عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 56
مٹی کی گڑیا
روما رضوی، لاہور، پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح کے سات بج رہے تهے۔ سڑکوں پہ ٹریفک کی آمد و رفت کا ہنگامہ سا جاری تها۔ وقفہ وقفہ سے تیز ہارنز کی آوازیں سنائی دیتیں۔ یوں تو سورج نکل آیا تھا لیکن گرمیوں کی صبح ہونے کے باوجود ماحول میں تپش موجود نہ تھی۔ اسکولوں کی چهٹیاں قریب تهیں بچوں کی تعداد امتحانات کے بعد یوں بهی کم ہوگئی تهی۔ گلیوں میں معمول سے کچھ کم رش نظر آرہا تها۔ گلی کے باسی بهی شاید بچوں کو اسکول بهیج کے سو چکے تهے۔ ایسے میں کسی ایک عورت کا برقعے میں ایک گٹهڑی اٹها کے کسی گهر سے برآمد ہونا عجیب سا لگ رہا تها۔ وہ کبهی سستی سے تو کبهی تیز قدموں سے چلنا شروع کردیتی۔ اس کا بار بار پیچهے مڑ کے دیکهنا غیر فطری سا لگ رہا تها۔ وہ تیزی سے موڑ مڑ کے گلی کے آخری گهر پہ رکی کچھ دیر ٹہری اور بہت تیزی سے اگلی گلی میں غائب ہو چکی تھی۔
‘ارے اس کی گٹهڑی تو زمین پہ رہ گئی۔’ میں نے دل میں سوچا۔ شاید کوئی کام کرنے والی ہو۔ میں کراچی کے ایک گنجان آبادی والے علاقے میں ایک دو کمروں کے فلیٹ میں رہتی ہوں۔ صبح جلد جاگنے کی عادی ہوں اور بجلی نہ ہونے کے باعث اکثر ناشتہ بالکنی میں ہی بیٹھ کر ہی کرتی ہوں۔ یوں محلے بهر کی خبر بهی رکھتی ہوں، اسی لئے اس اجنبی کو عورت دیکھ کر خوفزدہ ہوئی کہ کہیں کوئی بم نہ رکھ گئ ہو۔ اب تک اس گهر سے بهی کوئی نہ نکلا تها کہ گٹهڑی کا راز پتا چل جاتا۔ سخت بے چینی کا عالم تها۔ بلاآخر اپنے میاں کو جگانے کا سوچا جو روزانہ آٹھ بجے سے پہلے نہ جاگتے تهے۔
‘۔۔۔۔ ارے یہ کیا۔۔۔۔ گٹهڑی خود بخود ہلنا شروع ہوگئ۔۔۔۔ اور، اور۔۔۔۔ اُف دو ننھے ننھے پاوں آہستہ آہستہ اوپر موجود کپڑے کو دھکیلتےنظر آ رہے تھے۔’ خوف کی ایک لہر جسم میں دوڑ گئی۔ میں اس ڈر سے کہ کہیں گلی کے بلی کتے اس پر حملہ آور نہ ہوجائیں، تقریباً دوڑتی ہوئی سیڑھیوں سے اتری۔ اب بچے کے رونے کی آواز بهی آنا شروع ہو چکی تھی۔ دروازے کو دونوں ہاتھوں سے پیٹ ڈالا اور بچے کو گود میں اٹهایا۔ اندر سے برآمد ہونے والا جوڑا حیرت سے مجهے اور میرے ہاتھوں میں موجود بچے کو دیکھ رہا تها۔
“کون ہیں۔۔۔۔ کس کا بچہ ہے یہ۔۔۔۔۔ ہمارا اس سے کیا واسطہ۔۔۔۔” میں نے ان سے درخواست کی اندر آنے دیں۔۔۔۔ کسی طرح حواس بحال کئے اور آنکھوں دیکها حال بیان کیا۔ بچے کے کلائیوں میں بندهے سیاہ دانوں سے احساس ہوا کہ بچہ اچهے گهر سے ہے اور یہ کہ وہ ایک لڑکی ہے۔ ننهی سی مٹهی میں موجود چند لمبے بال نظر آئے۔ آنکھوں میں ٹہرے ہوئے آنسو تهے کہ جیسے ماں کو روکنے کی بهرپور کوشش کی ہو۔
“میرے اپنے بچے بہت چهوٹے ہیں ورنہ میں اس کی ذمہ داری لے لیتی۔” پڑوسن سے افسوس سے کہا۔ “جی ہمارے بچے بهی عمر کہ اس حصہ میں ہیں کہ ہم یہ مشقت نہیں کرسکیں گے۔” اتنے میں مرد حضرات پولیس کو فون کر چکے تهے۔ لاوارث بچوں کے ادارے سے بهی ڈاکٹر اور ایک آیا کی آمد متوقع تھی۔
ہم اب تک اس مجبوری پہ قیاس آرائیاں کر رہے تهے کہ جس کی وجہ سے کسی نے یہ انتہائی قدم اٹهایا ہوگا۔ ایک بدنصیب بچہ کہ جس کی ماں نے اسے کوکھ میں کئ ماہ رکها اور خود ہی اس سے بے پرواہ ہوگئی؟ ظلم اور خودغرضی کی انتہا ہے۔
اس واقعے کو کئ دن گزر چکے تهے۔ میرا بچوں کے ڈاکٹر کے پاس اپنے بڑے بیٹے کو لے کر آنا ہوا۔ قطار لمبی تهی۔ ساتھ رکهے میگزین دیکھنے لگی۔ میرے برابر بیٹھی خاتون خواہ مخواہ مجھ سے نزدیک ہوتی چلی جا رہی تھیں۔ میرے غور سے دیکھنے پہ بولیں۔
” آپ مجهے نہیں جانتیں لیکن میں آپ سے واقف ہوں۔” اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتی کہ اس سے پہلے وہ پھر بولنا شروع ہوگئیں۔
” اب سے کچھ ہفتوں پہلے آپ کے علاقے میں عجیب واقعہ ہوا تها۔ آپ نے تو دیکها تها۔ یاد ہے۔ وہ برقعے والی عورت۔” اب میں چونک اٹهی تھی۔
“آپ کو کیسے پتا …؟ وہ عورت میں ہی تهی۔”
“جانتی تھی کہ آپ دیکھ رہی ہیں۔ اس رات میری بیٹی کے گهر تیسری بچی ہوئی تھی۔ دو بچیاں پہلے ہی تھیں۔ شوہر نے تلخ کلامی کے دوران کئ دفعہ اگلی بچی کی ولادت پہ جان سے مارنے کو دهمکایا تها۔”
“اور وہ ہی ہوا کہ جب بیٹی ہوئی تو اس سے پہلے کہ اطلاع باہر جاتی، میں نے ایک مردہ نومولود بچے سے اسے تبدیل کروا دیا۔” بچی کو جو بہت صحت مند اور ہوشیار تھی آپ کے فلیٹس کے نزدیک کسی دروازے پہ چھوڑا تها”۔
خاتون کے سرخ و سفید چہرے پہ ایک کرب نمایاں تها اور اس کی آہیں سسکیوں میں بدل رہی تهیں