عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 92
ملیچھ
تسنیم کوثر، دہلی، انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’سیبو_ ارے سیبو کہاں گیا رے؟‘‘ روپنی گوبر سے سنی ٹوکری آنگن کے بیچوں بیچ رکھ کر بیٹے کو پکار نے لگی، مالکن نے نا گواری سے اسے گھورا اور بولیں؛
” کاہے کو لے آتی ہے اس کو ۔۔۔۔۔ اور اگر لاتی ہے تو بیٹی کو بھی ساتھ لے آیا کر ،کولہے پر ٹانگے پھرے گی …پلو سا تو ہے رینگ گیا ہو گا یہیں کہیں‘‘۔ روپنی کو مالکن کی بات بری لگی ۔پلو سا بچہ دونوں پاؤں سے لاچار اور کمزور تھا مگر تھا تو اس کے جگر کا ٹکڑا نا اور پھر بیٹا دھن تھا ۔
’’ابھی نہ آئی تھی ناچ منڈلی اسی کے پیچھے پیچھے گیا ہو گا۔ ‘‘ بھات پساتی بھولیا باورچن بولی۔ روپنی بیٹے کو ڈھونڈنے ڈھول کی آواز کی سمت چلی گئی ۔
’’کس کا بیاہ ہے ری بھولیا ؟۔مالکن نے پوچھا۔
’’پورب ٹولہ کے مکھ لال کے بیٹی کا گونا ہے۔‘‘ بھولیا نے چولہا پھونکتے پھونکتے سر اٹھا کر کہا۔
’’ہائیں۔۔! کون ؟ اس چمپا کا؟ ارے ماتھا کیا پھر گیا ہے مکھ لال کا، توری کی بیل سی چمپا کا گونا کر رہا ہے ارے کھجّہ پودھا ابھی ہی پھل دے گا ۔‘‘ مالکن کچھ ناراضگی سے بولیں ۔
’’نا مالکن وہ ٹھیک ہی کر رہا ہے ہمرے چھاتی پر جو پانچ ٹھو پہاڑ دھرے ہیں وہ ہم ہی جانے ہیں۔ ‘‘ روپنی بولی ۔ جانے کب اُسارے پر آ بیٹھی تھی اور یہ کہتے ہوئے شفاف آنسو اس کے سیاہ گالوں پر ڈھلک آئے۔
“ارے کیوں گھبراتی ہے وقت آنے پر سب ٹھیک ہو جائے گا، یہ بتا سیبو ملا؟‘‘ ان کی بات بھی نہ ختم ہوئی تھی کہ روپنی کی سب سے چھوٹی بیٹی پرمیلا تاڑ کی سوکھی چھال گھسیٹتی آ پہنچی جس کے چوڑے سرے پر سیبو بیٹھا تھا۔ روپنی نے بیٹی کو پیٹھ پر دھموکہ لگایا اور بیٹے کی ناک صاف کرتے ہوئے بولی؛ “یہ ہی حرمجادی لے گئی تھی۔‘‘
’’اچھا، اچھا اب جا کام کر۔ تو ٹھہر پر میلا! مالکن نے کہا۔ انہوں نے کھجور کے پتے سے بنے بیتوے میں جو ہمہ وقت سیبو کے ہاتھ میں رہتا تھا دو مٹھی پھڑی ڈال کر اسے آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا؛
’’یہیں بیٹھا رہ خبردار جو ادھر ادھر گیا تو….‘‘ پھر انھوں نے پرمیلا کو اپنے پوتوں کے پھلئے دھونے کو دیئے اور بولیں کہ وہ انہیں اچھے سے دھو کر پھیلا دے ۔ پھر خود لہسن بھیگے تیل کی کٹوری اور کجلوٹی لئے پوتے کی مالش کرنے چل دیں ۔
اب موسم بدل رہا تھا خنکی بڑھ رہی تھی۔ مالکن نے چھوٹی بہو کو تاکید کی تھی کہ وہ بچے کو لے دھوپ میں بیٹھی رہا کرے ۔ گرچہ گاؤں کے رواج کے مطابق پہلا بچہ میکے میں ہوتا ہے اور بہو بچہ لے کر سال ڈیڑھ سال بعد سسرال جاتی ہے مگر جب چھوٹی بہو کے میکے والے اسے لینے آئے تو انھوں نے نہ کر دی اور جواز یہ دیا کہ لے جانا تھا تو دو چار مہینے پہلے لے جاتے یہ کیا کہ بچہ ہونے کو دو چار دن رہ گئے ہیں اور چلے آئے منہ اُٹھائے مگر سچ تو یہ ہے کہ وہ اپنی بہو اور ہونے والے بچے کو اپنی نظروں سے دور نہیں کرنا چاہتی تھیں کیونکہ بڑے بیٹے نے شہر میں پڑھائی کے دوران ہی شادی کر لی تھی اور شہر کا ہی ہو کر رہ گیا تھا۔ گاؤں آنے کا نام نہ لیتا، اب تو تین بچے تھے اس کے، ماں کا دل کچوٹتا رہتا سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے یاد کیا کرتی تھیں۔ بیٹیاں چونکہ اپنی گرہستی میں مگن تھیں اس لئے کم ہی آتی تھیں، حاجی صاحب بیوی کی حالت سمجھتے تھے اس لئے انھوں نے بہو کے مائیکے والوں کو سمجھا بجھا کر لوٹا دیا تھا۔
دوپہر ہو چکی تھی، حاجی صاحب کھانا کھا رہے تھے۔ مالکن بیٹھی پنکھا جھل رہی تھیں۔
’’کل تُکا رام آیا ہے شہر سے، بہو بیمار ہے۔۔ بتا رہا تھا۔‘‘ وہ نوالہ منہ میں ڈال کر چباتے ہوئے بولے۔
’’ہے تو ہے بیمار ہمیں کیا؟” مالکن قدر ے غصہ سے بولیں ۔
” نا…نا ایسا نہیں کہتے وہ تمہارے پوتے پوتیوں کی ماں ہے ۔‘‘ حاجی صاحب نے بہو کے حق میں کہا ۔
’’آئے ہائے ان شہر والوں کی تو بات ہی نہ کریں۔ ہمارے بیٹے کو ہم سے چھڑا دیا۔ ‘‘ مالکن کی آنکھیں بھر آئیں ۔
’’سارا قصور بہو کا تو نہیں۔ ‘‘ انہوں نے سمجھایا۔
’’رہنے بھی دیجئے ان شہریوں کے تریا چرتر آپ کیا جانیں؟‘‘ وہ تو جیسے بھری بیٹھی تھیں۔
’’تو تم جانو ہو؟‘‘حاجی صاحب نے مذاقاً کہا تو وہ بولیں؛
’’تین سال ہونے کو آئے اب تو عید بقر عید پر بھی گاؤں نہیں آتے۔‘‘ وہ اداس ہو گئیں۔
“تو تم ہی آؤ نا۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے بولے ۔
’’لو بھئی ہم کیوں پاک صاف دھرتی کو چھوڑ کر گندگی میں جائیں ۔‘‘ وہ پاؤں موڑ کر کھاٹ پر بیٹھے ہوئے بولیں ۔
’’اری نیک بخت تو بہت بھولی ہے۔ گاؤں کب محفوظ ہیں۔ تمہیں کیا پتہ شہر کی گندی سیاست کے جراثیم اب یہاں بھی پنپنے لگے ہیں۔ ‘‘ وہ ٹھنڈی سانس بھر تے ہوئے بولے۔
کچھ بھی ہو کم از کم مذہب کے نام پر دنگے تو نہیں ہوتے نا یہاں۔ِِ وہ گلاس میں پانی ڈالتے ہوئے بولیں ۔
’’آخر کب تک محفوظ رہ سکیں گے یہ گاؤں۔ ہوائیں بڑی مسموم ہیں ۔‘‘ انھوں نے گمبھیر لہجے میں کہا۔
“کیا بات ہے؟ بڑے پریشان لگ رہے ہیں۔‘‘ وہ فکر مند ہو گئیں۔
“داؤد کی ماں! ملک کی حالات اچھے نہیں، ارے اخبار یا ریڈیو سے تمہارا کوئی واسطہ ہو تب نہ پتہ چلے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے ۔‘‘ وہ ہاتھ دھوتے ہوئے بولے۔
’’نا بھئی، اگر ریڈیو سن کر اور اخبار پڑھ کر راتوں کی نیند اور دن کا چین حرام ہو جائے تو پھر جاہل ہی رہنا بہتر۔‘‘
حاجی صاحب ان کی سنجیدگی دیکھ کر ہنسنے لگے۔
اگلے روز دن چڑھے تک روپنی کا پتہ نہ پا کر مالکن کو فکر ہوئی ۔
” ارے بھولیا یہ روپنی کاہے نہیں آئی ؟ دوار بیٹھک جھاڑنے بہارنے کو باقی ہے ، گوبر گئوہال میں دھرا ہے، آج سب کچھ گندا سندا رہے گا کیا؟‘‘ انہوں نے باورچن سے پوچھا ۔
