عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر 127
معاشرے کا ناسور
معصومہ ارشاد ۔ میہڑ ، سندھ ۔ پاکستان
سات سالہ وہ چھوٹا سا معصوم بچہ آنکھیں ملتا ہوا باہر لان کی طرف بڑھااور ایک اونچے تناور درخت کے سائے میں آکر بیٹھ گیا۔اپنے آس پاس پودوں پر نظر پڑتے ہی ان میں کھلتے پھولوں کو دیکھ اسی کی روتی ہوئی آنکھیں یوں مسکائی گویا وہ رنگ برنگی پھول اس کے آنے والے جیون کا روپ ہوں ۔کچھ پل کے لیئے اسے اپنے رونے کی وجہ ہی بھول گئی۔اور خود کو ان خوبصورت چہکتے ہوئے پھولوں کی مانند محسوس کرنے لگا۔
وہ ہی کچھ دوری پر کچھ سڑے ہوئے پودے دیکھ کر اس کی آنکھیں پھر سے نم ہوگئیں۔
“میرا جیون تو یہ ہے ۔بےکار ،بے رونق سڑا ہوا جس کو ان جیسے پھولوں کی طرح کھلنے اور مہکنے کے لیئے ایک مالی کی ضرورت ہوتی ہے ۔جو بڑی دلجوئی سے ان کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ان کو موسم کی سختی اور نقصان دہ جراثیم سے محفوظ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا۔تب جاکر وہ تناور درخت بنتے ہیں۔ جن کے سائے میں سب سکون پاتے ہیں۔مگر جن کی دیکھ بھال نہ کی جائے وہ ان پودوں کی طرح سڑ جاتے ہیں جو تندرست ماحول کے لیئے بھی مضر ثابت ہوتے ہیں۔ تھوڑی دیر پہلے جگمگاتی آنکھیں اب متواتر برسنے لگی تھیں۔ اور اسی کیفییت میں اس کی آنکھ لگ گئی۔اس کی آنکھ تب کھلی جب یتیم خانے کے انچارج کا تھپڑ اس کے نرم و ملائم گال پر رسید ہوا ۔وہ معصوم ہڑبرا کر اٹھ بیٹھا پھر جو ہوا اس نے دور کھڑی ایک عورت کی آنکھیں بھی نم کر دیں۔وہ بے اولاد ،اولادکی ستائی ہوئی تھی۔ شادی کے آٹھ سال کے بعد بھی اولاد نہ ہونے کے کارن شوہر نے تلاق دے کر دوسری شادی کر لی ۔ماں باپ یہ صدمہ نہ سہہ سکے۔ان کے بعد بھائیوں نے اپنے گھر بچانے کی خاطر بہن کو دارلامان بھیج دیا۔وہاں کی زیادتیوں سے نکل کر اپنے پیروں پر کھڑی ہونے کے کارن نصیبن نے اس یتیم خانے میں آیا کی نوکری کر لی۔مگر کچھ ہی عرصے میں اس بچے نے اس کو اپنی طرف اتنا مائل کر دیا کہ اس کو اپنی کوکھ جنا محسوس کرتی تھی۔ تبھی مووم بچے کے گال پر پڑا تھپڑ اس کے دل پر لگا تھا ۔ایک رات اس بچے کو اپنے ساتھ لےکر وہ یتیم خانے سے فرار ہو گئی۔اور اپنی ایک جاننے والی خالہ کے ہاں پناہ لی۔خالہ بھی دل کی بہت اچھی تھیں ۔سو ان دونوں ماں بیٹے کو نہ صرف پناہ دی بلکہ نصیبن کو ایک بنگلے میں صاف صفائی کی نوکری بھی دلائی۔اور ایک سلائی مشین بھی لے کر دی ۔دن کو نوکری پر جاتی اور رات کو محلے والوں کے کپڑے سیتی تھی۔اس طرح اس نے اپنے بیٹے کو تعلیم دلوائی ۔جب وہ گریجوئیٹ کر چکا تو خالہ اللہ کو پیاری ہوگئی۔اس صدمے نے نصیبن کو نڈھال کر دیا۔وہ اس کی ہمت ادھی رہ گئی اب وہ اکثر بیمار بھی رہنے لگی تھی۔
