Skip to content

مولوی امیر الدین

عالمی افسانہ میلہ 2019

افسانہ نمبر 113

مولوی امیر الدین

آصف اقبال ، لاہور ۔ پاکستان

مولوی امیر الدین کی لاش داسو نہر کے میاںوالی روڈ کے پل کے پاس جہاں لوگ نلکے سے پانی بھرنے آتے تھے۔۔۔ ۔۔ کنارے سے ذرا آگے تیر رہی تھی۔۔۔ مولوی امیر الدین کا پیٹ لاش کے ذرا اوپر علیحدہ محسوس ہو رہا تھا۔۔۔ اور قمیص جو پیٹ کو ڈھانپتی تھی۔۔ پانی کے اوپر ذرا پرے ہو کر ہلکورے لے رہی تھی۔ ۔ اور اس کے ساتھ ہی میرا ایمان جو مولوی امیر الدین کی برکت سے مجھے حاصل ہوا تھا ۔۔ ڈبکیاں لگا رہا تھا۔ قمیص کے ایک کونے کے ساتھ۔ ایمان پانی کے اندر جاتا پھر ذرا سا سر اٹھا کر پھولے ہوئے پیٹ کو دیکھتا اور پانی کے اندر غوطہ لگا لیتا۔۔۔

پوہ کا آغاز تھا۔۔ داسو نہر میں پانی ویسے بھی کم رہتا تھا۔۔ لیکن پوہ میں تو یہ پانی بوڑھے بیمار آدمی کی طرح ۔ ۔ جھکے ہوئے ۔۔ آہستہ آہستہ۔۔ زمین سے لگے ہوئے چلتا۔ ایسے میں اس میں کود کے کوئی کیسے خودکشی کر سکتا تھا۔۔۔ یقینا مولوی امیر الدین کودنے سے پہلے ہی مر گیا ہو گا۔۔

“داسو کا پانی ٹھنڈا تو ہوتا ہے۔۔ “پر اتنا نہیں ہوتا کہ کوئی مر ہی جائے۔۔ “خدا بخش مگسی نے اللہ یار سائیں کو مخاطب کر کے کہا۔۔ وہ دونوں اپنے اپنے صافے کو ملا کے مولوی امیر الدین کو داسو سے باہر نکال چکے تھے۔۔ اور اب اپنے اپنے صافوں کو نچوڑ رہے تھے۔۔۔ اللہ یار سائیں نہیں تھا۔۔ مگر پھر بھی لوگ اسے سائیں کہتے تھے۔۔ اور اس کو اس بات پر کوئی اعتراض بھی نہیں تھا۔۔۔ کوئی پوچھے تو کہہ دیتا تھا۔ بھئی ہوں تو میں اللہ یار بھی نہیں۔۔۔ پھر اکیلے سائیں پر اعتراض کیوں کروں۔۔۔

“پر مگسی بابا ۔۔۔ یہ کودا کیوں۔۔۔ اس کو کوئی کمی تھی۔۔۔ نمبرداروں کی مسجد کاپیش اما م تھا۔۔۔ وہ تو امریکہ سے پیسے بھیجتے تھے۔۔۔ اس کو پیش امامی کے”۔۔ فیکے نے گدھا ریڑھی کو سیدھا کرتے ہوئے پوچھا۔۔۔” ۔ملکوں کے گھر کا دروازہ بجایا ۔۔ کہ گڈی لیکر آجائیں۔۔ ان کا چھوٹا بیٹا کہتا۔۔ فیکے گڈی لاش رکھنے کے لئے نہیں ہوتی”۔۔۔ میں نے پھر ریڑھی ہی سیدھی کر لی۔۔ فیکے نے مجھے بتایا یا خود کلامی کی۔۔ مجھے سمجھ نہیں آئی۔۔۔ میں نے زندگی میں پہلی دفعہ کوئی مرا ہوا انسان دیکھا تھا۔۔ وہ بھی اس حالت میں۔۔ اور میں اسی کو دیکھے جا رہا تھا ۔۔