’’پوا بیچنے گوپال کی ماں آئی تھی نا وہ بتائی کے کولہے میں شیشے کا ٹکڑا گر گیا ہے ۔ سارا خاندان اسی میں لگا ہے ۔‘‘ بھولیا نے بتایا۔
’’اے ہے مفلسی میں آٹا گیلا، اس کمبخت سیبو کے بچے کو چین بھی تو نہیں،گھسٹتا پھرتا ہے چارو ں طرف ۔ اب یہ نئی مصیبت مول لے لی، غریب ماں کیا کیا کرے۔۔۔۔۔ جانے کیا ہو گا اس بے پیندے کے لوٹے کا ۔‘‘وہ بُدبُداتی ہوئی نل کی طرف چلی گئیں۔
یوں تو روپنی کئی بار بول چکی تھی کہ اب کے کارتک ماہ میں وہ سیبو کے لئے پہئے والی کرسی ضرور لے لے گی مگر کئی کارتک گزر گئے ، وہ ناکام رہی۔ دونوں پاؤں سے معذور اس کا چھ سال کا بیٹا سیبو جب زمین پر گھسیٹتے ہوئے زخمی ہو جاتا تو وہ رو پڑتی۔ وہ اپنی قسمت کو کوستی رہتی ۔ دراصل اس کے یہاں جب پانچویں لڑکی کاجنم ہوا تو اس کے پتی سکھدیوا کا جی کھٹا ہو گیا ، ہر دم جھنجھلایا رہتا، کام دھام بھی چھوڑ بیٹھا تھا ۔ بچیوں کے ساتھ ساتھ کبھی کبھار روپنی کو بھی دُھن کر رکھ دیتا ۔بالاخر چھوٹکی کا سال پورا ہوتے ہی سیبو کو روپنی کے شکم میں چھوڑ کر جانے کہاں بھاگ گیا۔ پھر لوٹ کر نہ آیا جب سیبو کا جنم ہوا تو ٹانگوں کی جگہ گوشت کے ننھے ننھے لوتھڑے تھے۔ پھر بھی روپنی بیٹا دھن پا کر پھولی نہ سمائی تھی ۔ اس کے خیال میں دھن لُولا ہو یا لنگڑا، ہوتا تو دھن ہی ہے نا! اس نے اپنی لڑکیوں کو بانس کی ٹوکریاں اور سوپ بنانے کے لئے گھر بٹھا دیا اور خود حاجی صاحب کا گئو ہال سنبھال لیا۔ حالانکہ سکھدیوا چندر موہن بابو کے یہاں کام کرتا تھا مگر ان کے یہاں تو پینے کے لئے پانی بھی ہریجن ٹولہ سے لانا پڑتا تھا اور تو اور ڈیوڑھی لانگھنے تک کی اجازت نہ تھی اسے۔ بابو جی تو ایک بانس دور کھڑے ہو کر حکم سنایا کرتے تھے گئو ہال یا سامنے کی باڑی کے علاوہ اسے ادھر ادھر جانے کی ممانعت تھی ۔ کبھی کبھی تو سارادن بھوکے پیاسے رہ کر کام کرنا پڑتا تھا ۔ روپنی اس طرح کی پابندیوں سے اوب چکی تھی اور اس کا اکلوتا جگر کا ٹکڑا بھلا ایک جگہ ٹکنے و الا کب تھا۔
اگلے دن روپنی آئی تو مالکن کے پیچھے پڑ گئی کہ حاجی صاحب سے ایک تعویز لے کر دیں۔ پہلے بھی وہ کئی بار بول چکی تھی کہ اگر حاجی صاحب ایک تعویز دے دیتے تو سیبو ضرور ٹھیک ہو جاتا ۔ آج بھی اس نے بڑی لجاجت سے اپنی بات دہرائی تھی؛
’’اری روپنی تمہارے دماغ میں تو گوبر بھرا ہے، پچھلے برس تو نے’ چتھٹریا پیر‘ کے نام پر پیڑ میں لتّا باندھ کر منت مانی، پھر اوجھا سے بھی جھڑوایا اور تو اور تو نے تو چوری کا پرساد تک سیبو کو کھلا دیا پر ہوا کچھ؟” مالکن نرم لہجے میں بولیں۔
’’نا مالکن ایک ٹھوتا بیج مل جاتا تو سیبو جرور ٹھیک ہو جاتا۔‘‘ اس نے پھر اپنی بات دہرائی۔
’’اری پگلی ! سیبو کا علاج صرف نقلی ٹانگیں لگا کر ہی ہو سکتا ہے ۔ یہ بات ہم ہی نہیں حاجی صاحب بھی کہہ رہے تھے ۔ اگر نقلی ٹانگیں نہیں تو اس کے لئے پہئے والی کرسی بھی ٹھیک رہے گی ۔‘‘ انھوں نے اسے سمجھایا۔