“اماں میں ذرا باہر جا رہا ہوں۔اور خبردار اماں جو میرے پیچھے آج سلائی کا کوئی کام کیا۔یا بنگلے پر گئیں کام کے لیئے۔ سنا تھا ناں ڈاکٹر نے کیا کہا ہے کہ اب آپ کو آرام کی ضرورت ہے۔”بیٹے نے ماں کو بناوٹی غصے سے ہدایت دے کر اس کے ہاتھوں کو چوما۔ماں بیٹے کی محبت کا یہ انداز دیکھ کر سرشار ہوگئی
“دعا کرو اماں آج جس انٹرویو کے لیئے جارہا ہوں وہاں نوکری لگ جائے پھر آپ کو کوئی بھی کام کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی “اپنی فائیل لیئے ماں کی دعائوں کے ساتھ رمیز گھر سے نکلااپنی طرف سے بہترین انٹرویو دینے کے بعد پر امید ہوکر وہ آفیس سے نکل رہا تھا کہ انٹرویو لینے والے آفیسر کی آوازاس کی کانوں سے ٹکرائی۔
“ارے یار کیوں فکر کرتا ہے یہ پوسٹ تیرے بیٹے جلیل کی ہی ہے۔وہ کیا ہے ناں کہ کچھ فارملٹیز بھی تو نبھانی ہوتی ہیں۔”آفیسر کے فون پر کسی کو کہے جانے والے ان جملوں نے اس کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ل۔وہ نا امید ہوکر ایک مکینک کی شاپ پر چلا گیا۔اور وہاں پر کام کرنے لگا۔گھر پہنچ کر دیکھا کہ خوشخبری کے ا انتظار میں بیٹھی ماں کے چہرے کی خوشی دیدنی تھی سو وہ اسے سچ بتا ہی نہیں سکا۔کہ وہ نوکری ایک بہت بڑے رئیس کی سفارش پر کسی اور کو مل گئی ہے۔ روز ماں سے جھوٹ بول کر آتا کہ آفیس جا رہا ہوں اور آکر مکینک شاپ پر کام میں لگ جاتا۔کافی عرصے تک یہ ہی معمول چلتا رہا۔ایک روز کام سے واپس آیا تو محلے والوں نے اطلاع دی کہ تیری ماں اچانک بے ہوش ہوگئی تھی۔ابھی اس کو ہسپتال لے گئے ہیں۔وہ سیدھاماں کے پاس گیا۔ڈاکٹرز نے کہا کہ ایک کڈنی فیل ہو گئی۔جلد از جلد آپریشن کرنا پڑے گا۔نہیں تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔وہ نم آنکھوں سے ماں کو بے ہوشی کی حالت میں بستر پر پڑے دیکھتا رہا۔اتنی بڑی رقم کا بندوبست کرنا اس کے بس میں نہیں تھا اور وہ ماں کو اس طرھ بے موت مرتے بھی نہین دیکھ سکتا تھا۔اس ماں کی تڑپ اس کی برداشت سے باہر تھی۔جس نے اس کو اذیت گھر سے نکال کر جینے کو نہ صرف خوبصورت بچپن دیا بلکہ اس معاشرے میں اس کو پڑھے لکھے ہونے کا شرف بھی بخشا۔مگر آج جب وہ خود زندگی اور موت کے بیچ جھول رہی تھی، تو وہ اس کے لیئے کچھ نہیں کر پارہا تھا۔صرف پڑھا لکھا اور لائق ہونا اس کے کسی کام نہیں آرہا تھا ۔کیونکہ اس کے پاس رشوت کے لیئے پئسے اور سفارش کے لیئے اس کے سر پر کسی بااثر آفیسر کا سایہ نہیں تھا۔وہ دوائیوں کا پرچہ ہاتھ میں تھامے باہر نکل آیا۔کافی سٹور سے ادھار لینے کی درخواست کی مگر کسی نے اس کو ادھار پر دوائی نہ دی۔ابھی وہ روڈ کراس کر رہا تھا کہ ایک گاڑی اچانک اس کے سامنے آکر رکی اورکچھ لوگ اس کو زبردستی اس میں بٹھا کر لے گئے۔