“امریکہ سے پیسے آئیں تو وہ زیادہ ہو جاتے ہیں فیکے؟ مگسی بابا نے فیکے سے پوچھا۔۔۔۔ یقینا وہ یہ سوال مسکراتے ہوئے بھی پوچھ سکتا تھا۔۔۔ لیکن شاید یہ مسکرانے کا وقت نہیں تھا۔۔۔

“سنا تو یہی ہے مگسی بابا۔۔۔” فیکے نے آہستہ سے کہا۔۔۔

میں نے دل میں سوچا کہ سنا تو میں نے بھی یہی ہے۔۔ لیکن غلط سنا ہو گاپھر۔۔۔ میں عمر کے اس حصے میں تھا۔۔ جہاں روز دوپہر کو جو نظریہ بنتا تھا۔۔۔ شام تک بدل جاتا تھا۔۔۔

“بے کرمے سے پیسے ہوتے ہیں۔۔۔ فیکے۔۔۔ نتیجہ نہیں نکلتا ان کا کچھ ۔۔ ہم نے تو ساری عمر یہی دیکھا ہے۔۔۔ بے برکتی بھری ہوتی ہے ان میں۔۔ “

مجھے اس گفتگو سے لگا۔۔۔ کہ لاش کہیں دور رہ گئی ہے۔۔ اور گفتگو غالب آ گئی ہے۔۔۔ بالا جرمن ایک کیمرہ لایا تھا اپنے ساتھ اس عید پے۔۔۔ اس میں سے جو تصویر آتی تھی اس کا یہ حال ہوتا تھا۔۔۔ تصویر سوہنی سنکھی اور پیچھے کا منظر غائب۔۔۔ اور میں سوچتا تھا۔۔۔ یہ کیسا کیمرہ ہے۔۔ جو بندے کو منظر سے کاٹ ہی دیتا ہے۔۔۔

ایسے ہی ایک لمحہ لیے۔۔ مولوی امیر الدین بھی منظر سے کٹ گیا اور ڈالرز کی تنخواہ نظر آنے لگی۔

روز صبح چک نمبر پچیس ایم ایل کے گورنمنٹ ہائی اسکول جاتے ہوئے میں اور میری سہراب کی سائیکل داسو کے کنارے کنارے گذرتے تھے۔۔ مجھے لگتا تھا جس طرح مجھے داسو کے کچے کنارے سے پیار ہے۔۔ ویسے ہی میری سہراب سائیکل کو بھی ہے۔۔ اور جو داسو کے پانی میں میرے لئے کشش ہے وہی اس کے لئےبھی ہے۔۔ میں وہاں سے جس وقت گذرتاتھا ۔۔ اتنی خاموشی ہوتی تھی کہ داسو کاپانی بوڑھے ہو کر چلنے کے باوجود آواز دیتاتھا۔۔ اور میں اپنی سائیکل کی گھنٹی بجا کر ان خوبصورت گیتوں میں سر اور تال ڈالتا تھا۔۔۔ وہاں آج اسی کچے کنارے پر مولوی امیر الدین کی لاش رکھ دی گئی تھی۔۔۔ ایکدم میرے ہاتھ نے ذرا سی گھنٹی بجا دی۔مولوی امیر الدین نے بتایا تھا۔۔۔۔ “لڑکے یہ ہاتھ پاؤں اور اعضا سارے صرف اس دنیا میں ہمارے غلام ہیں۔۔ آخرت میں انہوں نے ہماری بات نہیں سننی۔۔۔ سارا سچ بولنا ہے۔۔”

“فیکے۔۔میرا دل چاہا زور سے کہوں۔۔” میرے اختیار کے بغیر چلا ہے ہاتھ۔”۔ مگر چپ رہا۔۔ ۔ ۔ سارے لوگ مجھے گھورنے لگے۔۔۔ میں نے جلدی سے سائیکل کو سٹینڈ پر لگایا اور فیکے کی ریڑھی کے پاس کھڑا ہو گیا ۔۔

