عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر 78 ۔
” معذور ”
افسانہ نگار ۔ قاسم کیانی ۔۔ راولپنڈی
کمرے میں وال کلاک کی ٹک ٹک جاری تھی اور وہ مسلسل وال کلاک کو گھورے جا رہا تھا۔ بظاہر تو اسکا سارا دھیان وال کلاک پہ تھا مگر اسکا زہن کسی اور دنیا میں گردش کر رہا تھا۔ کتنی دیر وہ وال کلاک کو دیکھتا رہا پھر ناجانے کیا سوچا تو اسے جھٹکا لگا اور آنکھوں سے آنسو نکل کر اسکے گالوں پہ پھیل گئے۔ جب جسم کسی چیز کا اہل نہ ہو اور زہن اس چیز کی طلب کرے تو زندگی مشکلات کا گھر بن جاتی ہے۔
اس نے وہیل چیئر کا پہیہ گھمایا اور خود کو کھڑکی کے نزدیک کر لیا۔ باہر بارش ہو رہی تھی اور سڑک پہ دور تک کوئی جنس دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ بادلوں کو برستا دیکھ کر اسکا دل افسردہ سا ہو گیا اور سمبرین کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ اور وہ ان یادوں میں کھو گیا۔
” ارشد میرا دل کرتا ہے۔ ان پہاڑوں کے دامن میں ایک گھر بنا لوں اور ہم دونوں شادی کے بعد ہمیشہ یہاں ہی رہیں ۔ یہ دریا جو پہاڑوں کے ساتھ بہہ رہا ہے روزانہ ہم اسکے کنارے پہ آکر بیٹھ جائیں اور ہمارے پاوں پانی میں ڈوبے ہوں ۔ ہم مزے سے ایک دوسرے پر پانی پھینکا کریں۔ خاموشی کا لطف اٹھائیں۔ ہم یہاں صرف ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں۔ وہ دیکھو نیچے دریا بہتا ہوا جس طرح رواں ہے۔ اسی طرح ہماری محبت میں بھی روانی رہے۔””
ابھی وہ اتنا ہی کہہ پائی تھی کہ اس کا پاوں پھسلا اور وہ پہاڑ کی چوٹی سے لڑھکتی ہوئی گہری کھائی میں جا گری ۔ ارشد پاس کھڑا حیرانی میں گم اسکی چیخ سنتا ہی رہ گیا۔ اس میں اتنی ہمت بھی نہ تھی کہ آگے بڑھ کر اسکو دیکھ سکے ۔ سمبرین کی چیخ اور اسکی زوردار ارشد پکارنے کی آواز اسکے سماعتوں مین تھم سی گئی۔ وہ سکتے میں چلا گیا اور بے ہوش ہو گیا۔
جب ہسپتال میں ہوش آیا تو باوجود کوشش کے وہ بستر سے اٹھ نہیں سکا۔ اور سمبرین کی یادیں اسکی آنکھوں میں نمی لیے دفن ہو کر رہ گئیں۔
آج ایک مدت بعد اس نے دوبارہ کھڑکی سے باہر بادلوں کو جھومتے ہوئے برستے دیکھا تو ان گزرے لمحوں کی یاد اسے بے جان کر گئی۔ وہ رونا چاہ رہا تھا مگر آنسو پلکوں میں رک گئے تھے۔
اسکا دھیان اچانک تب ٹوٹا جب اسے کندھوں پہ بوجھ محسوس ہوا ” ارشد بھائی ، آپکو معلوم ہے کل آپکا ہسپتال میں کون چیک اپ کرے گا؟”
عادل جو ارشد کا چھوٹا بھائی تھااچانک دبے پاوں کمرے میں داخل ہوا اور ارشد کے کندھوں پہ ہاتھ رکھتے ہوئے ایک ہی سانس میں بول گیا۔
عادل جانتا تھا کہ سمبرین کے جانے کے بعد ارشد کتنا اکیلا ہو گیا ہے اور زندگی سے کس قدر مایوس بھی۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے وہ دن میں کئی چکر بھائی کے کمرے کے لگاتا اور ادھر ادھر کی باتیں کرتا۔
” کون چیک اپ کرے گا”
” ارے یار ڈاکٹر عمران ۔۔۔۔۔۔۔۔ لندن سے آیا ہوا ہے اسی سے اپائنٹمنٹ لیکر آیا ہوں”
” تمھیں معلوم ہے میں ٹھیک نہیں ہونگا تو پھر کیوں پیسہ فضول ضائع کر رہے ہو؟” ارشد نے جھنجھلا کر جواب دیا۔
” ان شاء اللہ آپ ٹھیک ہو جائیں گے اور مجھے پورا یقین ہے۔” عادل نے متانت سے کہا۔
” میرے یقین یا تمہارے یقین کرنے سے کبھی سچ تبدیل نہیں ہو گا۔ یہ یقین ہی ہے جو سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ میں تبدیل کر دیتا ہے۔ کیا ہم اتنے ڈاکٹروں کے پاس بغیر کسی یقین کے جاتے رہے۔ یہ یقین ہی ہے جو ہمیں ادھر ادھر ٹھوکریں کھانے پہ مجبور کرتا ہے۔”
” آپ سے بحث میں کوئی جیتا ہے۔ جو میں مزید کوئی بات کر کے پھنس جاوں۔ میں نے ڈرائیور سے کہہ دیا ہے۔ وہ آپکو کل ڈاکٹر کی طرف لے جائے گا۔”
اتنا کہہ کر عادل کمرے سے غائب ہو گیا۔
