Skip to content

ناکردہ گناہ

عالمی افسانہ میلہ 2020

“ناکردہ گناہ”

افسانہ نمبر 9

سلمان حمید    میونخ جر منی

آج بھی فادر تھامس نے اپنی گفتگو کا آغاز ایک سرگوشی سے کیا تھا. وہ دروازے کے پاس کھڑے ہوئے پولیس افسر کو کن انکھیوں سے دیکھتے ہوئے آج کچھ زیادہ ہی رازداری برت رہا تھا. اس نے بات شروع کرنے سے پہلے ماریا سے قریب ہونے کی کوشش کی تو بائیں ہاتھ میں بندھی ہتھکڑی کا دوسرا سرا آہنی میز کے ساتھ منسلک ہونے کی وجہ سے اسے اپنے مقصد میں کامیابی نہ مل سکی اور اس چھوٹے سے چوکور کمرے میں ہتھکڑی کی زنجیر کا لوہے کی میز سے ٹکرانے کا شور گونج کر رہ گیا.

ماریا، فادر کا ارادہ بھانپ کر میز کے دوسری جانب بیٹھے ہوئے آگے جھکی تو فادر تھامس نے اپنی نگاہیں جھکا لیں۔

سائیکاٹرسٹ ماریا اپنی گہرے گلے والی سفید شرٹ سے جھانکنے والے ابھاروں کے اثرات سے بخوبی واقف تھی ۔

“دیواریں مجھ سے باتیں کرتی ہیں اور اب تو چھت نےبھی مجھ پر ہنسنا شروع کر دیا ہے.” میز کو انگلیوں سے کھرچتے ہوئے، کن انکھیوں سے پولیس افسر کی طرف دیکھتے ہوئے فادر تھامس نے سرگوشی کی.

ماریا نے اپنے چرمی تھیلے میں سے ایک ڈائری نکال کر میز پر رکھی اور اس میں وقفے وقفے سے کچھ لکھتی رہی.

ایک گھنٹے کی ملاقات سے آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا لیکن فادر تھامس کی بے بنیاد باتیں ختم نہیں ہو رہی تھیں. ماریا آج کا دن پچھلی ملاقاتوں کی طرح ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی.

اس نے پیچھے مڑ کر چوکس کھڑے کانسٹیبل پر ایک سرسری سی نظر ڈالی، اور کرسی کو کھسکا کر میز کے مزید قریب کر لیا ۔ وہ دانستہ آگے کی طرف جھک گئی. فادر تھامس نے فوراً اپنی نظریں میز پر دھرے اپنے ہاتھوں پر گاڑ دیں اور دل ہی دل میں کچھ پڑھنے لگا.

“فادر، کیا آپ کو ڈورتھی یاد ہے؟ یاد ہے کہ دس سال پہلے دسمبر میں اس چھوٹے سے قصبے کے چرچ میں کیا ہوا تھا؟ وہی ڈورتھی جس کا گھر چرچ کی ساتھ والی گلی میں تھا اور اس وقت اس کی عمر محض پانچ سال تھی.” ماریا کی آواز میں ایک کاٹ تھی اور اس وقت وہ سائیکاٹرسٹ نہیں بلکہ ایک خرانٹ انٹیروگیشن آفیسر لگ رہی تھی.

فادر تھامس کا دل زور سے دھڑکنے لگا اور اس کے ہونٹ کچھ پڑھتے ہوئے مزید تیز ہلنے لگے. اس نے چہرہ اٹھا کر ماریا کو دیکھا تو اس کی آنکھیں ماریا کے گریبان کے اندر گم ہوتی لکیر سے چپک گئیں اور وہ بائیبل کی تمام آیات بھول گیا.

فادر تھامس کا کیس عدالت میں کچھ ہفتے چلا تھا اور اس کی بے تکی باتوں کے باوجود اس کا جرم ثابت ہو گیا تھا. ایک مذہبی پیشوا کا ایک بچی کے ساتھ زیادتی کی کوشش کرنا بہت نازک معاملہ تھا. لیکن جج نے اس کا ذہنی توازن بگڑا ہوا پایا اور اس کی حالت کے پیش نظر اسے کچھ دن بعد جیل سے پاگل خانے بھیجنے کا حکم صادر کر دیا تھا.

ماریا کے مطابق اس ساٹھ سالہ پادری کو جیل میں رکھنے کے بجائے پاگل خانے منتقل کرنا اس کے کیے گئے جرم کے حساب سے کافی سزا نہیں تھی.

وہ ڈاکٹروں کی تمام رپورٹس اور جج کے فیصلے کے باوجود اسے ایک نارمل انسان ثابت کرنے پر تلی ہوئ تھی. اسی لیے آج لگاتار چوتھی لیکن آخری ملاقات کے لیے جیل پہنچ گئی.