مولوی امیر الدین سے میرا پہلا تعارف اس وقت ہوا جب میں ملتان سے آوارہ گردی کا سرٹیفیکٹ پا کر واپس چک نمبر چوبیس ایم ایل میں پہنچا دیا گیا۔ گاؤں میں سکول تھا تو لیکن ابا جی کے خیال میں ایلیمنٹری سکول میں پڑھنا بیکار تھا۔۔ چناچہ میرا داخلہ ہائی سکول میں کروا دیا گیا۔۔ جہاں ماسٹر ماجد تھے۔۔ ان کا بانس کا ڈنڈا تھا۔۔۔ اور میرے علاوہ کئی اور بدقسمت تھے۔ ایک دن سکول سے واپس آیا تو والد صاحب نے بتایا کہ مسجد میں نئے مولوی صاحب آئے ہیں۔۔۔ تعارف کے لئے جانا ہے ۔۔ عصر مسجد میں پڑھنا۔۔۔ عصر کی نماز کے بعد کا وقت امی جی کی آنکھوں میں دھول جھونک کر باہر محلے کے لڑکوں کے ساتھ آوارہ گردی کا ہوتا تھا۔۔ جس میں ہمارا من پسند مشغلہ کسی بھی نئے بننے والے گھر کے سامنے پڑی ریت اور مٹی میں سانپوں کے گھر تلاش کرنے کا ہوتا تھا۔ وہ علیحدہ بات ہے کہ یہ بات اب سمجھ میں آئی کی سانپوں کے گھر ریت کے ڈھیروں میں نہیں۔۔۔ نفرت کے ملبوں میں ہوتے ہیں۔ ایسے میں کوئی نئی ملاقات طبیعت پر بڑی گراں گذری۔۔ لیکن والدصاحب کے حکم سے انکار کی تاب بھی نہ تھی۔۔

مولوی صاحب سے پہلی ملاقات بس ایک عام سی ملاقات تھی۔۔ جس میں انہوں نے نصیحت کی کہ نماز مسجد میں پڑھا کرو۔۔۔ اجر و ثواب میں اضافہ ہوتا ہے۔۔ نماز کے بعد امام صاحب سے ہاتھ ملانے سے اللہ پاک راضی ہوتے ہیں۔۔ بچوں کو اگلی صف میں بڑوں کو جگہ دینی چاہیے۔۔ پڑھائی پر توجہ کے ساتھ ساتھ دین پر بھی توجہ دینی چاہیے۔۔ صبح قرآن شریف کے سبق میں حاضری دینے سےسارا دن چہرہ نور سے منور رہتا ہے۔۔ اور اسی طرح کی کچھ اور باتیں۔۔۔

مولوی امیر الدین کی لاش ریڑھی پر لاد دی گئی تو یہ مختصر سا مجمع چھٹنا شروع ہو گیا۔۔ “ممتاز حسین ۔۔۔ تم جا کے ذرااپنے ابا جی کو خبر کر دو۔۔ کہ مولوی امیر الدین کا داسو نہر میں گر کے انتقال ہو گیا ہے۔۔ جلدی چلانا ذرا سائیکل۔۔۔” خدا بخش مگسی نے مجھے مخاطب کر کے کہا۔۔۔ “اور کوئی زیادہ تفصیلیں مت بتانا۔۔۔ بس کہہ دینا فوت ہو گیا ہے۔۔۔ سن لیا نا ؟ ”

داسو نہر سے میرا گاؤں دو میل پر تھا۔۔اور مجھے کسی بڑے نے پہلی دفعہ کہا تھا کہ سائیکل تیز چلانا۔۔ ورنہ جب سے سائیکل ملی تھی ہر وقت آرام سے چلانے کے مشورے ہی ملا کرتے تھے۔۔ حتی کہ مولوی امیر الدین نے تیسری چوتھی ملاقات میں مجھے کہا۔۔۔ ممتاز حسین ۔۔۔ دھول اڑاتے ہوئے جاتے ہو تم۔۔۔ نمازی مسجد میں آ رہے ہوتے ہیں۔۔ اگر ادب سے ایک طرف کھڑے نہیں ہو سکتے تو کم از کم آہستہ چلایا کرو۔۔۔ اللہ کے مہمان ہوتے ہیں نمازی ان کا احترام کرنا سیکھو۔۔۔

