Skip to content

نئی سوچ، پرانی سوچ

عالمی افسانہ میلہ 2019

افسانہ نمبر۔۔ 15

نئی سوچ، پرانی سوچ

سخاوت حسین ، لاہور ، پاکستان

صاحب میں سوداگر ہوں۔۔ نت نئی اور ایک دوسرے سے الگ اور منفرد سوچیں جو انتہائی ارزاں قمیت پر دستیاب ہیں، بیچ رہا ہوں۔ کیا آپ نہیں خریدیں گے؟اس نے غور سے اس شخص کو دیکھا جو شہر کے داخلی دروازے سے منسلک سڑک پر کھڑے ہوکر نت نئی سوچوں کو بیچنے کا دعوی کررہا تھا جب کہ ارد گرد کے افراد اس پر ہنستے ہوئے گزر جاتے تھے۔ اس نے سرتاپا اس شخص کا جائزہ لیا جس کے کپڑوں میں جابجا پیوند لگے ہوئے تھے۔ آنکھوں سے وحشت ٹپک رہی تھی۔ گالوں سے جیسے خون رس رہا تھا اور بکھرے بال زمین تک آرہے تھے۔ اسے وہ شخص خاصا دلچسپ لگا۔ لہذا وہ لمحے بھر کے لیے وہاں رکا اور غور سے اسے دیکھنے لگا۔ تبھی اس نے دیکھا کہ اس نے ہاتھوں کو کمر کی جانب موڑ کر ایسے چھپایا ہوا تھا جیسے کوئی قیمتی شے ہاتھوں میں ہو ۔ “تمھارے ہاتھوں میں کیا ہے؟ ” اس نے سوال کیا۔ “صاحب میرے ہاتھوں میں زندگی ہے۔” سوداگر کا جواب آیا۔ “ہاتھوں میں زندگی! ھاھاھاھا کیا تم پاگل ہو؟” تبھی اس نے دیکھا کہ اردگرد کے لوگ اسے دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ “کیا سوچ بیچنے والے پاگل ہوتے ہیں؟” سنجیدگی سے اسی سے سوال کیا گیا۔ “بھلا دماغ میں پیدا ہونے والی ایک کیفیت بھی بک سکی ہے۔” اس نے سوداگر کا مزاق اڑاتے ہوئے کہا۔

“ھاھاھا! صاحب کون سی ایسی شے ہے جو بک نہ سکے۔ خاکی کی خاک، تندور والے کے پاس آگ اور شہرت والے کی راگ تک بکتی ہے۔ یہاں نام ، مقام، جسم و جان یہاں تک کہ ابہام تک بکتا ہے۔ سڑک پر ٹریفک ہمیشہ کی طرح رواں دواں تھی۔ موسم پچھلی بارش کے بعد خاصا سرد ہوتا جارہا تھا۔ اس نے اپنے وجود میں میٹھی سی سردی محسوس کی۔ وہ مسلسل یہی سوچ رہا تھا کہ دنیا میں بھلا دماغ کے اندر پنپنے والی سوچیں کیسے بک سکتی ہیں۔ “تم یہی سوچ رہے ہو نا کہ دماغ کے اندر موجود ایک غیر مادی شے کیسے بک سکتی ہے؟” سوداگر نے اسے خاموش دیکھ کر سوال کیا۔ “اوہ! تم نے میری سوچ پڑھ لی۔ بھلا کیسے؟ تم نے یہ کیسے کیا؟ ” حیرت سے اس کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔ “تمھاری ساری سوچوں کا ریکارڈ میری ڈائری میں ہے۔” سوداگر نے ہنستے ہوئے کہا۔ “ایسا بھلا کیسے ہوسکتا ہے؟” اس نے حیرانی سے کہا۔ “یہ رمز کی دنیا ہے یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔” الجھے مزاج کے حامل شخص نے مختصر جواب دیا۔ “کیا تم کچھ نیا خریدنا چاہو گے۔ تمھاری پرانی سوچیں اپنا مقررکردہ وقت پورا کرچکی ہیں۔ دیکھو تمھیں پرانی سوچوں سے جان چھڑانے کی ضرورت ہے۔” سوداگر اسے ہر صورت میں اپنا سودا بیچنے پر مصرتھا۔ “لیکن نئی سوچ کے خریدنے سے مجھے کیا فائدہ ہوگا؟” اس نے جان چھڑاتے ہوئے سوال کیا؟ “فائدہ نہیں نقصان ہوگا۔ تم الجھ جاؤ گے حالانکہ نئی سوچ تمھیں نئی سلجھی ہوئی راہ کی طرف لے کر جائے گی مگر یہ تمھیں مزید الجھا دے گی۔ تم ایک بار اس کا تجربہ کرکے دیکھ لو۔ کیا تم خریدنا چاہو گے؟” ” اور اس کی مجھے کیا قیمت ادا کرنی ہوگی۔”