ارشد نے دوبارہ کھڑکی سے باہر دیکھا تو اب وہ پہلے والے بادل تھے نہ بارش ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عمران سے طے کردہ وقت پہ ارشد کو ہسپتال لے جایا گیا۔ آج بھی موسم ابر آلود تھا۔ بادل اور کالی گھٹائیں آسمان پہ رقص کر رہے تھے۔ ارشد ہمیشہ کی طرح مایوس تھا کہ ڈاکٹر عمران بھی دوسرے ڈاکٹرز کی طرح بار بار چیک اپ کیلئے بلائے گا اور آخر میں یہی الفاط سننے کو ملیں گے ان شاء اللہ مریض جلد ٹھیک ہو جائے گا۔
ہسپتال میں داخل ہوتے ہوئے ارشد نے ایک بچی کی طرف دیکھا جسکی آنکھیں سمبرین کی طرح نیلی اور بال بھورے تھے چہرے کا رنگ سرخی مائل، وہ ایک لمحے کیلئے سوچ میں پڑ گیا کہ اگر اسکی اور سمبرین کی اولاد ہوتی تو ایسی ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بچی کو ہنوز گھور رہا تھا کہ بچی نے ہائے کہہ کر ہاتھ ہلایا تو ارشد نے جواباً مسکراتے ہوئے ہائے کہہ دیا۔
” آپکو کیا ہوا انکل ؟”
ننھی بچی نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
” میں چل نہیں سکتا اسلئے ویل چیئر پہ ہوں”
ارشد نے جواب دیا۔
بچی اتنا پوچھ کر اپنے والد کے ساتھ آگے چلی گئی اور ارشد کی نگائیں اسکا تعاقب کرتی رہیں مگر وہ بھیڑ میں گم ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکا ڈرائیور اسے ٖڈاکٹر عمران کے کمرے میں چھوڑ کر چلا گیا۔ کمرے میں اسکے علاوہ کوئی مریض نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر عمران کمرے میں داخل ہوا۔
ڈاکٹر عمران شکل سے سلجھا ہوا اور تجربے کار لگ رہا تھا۔ اسکے چہرے پہ سنجیدگی تھی۔
” کیا حال ہے جوان؟” ڈاکٹر نے آتے ہی پوچھا۔
” ٹھیک ہوں” ارشد نے جواب دیا۔
“تو پھر ادھر کیسے آگئے” اتنا کہہ کر ڈاکٹر عمران ہنس پڑا اور ارشد کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئی۔ ڈاکٹر عمران چیک اپ کرنے ہی لگ تھا کہ باہر سے چیخنے چلانے کی آوازیں آنے لگی۔ وہ ارشد کو چھوڑ کر باہر چلا گیا۔
جیسے ہی دروازہ کھلا باہر سے اونچی آوازیں آنے لگی ” آگ لگ گئی ، آگ لگ گئی اور ایک ہجوم مرکزی دروازے کی طرف بھاگتا دکھائی دیا۔
“راستہ دو راستہ دو
بھاگو بھاگو ”
رونے چیخنے اور چلانے کی آواز آرہی تھی ہجوم میں ڈاکٹر عمران کہیں گم ہو گیا ارشد وہیل چیئر کا پہیا گھما کر تھوڑا آگے ہوا تو دیکھا لوگ کا ایک ہجوم باہر بھاگ رہا تھا۔ ایک شخص اچانک رکا اور ارشد سے کہا۔
“بھاگو ورنہ مر جاو گے” یہ کہہ کر وہ بھی بھاگ کھڑا ہوا۔
اسکے بعد تھوڑا سا دھواں کمرے مین داخل ہوا تو ارشد کے اوسان خطا ہو گئے۔ ایک دم گھبراہٹ سی ہونے لگی۔ چہرے پہ پسینہ آگیا اور ایک آواز اسکے کانوں میں گونجنے لگی۔
” بھاگو بھاگو ورنہ مر جاو گے”!!
وہ اپنے حواس کھو بیٹھا اور اسے کچھ سمجھ نہ آیا کیا کرے کمرے میں دھواں مزید ببھرتا جا
رہا تھا ۔ وہ بری طرح کھانسنے لگا۔ کھانستے ہوئے اسے کچھ سمجھ نہیں آئی اور وہ وہیل چیئر سے اٹھ کھڑا ہوا اور باہر نکل گیا۔
باہر نکل کر دیکھا تو ایک ہجوم چیختا ہوا بیرونی دروازے کی طرف بھاگ رہا تھا بچوں عورتوں اور بوڑھوں کو روندتے ہوئے جوان آگے بڑھ رہے تھے وہ بھی کسی سے پیچھے نہ رہا اور دھکے دیتا ہوا آگے آگے بھاگتا رہا۔
جب ہسپتال سے باہر نکل آیا تو باہر میدان میں آکر اکھڑی ہوئی سانسوں کے ساتھ لوگوں کو دیکھنے لگا جو باہر آرہے تھے۔
ان کو دیکھتے ہوئے اچانک اسکی نظر اس بچی پہ پڑی جو کچھ دیر پہلے اس سے ملی تھی بچی نے پھر مسکرا کر دیکھا اور پاس کھڑے اپنے باپ سے کہنے لگی
” ابو وہ دیکھو انکل جو کچھ دیر پہلے ٹانگوں سے معذور تھے اب بھاگ کر اندر سے باہر آئے ہیں”
بچی کے باپ نے ارشد کی طرف دیکھا اور ارشد نے اپنی ٹانگوں کی طرف ۔۔۔۔۔ ساتھ ہی اسکی ٹانگیں دوبارہ بے جان ہو گئیں اور وہ زمین پر گر گیا
Be First to Comment