Skip to content

من پیاسا

عالمی افسانہ میلہ 2019

افسانہ نمبر 101

من پیاسا

شاز ملک ( فرانس )

محبت کی آنکھیں بلوری ہیں دل صندلی اور روح کستوری ہے۔۔۔

اس نے جھولے میں پڑے فرشتہ نما وجود کو دیکھ کر بے ساختہ کہا تو اقصی بے اختیار پوچھ بیٹھی ۔

میں کیسے مان لوں کہ ایک انسان کے وجود کا پیمانہ اتنا خوشبودار ہو سکتا ہے؟ریان نے مسکرا کر اسکی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ کر پوچھا خوشبو پاکیزگی کی علامت ہوتی ہے ناں ۔اقصی نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ مسکرا کر بولا ،کیا اللہ نے انسان کی مٹی کو توجہ سے نہیں گوندھا ،اللہ کی عنایت اور شوق بھری اک نگاہ نے انسان کی مٹی کو پاکیزہ کرکے محبت کی پاک خوشبو سے معطر کیا اسی لیے انسان جب دنیا میں جنم لیتا ہے تو بالکل پاک ہوتا ہے اور اس لیے مجھے یہ فرشتہ سا لگ رہا ہے پا کیزہ معصوم کنول ،زندگی نے جسے اس وقت کے گلدان میں سجا دیا ہے ،اب معلوم نہیں وقت کے گدلے پانی میں پڑے رہنے سے یہ کتنی دیر تازہ رہے گا ،،، اسکی بلوری آنکھوں کا رنگ کتنا بدل جائیگا دل کا صندل جذبات کی دھونی سے کتنی دیر مہکتا رہے گا اور روح کی تازگی گلابی موسموں سے زرد موسموں کو جھیلتے ہوئےکتنی دیرکستوری ر ہ پائیگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اقصی نے مسکرا کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور محبت سے جھولے میں پڑے ننھے اذان کو دیکھتے ہوئے بولی،ہماری بھرپور توجہ کی چھاؤں ان محبت کی بلوری آنکھوں کو زندگی کی دھوپ میں جلنے نہیں دے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہماری دعاؤں کا حصار اسکے جذبات اور احساسات کو روانی دیتے ہوئے دہکائے رکھے گا اور ہماری محبت سے دی ہوئی تربیت اسکی پاکیزہ روح کی نورانیت اور شفافیت کو بڑھائےگی اور اسکی کستوری مہک پائندہ رہے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریان نے حیرت اور محبت کےملے جلے جذبات سے اقصی کی طرف دیکھا اوراسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئےنم آنکھوں سے کہنے لگا،،،،،، اللہ اکبر

مجھے یقین تھا، اے مری ہمسفر، کہ تم صرف میری جسم آشنا رمز آشنا ہی نہیں روح آشنا بھی ہو تمہارے ان الفاظ نے میری روح میں سلگتے محبت کے صندل کو دہکا دیا ہے اب ایک سجدہ شکر مجھ پر واجب ہے اپنے رب کے حضور کہ اس نے مجھے ایمان کی دولت کے بعد نیک بیوی کی دولت عطا فرمائی ۔۔ اقصی نے مسکرا کر ریان کی طرف محبت بھری نظروں سے دیکھا اور کہنےلگی سجدہ شکر مجھ پر بھی تو واجب ہےچلیں ہم دونوں اپنے رب کی عطا کردہ نعمتوں اور رحمتوں برکتوں کا شکر ادا کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر طمانیت سے مسکرا اٹھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔

