Skip to content

مٹی کا ڈھیر

مٹی کا ڈھیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   اقبال حسن

ہم دونوں نے ایک ساتھ نو سال ایک ہی دفتر میں نوکری کی تھی۔دوستی ہونے کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ ہم دونوں کی
نشستیں آگے پیچھے تھیں اور شاخ بھی ایک ہی تھی۔وہ ہر لحاظ سے ایک اچھا آدمی تھا۔بس ایک خرابی تھی جسے میں شروع میں مذاق سمجھا لیکن پھر جب اُسے سنجیدہ دیکھا تو مجھے کچھ چڑ سی ہونے لگی۔اُس کے پاس دفتر کے ہر شخص کی ریٹائرمنٹ کا حساب تھا۔ہر ماہ وہ صرف
اسی دفتر کے نہیں، ہیڈ کوارٹرز کے ریٹائر ہونے والوں کے نام بھی بتاتا۔
’’
یہ اصغر صاحب۔ارے بھئی وہی جو یہاں آڈٹ ٹیم کے ساتھ آئے تھے۔نو ستمبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔اسی سال‘‘۔
وہ خوشی سے تمتماتے چہرے کے ساتھ مجھے مطلع کرتا۔مجھے تو اصغر صاحب کی صورت تک یاد نہیں تھی۔میں کہتا۔
’’
ہوگا یار۔ہمیں کیا؟‘‘۔
وہ سنجیدہ ہوجاتا اور کہتا۔
’’
تمہیں کیا؟ارے تمہیں اس بات کی ذرا بھی فکر نہیں کہ میں اس طرح سینیارٹی لسٹ میں گیارہویں نمبر پر آ جاؤں گا؟اس
کے بعد نعیم کا نمبر ہے، پھر بشیر اور پھر سہیل کا۔یوں سمجھو اگلے چھے سال میں تو یہ تینوں گئے،،۔
وہ ہنس کر کہتا۔
’’
پھر کیا ہوگا؟،،۔
وہ ہنستا اور خلا میں دیکھ کر کہتا۔
،،سہیل کے بعد احمد صاحب اور پھر میرے منیجر بننے میں فقط دو سال رہ جائیں گے۔فقط دو سال،،۔
،،اور اس میں وقت کتنا لگے گا؟،،۔ میں پوچھتا۔
وہ ہنس کر چٹکی بجاتا۔
’’
گیارہ سال۔صرف گیارہ سال۔دیکھو میں ابھی پیتینس کا ہوں۔گیارہ سال کے بعد چھیالیس کا ہوں گا۔چودہ برس ہوں گے
میرے پاس۔اس دوران ترقیاں ہونا بند تو نہیں ہو جائے گا۔ہوسکتا ہے آپ کا بھائی ایم ڈی تک جا پہنچے۔ڈی ایم ڈی کی پوسٹ تو
خیر کہیں گئی ہی نہیں،،۔
مجھے بیرون ملک ایک اچھا موقع مل گیا اور میں چلا گیا۔شروع میں کچھ خط و کتابت ہوئی۔دو چار مرتبہ فون پر بھی بات ہو گئی
لیکن دھیرے دھیرے یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔کبھی چھٹی پر آتا تو اتنا وقت ہی نہ ہوتا کہ پرانے دفتر کے ساتھیوں سے مل سکوں۔اس مرتبہ
بھی شاید ایسا ہی ہوتا۔میں صدر میں گرم موزے تلاش کر رہا تھا۔ایک موڑ مڑا تو وہ سامنے سے نکل آیا۔ہم بہت گرمجوشی سے ملے۔وہ
مجھے قریب ہوٹل میں لے گیا۔پرانے قصے چھڑ گئے لیکن اُس کی دفتری ساتھیوں کی ریٹائرمنٹ کی فہرست رکھنے والی عادت نہیں گئی تھی۔
وہ بولا۔
،،دیکھو میرا حساب کیسا درست بیٹھا؟میں اس وقت سپروائزر ہوں۔نعیم اگلے ماہ ریٹائر ہو رہا ہے۔بشیر بھی ساٹھ کو پہنچنے والا ہے۔
یوں سمجھو یہ دونوں دو تین مہینے کے فرق سے جائیں گے۔سہیل البتہ دو سال اور نکالے گا اور پھر احمد صاحب میرے رستے میں کچھسال کھڑے رہیں گے۔پھر تمہارے یار کا نمبر ہے۔
تم پردیس میں جہاں بھی ہو، جیسے ہی دو ہزار تین کی سترہ جون آئے، سمجھ لینا تمہارا یار منیجر کی کرسی پر بیٹھ چکا ہے،،۔

جدا ہونے سے پہلے میں نے وعدہ کیا کہ واپسی سے پہلے ایک مرتبہ اُس کے گھر ضرور آؤں گا۔تین چار دن گزر گئے۔
ساڑھے چھے بجے مجھے بیوی نے سوتے سے جگایا اور بتایا کہ پرانے دفتر سے کلیم صاحب کا فون ہے۔میں پریشان ہو گیا۔
کلیم صاحب بتا رہے تھے کہ رات اچانک اُس کا انتقال ہو گیا۔مجھے بڑا دکھ ہوا۔ابھی تین چار دن پہلے ہی تو ہم ملے تھے۔
میں اُس کے جنازے میں شامل ہوا۔جب اُسے قبر میں اُتار رہے تھے تو میرے عقب میں کھڑے دو آدمی دھیمی آواز میں
باتیں کر رہے تھے، جیسا کہ ہمارا دستور بن گیا ہے۔
ایک صاحب بولے۔
’’
آپ فکر نہ کریں ایک ہفتے میں آپ کا کام ہو جائے گا۔وعدہ ہے،،۔
میں نے دوسری آواز سنی۔
’’
یعنی چوبیس تک۔آج سترہ ہے نا۔یعنی میں سمجھوں…..،،۔
میں نے مٹی کے ڈھیر کی طرف دیکھا جو تیزی سے اُبھر رہا تھا۔مجھے وہ پُر اُمید چہرہ دکھائی دیا جو چند روز پہلے میرے سامنے بیٹھا دو تین
سال بعد آنے والی اسی تاریخ کا حوالہ دے رہا تھا اور جس کے انتظار میں اُس نجانے کتنے ہی برس گزار دئیے تھے۔

Published inافسانچہاقبال حسن خانعالمی افسانہ فورم
0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x