ابو دروازے سے کہیں جانے کے لیے باہر نکل رہے تھے۔۔ جب میری سائیکل دھول اڑاتی ہوئی۔۔ نمازی بے نمازی پر برابر دھول ڈالتی ہوئی گھرکے باہر پہنچی۔۔۔۔۔

“مولوی امیرالدین کا انتقال ہو گیا ابو۔۔۔” انتقال میرے گلے میں کہیں پھنسا ہوا باہر نکلا۔۔۔ سانس تو پہلے ہی پھول رہی تھی۔۔

“انتقال ہو گیا۔۔۔ پاگل ہے تو۔۔۔ وہ تو صبح نماز میں نہیں تھے۔۔۔ میں نے اس کی گھر والی سے پوچھا تو کہنے لگی۔۔۔ کہیں کام سے گئے ہیں۔۔ انتقال کیسے ہو گیا۔۔۔ “

“ابو داسو سے لاش ملی ان کی۔۔۔ جب میں سکول جا رہا تھا۔۔۔ داسو سے۔۔۔”

” اس کے پانیوں میں کوئی ڈوب نہیں سکتا۔۔۔ مولوی امیر الدین کو قتل کیا ہے کسی نے۔۔۔۔ ” ابو بڑبڑائے

اور یہ صبح سے دوسرا بیانیہ تھا جو مجھ تک پہنچا۔۔۔ مولوی امیر الدین کودنے سے پہلے ہی مر گیا ہو گا۔۔۔ یا اسے کسی نے قتل کر دیا ہو گا۔۔۔

ممتاز حسین ۔۔۔ جلدی جا ۔۔۔ اور مولوی امیر الدین کا چچیرا بھائی مسجد شہتوت والی کا امام ہے۔۔ اسے خبر کر۔۔۔ اور جلدی جائیں۔۔۔۔

جلدی جائیں۔۔۔ ابو کے منھ سے سن کے یقین نہ آیا۔۔۔ اور پھر مجھے اندازہ ہوا۔۔۔ کہ قوانین مستقل تو ہوتے ہیں لیکن ایک خاص زمانے کے لئے۔۔۔ ایک اور خاص زمانے میں ان کی ترتیب اور رنگ بدل جاتے ہیں۔۔۔

اپنے بھائی کو کہہ موٹر سائیکل نکال ذرا۔۔۔

میں ایک دفعہ دروازے کی طرف بھاگا۔۔ پھر ایک دفعہ سائیکل کی طرف۔۔۔ ترتیب نہیں بن پا رہی تھی۔۔ کہ پہلے کیا کرنا ہے۔۔ پھولے ہوئے سانس کے ساتھ بھائی کو بتایا جو ناشتہ کر رہے تھے۔۔۔ اور پھر باہر بھاگا کہ شہتوت والی مسجد پہنچوں۔۔

مولوی امیر الدین نے ۔۔۔ مسجد کا انتظام دنوں میں ہی کافی بہتر کر لیا۔۔۔ بچوں کو صبح قرآن شریف مسجد میں آ کر پڑھنے پر لگا دیا۔۔۔ بچیوں کے لئے بھی الگ انتظام کر لیا۔۔۔ اس سے پہلے صبح بڑوں کے لئے نماز فجر کے بعد درس قرآن کا سلسلہ شروع کر دیا۔۔ خواتین کے لئے نماز عصر سے پہلے دروس ہونے لگے۔۔ چندے کا ایک نظام بنا کر ایک کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا جو مسجد کے اخراجات کو بھی دیکھتی۔۔ اور ساتھ ہی ساتھ مسجد میں ہونے والی آئندہ تعمیرات کو بھی دیکھتی۔۔۔ ایک سال کے اندر مسجد کافی خوبصورت نظر آنے لگی۔۔۔ جس کےساتھ ہی مولوی امیر الدین کا گھر تھا۔۔ جس پر ٹاٹ کا ایک پردہ لٹکا ہوتا ۔۔۔ اور اس ٹاٹ کے پردے کو ہٹا کر اس کے بچے باہر کھیلنے نکلتے ۔۔ جن کی عمریں یہی کوئی دو برس سے لیکر آٹھ نو برس کے درمیان ہوں گی۔۔ مولوی امیر الدین بچوں کو سکول بھیجنے کے حق میں نہیں تھا۔ چناچہ وہ سارا دن وہیں ٹاٹ کے پردے کو ہٹا کر نکلتے۔۔ اور کھیلتے کوددتے واپس چلے جاتے۔۔۔