اقصی نے الماری سے جائےنماز نکال کر بچھا ئی، اقصی دو قدم اسکے پیچھے جائے نماز بچھا کر کھڑی ہو گئی اور دونوں اللہ اکبر کہہ کر نفل ادا کرنے لگے نم آنکھوں کے سجدے اپنا وجود رکھتے ہیں اور بلاشبہ یہ سجدے بارگاہِ الٰہی میں اپنا مقام رکھتے ہیں دونوں سجدے میں جھکے اپنے اللہ کے حضور گڑگڑارہے تھے،کہ ایک جھٹکا سا لگا اور وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا بے اختیار آنکھیں ملتے ہوئے اس نے سامنے پڑے خالی جھولے کی طرف دیکھا اور ایک سسکی اس کے دل سے نکلی اور آہ بن کر لبوں پر دم توڑ گئی اب ہوش آنے پر ایک ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے خود کو مخاطب کرتے ہوئےبولا کاش آدم و حوا سی محبت آدم کے بیٹے کے نصیب میں بھی لکھ دی جاتی تو محبت کی آنکھیں اندھی اور دل جلا نہ ہوتا اور روح مردہ کبھی نہ ہوتی ۔۔ آہ یہ زندہ دل میں دفن مردہ خواہشیں ،

اقصی اسکی آواز سن کر اٹھ گئی تھی اسکی نگاہ ریان کی نگاہوں کے تعاقب میں جھولے تک گئیں اور بے اختیار اسے اپنے اندر خالی پن کا احساس ہونے لگا اسکے دل میں ہوک سی اٹھی اس نے مدھم آواز میں ریان کو پکارا جو خالی جھولے پر نظریں جمائے گہری سوچ میں گم تھا ۔۔ اقصی یک ٹک اسکے چہرے پر پھیلی شکستہ مایوسی کو محسوس کرتے ہوئےکہنے لگی مجھے یقین ہے ہم مقدمہ جیت جائینگے۔ انشاء اللہ ۔۔۔۔۔۔۔

ریان نے اسکی طرف دیکھا اور کہنے لگا وہ ننھا فرشتہ اسکی بلوری آنکھیں اپنی چمک کھو تو نہیں بیٹھیں گی ناں جب وہ ہمیں دیکھ کر مسکراتا تھا تو اسکی بلوری آنکھوں

کے کانچ چمکنے لگتے تھے اقصی کی آنکھوں میں وہ کانچ جگمگانے لگے جو اس دنیا میں نایاب سے ہوچکے ہیںوہ ریان کے کندھے کو تھپتھپاتے ہوئے بولی وہ اپنی محبت کی صندلی خوشبو سے ہمارے دلوں کو اب بھی مہکا رہا ہے ناں اسکی کستوری روح اب بھی مہک رہی ہے ناں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریان نے اسے دیکھا اور نم آنکھوں سے اسکی طرف دیکھتے ہوئے بولا ہاں تم سچ کہتی ہو اقصی چلو آؤ آج رب سے مانگتے ہیں وہ ہماری خالی جھولی کو پھر سے اپنے کرم سے بھر دے دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور نئی امید دل میں جلا کر مسکرا دئیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ پر توکل رکھ کر جلائے گئے امیدوں کے دئیے یقین کی راہوں میں روشنی پھیلا کر بے یقینی کے سارے اندھیرے ختم کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریان اور اقصی کی شادی کو دس سال گزر گئے تھے مگر اولاد کی نعمت سے محرومی کے باوجود ان میں مثالی محبت تھی دونوں بے یقینی کی راہوں میں یقین کے دئیے جلا کر زندگی کی ویران اندھیری راہوں کو روشن کرتے رہتے ریان نے سب کے کہنے کے باوجود دوسری شادی نہیں کی ہر سوال کا اس کے پاس یہی جواب ہوتا اگر اولاد میرے مقدر میں لکھی ہو گی تو اللہ ضرور ہم پر کرم فرمائینگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو ماہ پہلے دونوں ایک سفر سے واپس آ رہے تھے کہ ان سے آگے جانے والی گاڑی کا ایکسیڈینٹ ہوا ٹرک والا ٹکر مار کر تیزی سے ٹرک بھگا لے گیا ریان نے جلدی سے 1122 کو فون کیا اور خود دوڑتا ہوا گاڑی کے پاس گیا پیچھے سے اور گاڑیاں بھی رکنے لگیں سب نے زور لگا کر الٹی ہوئی گاڑی کو سیدھا کیا فرنٹ سیٹ پر بیٹھے دو نفوس عورت اور مرد زندگی کی بازی ہار چکے تھے 4 سال کا ایک بچہ سیٹ کے نیچے گرا ہوا تھا اور بےبی سیٹ میں نومولود بچہ موجود سانسیں لے رہاتھا ریان نے فورا بچے کی سیٹ کو اٹھایا بچہ کسمسا رہا تھا اللہ کی قدرت کے اسے ایک ضرب بھی نہیں آئی تھی

