Skip to content

ناظمہ بیگم

عالمی افسانہ میلہ 2019

افسانہ نمبر52

ناظمہ بیگم

اقبال حسن ۔ اسلام آباد ، پاکستان

دادا رہے ہوں گے اُس وقت کوئی بہتر برس کے جب یہ واقعہ پیش آیا لیکن نہیں پہلے اس واقعے کا پس منظر سمجھنا ضروری ہے۔دادا میرے حقیقی
دادا نہیں تھے، ہمارے دادا کے دُور پار کے رشتے کے بھائی تھے تو اس لحاظ سے ہم سبھی اُنہیں دادا کہتے تھے۔بھئی میں نے تو اُنہیں ہمیشہ بوڑھا
ہی دیکھا۔میرا مطلب ہے کہ سفید داڑھی، سر کے آدھے بال اُڑے ہوئے اور کمر قدرے خمیدہ، ہاں یہ ضرور ہے کہ ہاتھ میں چھڑی لے کے
نہیں چلتے تھے۔ہمارے گھر کبھی کبھی کبھار آتے تھے۔ایک ہی بیٹی تھی جو شاید اُن کی شادی کے شروع کے دنوں میں پیدا ہوئی تھی اور خاندان
بھر اُس کو اُس کے پورے نام سے بلاتا تھایعنی ناظمہ بیگم۔دادا کی چھوٹی موٹی زمینداری تھی تو ناظمہ بیگم کی شادی بھی اُنہوں نے ایک زمیندار
سے کی تھی۔مصطفیٰ میاں شوہر کا نام تھا۔ناظمہ بیگم سے اُن کی سات اولادیں تھیں جن میں سے کئی کی شادی ہو چکی تھی اور ہمارے لیے دادا
اُن کے بچوں کے نانا میاں بن چکے تھے۔
دادا کی زندگی بھرپور گزری تھی۔اولاد کی خوشیاں تھیں۔اچھی فصل ہوتی تھی۔برادری کے باہر بھی عزت تھی۔ہر کوئی اپنے گھر اُن کا آنا باعث
سعادت سمجھتا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دادا ہاتھ کے بہت کُھلے تھے۔ضرورت مند کی ضرورت اُس کے کہنے سے پہلے ہی سمجھ جایا کرتے تھے
اور یوں اُن کی عزت میں ہر روز چار چاند لگے جاتے تھے۔یہ سب تو تھا لیکن دادا کی زندگی کا ایک پہلو انتہائی عبرتناک تھا۔ناظمہ بیگم کی پیدائش
کے فوراً بعد دادی یعنی ناظمہ بیگم کی ماں کو ایسا کوئی فرق لگا تھا کہ وہ تبھی سے بستر پہ تھیں۔جیسے میں نے دادا کو ہمیشہ سے بوڑھا دیکھا، ویسے ہی دادی کو ہمیشہ پلنگ پکڑے دیکھا۔بس سردی گرمی دو نوکروں کی مدد سے اُن کا پلنگ تھوڑی دیر کو برامدے میں لایا جاتا تھا۔وہ وہیں کھاتی پیتی تھیں۔
ایک ملازمہ جس کا نام نجو تھا، وہی اُنہیں غسلخانے وغیرہ لے جایا کرتی تھی اور پھر اُنہیں کمرے میں پہنچا دیا جاتا تھا۔یہ تو ہمیں بڑے ہونے پر پتہ چلا کہ دادی اپنی بیماری کا سبب ناظمہ بیگم اور اُس سے بڑھ کر دادا کو سمجھتی تھیں۔خیر، وہ تو قدرتی عمل تھا جس سے وہ گزریں اور یہ بدقسمتی تھی کہ ان
حالات سے دو چار ہوئیں لیکن سچ یہ بھی تھا کہ ان چالیس برسوں میں دادا کبھی اُن کے قریب نہ جا سکے۔بھئی جا ہی نہیں سکتے تھے۔اب اس سے
زیادہ کُھل کے اور کیا بات کروں۔
ناظمہ بیگم کو شاید بہت دیر میں اندازہ ہوا کہ اُن کے باپ کس قدر شریف آدمی تھے جنہوں نے ساری عمربیوی کی تیمارداری میں گزاری تھی اور چالیس برسوں سے گھر کے مہمان خانے میں سویا کرتے تھے۔ناظمہ بیگم بہت زیادہ پڑھی لکھی تو نہیں تھیں لیکن سُگھڑ تھیں،گھر داری میں طاق تھیں اور گاؤں میں ایک ہفتے بعد پہنچنے والے اخبار کا مطالعہ بھی کرتی تھیں۔