“تمھیں اپنا وجود نئی سوچ کے بدلے گروی رکھنا ہوگا۔ ” “یہ پاگل ہے۔ اس کی ساری باتیں پاگلوں والی ہیں۔” تبھی پاس سے گزرتے ایک شخص نے ہنستے ہوئے کہا۔

“میں ایک پاگل شخص سے سوچ خرید کر کیسے نقصان میں رہوں گا اور بھلا میرا وجود کیسے کسی شے کے بدلے گروی رکھا جاسکتا ہے ۔ یہ تو پاگل معلوم ہوتا ہے۔ میں اسے ہاں کہہ دیتا ہوں۔” اس نے خود کلامی کرتے ہوئے خود سے کہا اور سوداگر سے ایسے برتاؤ کیا جیسے اس نے بخوشی اس سے کامیاب تجارت کرلی ہو جب کہ خریدتے وقت وہ دل میں ہنس رہا تھا۔” “بہت بہت مبارک ہو دوست! تمھیں سوچ کی نئی دنیا میں خوش آمدید کہتا ہوں۔” تبھی سوداگر نے ہنستے ہوئے کہا اور سڑک کی دوسری جانب بھاگ گیا۔ اس سے جان چھڑانے کے بعد وہ سڑک پر چلنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ داخلی دروازے کو کافی پیچھے چھوڑتے ہوئے شہر کے وسط میں پہنچ چکا تھا۔ تبھی اس نے دیکھا کہ شہر کا حلیہ تبدیل ہوچکا ہے۔ جہاں کچھ عرصہ پہلے بلند وبالا عمارتیں تھیں اب وہ زمیں بوس ہوچکی تھیں۔ پورا شہر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا تھا۔ وہاں صرف مٹی کا ڈھیر نظر آرہا تھا۔ “اوہ خدایا! میرے شہر کو کیا ہوا ہے؟” وہ روتے ہوئے شہر میں پھرنے لگا۔ تبھی اس نے شہر کے منتظم اعلی کو ٹہلتے ہوئے دیکھا۔ “رکئے صاحب! اے امیر شہر ! شہر تباہ ہوچکا ہے۔ عمارتیں ڈھ چکی ہیں۔ انسان مبلے تلے دب چکے ہیں۔ “

“کیا تم پاگل ہوچکے ہو؟ شہر تو ہمیشہ کی طرح آباد ہے۔ شاید تم ہوش میں نہیں ہو۔” “مگر امیر! شہر کی سب عمارتیں کھنڈر بن چکی ہیں۔” اس نے غمزدہ لہجے میں کہا۔ “شہر کی سب عمارتیں اپنی جگہ موجود ہیں۔ بلکہ کل ہی ایک نئی عمارت کا افتتاح بھی ہوا ہے۔ وہ دیکھو سامنے ہی کل ایک نئی اونچی عمارت کا افتتاح ہوا ہے جو اب بھی کتنی دلکش لگ رہی ہے۔ تم وہاں مت جانا تمھیں اندر جانے نہیں دیں گے کیوں کہ وہاں صرف شہر کے امیر ہی جاسکتے ہیں۔” “مگر اے امیر! میں پورے شہر کو کھنڈرات میں تبدیل ہوتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔کیا آپ وہ نہیں دیکھ پارہے جو میں دیکھ رہا ہوں؟ ” اس نے دکھ بھرے لہجے میں فریاد کی۔ “بھاگ جاؤ یہاں سے۔ صرف تم کھنڈر بنے ہوئے ہو۔ مجھے تو تم کوئی پاگل معلوم ہوتے ہو۔ ” امیر شہر نے غصے سے اسے دیکھتے ہوئے کہا جب کہ اس نے نم آنکھوں سے شہر کی جانب دیکھا جو مکمل ملبے تلے دھنسا ہوا تھا اور شہر کا امیر کسی بھی صورت اس کی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔ اس نے روتے ہوئے وہ جگہ چھوڑی اور آگے کی جانب چلتا رہا۔ تبھی اس نے شہر کے عظیم دانش ور کو چند لوگوں کا خون کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ سخت گھبراگیا۔ “اے عظیم دانش ور ! میں آپ کو دانش کی عظیم مسند پر فائز سمجھتا تھا مگر آپ نے چند جانوں کو کتنی بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔” “دفع ہوجاؤ کیا تم پاگل ہو۔ میں نے آج تک ایک چیونٹی تک نہیں ماری۔ تم کہتے ہو میں نے انسانوں کی جان لی ہے۔ کوئی اس پاگل کو پکڑ لے۔ “