اس اثنا میں پولیس اور ایمبولنس کی گاڑیاں آگئیں سب لوگ آہستہ آہستہ کھسکنے لگےکون پولیس اور گواہیوں کے چکر میں پڑے وہ اور اقصی رک گئے ریان نے بچہ اقصی کو دے دیا جو اسے سینے سے لپٹائے کھڑی تھی۔۔۔۔۔،، اللہ پر توکل رکھ کر جلائے گئے امیدوں کے دئیے یقین کی راہوں میں روشنی پھیلا کر بے یقینی کے سارے اندھیرے ختم کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریان اور اقصی کی شادی کو دس سال گزر گئے تھے مگر اولاد کی نعمت سے محرومی کے باوجود ان میں مثالی محبت تھی دونوں بے یقینی کی راہوں میں یقین کے دئیے جلا کر زندگی کی ویران اندھیری راہوں کو روشن کرتے رہتے ریان نے سب کے کہنے کے باوجود دوسری شادی نہیں کی ہر سوال کا اس کے پاس یہی جواب ہوتا اگر اولاد میرے مقدر میں لکھی ہو گی تو اللہ ضرور ہم پر کرم فرمائینگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو ماہ پہلے دونوں ایک سفر سے واپس آ رہے تھے کہ ان سے آگے جانے والی گاڑی کا ایکسیڈینٹ ہوا ٹرک والا ٹکر مار کر تیزی سے ٹرک بھگا لے گیا ریان نے جلدی سے 1122 کو فون کیا اور خود دوڑتا ہوا گاڑی کے پاس گیا پیچھے سے اور گاڑیاں بھی رکنے لگیں سب نے زور لگا کر الٹی ہوئی گاڑی کو سیدھا کیا فرنٹ سیٹ پر بیٹھے دو نفوس عورت اور مرد زندگی کی بازی ہار چکے تھے 4 سال کا ایک بچہ سیٹ کے نیچے گرا ہوا تھا اور بےبی سیٹ میں نومولود بچہ موجود سانسیں لے رہاتھا ریان نے فورا بچے کی سیٹ کو اٹھایا بچہ کسمسا رہا تھا اللہ کی قدرت کے اسے ایک ضرب بھی نہیں آئی تھی

اس اثنا میں پولیس اور ایمبولنس کی گاڑیاں آگئیں سب لوگ آہستہ آہستہ کھسکنے لگےکون پولیس اور گواہیوں کے چکر میں پڑے وہ اور اقصی رک گئے ریان نے بچہ اقصی کو دے دیا جو اسے سینے سے لپٹائے کھڑی تھی۔۔۔۔۔ آزاد کشمیر سے اسلام آباد آنے والے اس خاندان کے لواحقین کو فون گیا مگر

وہاں سے پتا چلا کہ دونوں نے محبت کی شادی کی تھی اور انکے خاندان والوں نے لاتعلقی کا اظہار کر دیا انکا کوئی نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسپکٹر نے انہیں اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا اب دونوں پولیس اسٹیشن میں بیٹھے تھے جبکہ معصوم بچہ بھوک کے احساس سے رونے لگا تھا جسے اقصیٰ پنے تئیں بانہوں کے جھولے میں لئے بہلانے میں مصروف تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسپکٹر نے انہیں دیکھا اورریان سے کہنے لگا بچے کو ایدھی سنٹر بھیجنا پڑے گا۔ ریان نے پہلی بار اقصی کے چہرے پر پھیلی مامتا کو محسوس کیا اور ہولے سے انسپکٹر سے کہنے لگا ہم دونوں اولاد کی نعمت سے محروم ہیں کیا ہم اس بچے کو گود لے سکتے ہیں۔ انسپکٹر نے چونک کر ریان کو دیکھا اور پھر بچے کو سینے سے لپٹائے اقصی کو دیکھا تو کچھ سوچ کر دھیرے سے مسکرا دیا اور بولا ضروری کاغذی کاروائی مکمل کر نے کے بعد میں بچہ آپ کی زیر پرورش کر دیتا ہوں آپ سائن کر دیں اور بچے کی پرورش کا ذمہ لے لیں آپکی عاقبت سنور جائیگی اور شاید میری بھی ۔۔ ریان اور اقصی نے خوشی کے اس ناقابل یقین لمحے میں ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور نم آنکھوں سے مسکرا دئیے ۔۔

