عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر 48
معتوب
ڈاکٹر شہروز خاور
مالیگاؤں ، ضلع ناسک ، صوبہ مہاراشٹر ، انڈیا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میرے جسم سے پتّوں کو نوچ لیا گیا ـ ہاتھ پیچھے کی طرف باندھ دیے گئے اور اسی غار میں دھکیل دیا گیا جس کی دیواروں پر میں نے مختلف تصویریں بنائی تھیں ـ
یہ گناہ عظیم تھا ـ
اس پہلے ایسا کسی نے نہیں کیا تھا ـ
شاید سوچا بھی نہیں تھا ـ
مدھم روشنی میں تصویریں کچھ کہنا چاہتی تھیں ـ
لیکن رہی سہی روشنی بھی معدوم ہوگئی ـ
غار کے دہانے پر ایک بڑا سا پتھر رکھ دیا گیا ـ
اور میں ایک دلچسپ کہانی کا پراسرار کردار بن کر رہ گیا ـ
صدیاں گزر گئیں ـ
ایک دن اچانک روشنی عذاب کی صورت ٹوٹ پڑی ـ
ایک پُر جوش مجمع نے پتھر ہٹایا تھا ـ
عجیب شور تھا ـ
“ہاں یہی وہ جگہ ہے جس کے قریب جانے پر پابندی تھی ـ ہاں ! ہم انحراف کرتے ہیں ـ ہاں ! ہم دیکھنا چاہتے ہیں وہ کون تھا ، جو گناہِ عظیم کا مرتکب ہوا تھا ـ ”
بھیڑ گھسی چلی آئی ـ
لوگ دیواروں پر ہاتھ پھیرنے لگے ـ
تصویروں کو چومنے لگے ـ
ہر تصویر ایک کردار بن کر ابھری ـ
ہر کردار سے ایک کہانی نے جنم لیا ـ
ہر کہانی کا اپنا ایک مقصد تھا ـ
ہر مقصد میں کئی راز چھپائے گئے ـ
پھر ان بھیدوں کو کھولنے والے پیدا ہوئے ـ
لوگ سُن رہے تھے اور بھید کھولنے والے بولے جارہے تھے ـ
” یہ کسی عام پرندہ کی تصویر نہیں ہے ـ
یہ وہ پرندہ ہے جس کے سائے میں آنے والوں کو افضل و مطہر قرار دیا گیا ہے ـ
یہ جانور مقدس ہے ـ
یہ پیڑ مقدس ہے ـ
ہمیں سب کچھ معاف ہے ـ
وہ خادم ہیں ـ
تم محافظ ہو ـ
یہ لوگ مردود ہیں ـ
اس نکتے پر صرف ہم بات کرسکتے ہیں ـ
یہ لکیر …… ہاں یہی لکیر ….. اس سے آگے آپ نہیں جاسکتے ـ
صرف ہم جاسکتے ہیں ـ
یہ آپ لوگوں کا دائرہ ہے ـ
خبر دار اس دائرے سے باہر آنے کی کوشش کی تو …
یہ منحنی لکیریں …..
دراصل یہ اس ندی کی موجیں ہیں ، جس میں غوطے لگانے سے جسم پاک ہوجاتا ہے ـ ”
لوگ سن رہے تھے ـ بس سنتے جارہے تھے ـ
اور پھر وہ نسل تیار ہوئی ـ
جس کا میں مرشدِ اعظم تھا ـ
وہی مرشد جس نے سوچنا سکھایا تھا ـ
جس نے اظہار کا وسیلہ ایجاد کیا تھا ـ
اب لوگ مجھے سوچنے میں
اور بھیدوں کو کھولنے والوں کی پرستش کرنے میں لگے ہوئے ہیں ـ
تصویروں کو بار بار لکھا جارہا ہے ـ
اور ہر بار تصویر اپنی پچھلی شکل سے کچھ الگ ہوتی جارہی ہے ـ
غار کی تصویریں چیخ رہی ہیں ـ
لیکن غار تو مقدس تسلیم کیا جاچکا ہے ـ
جس میں صرف پاک بدن ہی داخل ہوسکتے ہیں ـ
غار کے اطراف مقدس دیواریں بنا دی گئی ہیں ـ
دیواروں پر جلی حرفوں میں تحریر ہے ـ
” اندر آنا منع ہے”
میں روز یہاں سے گزرتا ہوں ـ
میں روز اس تحریر کو پڑھتا ـ
میں کئی بار اصولوں کی خلاف ورزی بھی کرچکا ہوں ـ
میں نے دیواریں پھلانگنے کا گناہ کیا ہے ـ
میں نے غار میں جاکر دیکھا ہے ـ
میں نے تصویروں پر غور کیا ہے ـ
کیا سچ میں
یہ تصویریں معدومیت سے وجودیت کے آغاز کا وسیلہ ہیں؟ ؟؟؟؟؟؟؟
اندھیرے سے روشنی کا عرفان ہیں؟ ؟؟؟؟؟؟
تہزیب کے ارتقا کا آغاز ہیں ؟؟؟؟؟؟
یا کسی خالی الذہن کا بے معنی …..
خیر …. جوکچھ بھی ہے ……
میں نے تو اتنا جانا …. کہ اظہار وسیلہ چاہتا ہے ـ
شاید اتنا جان لینا ہی کافی تھا ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ
میرے پیچھے دانشوروں ، فنکاروں اور تہذیب کے علم برداروں کا ایک جھنڈ ہے ـ
میرے ہاتھ پیچھےکی طرف بندھے ہوئے ہیں ـ
اور مجھے ایک کال کوٹھری میں ……..
Be First to Comment