عالمی افسانہ میلہ 2019
عالیہ تقوی ۔الہ آباد۔ انڈیا
افسانہ نمبر 114
میرے بعد
” اگر فرصت ہو تو فورا” آجاؤ یار بہت پریشان ہوں ۔” میرے شاعر دوست بحر دریا آبادی کا صبح تڑکے فون آیا تو میں گھبرا گیا ۔ میں نے سوچا کہ خدا نخواستہ کوئ انہونی ہو گئ ہے ۔ جلدی جلدی تیار ہوکر ان کے گھر پہونچا ۔ بحر صاحب ڈرائنگ روم میں ٹی۔ وی۔ کے سامنے بیٹھے تھے ۔ بڑے بے حال نظر آئے ۔ رنگت اڑی اڑی ۔ شیو بڑھی ۔ “خیریت تو ہے ” میں نے استفسار کیا ۔
“ارے نہیں یار ۔ خیریت کہاں ۔ تم نے کچھ سنا ۔ سحر انبالوی کی کل موت ہوگئ ۔ریڈیو اور ٹی۔ وی ۔ پر کل سے خبریں آرہی ہیں ۔”
“اوہ! اچھا ۔ میں تو خبریں دیکھ ہی نہیں پاتا۔ پورے وقت یا تو بیوی سیریل دیکھتی رہتی ہے یا پھر بیٹا کریکٹ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیچارہ سحر! آخر غریبی نے اسے مار دیا ۔۔۔۔۔ بھری جوانی میں ۔۔۔۔۔ تم سے کتنی بار کہا سونے کا انڈا دینے والی مرغی ہے ۔ خیال رکھاکرو ۔ مگر تم تو ایک شعر کے بدلے پانچ روپئے بھی بڑی مشکل سے دیتے تھے “۔
“اور جو پانچ ہزار روپئے مہینہ خرچہ اور کھولی کا کرایا دیتا تھا وہ “
” ارے یار ۔ اب میرے سامنےتو حاتم طائ نہ بنو ۔ ایک مشاعرے کا ڈیڑھ لاکھ لیتے ہو ۔ کرایہ ، بھاڑا ۔ طعام و قیام کا خرچہ الگ ۔ یہ ساری شان و شوکت اسی غریب کی غزلوں کے بل بوتے پر تھی ۔ ورنہ تم نے تو زندگی میں کبھی ایک شعر بھی ڈھنگ کا نہ کہا ہوگا ۔”
” میں نے تو سوچا تھا کہ تم سے کچھ رائے مشورہ لوں گا ۔ تم میرے بچپن کےدوست ہو ۔ تم تو الٹا جلے پر نمک چھڑکنے لگے ۔ دیکھ رہے ہو میں کتنا پریشان ہوں ۔”
” ارے تو کیوں ٹینشن لے رہے ہو ۔ پھر کسی اور مفلوک الحال شاعر کو نوکر رکھ لینا ۔ تمھارے لئے کیا مشکل ہے کسی کو خریدنا ۔ پیسے والے ہو بھئی ۔ ویسے بھی آج کل یہ حال ہے کہ اگر ڈھیلہ مارو تو یا کسی کتے کو لگتا ہے یا شاعر کو ”
” لیکن ہر شاعر سحر انبالوی تو نہیں ہوتا جس کی غزلیں مشاعرہ لوٹ لیں “۔
بحر صاحب بات کرتے کرتے اچانک رک گئے اور چوکنّے ہوکر ٹی۔ وی کی طرف دیکھنے لگے ۔ ٹی۔ وی۔ پر کوئ غزل نشر ہورہی تھی ۔ جسکے آخری دو اشعار تھے ——
وعدہ کرکے آنے کا۔ ۔ آئے نہ وہ پھر گئے لو پھر وہ اپنی بات سے
سحر مل جائے جو اک پل کی خوشی ہم کو شکوہ نہ رہے حالات سے
اناؤنسر نے اعلان کیا ۔۔۔۔۔۔ابھی آپ نے جو غزل سنی وہ ہمارے دور کے نوجوان شاعر سحر انبالوی کی ہے جن کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“۔ ۔۔ارے۔۔۔ مر گیا ….. یہ غزل تو میں نے دوبئ کے مشاعرے میں پڑھی تھی ۔۔۔۔۔بحر صاحب بڑبڑائے ۔
۔۔۔۔:۔۔۔ اور اب آپ سحر انبالوی کی ایک اور غزل ترنم صاحبہ کی آواز میں سنئے ۔ اناؤنسر نے اعلان کیا ۔۔۔۔۔۔
رسم الفت کی یوں نبھاتے رہے ظلم سہہ کر بھی مسکراتے رہے
قیس بن کر کبھی ، کبھی رانجھا جستجو میں ہم انکی آتے ر ہے
پاس تھی صرف پیار کی دولت دونوں ہاتھوں سے ہم لٹاتے رہے
کوششیں بھولنے کی جتنی کیں اتنا وہ ہم کو یاد آتے رہے
زندگی بلبلہ تھی پانی کا۔ پھر بھی ہم محفلیں سجاتے رہے
سحر کوئ تو کرتا دل داری لو گ تو دل ہی بس دکھاتے رہے
میرے دماغ میں ایک شعر کلبلایا ۔۔۔
تنگ دستی سے مر گیا شاعر۔ نام پر اس کے لوگ کھاتے رہے
میں یہ شعر پڑھنے ہی والا تھا کہ بحر صاحب نے ایک چیخ ماری ۔ “…. ارے۔ .. باپ ۔۔۔ رے ۔۔۔۔ “یہ غزل تو میں نے لندن کے مشاعرے میں پڑھی تھی ۔ “
“۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کم بختوں کے ہاتھ تو لگتا ہے اس کی بیاض ہی لگ گئ ۔ مجھے کیا خبر تھی کہ وہ بیاض میں بھی لکھتا ہے ۔۔۔۔۔ اب میں کیا کروں گا ۔۔۔۔ لوگوں ۔۔۔کو۔ ۔۔ منھ کیسے۔۔۔ دکھاؤں گا۔۔۔۔۔
اور پھر بحر صاحب صوفے پر ڈھیر ہوگئے ۔
ہارٹ اٹیک کا بڑا زبردست دورہ پڑا تھا بحر صاحب پر ۔ آج تیسرے دن ہوش آیا ہے ۔ میں ان کے بیٹےاور بیوی کے ساتھ آئ۔ سی ۔ یو۔ کے باہر بیٹھا ہوں اور سوچ رہا ہوں۔ ۔۔۔۔ شاعری کیا ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے ایک بندہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائے ۔۔۔ اور ۰۰۰ایک آئ ۔ سی ۔ یو ۔ پہنچ جائے ۔ شاعری جو ہمیں دیگر فنون کی طرح ذہنی انبساط اور روحانی سکون عطا کرتی ہے ۔ جو حقیقت سے روشناس کراتی ہے ۔ خوابوں ، خیالوں کی حسین اور رنگین دنیا ؤں کی سیر کراتی ہے ۔ وہی شاعری آج کہاں آ پہونچی ہے ! ۰۰۰۰۰۰شاعری کو کبھی دانشوروں نے پیغمبری کی ہم پلہ قرار دیا تھا ۔ آج وہ کیا ہے ۔ کچھ بھی نہیں ۔ بس ایک دھندا ؟