سکول جاتے ہوے بس کے سفر کےدوران ہمیں ایک پاگل اکثر نظر آتا تھا۔ڈھیلی ڈھالی شلوار قمیض پہنے اور سرخ انگارا آنکھوں والا پاگل ۔۔ بظاہر پرامن مگر چھیڑنے پہ آگ بگولہ ہوجاتا ۔

طالبعلموں سمیت بس کے مسافر اسے بار بار چھیڑتے۔۔

ایک آواز بس کے اندر سے آتی۔۔

اوے نذرا۔۔ بھٹو کی ۔۔۔بیٹی۔۔۔۔

تو نذرا خوش ہو کر جھومنے لگتا اور اپنے ہاتھوں کو چومتا۔

ایک اور آواز۔۔۔اوے نذرا ۔۔بھٹو۔۔۔۔ مر گیا۔۔۔ ہے۔

تو نذرا دونوں ہاتھوں سے سر اور سینہ پیٹنے لگتا۔

عموما”تیسری سمت کی آواز۔۔۔۔

اوے نذرا۔۔۔ ضیاالحق۔۔۔ بس یہ نام سنتے ہی وہ

اول فول بکنے لگتا۔شدید طیش میں آکر ۔ دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر اللہ کو گالیاں اور بددعائیں دینا شروع کر دیتا۔ بچے ،نوجوان یہ دیکھ کر خوب ہنستے البتہ کچھ بزرگ اس کے اس عمل سے ناراض ہو جاتے اور چھیڑنے والوں کو سختی سے منع کرتے ۔

مجھے یا کسی بھی اورطالبعلم کو اس وقت پتہ نہیں تھا کہ کوئی خود پر پٹرول چھڑک کر خود سوزی کر رہا ہے۔کون پھانسی کے بعد جنازہ میں شادی جیسا ماحول بنا رہا ہے۔ کوئی نعرے لگاتا ہوا پھٹے چڑھ رہا ہے۔میں اسوقت نویں جماعت کا طالبعلم تھا۔سکول کااخبار بھی صرف اساتذہ ہی پڑھ سکتے تھے۔ البتہ نذرے کی جذباتی کیفیت میرے لیے حیرانگی کا باعث ضرور ہوتی کیوں کہ یہ تماشا روزانہ میرے سامنے اور کئی بار ہوتا۔ اسی دوران الیکشن ہونے والے تھے بائکاٹ بھی ہوے اور نعرے لگے اور ایسے نعرے لگے کہ۔۔

فلاں پالٹی بلے بلے ۔آدھے کنجبر آدھے دلے۔۔۔

کوکا کولا پیپسی فلاں فلاں ٹیکسی۔۔۔

مختلف روٹس کی لوکل بسوں کی چھتیں اس وقت طالبعلموں سے بھری ہوتی تھیں۔ بچے کورس میں یہ نعرے لگاتے اور کچھ بڑے بزرگ مسافروں کے نزدیک ملک میں مذہبی نظام بس ایا ہی چاہتا تھا۔ لوگ کوڑوں اور سرعام پھانسیوں کی حمایت کرتے نہ تھکتے کہ جلد ہی اس ملک کیے اصل بنیادی مسائل حل ہونے والے تھے ہمارے ہائی سکول کے ہیڈ ماستر صاحب روزانہ اسمبلی میں مختلف متنازعہ موضوعات پر ضرور تقریر کرتے ۔ بیماریوں کے بارے میں بھی بتاتے کہ یہ ایک دوسرے کے میل ملاپ سے نہیں پھیلتی ہیں بلکہ اللہ کی طرف سے آتی ہیں۔ وہ ان کےخلاف مختلف وظائف بھی ضرور بتاتے۔ اور اختتامیہ فقرے ضرور بولتے کہ ہمارے مسائل کا اصل حل مذہبی تعلیمات میں ہے۔جو محمد بن قاسم ۔طارق بن زیاد جیسا کوئی موجودہ بندہ ہی کر سکتا ہے۔

خیر

اس وقت طلبا، اساتذہ اور نصاب کا اس طرح کااستعمال مجھے یا کسی طالبعلم کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ یہ بھی کچھ پتہ نہ تھا کہ سیاست میں اس طرح طالب علم بچوں کو کون گھسیٹ رہا ہے۔ البتہ

ہم لوگ کچھ پڑھ لکھ کر یونیورسٹیوں میں چلے گئے اور پھر ہر کسی کی طرح سامنے میدان کارزار تھا۔زندگی ہمیشہ آگے کیطرف ہی چلتی ہے۔

پچھلے سال دبئی سے میرا ایک ہم جماعت ملنے آیا اور زمانہ طالبعلمی کو یاد کرتے کرتے نذرا کملے کی حرکات اور وحشت تک جا پہنچے۔

دوست نے مجھ سے نذرے کے گھر کا ایڈریس پوچھا جو مجھے معلوم نہ تھا مگر انہی بسوں کے مالک ہمارے جاننے والے تھے جن پر ہم روزانہ سفر کر کے اپنے سکول ۔کالج جایا کرتے تھے۔ میں نے ان سے نذرے کملے کے بارے میں فون پردریافت کیا تو انہوں نے مجھے ایک بستی کا بتایا جو کہ میرے گھر سے تیس کلو میڑ ہی دور تھی۔ چند دن بعد میرا دوست بھی آ گیا۔ ہم دونوں نذرے کی بستی میں پہنچ گیے۔۔

یہ ایک پرانی وضع کی بستی تھی جاگیردار کے محل اور اونچی اونچی دیواریں اور ساتھ ساتھ رعایا کمی کمینوں کے بکھرے کچے پکے گھر تھے۔