پھر ایک صبح اطلاع آئی کہ دادی سدھار گئیں۔کسی نے افسوس کا اظہار کیا تو کسی نے مرنے والی کی مشکل آسان ہونے کی بات کی۔یہ سب تو
ہوگیا لیکن پھر ایک حیرت انگیز بات ہوئی۔ہم نے سنا کہ دادا شادی کر رہے تھے۔یہ خبر نہیں، ایک ایٹم بم تھا جس نے گاؤں ہی نہیں، آس پاس کے سارے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا کہ تہور علی خان شادی کر رہے تھے۔کچھ لوگ ہنسے، کسی نے مذاق اُڑایااور کسی نے منہ بنایا۔
ناظمہ بیگم باپ کی شادی کا بلاوا دینے خود ہمارے گھر آئیں تو دادی نے اُنہیں آڑے ہاتھوں لیا۔
،،ارے تم بھی کچھ نئیں بولیں؟تہور کیوں برادری بھر کی ناک کٹوانے پہ تُلے ہوئے ہیں۔ہریالا بنا، مُوت کی نہ سوجھے دھار، اونہہ۔،، مگر
صاحب یہ شادی ہوئی لیکن ذرا سادگی سے ہوئی۔کچھ دن تو دادا ذرا شرمائے شرمائے رہے شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ نئی دادا اُن سے کوئی تیس برس
چھوٹی تھیں مگر تھیں بڑی اچھی۔
خیر، دو چار ماہ گزر گئے۔پھر ایک اور بم پھٹا۔دادا باپ بننے والے تھے۔مجھے یاد ہے ہماری دادی اُس وقت چاول بین رہی تھیں جب اُنہیں یہ خبر ملی۔اُنہوں نے چالوں سے بھری سینی اُٹھا کر اپنے سامنے پھینکی اور سر پکڑ کے بولیں،،کم بخت نے برادری بھر کی ناک کٹوا دی،،۔اس معاملے میں اماں بھی دادی کی ہمنوا تھیں اور ہماری بڑی پھپھو بھی جو جوانی میں ہی مطلقہ ہو کر گھر واپس آگئی تھیں، اس بات پر سب سے زیادہ جزبز ہوئیں۔مگر جوہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔
دادا بیٹے کے باپ بن گئے اور میں نے دیکھا کہ اب اُن میں کچھ اعتماد ساآچلا تھا۔چھڑی تو وہ پہلے بھی ساتھ نہیں رکھتے تھے،اب پہلی نظر میں نہیں لگتا تھا کہ اُن کی کمر قدرے جھکی ہوئی تھی۔گھر سے سیر کو نکلتے تو بیٹا کسی نوکر کی گود میں ہوتا اور دادا سینہ تانے آگے آگے چل رہے ہوتے۔منہ پر ہنسنا یا کچھ کہنا تو کسی کے بس کی بات نہیں تھی، لیکن اُن کے گزر جانے کے بعد خوب ٹھٹھا کیا جاتا۔ہر کوئی معترض تھا کہ بڑے میاں کو اس عمر میں کیا سوجھی مگر ہمارے چھوٹے چچا دادا کی حمایت میں بولتے لیکن اُن کا بولنا اپنے دوستوں کی محفل تک محدود تھا، ظاہر ہے گھر کی عورتوں کے سامنے یہ بات نہیں کی جا سکتی تھی۔میں اُن کے دوستوں کے لیے چائے پانی لے کر جاتا تو کوئی نہ کوئی میرے کان میں پڑ جاتی۔
،،میں کہتا ہوں بالکل ٹھیک کیا اُنہوں نے۔میاں، ایک اپاہج اور بستر تک محدود عورت کے ساتھ چالیس برس گزارنا کوئی مذاق نہیں۔اور پھر کیا یہ بڑی بات نہیں کہ اتنے سالوں میں اُن کے تعلق سے کوئی ایسی ویسی بات نہیں سنی گئی؟اور اس سے بڑی بات یہ بھی تو ہے کہ اُنہوں نے مرحومہ