ماریا جانتی تھی کہ حکومتی ادارے سے منسلک مستند اور تجربہ کار سائیکاٹرسٹ ہونے کے ناطے اگر وہ فادر تھامس کو اپنے ہوش و حواس میں اپنا جرم قبول کرنے پر مجبور کر دیتی ہے تو یہ ثابت ہو جائے گا کہ وہ پاگل نہیں بلکہ ڈھونگ رچا رہا ہے.

“جیل کی دیواریں مجھ سے میرے پچھلے سارے برسوں کا حساب مانگتی ہیں. وہ بھی مجھ سے یہی پوچھتی ہیں. لیکن میں کچھ یاد نہیں کرنا چاہتا.” فادر تھامس نے اپنی نظروں کا زاویہ بدلا اور خالی خالی نظروں سے سامنے کی دیوار کی طرف دیکھ کر بڑبڑانے لگا.

ماریا پھر گویا ہوئی.

“وہ دسمبر کی اس یخ بستہ سہ پہر کو چرچ کے دروازے کے باہر اکیلی کھیل رہی تھی جب آپ اسے بہلا کر اندر لے گئے تھے. یاد آیا؟ اس کی قسمت اچھی تھی کہ اس کی عزت اور جان بچ گئی ورنہ آپ نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی. پچاس سال کی عمر میں اتنی کمسن بچی سے آپ کو کیا حاصل ہوتا؟ اسی لیے آپ اس کا ریپ کیے بغیر اسے چرچ کے باہر چھوڑ کر وہاں سے فرار ہو گئے اور یہاں سینکڑوں میل دور جنوب میں واقع اس شہر میں آ کر بس گئے اور دس برسوں میں بہت بڑے پادری بن گئے. اتنے برس یہاں اپنے شہوانی جذبات پر کیسے قابو پایا؟ کیا اس شہر میں بھی کمسن بچیوں کو ورغلاتے رہے ہو؟”

فادر تھامس نے ماریا کی آخری بات سنی تو چونک کر اس کی جانب پرشکوہ نگاہوں سے دیکھا.

“میں جس طرف بھی کروٹ لوں، اسی جانب کی دیوار سے آواز آتی ہے. سیدھا لیٹوں تو چھت اپنا پیٹ پکڑے مجھ پر ہنستی ہے، اور مجھے خوف رہتا ہے کہ وہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوتے ہوئے میرے اوپر ہی آن گرے گی. “

اس بار اوپر چھت کی جانب دیکھتے ہوئے اس کی آواز میں ایک کرب تھا.

ماریا نے ایک لحظے کو سوچا اور وہ کام کرنے کا فیصلہ کیا جو اس نے اپنے پندرہ سالہ پروفیشنل کیریئر میں پہلے کبھی نہیں کیا تھا. اسے معلوم تھا کہ آج کے بعد اسے اس پادری سے ملنے کی تاریخ نہیں ملے گی اور یہ کیس اس کے لیے انا کا مسئلہ بن چکا تھا. اسی لیے اس نے اپنے ضمیر کو اگلے پندرہ منٹوں کے لیے تھپک کر سلا دیا.

اس نے آگے جھکے جھکے اپنی شرٹ کا اوپری بٹن کھول دیا……… اور میٹھی آواز میں فادر تھامس کا نام پکارا.

ماریا کو اپنی ہی آواز کسی گہرے کنویں سے آتی ہوئی سنائی دی تھی….!

فادر تھامس نے پلکیں اٹھائیں تو اس ہوش ربا نظارے نے اس کو ہلا کر رکھ دیا.

اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو گئے.

“یہاں اس شہر کا چرچ بہت بڑا ہے. پہلے پہل صرف شمالی دیوار میرا نام لے کے مجھے پکارتی تھی. مجھے یہ سمجھنے میں بہت وقت لگا کہ چرچ کی دیواروں کے صرف کان نہیں ہوتے. انہوں نے وہ سب بھی دیکھا جو میں نے نہیں کیا.”

گو کہ فادر تھامس کا دھیان اس کے کھلے گریبان کی طرف نہیں تھا پھر بھی ماریا نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنا وہی رخ برقرار رکھا اور فادر تھامس کے بوڑھے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دیے اور انگلیوں کی پوروں سے اس کے ہاتھوں کی کھردری پشت کو سہلانے لگی.

“میں نے وہ کرنا چاہا جو میں کبھی نہیں چاہتا تھا. ایسے ناکردہ گناہ کی ندامت اتنی شدید ہوتی ہے کہ رفتہ رفتہ آپ کے اطراف کی اشیا، خصوصاً دیواریں آپ کے نوحے میں شریک ہو جاتی ہیں. پہلے پہل دیواریں میرے ساتھ مل کر صرف رویا کرتی تھیں لیکن پچھلے سال سے اب وہ مجھ سے باتیں کرنے کی کوشش کرتی ہیں.” فادر تھامس سسکیاں لیتے ہوئے ماریا کے اور اپنے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے کہیں کھو گیا.