میرے کلاس فیلو کا ایک رشتے دار بھی ہمیں رہنمائی کے لیے مل گیا۔ بہ قول اس کے

جاگیردار اب تو بڈھا ہو چکا ہے۔کبھی تو یہ اکیلا چارپائی پہ اس طرح بیٹھتا تھا کہ خود درمیان میں رہے تاکہ آنے والا بندہ کے لیے دونوں طرف سے چارپائی پر بیٹھنے کی گنجائش ہی نہ ہو اور وہ نیچے زمین پر ہی بیٹھ سکے۔اب اس کا کروفر ختم ہوچکا ہے اور اب یہ راہ چلتے گزرنے والوں کو آوازیں دیتا ہے کہ ادھر آو کچھ دیر میرے پاس ڈیرے پہ بیٹھو مگر وقت اور دنیا بدل گئی ہے۔

اس آدمی نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ اسے اکثر ہم لوگوں نے بھٹو کو گالیاں دیتے ہوے سنا ہے کہ کنجر نے کمی کمین لوگوں کو ہمارے سروں پہ آ چڑھایا ہے۔ ہماری نا ک کٹوادی ہے۔ پٹواری ، ایس ایچ او سے لے کرفوج تک کے وہی لوگ جو کل تک ہماری رعایا تھے۔ کے پاس جب میں کسی کام کے سلسلے میں جاتا ہوں تو مجھے بڑی شرمندگی ہوتی ہے۔

نذرے کے گھر جا کر اس کی ماں سے ملنا کچھ اور در وا کر گیا۔ نذرآ بچپن ہی سے ذہین فطین اور بستی میں ہردل عزیز بچہ تھا۔پانچویں کے ڈسٹرکٹ بورڈ کے امتحان میں اس کاوظیفہ لگ گیا۔ میڑک میں بھی اے ون گریڈ میں پاس ہوا۔جاگیرادر کی بیٹی جو بعد میں کسی لاہوری وزیر کی بیگم بھی رہی اور دیگر خاندانوں کے بچے اکٹھے کھیلتے کودتے رہتے تھے ۔

ایک دن اچانک نذرے کو دورے پڑنے شروع ہو گئے۔ پانچ چھ سال بعد نورے منشی نے بستی کی ایک عورت کو جو میری ہمسائی بھی ہے کو بتاتا کہ نذرے نے حویلی میں غلطی سے نیل اور کافور کی ٹکیاں ملا سیرپ پی لیا تھا۔ پتہ نہیں اس میں کہاں تک صداقت تھی۔

نذرے کا خاندان قوم کا موچی مگر علم وعمل پر یقین رکھنے والا خاندان تھا ان کے ایک بزرگ کے بہ قول اس وقت ہمارے بناے جوتے عربستان تک جاتے تھے ملتانی کھسوں کی نفاست اور بناوٹ میں ہمیں کمال مہارت تھی۔۔ ہم کوئی زیادہ کماتے تو نہ تھے البتہ گزراوقات اچھی ہو جاتی تھی۔ اسوقت حکومت نے ہمارے علاقے کے غریبوں کے لیے مرلہ سکیم شروع کی تو ہمیں بھی بستی کے ایک طرف کچھ مرلے مل گئے۔چند ہی سالوں بعد ہم نے ادھر پکے مکان بنوا لیے ۔

بچوں کو سرکاری سکولوں میں بھیجنے کے لیے ہمارے پاس کچھ نہ کچھ ضرور بچ جاتا اور ہم نے اپنا سارا دھیان ہی بچوں کی پڑھائی پر صرف کیا۔بسوں میں طالبعلموں کے لیے کرایہ نہ ہونے کی وجہ سے سب بچے تحصیل ہیڈ کوارٹر میں انٹر میڈیٹ ۔بی اے تک با آسانی پڑھ لکھ کر سرکاری ملازمتوں تک جا پہنچے۔ میرا بیٹا اور ایک بیٹی تو بڑے افسر بن گئے۔

اس کی بیٹی سے بھی ملاقات ہو گئی کہ وہ یہاں کسی ویلفئیر کے کام کے سلسلے میں آئی ہوئی تھی۔ وہ ویکسی نیٹرز کی کوئی بڑی آفیسر تھی اور کسی انکوائری کے سلسلے میں فیلڈ میں آئی ہوئی تھی اور آبائی گھر کے قریب ایسی انکوائری ہو تو آبائی گھر کا چکر تو ضروری ہو جاتا ہے۔ ہم نذرے کی ماں اور بہن کے ساتھ نزدیکی قبرستان میں اس پاگل شخص کی قبر تک بھی گئے۔کتبے پر لکھا تھا

عاشق صادق نذر حسین ولد غلام حسین قوم موچی۔ فاتحہ خوانی کے بعد یوں ہی میں نے میڈم سے پوچھا۔۔

“آپ نے اس دفعہ جنرل الیکشن میں کس سیاسی جماعت کو ووٹ دیا ہے۔؟؟

وہ انگریزی بولنے والے دیسی لوگوں کا سا منہ بنا کر بولی۔

“وہ جو میرے ہیسبنڈ ہیں ناں وہ لاہور کے ہیں اور کہتے ہیں ووٹ لاہور کی پاٹی کا رائٹ ہے”۔

اچانک قبر پھٹی اور نذرا کفن سمیت آدھا باہر نکل کر اپنی بہن کی طرف سرخ انگارا آنکھوں سے دیکھنے لگا۔اس دفعہ اس کے ہاتھوں کا رخ خدا اور آسمان کی بجاے اپنی بڑی بہن کی طرف تھا۔ ہم دونوں کلاس فیلو ڈر کے مارے بس کی سیٹ کے نیچے چھپ گئے۔۔۔۔

Published inافسانچہاقبال مٹعالمی افسانہ فورم
5 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x