محبت کی مہکار نے انکے کمرے میں پڑے جھولے میں بسیرا کر لیا تھا انہوں نے اس بچے کا نام آزان رکھا اور اس چھوٹے سے ننھے فرشتے نے انکی زندگی کو صندلیں بنا دیا تھا انہی دنوں جب وہ ازان کو اپنے نام سے آڈاپٹ کرنے کے کاغذی مرحلے سے گزر رہےتھے۔کہ انسپکٹر رضا کا فون آیا اور ریان کو تھانے بلوایا وہاں اسکے پاس ایک پٹھان گل خان بیٹھا تھا جس نے خود کو بچے کا چچا ظاہر کیا اور اپنےبھائی کے وارث کو واپس لینے کی خواہش ظاہر کی ریان کے انکار پر عدالت میں مقدمہ درج

کروا دیا پہلی ہی سنوائی پرعدالت نے بچے کو ایدھی سنٹر منتقل کرنے کا حکم دیا اور باقی کاروائی آگے بڑھانے کے لیے وکلاء کو احکامات جاری کیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان سے محبت کی خزاں روٹھ گئی اور وہ دیوانہ وار اس شخص کی منتیں کرنے لگےتھے گل خان کی جہاندیدہ نگاہیں انکی کمزوری کو بھانپ گئیں تھی اور اس نے سودے بازی کا فیصلہ کر لیا، ریان نےکہابھائی میں آپ سے کوئی غلام نہیں خرید رہا جو سودے بازی کروں آپ سمجھ کیوں نہیں رہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے اس بچے کو زندگی شاید ہماری سونی گود بھرنے کے لیے دی ہو کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ان تین جانوں کے ساتھ اللہ اسے بھی لے لیتا اسے زندگی شاید ممتا کی پیاس بجھانے کے لیے اقصیٰ کی گود کے سپرد کرتے ہوئے رب نے دی ہے مگرگل خان اڑ گیا کہ وہ منہ مانگی قیمت لے گا اور منہ مانگی قیمت کے علاوہ بھی اسکا تقاضہ ماہانہ خرچ پر رکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج عدالت میں فیصلے کا دن تھا ۔۔۔ریان اور اقصی بے چینی سے پہلو بدل رہے تھے کہ گل خان ابھی تک نہیں آیا تھا۔۔۔ اور پھر خبر آئی کہ چار دن پہلے آزاد کشمیر میں زلزلہ آنے سے بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا ہے اور گل خان کا خاندان صفحہ ہستی سے مٹ گیا تمام صورتحال دیکھتے ہوئے عدالت نے با ضابطہ طور پر اذان کو انکے حوالے کر دیا ریان کو اپنا خواب یاد آرہا تھا اور وہ اسی وقت دیکھا تھا جب آزاد کشمیر میں زلزلہ آیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سجدے میں جھکے سر اٹھے تو انکا کمرہ محبت کی اگر بتیوں کی صندلی مہک سے مہک رہا تھا محبت کا نور انکے گرد پھیلنے لگا تھا اور وہ زمین پر اتارے گئےآدم و حوا کی محبت کے امین بن گئے ۔۔ محبت کی کستوری مہک نے روحوں کو اپنے احاطے میں لے لیا تو جھولے میں پڑے ننھے فرشتے کے چہرے پر سوتے میں مسکان ابھر آئی تھی

Published inشاز ملکعالمی افسانہ فورم
0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x