“کون ہو آپ لوگ اور مجھے کہاں لے جارہے ہو۔چھوڑو مجھے میری ماں کی دوائیاں لینے جانا ہے۔”گاڑی میں بیٹھتے ہی جب اس کی آنکھوں پر پٹی باندھنے لگے تو وہ جھٹپٹانے لگا۔
“چپ بیٹھو نہیں تو منہ بھی بند کر لیں گے۔”اتنا کہتے ہی وہ آدمی ڈرائیور سے مخاطب ہوا۔
“سپیڈ بڑھاو ہمیں جلد وہان پہنچنا ہے”کچھ ہی پلوں میں گاڑی ایک ویران کھنڈر کے پاس آکر رکی۔
“سر جی لے آئے ہیں اس کو “آنکھ سے پٹی کھلتے ہی اس نے ہاتھ میں پسٹل لیئے بڑی مونچھوں والےا یک دہشت ناک چہرے کو اپنے سامنے پایا۔
“پلیز مجھے جانے دیں میری ماں کو میری ضرورت ہے۔”ہاتھ جوڑکر وہ اس آدمی کے سامنے گڑگڑانے لگا۔
“”پہلے تم ہماری ضرورت پوری کر دو پھر تجھے تیری ماں کی ضرورت کو پورا کرنے لائق چھوڑیں گے۔”چہرہ جس قدر دہشتناک تھا آواز اس سے کہیں زیادہ ہیبتناک تھی۔
“کیا چاہتے ہیں آپ لوگ میرے پاس آپ لوگوں کو دینے کے لیئے کچھ بھی نہیں۔”
“ارے ببوا جو تیرے پاس ہے ناں وہ کسی کے پاس نہیں ہم کو تیرا یہ بدھی چاہیے جون کا استعمال ہمار دھندھے میں چار چاند لگا دے ویو ہے ۔”اتنا کہتے ہی اس آدمی کا دل دہلادینے والا قہقہ فضا میں بلند ہوا۔
“مجھے تم لوگوں کے ساتھ کام نہیں کرنا میں ایک پڑھا لکھا انسان ہوں ،مجھے مجرم نہیں بننا۔”ان لوگوں کو جواب دے کر گویا اس نے خود کو جتلایا تھا۔
“ارے تم سے پوچھ کون رہا ہے ۔تم یہاں سے زندہ واپس ہی تب جاو گے جب اس ڈیل کے لیے ہاں کہو گے۔”پسٹل اس کی کنپٹی پر رکھتے ہوئے گویا اس آدمی نے اس کو ڈرانا چاہا۔
“میں مر جاوں گا۔ پر اپ لوگوں کے ساتھ کام ہر گز نہیں کروں گا۔”اس نے حتمی لہجے میں جواب دیا۔
“سوچ لو ہسپتال میں پڑی وہ بڑھیا جس نے تجھے اپنی اولاد کی طرح پالا ہے۔کہیں وہ بیچاری ناں بے موت ماری جائے۔”
“خبردار تم لوگ ایسا کچھ بھی نہیں کرو گے”خوف و غصے سے اس کا چہرہ لال ہو گیا
“نہیں کریں گے ۔بالکل بھی نہیں کریں گے بشرطیکہ تم وہ کروگے جو ہم کہیں گے۔آئی بات سمجھ”دھیمے لھجے میں بات کرتے کرتے اچانک اس کی آواز تیز ہوگئی۔ایک پل کو رمیز کا دل دہل گیا ۔اس کی آنکھوں کے آگےاپنی ماں کا چہرہ آگیا۔آنکھیں آنسوں سے تر ہو گئیں اور گردن جھک گئی۔پھر کچھ سوچ کر اس نے کہا
“ٹھیک ہے میں تیار ہوں۔مگر پہلے میری ماں کا آپریشن ہوگا ،اگر وہ صحیح سلامت گھر پہنچ گئی۔ تب ہی میں کام شروع کروں گا۔
“ہمیں منظور ہے۔لے جاو اسے اور اس وقت تک اس کے ساتھ رہنا جب تک اس کی ماں ٹھیک ہو کر