’’اتنا روپیہ ہم کہاں سے لائیں گے مالکن ؟‘‘ وہ رو پڑی۔
” اچھا اچھا تو کوشش کر جو روپیہ گھٹے گا ہم دے دیں گے ۔اب جا کام کر ۔‘‘
روپنی نے انہیں تشکر آمیز نظروں سے دیکھا اور ٹوکری اٹھا کر گو ہال کی طرف چلی گئی ۔
تنخواہ کے نام پر یوں تو اگہن اور بھادو ں مہینوں میں روپنی کو خاصی آگی یعنی تیار فصلوں کا بیسواں حصہ مل جایا کرتا تھا مگر پانچ جوان ہوتی لڑکیوں کی ماں، کمر سیدھی نہ کر پاتی تھی ۔ وہ اکثر کہتی کہ اگر سیبو ٹھیک رہتا تو سارے دلدّر دور ہو جاتے۔
اس سال پٹ سن کی فصل اچھی ہوئی تھی ۔ دام خوب اونچے تھے۔ حاجی صاحب کا چھوٹا لڑکا پکا مکان بنوا رہا تھا۔ اسی مناسبت سے روپنی کو بھی فاضل آمدنی ہوئی تھی وہ بہت خوش تھی کہ اب وہ اپنے سیبو کو پہئے والی کرسی ضرور لے کر دے گی ۔
آخر طے ہو ہی گیا کہ پہئے والی سائیکل آئے گی۔ جو رقم گھٹی وہ مالکن نے دے دی ۔حاجی صاحب کی صلاح تھی کہ روپنی سیدھے پورنیہ شہر چلی جائے وہاں صدر اسپتال کے آس پاس پہئے والی کرسی ضرور مل جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیل گاڑی پٹ سن لے گلاب باغ جا رہی ہے وہ شام تک کرسی لے کر وہیں واپس آ جائے اور خالی گاڑی پر وہاں سے گھر لوٹ آئے۔
اگلی صبح دھند میں ڈوبی ہوئی تھی، سورج ابھی پھوس کے گھروں کی کگر کی پرلی طرف تھا، چرواہے بھینس چرا کر گنگناتے ہوئے لوٹ رہے تھے چڑیوں کی چہچہاہٹ تال دے رہی تھی ، لگ بھگ سب کچھ معمول پر تھا مگر روپنی کو آج بہت جلدی تھی، اسے گاؤں سے سات کوس دور پورنیہ شہر جانا تھا ۔
’’روپنی نہیں آئی؟ ‘‘حاجی صاحب نے جلاون لے جاتی بھولیا سے پوچھا ۔’’باؤ صاحب وہ تو آج نہیں آئے گی ،شہر جو گئی ہے، قصبہ تک تو پیدل ہی جانا تھا سو بھورے بھور نکل گئی ہو گی۔” بھولیا نے تفصیل سے بتایا۔
اچانک دوڑتے بھاگتے شور مچاتے بچے آنگن میں گھستے چلے گئے،’’ حجین دادی ….حجین دادی….چاچا چاچی رکشہ پر آ رہے ہیں ۔‘‘ وہ سب چلائے ۔
بچے مالکن کو حاجی صاحب کی مناسبت سے حجین دادی کہا کرتے تھے گرچہ انھوں نے حج نہیں کیا تھا۔ ہنگامہ سن کر وہ گھبرا گئیں۔
’’ہائیں ،کیا؟ کیا؟‘‘ ان کے منہ سے نکلا۔ حاجی صاحب اندر آئے اور بولے۔ ’’ارے داؤد کی ماں سنبھال خود کو شہر سے بیٹا بہو اور بچے آ رہے ہیں ۔‘‘
جھٹ پٹ اسارے میں بستر لگ گیا ۔ بدھنوں میں پانی بھر بھر کر کنارے رکھا گیا۔ بھولیا کو پراٹھے اور مرغ کا سالن بنانے کی ہدایت دے کر مالکن ڈیوڑھی میں آ کر کھڑی ہوئیں، ہاتھوں کا چھجہ آنکھوں پر رکھ کر سامنے نظر دوڑائی۔ ایک رکشے پر بہو اور بچے دوسرے پر بیٹا اور سامان تھا۔ ان کی دور سے بلائیں لیتی آنکھیں بھر آئیں۔
