عالمی افسانہ میلہ۔ 2018
افسانہ_نمبر 138
مومن
اُمِ شافعہ۔گجرات ۔پاکستان
زناٹے دار ایک تھپڑ منہ پہ پڑا تو مومن کو ایسے لگا تھا جیسے یہ ابھی اس کے کندھوں سے اتر کر زمین پہ جا پڑے گا… اس پر ہنسے گا اور بہت زیادہ ہنسے گا… جیسے لوگ اس کے باپ پر ہنستے تھے… خونخوار نظروں سے اس نے کرم داد کی طرف دیکھا… جو غصے میں منہ سے جھاگ نکالتا اس پہ تھپڑ برسائے جا رہا تھا… کرم داد نے ہانپتے ہوئے گلے میں ڈالے بڑے سے رومال سے اپنے منہ پہ پڑی چھینٹیں صاف کیں… چند لمحے کو رکا … دو چار لگاتار تھپڑ پھر اس کے منہ پہ جڑ دیے… آنکھیں نیچی کر… میں کہتا ہوں آنکھیں نیچی کر… کرم داد چلاتے بولا… اور دو تھپڑ… مومن کی طیش سے بھری آنکھیں مزید لال ہو گئیں… تھپڑ ختم ہوئے نہ اس نے آنکھیں نیچی کیں… لال مٹی سے بنے گھر کے آنگن میں آنکھیں کرم داد پہ گاڑے تھپڑ کھاتا رہا… تھک ہار کے کرم داد چارپائی پہ جا بیٹھا… تیرا بھگوڑا باپ تجھ جیسی بلا کو میرے سر مڑ گیا ہے… مجھ سے نہیں ہوتی اوبڑ مال کی رکھوالی… وہ زور سے چلایا… صحن کے وسط میں منہ لٹکائے بیٹھی بلی اونچی آواز سے کرم داد پہ غرائی، اور چارپائی کے پاس اس کے قدموں میں لوٹنے لگی… جیسے اسے یہ سب ختم کرنے کی التجا کر رہی ہو… مومن نے آنکھوں سے بہتے آنسووں کو ہاتھ کی پشت سے صاف کیا… انگارہ ہوتی آنکھوں سے آخری بار اردگرد نظر دوڑائی… گھر کے ساتھ بنی مسجد کے مینار پہ بیٹھے پرندے مغرب کی پہلی اذان پہ جب اڑ گئے تو اس نے اپنی سامان والی پوٹلی اٹھائی اور ملگجے اندھیرے میں انجان منزل کی طرف چل پڑا… پورے گاؤں میں دھوم مچ گئی… مومن کافر ہو گیا… اپنے باپ جیسے چچا کا گھر چھوڑ کر چلا گیا… چوپالوں، بیٹھکوں، ڈیروں میں اس کا نام لوہے کے ڈبے کی طرح بجتا رہا… ہائے مومن نوں شرم وی نہ آئی… اسی چاچے نے پال پوس کے اسے اتنا بڑا کیا اسی کو چھوڑ کے چلا گیا…بوڑھیوں کی سرگوشیاں دیواریں ٹاپتی پورے گاؤں میں پھیل گئیں… چوہدری تو یہ تک بول اٹھا… نمک حرام تھا کمینہ… اپنے باپ جیسے چاچے کی داڑھی میں سفید بالوں کا بھی لحاظ نہ کیا… یوں غائب ہو گیا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ، جیسے جنگ سے اس کا باپ… اور پوری چوپال میں قہقہوں کا جنجال اکٹھا ہو گیا… محاورے کے اس بےتکے استعمال پہ جب سب کے جبڑے پھیل کے سکڑ گئے تو دیوار کے ساتھ لگا ماجو خفیف سی آواز میں بولا…