” پچھلے سال کیا ہوا تھا فادر؟” ماریا مزید آگے کھسکی اور فادر تھامس کا داہنا ہاتھ کھینچ کر اپنے نیم برہنہ سینے سے لگا لیا.

فادر تھامس کا ٹھنڈا ہاتھ ماریا کی ہر قسم کے جذبات سے عاری یخ چھاتیوں کے اوپر دھرا تھا لیکن اس کی انگلیوں میں جنبش تک نہیں ہوئی.

“پچھلے برس جب میں ایک بڑے پادری کے طور پر اسی قصبے میں بلایا گیا تو مجھے سب یاد تھا. اتنے برسوں میں مجھے ان دیواروں نے کچھ بھولنے ہی نہیں دیا تھا. وہ اب چھوٹی سے بچی نہیں تھی. اس کی پھٹی پھٹی آنکھیں کیسے بھول سکتا ہوں؟ وہ ایک پادری کا روح پرور بیان سننے آئی تھی لیکن شاید اسے یسوع مسیح کے سائے تلے کھڑا شیطان نظر آگیا تھا.

ہاں، وہ وہی تھی…….. میں اسے ہی دیکھ رہا تھا.

اس نے مجھے دیکھتے ہوئے جب ساتھ بیٹھی اپنی ماں کے کان میں کچھ کہا تو دیواروں نے بھی سن لیا. وہی دیواریں جو دس برس پہلے میرے اس چرچ سے نکلتے وقت خاموش تھیں، انہوں نے اس لمحے اتنا شور مچایا کہ میرے کانوں کے پردے پھٹنے لگے تھے. شاید دس برس سے اب تک ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوئے پر یقین نہیں تھا.”

فادر تھامس کی ہچکیوں کی وجہ سے پورے کمرے میں ایک ماتم کی سی صورت تھی.

“وہاں سے واپس آنے کے بعد اب یہاں کی دیواروں کو میرا کرب بانٹنا تھا لیکن پادری کا دل ایک قبرستان ہوتا ہے جہاں سینکڑوں لوگوں کے ہزاروں راز دفن ہوتے ہیں. میں کیسے ان سے باتیں کرتا؟ اگر ایسا کرتا تو اپنے آپ سے خیانت کر دیتا. اور جو پادری اپنی امانت نہیں رکھ سکتا اس پر لوگ کیسے اعتبار کر سکتے ہیں؟”

اتنا کہہ کر فادر تھامس نے ماریا کے ہاتھ ہولے سے جھٹک کر اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور بلند آواز بائیبل کی ایک آیت کی تلاوت شروع کر دی.

“وہ جو ایسا گناہ کرتا ہے جو خداوند نے منع فرمایا ہے اور وہ اس کے بارے میں جانتا نہ ہو لیکن بعد میں اس کی غلطی اس پر آشکار ہو جائے تو وہ ہمیشہ اپنی بداعمالی کا بوجھ اٹھائے گا”.

ماریا نے اپنی شرٹ کا بٹن بند کیا، ڈائری پر چند آخری کلمات درج کیے اور فادر تھامس پر ایک الوداعی نظر ڈال کر کمرے سے باہر نکل گئی.

اگلے ہفتے عدالت میں گزرا ہوا دن بہت تھکا دینے والا تھا. اس کی بنائی گئی رپورٹ پر کافی جرح کی گئی تھی اور بالآخر فادر تھامس کو پاگل خانے کی بجائے جیل بھیج دیا گیا.

اس رات وہ دیر سے گھر پہنچی تھی.

بستر میں موجود اپنے شوہر کے ساتھ لیٹی تو دن بھر کی تھکان اس کی آنکھوں میں عود آئی. اس نے آنکھیں بند کیں تو اسے اپنے سینے پر ایک بوجھ محسوس ہونے لگا. اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھا تو یوں لگا جیسے فادر تھامس کا لمس سے محروم ہاتھ اس کی چھاتی پر دل کے بالکل اوپر کسی مردے کے وزنی ہاتھ کی طرح دھرا ہے.

اس نے سر جھٹک کر دوبارہ آنکھیں بند کرلیں۔ اچانک اسے لگا کہ کوئ سرگوشی میں اس کا نام پکار رہا ہے. اپنا نام سن کر وہ بے اختیار مسکرا دی.

وہ کروٹ لے کر اپنے شوہر کی طرف متوجہ ہوئی تو اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں اور اس کا دل دھک سے رہ گیا.

اس کا شوہر گہری نیند میں تھا…..!

Published inسلمان حمیدعالمی افسانہ فورم

Comments are closed.