ان سب کے آتے ہی آس پاس کے بڑے اور بچوں سے آنگن بھر گیا ۔ مالکن نے سب میں مٹھائی تقسیم کی وہ بے حد خوش تھیں، انھوں نے تینوں بچوں کو سمیٹ رکھا تھا ۔ وہ چھوٹی چارپائی پر بیٹھی تھی کبھی ایک کو گود میں لیتیں، کبھی دوسرے کو ، بچے ان کے امڈتے پیار سے جان چھڑانا چاہ رہے تھے پر وہ چھوڑنے کو تیار نہیں تھیں۔ حاجی صاحب بھی قریب ہی مونڈھے پر بیٹھے تھے ، داؤد ہاتھ منہ دھو چکا تھا ۔
’’اچھا کیا ۔۔بیٹا ۔جو گاؤں چلے آئے ، ہمیں تو ہر وقت تم لوگوں کی فکر لگی رہتی تھی ،حاجی صاحب بیٹے سے بولے۔
’’شہر کی حالت تو بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے بابا۔‘‘ وہ گمبھیر لہجے میں بولا ۔
’’ابھی کی کیا خبر ہے بیٹا؟ ‘‘حاجی صاحب نے فکر مندی سے پوچھا۔
”بابا فر قہ واریت کا پلیگ گھر گھر پھیل گیا ہے ہر آدمی اپنے گھر کو قلعہ سمجھ کر اس میں محصور ہے اور اپنی اپنی گلٹی کاانتظارکر رہا ہے ۔ شہر میں غیر معینہ مدت کے لئے کرفیو لگنے کا امکان تھا اس لئے گاؤں چلے آئے کم سے کم یہاں ابھی فضا ٹھیک ہے۔” داؤد اداسی سے بولا ۔
“تم تو جانتے ہو بیٹا کچی مٹی میں بڑی جلدی شگاف پڑتے ہیں۔ کب تک بچے گی”۔حاجی صاحب ہاتھ ملتے ہوئے بولے۔
ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھی کہ روپنی ہانپتی کانپتی آپہنچی۔’’بڑکا باؤ آئے ہیں ارے ہم کو بھی دیکھنے دو۔ ‘‘ اس نے لڑ کے بالوں کو پرے ہٹاتے ہوئے کہا۔
’’اری روپنی تو کب آئی ؟ کرسی لائی؟‘‘مالکن اسے دیکھتے ہی بولیں ۔
’’کہاں مالکن ہم تو آدھے سے زیادہ رستے جا چکے تھے ۔ ایک ٹھو پنڈال لگا دیکھا تو جھانکنے چلے گئے۔ وہاں تو ہمرے ٹولہ کے بہت سے لوگ تھے ۔ وہی سب بولے شہر بند ہے گاڑی چھکڑا سب بند ،وہ کا بولا جاہے کرفو لگا ہے ۔ پھر وہاں بھاسن ہووے لگا تو ہم بھی بیٹھ گئے۔‘‘
’’او، تو ۔ تُوخالی ہاتھ ہی لو ٹ آئی، مالکن نے بیچ میں اسے ٹوکا۔ ’’سنئے تو مالکن ،ایک ٹھو آدمی بولا کہ دھرم کرم کا پالن بہت جروری ہے،پُنیہ کے کام کے لئے چندا دینا دھرم ہے اور ملیچھوں کا صفایا کرنا کرم ہے، جو آدمی دو سو روپئے سے اوپر چندا دے گا اس کو ایک ٹھو وردان ملے گا ۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ چپ ہو گئی۔ سب لوگ سانس روکے اس کی کتھا سن رہے تھے۔پھر…..پھر ۔۔۔کئی آوازیں ابھریں۔
” آپ تو جانتی ہیں مالکن ہم سیبو کے لئے کتنے چنتت رہتے ہیں ۔ سو ہم تین سو رپئے چندا دے کر ایک ٹھو وردان لے لئے۔‘‘ وہ چپ ہو گئی ۔
’’ہائے ری قسمت تین سو روپیہ لُٹا کر کیا مانگ لیا تو نے ۔‘‘مالکن پیشانی پر ہاتھ مار کر بولیں۔
’’ہم مانگے کہ اگلے جنم میں ہمرے سیبو کے ہاتھ میں گوبر کی ٹوکری کے بجائے آرتی کی تھالی ہوا دروہ امرناتھ کی یاترا کرے ۔‘‘ آس پاس کا سناٹا اور گہرا ہوگیا ۔ پھر وہ حاجی صاحب کی طرف گھوم کر بولی۔
’’دھرم تو ہم نبھا لئے پر کرم سمجھ میں نہیں آیا، یہ ملیچھ کون ہووے ہے حاجی صاحیب؟‘
Urdu short stories and writers
Be First to Comment