“اے عظیم دانش ور! میں نے خود دیکھا تھا کہ آپ کے ہاتھوں میں تیز ہتھیار تھا ۔ ان سب لوگوں کی آنکھیں بند تھیں۔ وہ آپ پر بھروسہ کررہے تھے تبھی آپ نے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔” “اوہ خدایا کوئی اسے روکے۔ کوئی تو اس پاگل کو روکے۔” تبھی اس نے کچھ لوگوں کو غصے سے اپنی طرف بڑھتے دیکھا تو وہاں سے بھاگنے میں اس نے اپنی عافیت سمجھی۔ “مجھے کیا ہوتا جارہا ہے۔” اس نے حیرانی سے اپنے ہاتھوں کو دیکھا۔ “میں تو بالکل ویسا ہوں جیسا ہوا کرتا تھا۔ میرے ہاتھ اور میرا پورا وجود ویسا ہے۔ پھر لوگ کیوں ویسے ہیں جیسے وہ اصل میں نہیں ہیں۔” اسی سوچ میں وہ مزید آگے بڑھا۔ تبھی اس نے شہر کے عظیم قاضی کو چند کتابوں کو خاک میں دفن کرتے ہوئے دیکھا۔ “اے عظیم قاضی! آپ کیا کررہے ہیں؟ یہ علم کی عظیم کتابیں ہیں جو آپ مٹی میں ملا رہے ہیں۔ یہ آپ کی برسوں کی ریاضت کا نتیجہ ہیں۔ آپ نے کتنی محنت سے ان کتابوں پر محنت کی ہے۔ آج آپ انہیں خاک آلود کیسے کرسکتے ہیں۔” “تم کون ہو؟ یہاں کیا کررہے ہو؟ کیا تمھاری آنکھیں اندھی ہوگئی ہیں۔ کیا تمیں نظر نہیں آتا کہ میں ان کتابوں میں اپنے انصاف کے واقعات لکھ رہا ہوں جو اتنے سالوں میں بطور قاضی میں نے کئے ہیں۔ کیوں مجھے تنگ کرنے آئے ہو۔ ” “نہیں میرے محبوب قاضی! غور سے دیکھئے۔ آپ ان کتابوں کو منوں مٹی کے نیچے دفن کررہے ہیں۔ خدارا ایسا نہ کیجئے۔” “اے بیوقوف شخص یہاں سے نکل جاؤ۔ کوئی اسے نکالے۔” قاضی نے شدید غصے میں لوگوں کو آواز دی اس سے پہلے کہ لوگ اس پر حملہ آور ہوتے وہ فورا سے پہلے وہاں سے بھاگ گیا۔ “کیا واقعی میں پاگل ہوتا جارہا ہوں۔” اس نے دونوں ہاتھوں کو آنکھوں پر رکھا اور گھبراتے ہوئے سوچنے لگا۔

“میں کیوں عجیب و غریب چیزیں دیکھ رہا ہوں۔کیوں مجھے سب چیزیں الٹی نظر آرہی ہیں۔” تبھی گھبراتے اور خود سے الجھتے ہوئے وہ مزید آگے بڑھا۔ تبھی اس نے شہر کے عظیم مبلغ کو اپنے باغ میں زور سے قہقہہ لگاتے ہوئے دیکھا۔ وہ دھیرے سے ان کے باغ میں داخل ہوا۔ وہاں عجیب منظر تھا۔ جب وہ ہنستے تھے تو چند کلیاں مرجھا جاتی تھیں اور درختوں سے پھل گرنے لگتے تھے۔ “اے عظیم مبلغ مت ہنسئے۔ آپ ہنستے ہیں تو باغ کی کلیاں مرجھا جاتی ہیں۔ درخت ویران ہونے لگتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے شہر میں خزاں کا سماں ہورہا ہےاور باغ کی کلیاں رو رہی ہوں۔ ” “تم کون ہو۔ کیسے میرے باغ میں بغیر اجازت داخل ہوئے۔ تم نے باہر نہیں پڑھا کہ یہاں غیر متعلقہ افراد کا داخلہ منع ہے۔” “عظیم مبلغ ! میں آپ کی ہنسی کی آواز سن کر یہاں آیا تھا۔ خدارا چمن پر اور درختوں پر رحم کیجئے۔”