پر مومن گیا کدھر …؟؟؟ ماحول میں چیونٹی جتنی تشویش کی لہر دوڑی… ساری آنکھیں فضا میں کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھتے سوچ میں پڑ گئیں… آہستہ آہستہ چوپالوں، چورستوں، راستوں پہ مومن کا نام وقت کی گرد تلے دبنے لگا… کبھی کہیں ذکر آ نکلتا تو لوگ کہتے، ایک تھا مومن، جس کا باپ… اور آگے دبے دبے استہزائیہ قہقہے گونجنے لگتے… دن اور رات کی گردش میں کیلنڈر پہ ہندسے بدلنے لگے… پرندے اسی طرح مسجد کی مینار پہ آ کے بیٹھتے، اڑتے جاتے رہے… بلی یوں ہی صحن کے وسط میں جلے پیروں کے ساتھ چکر کاٹتی رہی… مومن لوگوں کے لاشعور میں گم ہوتا چلا گیا… ذہنوں پہ پڑی اس دھول کو ماجو نے اس روز کھریدا جب شہر سے آنے والی کچی سڑک پہ اس نے تانگے سے اتر کے اپنا ٹرنک رکھا… اور شور مچاتے بچوں کے اک ریلے نے اسے چاروں طرف سے گھیر لیا… اس چھوٹی سی ریلی سے جان چھوٹی تو رات کو چوپال میں گاؤں والوں کا ہجوم شوقین آنکھیں اور پرجوش چہرے لیے اس کے سامنے بیٹھ گیا… لکڑیوں کے الاؤ کے پاس بچھی واحد چارپائی پہ چوہدری آ کر براجمان ہوا تو ماجو کی زبان چابی والے گھوڑے کی طرح شہر کی خوبیاں گنوانے دوڑ پڑی… پکی عمارتیں ، انواع اقسام کی میٹھائیاں ، یہ بڑے بڑے سبز میدان …
دگڑ، دگڑ، دگڑ….
اور تو اور لوگو… وہاں کی سڑکیں بھی شیشے کی بنی ہیں… جس پہ بندہ چلے تو لگتا چل نہیں رہا پھسل رہا ہے…اور خمیری روٹی، ایسے جیسے مکھن ملائی کا پیڑہ منہ میں رکھ لیا ہو…
ماجو ہنسا…
ہائیں… سارے گاؤں والوں کے منہ سے حیرت زدہ آوازیں نکلیں… چوہدری بھی کرسی پہ کسمسانے لگا جیسے اسے ماجو کے اس سے پہلے شہر چلے جانے پہ غصہ آ رہا ہو…
مومن کہیں نظر آیا تجھے ماجو…؟؟؟ اشتیاق زدہ لہجے میں کسی نے پوچھا…
دگڑ، دگڑ، دگڑ …دھڑام…
ماجو خاموش ہو گیا…
کس کو اس نامراد کی اس وقت یاد آ گئی… چوہدری حقارت سے مونچھ کو مروڑتے بولا… کرم داد نامحسوس طریقے سے گھسٹ کے اپنے آگے بیٹھے آدمی کی اوٹ میں چھپ گیا …
ملا تھا… ملا تھا مومن مجھے… ماجو کھوئی ہوئی آواز میں بولا… وہ تو بوہت شاندار ہو گیا ہے لوگو… جب ایک فیکٹری کے آگے سے گزرتے اس نے مجھے چاچا ماجو کہہ کر آواز لگائی تو میں تو اسے بالکل پہچان نہ پایا تھا… مجھے اپنی چاردیواری میں لے گیا… اور خوب خاطرداری کی…
چابی والا گھوڑا چلنے لگا…
اس نے سب کا حال پوچھا… کرم داد کا… چوہدری جی کا… میں کتنی ہی دیر انتظار میں رہا کہ وہ کچھ بولے، کوئی شکوہ، کوئی شکایت… پر پھر میرے ہی پوچھنے پہ صرف اتنا کہا تھا اس نے…
چاچا جو بھی تھا، وہ میرا باپ تھا… وہ رو پڑا تھا… ہم نے بھی تو اس کے ساتھ کچھ اچھا نہ کیا… ماجو نے اپنی بھیگتی آواز سنبھالنے کی کوشش کی…
کرم داد نے بھلے ہمیں نہ بتایا ہو… پر وہ آج بھی اپنی اجرت کا آدھا حصہ اسے بھجواتا ہے…
وہ یتیم تھا… اور نمک حرام… نمک حرام تو بالکل نہیں تھا یارو…
جلتی لکڑیوں کے الاؤ کے اردگر اکٹھا مجمع اس رات باقی سارا وقت بھڑکتے شعلوں کو خاموش بیٹھا دیکھتا رہا…
Urdu short stories and writers
Be First to Comment