محلے کے بڑوں کو جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ مولوی امیر الدین کوئی عام سا مولوی نہیں ہے۔ بلکہ اس کی ذہنی سطح بلند تر ہے۔۔۔ اور وہ سطحی گفتگو سے احتراز کرتا ہے۔اور اس بات پے مہر اس وقت ثبت ہوئی جب ایک دن سود کے کاروبار پر گفتگو ہوئی۔۔ابو نے بتایا کہ مولوی امیر الدین نے ایسی نکتہ دانیاں بیان کی ہیں۔۔ کہ مسلم کمرشل بینک کا مینجر تائب ہو گیا ہے اور وہ اب نوکری چھوڑ رہا ہے۔۔۔ ۔۔ نتیجے کے طور پر مولوی امیر الدین کی عزت میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔۔ یہی وجہ تھی کہ اس کا چچیرا بھائی بھی اسی علاقے میں پیش امام بن گیا۔۔

چچیرے بھائی کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ نہیں تھا۔۔ بلکہ لوہے کا دروازہ تھا۔۔ جب میں نے اسےپیٹا تو یوں لگا کہ کوئی طوفان پیٹ رہا ہو ۔۔۔۔

“چھوٹے مولوی صاحب۔۔۔۔بڑے مولوی صاحب فوت ہو گئے۔۔۔” مجھے چھوٹے مولوی صاحب کے علاوہ کوئی اور لفظ نہیں سوجھا۔۔۔

“کون ۔۔۔ بڑے مولوی صاحب۔۔ ” چھوٹے مولوی صاحب ابھی نیندکےخمار میں تھے۔۔۔

بڑی مسجد والے ۔۔ مولوی امیر الدین۔۔۔

“ہایئں۔۔۔ وہ کیسے۔۔۔ “

“پتا نہیں۔۔۔۔ نہر سے لاش ملی ان کی۔۔”

“خس کم۔۔ جہاں پاک۔۔۔ اچھا ۔۔۔ تو چل اپنے گھر میں بڑی مسجد آتا ہوں۔۔ ”

مجھے اس وقت خس کم کا مطلب تو سمجھ نہیں آیا ۔۔۔ لیکن لہجے سے اتنا ضرور سمجھ آ گیا کہ یہ کوئی تیسرا بیانیہ ہے۔۔۔

میں نے واپس گھر جانے کی بجائے ۔۔ داسو کی طرف جانے کا فیصلہ کیا۔۔۔ جہاں سے میرے حساب سے مولوی امیر الدین کی لاش والی ریڑھی ابھی پہنچی نہیں ہو گی۔۔۔