“دفع ہوجاؤ۔ سب کہتے ہیں میں ہنستا ہوں تو ویران چہرے کھلنے لگتے ہیں۔ میں ہنستا ہوں تو یقین ان کی رگوں میں بیٹھنے لگتا ہے۔ لوگ میری ہنسی کے لیے جان تک لٹا دیتے ہیں۔ تم کیسے مجھے برا بھلا کہہ کر میری ہنسی کا مزاق اڑا سکتے ہو۔” تبھی اس نے دیکھا کہ کچھ لوگ غصے سے اس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ وہ تیزی سے بھاگا۔ اس کے پاؤں شل ہوچکے تھے۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا تھا۔ تھکن سے اس کا بدن چور ہوچکا تھا۔ تبھی اس نے بہت سے بھیڑ بکریوں کو شیروں کے ہاتھوں شکار ہوتے دیکھا۔ “کوئی تو انہیں روکے۔ کوئی تو ان کی حفاظت کرے۔” وہ تیزی سے ان کی طرف بڑھا۔ “میں تمھیں بچاؤں گا۔ میں اپنی جان پر کھیل کر تمھاری حفاظت کروں گا۔” اس نے چلاتے ہوئے کہا اور ان کی طرف بڑھنے لگا۔ تبھی اسے اپنے وجود میں شدید درد کا احساس ہوا۔ “لگتا ہے تم کوئی فاتر العقل شخص ہو۔ تم کب سے ہمیں بھیڑ بکریاں کہہ رہے ہو جبکہ ہم انسان ہیں۔” ایک شخص آگے بڑھا اور غصے سے اس کے سر پر وار کرتے ہوئے کہا۔ “رکو تم دیکھ نہیں پارہے ۔ تم انسان نہیں بھیڑ بکریاں ہو۔ تم شکار ہور ہے ہو۔خدا کے لیے خود کو بچاؤ۔”

“تم یہاں سے جاتے ہو یا ہم تمھیں بھیڑ بکری سمجھ کر زخمی کردیں۔ ایک دفعہ تمھیں کہہ دیا ہے کہ ہم انسان ہیں تو کیوں تم ہمیں بھیڑ بکریاں بنانے پر بضد ہو ۔” دوسرے شخص نے وحشت بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ درد کی ٹیسیس اسے اپنے سر میں محسوس ہورہی تھیں۔ وہ تیزی سے نکلا اور وہاں سے بھاگ کر آگے کی جانب بڑھ گیا۔ “کوئی مجھے اس درد سے نجات دے۔ اوہ خدایا! کوئی تو مجھے اس رنج سے چھٹکارا دے ۔”اس نے روتے ہوئے کہا۔ تبھی اس نے سوچ بیچنے والے شخص کو قدرے فاصلے پر مسکراتے ہوئے دیکھا۔ وہ تیزی سے اس کی طرف بھاگا۔ “اے عجیب قسم کے سوداگر تم نے میرے ساتھ کیا کیا ہے؟ میں مررہا ہوں۔ شہر کے لوگ مجھے ماردیں گے۔ میں عجیب و غریب چیزیں دیکھ رہا ہوں۔ وہ سب مجھے پاگل کہتے ہیں۔ تم نے مجھے کس الجھن میں ڈال دیا ہے۔” تبھی سوداگر نے قہقہہ لگایا۔