گھر نہیں پہنچ جاتی۔پھر اس کو اپنے پرانے اڈے پر لے آنا۔” اتنا کہہ کر وہ دہشت ناک آدمی وہاں سے نکل گیا۔اور رمیز اپنی غلامی کو روتا ماں کے پاس آپہنچا۔ ماں کا اپریشن کامیاب ہوا ۔کچھ ہی دنوں میں وہ گھر بھی آگئی۔وہ ماں کی صحتیابی پر بہت خوش ہوا۔
“رمیز بیٹا تم نے آپریشن کے لیئے اتنے پئسے کہاں سے لیئے؟”رمیز کے ہاتھوں صیب کی قاشیں لے کر کھاتے ہوئے ماں نے پوچھا
“بس ماں جی مل گئے، وہ جہاں میں کام کرتا ہوں ناں، ان صاحب سے قرضہ لیا ہے ۔دھیرے دھیرے چکا دوں گا۔”رمیز نے بڑی مشکل سے اپنے لہجے کو مضبوط بنا کر مسکراتے ہوئے کہا۔
“بیٹا میری جان بچا کر تم نے یہ ثابت کر دیا کہ اولاد صرف وہ نہیں ہوتی جسے کوکھ سے جنا جائے ۔جس کی پرورش جی جان سے کی جائے وہ بھی اولاد سے بڑھ کر ہوجاتا ہے۔جیتے رہو بیٹا اور ہمیشہ پھولو پھلو۔”ہسپتال کا خرچہ دوائیاں اور آپریشن کی رقم یہ سب اسی شخص نے جمع کروائی تھی۔وعدے کے مطابق رمیز اگلے ہی دن سے اس سردار کے ساتھ کام کرنے لگ گیا۔چھوٹی موٹی وارداتیں کرتے کرتے وہ اب ان کے ساتھ ہیروئین اسمگلنگ میں بھی شامل ہوگیا گھر کا نقشہ ہی بدل گیا تھا وہ چھوٹے گھر سے بڑے گھر میں اگئے تھے۔پئسے کا آنا بظاہر نصیباں کے گھر میں خوشیوں کی نوید لایا تھا۔پرانے اور نئے محلے کی کئی عورتوں نے اشارتا اپنی بیٹیوں کو اس کی بہو بنانے کا کہہ چکی تھیں۔اب تو وہ بھی چاہتی تھی کہ گھر میں بہو آئے۔سو ایک دن موقع دیکھ کر اس نے رمیز سے بات کی۔وہ کام پر جانے کے لیئے تیار ہو رہا تھا جب چائے کے ساتھ وہ اس کے پاس آئی۔
“یہ لو بیٹا جی چائے ۔مگر میں کہے دیتی ہوں اب روز روز مجھے سے یہ نہیں ہوتا اب بوڑھی ہوگئی ہوں۔”نصیباں قریب ہی بیڈ پر بیٹھ گئی
“تو اماں کب سے کہہ رہا ہوں گھر میں کوئی ملازمہ رکھ لیں پر اپ تو مان ہی نہیں رہی ہو ناں”رمیز نے ماں کے ساتھ بیٹھ کر چائے کا سپ لیا۔
“بیٹا جی مجھے اس گھر میں اب تیری دلہن دیکھنے کا ارمان ہے۔تو کب تک شادی سے انکار کرتا رہے گا؟”ماں نے بیٹے کےکچھ دیر پہلے سلجھائے ہوئے بالوں میں ہاتھ پھیریا
“اماں شادی بھی کر لیں گے ۔اتنی بھی کیا جلدی ہے۔ ابھی میں نکلتا ہوں۔ آپ وقت پر کھانا کھاکر دوائی لے لینا۔”یہ کہہ کر وہ گھر سے باہر نکلا۔پھر تو نصیبان کا جیسے روز کا معمول بن گیا ۔اٹھتے بیٹھتے شادی کا ذکر سنتے سنتے بالآخر رمیز بھی مان گیا۔اور نصیباں کی ایک جان پہچان والی کی یتیم بھتیجی کے ساتھ اس کا رشتہ ہوگیا۔زیبا ایک متوسطہ گھرانےسے تعلق رکھنے والی کم پڑھی لکھی مگر بہت ہی سلجھی ہوئی لڑکی تھی۔اس نے رمیز کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔وہ اب آہستہ آہستہ خود کو بدلنے لگا۔جیسے ہر ماں کا ارمان ہوتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کے سر پر سہرہ بندھا دیکھے وہ پورا ہو جائے تو پھر اس کے بچوں کی کلکاریاں سننے کی خواہشمند ہوتی ہے۔