مولوی امیرالدین کی تنخواہ ڈالرز میں ہی آتی تھی۔۔ لیکن کتنی آتی تھی۔ یہ کسی کو پتا نہیں تھا۔ ۔ نمبرداروں کے سب بیٹے کسی دوسرے ملک ہی رہتے تھے۔۔ مولوی امیر الدین کی تعیناتی کے کچھ عرصے بعد ایک بیٹا آیا اور مسجد کا انتظام دیکھ کر مولوی امیر الدین کی تنخواہ مقرر کر گیا۔۔ اس وقت مولوی امیر الدین نے آہستہ سے کہا۔۔ کہ “میرا خیال ہے۔۔ کہ باہر کے پیسوں میں بے برکتی ہوتی ہے۔۔۔ یہیں سے کوئی انتظام کرتے ہیں۔۔۔” لیکن بعد میں جب ڈالرز آنے لگے تو اس نے بھی دوبارہ کوئی بات نہیں کی۔۔ تاہم ہم نے دیکھا کہ مولوی امیر الدین کے کپڑے ٹیرا ویرا سے لٹھے میں شفٹ ہو گئے۔۔ اس کی بیوی نے نذر نیاز کا کھانا لینا بند کر دیا۔۔ اور بچے باہر گلی میں ننگ دھڑنگ کھیلنے کی بجائے ۔۔ بیٹ بال سے کھیلنے لگ گئے۔۔

میری سائیکل ابھی داسو سے ایک میل ہی تھی کہ فیکے کی ریڑھی آتی دکھائی دی۔۔۔ میں سائیکل سے اترا اور چپ چاپ ریڑھی کے پیچھے چلنے لگ گیا۔۔ جس پر مولوی امیر الدین کی لاش پڑی تھی۔۔ ابو اور بھائی بھی ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔۔۔

“چھوٹے مولوی صاحب کو بتا دیا؟” ابو نے آہستہ سے پوچھا۔۔” جی ابو۔۔۔ وہ آ رہے ہیں۔۔ “

“چوہدری منیر۔۔۔۔ “خدابخش مگسی نے ابو کو مخاطب کیا۔۔۔” یہ قتل لگتا نہیں ہے۔۔۔ مولوی امیر الدین کی کسی سے دشمنی نہیں تھی۔۔۔ کیوں بھئی حمید بابو۔۔ “خدا بخش مگسی نے آدھا سوال ابو سے اور آدھا بڑے بھیا سے کیا۔۔۔ کالج جانے کی وجہ سے ان کی گاؤں میں کافی عز ت تھی۔۔ اور ان کو مشورے میں شامل کرنا ضروری سمجھا جاتا تھا۔

“جی چاچا جی۔۔ لیکن آپ کو اندازہ ہے کہ مولوی صاحب بیٹی کو لے کے کچھ پریشان تھے کچھ دنوں سے۔ ۔ اس کی شادی کے بعد سے کچھ مسئلے چل رہے تھے۔۔ “

“نہیں نہیں وہ اپنے گھر میں “راضی خوشی” تھی۔۔ حمید بابو۔۔۔ “

“راضی خوشی “تو تھی ۔۔۔ چاچا جی۔۔ ” بھیا جان نے ایسے جواب دیا جیسے کوئی سگریٹ کا دھواں فضا میں اڑائے۔۔

لٹھے کے کپڑوں۔۔ تلے والی چپل۔۔ سے ایک نئی موٹر سائیکل تک کا سفر طے ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔۔ اور پھر مولوی امیر الدین کی بیٹی کی شادی بیچ میں آن پڑی۔۔

مولوی امیر الدین کی بیٹی کی شادی ایسے ہوئی جیسے شادیاں ہوتی ہیں۔ ایک دفعہ تو گاؤں والے سب پریشان ہوئے کہ مولوی امیرالدین کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے ۔لیکن سب کو اندازہ تھا کہ نمبرداروں کی طرف سے خرچہ پانی آتا تھا تو سب خاموش رہے۔

“تمہاری کوئی بات ہوئی تھی مولوی صاحب سے اس بارےمیں بابو؟ ”

جی چچا۔۔۔ بھیا پھر آہستہ سے بولے۔۔ “تم کچھ چھپا رہے ہو۔۔ ” خدا بخش نے بھیا کو گھورا۔۔۔

“چچا ۔۔ تدفین ہو لے۔۔۔ پھر بات کرتے ہیں۔۔ “

“نہیں تم ابھی بات کرو۔۔۔ “

“چچا ۔۔۔ تھوڑے اونچے گھر میں شادی کی تھی۔۔ تو وہ اب گاڑی مانگ رہے تھے۔۔۔ مولوی صاحب نے مجھے گھر بلایا تھا۔۔ کہ بینک والی گاڑی کا حساب کتاب کر کے انہیں بتاؤں۔۔ “