کی زندگی میں دوسری شادی نہیں کی کیونکہ وہ اُن کا دل نہیں توڑنا چاہتے تھے،،۔دلائل مضبوط تھے تو بحث کرنے والے خاموش ہو جاتے لیکن
پھر کوئی کٹ حجتی پر اُتر کر سوال کرتا،،مگر بھئی اس عمر میں بچہ؟یہ کوئی مناسب بات ہے؟،،۔ اس پر چھوٹے چچا بھی خاموش ہو جاتے کیونکہ شاید
اُن کے خیال میں بھی بچہ پیدا کرنے کا حق صرف جوانوں کو تھا۔
اب ایک نئی بحث نے جنم لیا۔دادا اچھے خاصے زمیندار تھے۔پہلے کے حالات اور تھے اور سبھی جانتے تھے کہ اُن کی جائیداد ناظمہ بیگم کے علاوہ
اور کسی کو نہیں مل سکتی تھی مگر اب جائیداد کا ایک وارث پیدا ہو چکا تھا تو یہ سوال گاؤں بھر کو تنگ کرتا تھا کہ دادا کے بعد ناظمہ بیگم کو کیا صرف معمولی سا شرعی حصہ ملے گا؟ مگر پھر ایسا ہی ہوا۔دادا تین دن بیمار رہ کر دنیا چھوڑ گئے اور ناظمہ بیگم کو واقعی اُتنا ہی حصہ ملا جتنا شرع کا حکم تھا۔دادا کی بیوی سمجھدار عورت تھیں۔اُنہوں نے زمینداری کے کاروبار کو دیکھنے کے واسطے اپنے ایک ریٹائرڈ فوجی بھائی کو بلوا لیا تھا۔سب ٹھیک ہو گیا تھا سوائے اس کانٹے کے، کہ دادا نے اس عمر میں دوسری شادی کیوں کی تھی؟
ایک دفعہ جبکہ دادی کو مرے تین چار سال ہو گئے تھے اور اماں بھی خاصی عمر دار ہو گئی تھیں، ناظمہ بیگم ملنے آئیں۔دادا کی شادی کا تذکرہ ہوا تو
ناظمہ بیگم نے یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا کہ دادا کو کسی قیمت پر شادی نہیں کرنا چاہتے تھے مگر ناظمہ بیگم نے اصرار کرکے ایسا کروایا تھا۔پھپھو
کا ہاتھ ہانڈی میں ڈوئی چلاتے رُک گیا، اماں جو کچھ سی رہی تھیں، وہیں سُن ہو گئیں اور ایسا سناٹا ہوا کہ منڈیر پہ روٹی کے ٹکڑے کے لیے شور
مچاتا کوا بھی خاموش ہو گیا۔ناظمہ بیگم بولیں۔
،،ارے بھئی میرے میاں اور سسر ہر وقت اس بات پہ خوشی کا اظہار کیا کرتے تھے کہ تہور علی خاں مریں گے تو جائیدا ناظمہ کے علاوہ اور کسی کو
مل ہی نہیں سکتی۔مجھے بہت برا لگتا تھا مگر بچے تھے، گھر داری تھی اور عمر بھی ایسی آگئی تھی کہ سسرال کو ہمیشہ کو چھوڑ بھی نہیں سکتی تھی۔اماں کے گزرنے کے بعد یہ باتیں کچھ زیادہ ہی ہونے لگیں تو میں نے سوچا کہ اس کا کوئی علاج ہونا چاہیے۔ابا سے بات کرنے کی دنوں تک ہمت ہی نہیں پڑی مگر پھر منہ کھولنا ہی پڑا۔وہ پہلے تو خوب گرجے برسے،میرے ساتھ کھانا بھی نہیں کھایا اور کھیتوں کو نکل گئے۔رات کو لَوٹے تو بولے۔
،،ناظمہ تو واقعی ناظمہ ہے۔میں نے اس بات پہ خوب غور کیا ہے۔بزرگوں کی بنائی اس جائیداد پہ کسی سالے کا حق نہیں۔تیرا ہے یا میرا ہے،،۔
ناظمہ بیگم مسکرائیں اور بولیں،،بس پھر میں نے سارا بندوبست کر دیا۔تمہیں تو پتہ ہی ہے، میرا نام ویسے بھی ناظمہ ہے،،۔
واقعی وہ اسم بامسمیٰ نکلیں۔

Published inاقبال حسن خانعالمی افسانہ فورم
0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x