ویسے ہی اب نصیباں کی ایک اور خواہش جس کا اظہار اب وہ زیادہ تر بہو سے ہی کرنے لگی تھی۔اور خدا کی کرنی کچھ ایسی ہوئی کہ جب اس کی خواہش پوری ہونے کا وقت آیا تو اس کی زندگی کا وقت پورا ہوگیا۔یہ ایک بہت بڑا صدمہ تھا ۔رمیز بالکل ٹوٹ سا گیا تھا مگر زیبا آنے والے وجود کا واسطہ دے کر اس کی زندگی کو ایک بار پھر نئی ڈگر پر لے آئی تھی۔تب رمیز کو محسوس ہوا کہ وہ جس راہ کا مسافر ہے وہ اس کی اولاد کی منزل کو کبھی معتبر نہیں دیکھ سکے گابس پھر کیا تھا آہستہ آہستہ اس نے خود کو اس دھندھے سے الگ کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔۔بیٹے کی پیدائش کے بعد اس کے موہ میں رمیز نے برے کاموں سے بالکل ہی کنارے کشی اختیار کر لینے کی ٹھان لی۔یہ بات اس کے بوس کو بالکل پسند نہیں آئی۔ایک دن اس کو اپنے گھر پر بلایا۔
“سوچ لو رمیز اس دھندھے میں آنے کے بعد واپسی کے سارے راستے بند ہو جاتے ہیں۔اور تو واپسی کی باتیں کر رہا ہے۔”بوس کا رویہ بظاہر کافی خوشمزاج لگ رہا تھا۔
“بوس قسمت مجھ پر مہربان ہو رہی ہے۔تو پلیز مجھے اس سے فائدہ اٹھانے دیں۔میں اپ سے وعدہ کرتا ہوں میں آپ کے کسی راز کو فاش نہیں کروں گا۔بس میں اب اپنی بیوی بچے کے ساتھ عزت کی زندگی جینا چاہتا ہوں۔اس لیئے میں ان کو لے کر ہمیشہ کے لیئے یہ ملک چھوڑ کر جا رہا ہوں”چائے کا گھونٹ لینے کے بعد اس نے کپ ٹیبل پر رکھا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
“اوکے جیسے تیری مرضی۔اگر تم نے اپنے راستے الگ کرنے کا سوچ ہی لیا ہے، تو پھر ہمیشہ کے لیئےالوداع دوست”ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ اس نے رمیز کو گلے لگایا۔رمیز بہت خوش ہوا اس کو اندازہ نہیں تھا کہ اسحاق عالم اس کو اتنی آسانی سے یہ معاہدہ توڑنے کی اجازت دے گا ۔پر وہ بہت خوش ہوا اب وہ اپنی بیوی بچے کے ساتھ باعزت زندگی بسر کرنے اور اپنے بچے کے شاندار مستقبل کے خواب سنجوتا گاڑی تک آیا۔اس میں بیٹھتے ہی اس کا سر چکرانے لگا۔بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا اور گاڑی ڈرائیو کر کے کچھ فاصلہ ہی طہ کیا تھا کہ تو وہ اپنا ہوش گنوا بیٹھا۔گاڑی ایک اور گاڑی سی ٹکرائی تھی لوگوں کا ہجوم جمع ہوگیا۔اسی میں سے کچھ لوگوں نے اس کو ہسپتال پہنچایا۔کسی طرح زیبا تک یہ خبر پہنچی وہ جب ہسپتال پہنچی تو رمیز دنیا فانی سے کوچ کر چکے تھے۔یہ خبر زیبا برداشت نہیں کر پائی۔اور کوما میں چلی گئی۔ اور پاس بیٹھے معصوم سے بچے کو سب حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگے۔۔۔۔۔۔
Urdu short stories and writers
Be First to Comment