“بینک والی گاڑی۔۔۔۔ مطللب۔۔۔۔ سود والی گاڑی۔۔۔” خدا بخش مگسی کی آنکھیں پھیل گئیں۔۔۔

فیکے کی چلتی ہوئی ریڑھی۔۔۔ ایک دم رک گئی۔۔ اللہ یار سائیں۔۔ نے ایک دم ریڑھی کے پاس ہو کر مولوی کے منھ سے کپڑا ہٹا کر دیکھا۔۔۔ ابو بھی چلتے چلتے رک گئے۔۔

“حمید سوچ سمجھ کے بات کر۔۔ کیا کہہ رہا ہے۔۔” مجھے لگا ابو ابھی بھیا کو تھپڑ مار دیں گے۔۔ “

“ابو میں نے تو کہا تھا،، جنازہ ہو لینے دیں۔۔

” جنازہ کیسے ہو گا۔۔ اب۔۔۔ مولوی کا اپنا فتویٰ ہے۔۔۔ سود خور کا جنازہ ہم نہیں پڑھائیں گے۔۔ “خدا بخش مگسی کے چہرے پر پسینہ نظر آنے لگا۔۔

“فیکے تو ریڑھی چلا۔۔۔ چاچا۔۔ اس نے پوچھا تھا مجھ سے ۔۔۔ حساب لگوایا تھا۔۔ اس کا یہ مطلب نہیں۔۔۔ کہ سود پر گاڑی لے بھی لی تھی۔۔۔ ” خدا بخش مگسی نے خاموشی سے فیکے کو سر کا اشارہ کیا ۔۔ اور وہ ریڑھی چلانے لگ گیا۔۔

مسلم کمرشل بینک کے مینجر کے تائب ہونے کے بعد مولوی امیر الدین نے سود کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی ۔۔ جلد ہی مولوی امیرالدین سود کے خلاف ایک استعارہ بن گیا۔۔ اور آس پاس کے گاؤں والے بھی مولوی امیر الدین کو سودکے خلاف تقریر کرنے کے لئے بلانے لگے۔۔۔ ہمارے گاؤں میں تو مسلم کمرشل بینک کی واحد برانچ بند ہونے کو آگئی۔۔ اور سننے میں آیا۔۔ کہ بینک کے کوئی سینئرز نے مولوی امیرالدین سے ملنے کی کوشش بھی کی تا کہ کوئی درمیانی راہ نکالی جا سکے لیکن مولوی امیرالدین نے اسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سےجنگ سمجھتے ہوئے ملنے سے بھی انکار کر دیا ۔۔ اس طرح کی خبروں نے مولوی امیر الدین کی عزت وقدر میں اور اضافہ کر دیا۔۔۔ اور یہ بھی سننے میں آیا کہ نمبرداروں نے ادھر امریکہ میں مولوی صاحب سے سود کے خلاف تقریروں کی کیسٹس بھروا کے بھی منگوائی ہیں۔۔

باقی کا راستہ کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔۔ ریڑھی بھی ایسے چلتی رہی جیسے ۔۔ داسو کا پانی صبح سویرے بہتا تھا۔ خاموش اورلاتعلق ۔لیکن میرے دل میں عجیب و غریب سوال اٹھتے رہے۔۔ اور پھر خود ہی ان کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتا رہا۔ ۔کوئی پندرہ بیس منٹ کے بعد بڑی مسجد پہنچے تو ایک چھوٹا سا مجمع وہاں بھی موجود تھا۔۔