“تم نے سوچ کا سودا کیا تھا اوربدلے میں اپنا وجود حوالے کیا تھا تو اب تم کیوں پچھتا رہے ہو؟” “اس نئی سوچ نے میری آنکھیں نوچ لی ہیں۔ میرا چہرہ جھلس گیا ہے۔ لوگوں کے ہاتھ میری گردن تک پہنچ گئے ہیں۔ میری زبان میرے اختیار سے نکل چکی ہے۔ خدا کے لیے نئی سوچ واپس لے لو۔ ورنہ لوگ مجھے مار ڈالیں گے۔” “میں نے تمھارا وجود لے کر تمھیں سوچ بیچی تھی۔ اب تم مجھ سے شکوہ کیوں کررہے ہو؟” سوداگر نے سوال کیا۔ سوداگر خدا کے لیے میرا وجود واپس کرو اور اپنی سوچ لے لو۔میں مرنے سے بال بال بچا ہوں۔” اس نے درد سے کراہتے ہوئے کہا۔ “دیکھو دوست! یہ نئی سوچ تھی۔ یہ سوچ پرانی سوچوں کو قتل کردیتی ہے۔ کیا تم واقعی اسے نہیں رکھنا چاہتے۔” “ہاں ہاں! یقین جانو میں اسے ایک لمحے کے لیے بھی اپنے ساتھ نہیں رکھنا چاہتا۔” اس نے چلاتے ہوئے کہا۔

“جاؤ۔ اب تمھارا وجود تمھارے حوالے کردیا گیا ہے اور کچھ دیر کے لیے تمھیں شہر میں پرانی سوچ کے ساتھ بھیج دیا گیا ہے۔ اب دوبارہ اس وجود اور سوچ کے ساتھ گھومو پھرو اور فیصلہ کرو کہ تم نے نئی سوچ کے ساتھ رہنا ہے یا پرانی سوچوں کے ساتھ ہی رہو گے۔ میں تھوڑی دیر بعد تمھیں شہر کے داخلی دروازے پر دوبارہ ملوں گا۔” سوداگر نے ہسنتے ہوئے کہا اور وہاں سے بھاگ گیا۔ سوداگر کے جانے کے بعد وہ دوبارہ تیزی سے عمارتوں کی جانب بڑھنے لگا۔ اس نے غور سے عمارتوں کی جانب دیکھا۔ عمارتیں دوبارہ اسی شان سے کھڑی تھیں۔ اسے کہیں بھی ملبے کا ڈھیر نظر نہیں آیا۔ ہر شے پہلے جیسی خوبصورت لگ رہی تھی۔دانش ور، قاضی اور مبلغ اسے دوبارہ شہر میں علم و دانش تقسیم کرتے نظر آئے۔ لوگ اسی طرح ہنستے ہوئے شہر میں گھوم پھر رہے تھے۔

شہر میں کہیں انسان بھیڑ بکری کے روپ میں بھی نظر نہیں آئے۔ “اب کتنا امن ہے۔ ایسے لگ رہا ہے جیسے میں پرسکون ہوچکا ہوں۔” اس نے مسکراتے ہوئے خود سے کہا اور سوداگر کی جانب بڑھنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ شہر کے داخلی دروازے پر دوبارہ پہنچ چکا تھا۔ وہاں اس نےسوداگر کو مسکراتے ہوئے پایا۔ “کیا تم نے پورا شہر دیکھ لیا؟” سوداگر نے سوال کیا۔ “ہاں اور میں بلاتامل کہہ سکتا ہوں کہ تمھاری نئی سوچ کے بغیر پورا شہر بہت خوب صورت ہے۔ ” اس نے حقارت بھرے لہجے میں اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔ “کیا تم نے فیصلہ کیا ہےکہ تم اپنے اسی وجود اور پرانی سوچ کے ساتھ ہی رہو گے۔؟” اس سے سوال کیا گیا۔

“ہاں اے عجیب سوداگر! مجھے تمھارا سودا قبول نہیں ہے۔ مجھے ایسا کوئی سودا قبول نہیں ہے جس کے بدلے مجھے وجود کو گروی رکھنا پڑے۔” “جیسے تمھاری مرضی، جاؤ ، اب تم مکمل پہلے جیسے ہوچکے ہو۔ ” میں اب چلتا ہوں۔”

تبھی اس نے دیکھا کہ سوداگر مسکرایا اور دھیرے دھیرے آگے بڑھنے لگا۔ “لیکن میں تم سے ایک بات لازمی پوچھنا چاہوں گا”

اس نے سودا بیچنے والے شخص کو روکتے ہوئے کہا۔ “پوچھو۔”

“اس نئی سوچ کا کیا نام تھا۔ جو تم نے وجود کے بدلے مجھے دیا تھا۔”

“آگہی”

سوداگر نے جواب دیا اور مسکراتے ہوئے اس سے دور ہوتا چلا گیا۔

Published inسخاوت حسینعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply