مہرِ تاباں
از:فریدہ نثار احمد انصاری۔
دوحہ ۔قطر۔
” نام تو دیکھو، کیا ہی خوب ، مہتاب ! یار بتاؤ یہ غریب لوگ کچھ سمجھے بوجھے بغیر ہی نام کیوں رکھ دیتے ہیں؟غریبوں کا مہتاب ” خرم نے قہقہہ لگا کر اتنی زور سے کہا کہ پپرز لے کر گزرتے ہوئے لڑکے نے سن لیا اور آنکھوں میں موسم باراں کا گمان ہو چلا۔اپنی غربت کا تو ہزار ہا بار مذاق اڑاتے اس نے لوگوں کے طعنے سہے تھے لیکن نام کے طعنے کا خنجر اس کے وجود پر پڑا۔ہمیشہ کچھ کر گزرنے کا شوق دامن گیر رہا لیکن حالات ہمیشہ ناسازگار رہے اور وہ کچھ نہ کر پایا۔بس ہوا تو یہی کہ نامی گرامی اسکول کے پیون کی ملازمت نصیب کا حصہ بنی اور وہ جی جان سے اپنے کام میں جُٹ گیا۔کبھی کسی استاد یا پرنسپل کو اس نے شکایت کا موقع نہیں دیا۔
البتہ اسکول کے بچے اسے زچ کرنے سے باز نہ آتے۔اس نے اس کے لئے کسی سے شکایت بھی نہیں کی ہمیشہ ٹال جاتا ۔ہاں دل ہی دل اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہتا کہ اللہ رب العزت اسے بھی عزت سے آشنائ کروا دے۔
ایک کلاس روم سے دوسرے کلاس روم میں اساتذہ کے پاس رجسٹرز و ہدایات پہنچاتے ہوئے اس کی نظر تختہء سیاہ پر پڑتی اور ذہن پر وہ کالی سفید سطر سفینے کی مانند ڈوبتی تیرتی رہتیں۔اسے یاد آجاتا کہ ابھی کچھ ماہ پیشتر تک ہی تو وہ بھی کسی اسکول کا شاگرد تھا۔اس کی کتابیں بھی پیوند زدہ بستے سے جھانکتی رہتی تھیں لیکن گردش دوراں نے وہ بستہ اس کے کاندھے سے چھین لیا اور والد کی وفات کے بعد ناتواں شانوں پر اپنے خاندان کی ذمہ داری کا بار ڈال دیا گیا۔ وہ تو گورنمنٹ اسکول میں پڑھتا تھا ۔یہاں صاف ستھرے استری کئے کپڑے، چمک دار جوتے اس کا دل موہ لیتے۔بڑی جماعتوں میں لگے وہائیٹ بورڈ، پاور پوائنٹ پر دئیے جانے والے دروس کو وہ چھپ چھپ کر دیکھتا ۔جب چھٹی ہو جاتی تب اپنی کاپی لے جا، کر دسویں جماعت کے ہر ڈویژن کے بورڈ سے نوٹس اپنی بیاض میں لکھ لیتا۔گھر آکر اس کی خوب مشق کرتا۔
ایک دن وہ اسی طرح دنیا و فہیما سے بے خبر سر جھکائے لکھ رہا تھا کہ پرنسپل صاحب اس کے سر پر آ موجود ہوئے۔پوچھنے پر بڑی خجالت سے اپنے شوق کو ان کے آگے رکھ دیا۔ پرنسپل صاحب علم کی پرکھ رکھتے تھے، ایک جہاندیدہ جوہری تھے، انھوں نے علم کی دہکتی آگ کی تپش آفتاب کے تپتے گالوں سے محسوس کی اور اپنے آفس میں آنے کی ہدایت دی۔
مہتاب طوعاً وکرہاً پہنچ گیا اور اسے اپنی سماعت پر یقین نہیں آرہا تھا کہ سر اس سے اِس قدر محبت سے پیش آئیں گے۔انھوں نے کہا ” اچھا! تھیرم جانتے ہو؟ ” ” جی سر! میتھس میرا من پسند سبجیکٹ ہے۔” سر نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا ” اسکول چھوڑنے کی وجہ میں جانتا ہوں، کیا آگے پڑھنا چاہتے ہو؟ ” اس نے سرجھکا کر جواب دیا ” سر! اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔لیکن میں حالات کا مقابلہ کیسے کروں؟ میرے ناتواں شانوں پر ایک کنبے کا بوجھ ہے. ” اور اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
” کس نے تمہیں روزی روٹی سے الگ ہونے کو کہا ہے۔تم اسی طرح اپنا کام کرتے رہو گے۔پڑھائی لیکن تمہیں خود کرنا ہوگی۔میں اساتذۂ کرام سے تمہاری مدد کی درخواست کر دوں گا۔تم اسکول میں نہ رہتے ہوئے اسکول سے ہی امتحان دو گے۔امتحان کے دنوں کو تمہاری چُھٹی سے پُر کیا جائے گا اور ہاں ایک اور کام کرنا ہوگا، یہ میرا موبائل لو اور جانے سے پہلے روزانہ بورڈ سے نوٹس کی امیجز لے لینا۔گھر جا کر خوب محنت کرنا۔مجھے امید قوی ہے کہ تم ایک تابندہ ستارہ بن کر چمکو گے۔”
آفتاب کا دل فرطِ جذبات سے لبریز ہو گیا جس کی شہادت دو چھلکتے جاموں نے دے دی ” سر! آپ کی پدرانہ شفقت کا میں مقروض ہو گیا۔سر! میں روزانہ کی طرح بیٹھ کر کام کر لوں گا۔ آپ کا موبائل بہت قیمتی ہے۔میں کیسے لوں؟ “
” بچے سنو! تمہارا وقت بہت قیمتی ہے۔ساتھ گھریلو ذمہ داریاں بھی ہیں اور میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ اس کی مدد سے تم آن لائن بورڈ کے پرانے پیپرز اور دیگر معلومات بھی حاصل کرو۔خوب محنت کرو۔اپنا جنرل نالج بڑھاؤ۔لیکن یہ یاد رہے کہ اس کا استعمال مثبت طریقے سے کروگے۔کبھی کوئ بھی غیر ضروری کھڑکی آن نہیں ہوگی اور اس کی پیکج وغیرہ کی ذمہ داری میری ہوگی۔ سمجھے۔یہ میری طرف سے تمہیں عید کا تحفہ ہے۔۔اب گھر جاؤ اور اللہ کا نام لے کر اپنے ہدف پر نظر رکھنا۔ہمیشہ منزل آگے نظر آتی ہے۔پیچھے دیکھنے والے لڑکھڑا جاتے ہیں۔”
مہتاب کی آنکھیں، فرطِ محبت کے جذبات نے دل کا فسانہ زبان پر بیاں کروا دیا اور تہہ دل سے شکریہ پیش کرتے ہوئے وہ گھر کی جانب چل پڑا۔اس نے تہیہ کر لیا کہ ہدف پر نظر رکھنی ہو گی۔ آج سے میرا ہر لمحہ اس لمحے کا غماز ہوگا۔
Be First to Comment