چھوٹے مولوی صاحب وہاں موجود تھے۔۔ ان کے ساتھ کچھ اہل علاقہ کھڑے تھے اور ان کے ارد گرد بہت سی خبریں پھیلی تھیں۔۔ وہی خبریں جو سوالوں کی شکل میں پورا راستہ میرے دل میں آتی رہیں۔۔ ہماری وہاں پہنچنے تک مجمع اس بات پر اتفاق رائے کر چکا تھا۔۔۔۔ کہ مولوی امیر الدین سود خور مولوی تھا۔ اور اس کا جنازہ جائز نہیں۔ کیونکہ مولوی کا اپنا فتوٰی اس پر موجود تھا۔

“کیوں بھئی باؤ حمید ۔۔ تو بتا نا۔۔۔ تجھ سے مشورے کرتا تھا مولوی سارے۔۔ نکی کی شادی پر۔۔ بینک سے قرضہ لیا کہ نہیں۔۔ اور ابھی اپنے جوائی کی فرمائش پر۔۔ بینک سے گاڑی لی کہ نہیں سود پر۔۔” چھوٹے مولوی صاحب کا غصہ دیدنی تھا۔

“چھوٹے مولوی صاحب۔۔ مجھے کوئی زیادہ تفصیل پتا نہیں۔۔ میں نے بس تنخواہ کا حساب لگا کر بتایا تھا کہ پیسے کتنی دیر میں اتریں گے۔۔ مجھے نہیں پتا کہ کہ قرض لیا یا نہیں۔۔ “

“تو اور وہ گاڑی کہاں سے آئی۔۔ جتنی تنخواہ تھی مولوی کی مجھے سب پتا ہے۔۔ میں نے سمجھایا تھا کہ اونچے گھر میں مت بیاہ لڑکی کو۔۔ لیکن اس نے بات نہیں سنی میری۔۔۔ اب مر گیا نہر میں کود کے۔۔ قرض ایسے تھوڑی اترتاہے”۔۔

میری آنکھوں کے آگے دھند سی چھانے لگی۔۔۔ دھند ہی دھند ۔میں نے دیکھا کہ والد صاحب۔۔ خدا بخش مگسی۔۔ اور ایک دو اور لوگ چھوٹے مولوی صاحب کو ایک طرف لے جا کر کوئی بات کر رہے ہیں۔۔ دھند ہی دھند میں ۔میں نے دیکھا کہ مولوی امیر الدین کی لاش داسو نہر کے کنارے سے ذرا آگے تیر رہی ہے۔۔۔ اور اس کا پیٹ باقی جسم سے علیحدہ محسوس ہو رہا ہے۔۔ اور وہیں میرا ایمان قمیص کے ساتھ ساتھ پانی میں ہلکورے لے رہا ہے۔۔ وہ سود کو حرام سمجھ کر باہر آتا۔۔ پھر مولوی امیرالدین کی قمیص کے ساتھ ہی اس کی بیٹی کے تصور کو باندھتا اور پھر پانی میں چلا جاتا۔۔۔

بڑوں کی چھوٹے مولوی صاھب کے ساتھ میٹنگ ابھی جاری تھی کہ ایک سفید مہران آ کر رکی۔۔ جس کی پچھلی سیٹ سے چادر لٹکائے ایک لڑکی نکلی۔۔۔ جس کو دو اور عورتوں نے پکڑ رکھا تھا۔۔ وہ چادر اور پردے کا لحاظ کئے بغیر بھاگی اور ریڑھی سے لپٹ گئی۔۔۔ مہران والے نے گاڑی دھول مٹی سے ہٹا کر تھوڑی دور کھڑی کی۔۔ اور آ کر کھڑا ہو گیا۔۔۔

اللہ یار سائیں نے بڑے بھائی کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور آہستہ سے بولا۔۔

“باؤ حمید۔۔۔ تو مولوی نے خود کشی نہیں کی۔۔ اسے مارا ہے کسی نے” ۔۔

“ہاں چاچا۔۔۔ “

میں نے دھند کے اندر سے جھانکا تو چھوٹے مولوی صاحب پگڑی باندھتے ہوئے جنازے کی صفیں سیدھی کرا رہے تھے۔۔۔

Published inآصف اقبالعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply