عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 46
مِس جے
ناصر خان ناصر، نیو اورلینز، لوزیانہ، امریکہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موسم انتہائی خوشگوار تها، خنکی سے لبریز ٹھنڈی ہوا کے مست آنچل کو اوڑهے صبح کسی سجی سجائی حسینہ کی طرح تهی جو خود نمائی کی مہک سے اتراتی ہوئی اور اپنی خوبصورتی، تازگی، شگفتگی پر خود نازاں ہو کر سرسبز آنگن میں اٹھلاتی پهر رہی تهی۔ میں جب دھیرے دھیرے مِس جے کی گھنیری زلفوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے اسے بیدار کرنے کی کوشش کر رہا تها تو دهوپ شرارتی بچوں کی طرح کھلکھلا کر ہنستی تھی۔ کرنیں پهولوں کی نازک پنکھڑیوں پر پڑی شبنم کی بوندوں سے ہم آغوش ہو کر انہیں ہیرے کی کنی کی طرح چمکانے میں بڑے انہماک سے مصروف تهیں۔ مس جے نے حسب معمول اپنی نیم وا اداس آنکھوں میں شوخی بهر کر اک نظر مجهے دیکها، پهر آنکھیں مچمچا کر شان دلربائی سے انگڑائی لیتی ہوئی اٹھ کهڑی ہوئی۔ میں نے معطر دهواں چھوڑتی گرم گرم کافی سے اپنے پیالے کو آخری کناروں تک لبریز بهر لیا اوراحتیاطاً اسے چھلکنے سے بچانے کے لئے پھونک پھونک کر قدم رکهتا برآمدے میں رکهی کرسی تک پہنچا۔ ہاکر کی اخبار گرانے کی آواز سناٹے کی دبیز چادر کو چیر کر نکلی مگر پهر وہی خوابناک خاموشی سی چها گئی، جس میں شہد کی مکهیوں کی بھنبھناہٹ، کہیں دور درختوں کے جهرمٹ میں بولتی کوئل کی مدهر دلکش آواز چھپی تهی جو کانوں میں رس گهولتی ہے تو وقت تهم سا جاتا ہے۔ طبعیت پر عجیب سی طمانیت، انوکھی سی خوشگوار کیفیت،خدا کا بخشا اطمینان اور غنودگی سی طاری ہو جاتی ہے جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
صرف بیتهوون کی سمفنی جیسی موسیقی ہی اس کا اِدراک اور اظہار کر سکتی ہے۔ اس سکون کی گهڑی میں یہ یقینی امر اور اطمینان بهی شامل ہے کہ ابهی مِس جے دهیرے دهیرے باہر جائےگی اخبار اٹها کر اسے چپکے سے میرے سامنے رکھ دے گی۔ پهر میرے بہت قریب آ کر بیٹھ جائے گی، مطمئن، قانع، معتبر۔
زندگی کی یہ خاموش مہربان گھڑیاں جو یونہی چپ چاپ کسی محبت کرنے والے کے ساتھ گزر جائیں، وہی بہتر ہیں۔ میں نے گرم گرم کافی کا گهونٹ بهرا۔۔۔۔۔۔ بالکل پهیکی نکلی۔ یہ کچه بھول جانے کا عارضہ۔۔۔۔۔ عجیب ہے، جسے بهلانا چاہو، اک وہی نہیں بهولتا، باقی سب کچھ بھول جاتا ہے۔ …. کچن میں جا کر کافی کے لئے تین ‘سوئیٹ اینڈ لو’ کی پڑیاں ڈبیہ سے نکالیں اور برآمدے میں واپس لوٹ کر اپنی کرسی پر آن بیٹھا۔ ٹهنڈی پڑتی ہوئی کافی میں چمچ سے سویٹ اینڈ لو ہلانے لگا۔ مِس جے گویا اسی اشارے کی منتظر تهی۔ مجھ سے بھی پہلے لپکی اور باہر سے اخبار لا کر اسے میرے سامنے رکهنے کے بعد مجهے دیکهنے لگی۔ اپنی محبت، سکون و آشتی سے بھرپور نظریں مجھ پر ڈالتی ہوئی وہ بہت صابر اور شکرگزار نظر آ رہی تهی۔ شاید ہوا کے معطر گداز جھونکوں کا اثر ہی میری طرح اسے بهی اپنی جادوئی قوت سے بهٹکاتا ہوا نجانے کن وادیوں میں اڑا لے گیا۔ مس جے کو دیکھتے ہی پتہ نہیں کیوں میرے دل میں گہری محبت کے جذبات موجزن ہونے لگتے ہیں۔ شاید وہی اب میرا آخری سہارا ثابت ہو اور اگر میں آپ سے خدا لگتی اور سچ سچ کہوں اور یہ سچ کہنے میں مجھے بالکل باک نہیں کہ مِس جے حادثاً میری زندگی میں داخل ہوئی اور اب میرے گهر بار، جسم وجان اور ہر سیاہ و سفید کی مالک بن بیٹهی ہے اگرچہ یہ کہنا بهی درست ہی ہو گا کہ اس رات مجهے کچھ زیادہ ہی چڑھ گئی تهی۔ یوں تو میں شراب سولہ برس کی کچی عمر ہی سے اس طرح پیتا چلا آ رہا ہوں جیسے لوگ پانی پیتے ہیں۔ سوتیلے باپ کے مظالم اور سگی ماں کی لاپروائی سے تنگ آ کر میں بچپن ہی میں گهر سے بھاگ کهڑا ہوا تها۔ بڑے شہر کی مشقت بهری زندگی کا خود کو عادی بنایا، جہاں قدم قدم پر مشکلات منہ پهاڑے ایک نو عمر لااُبالی احمق نوجوان کو دبوچ لینے کی منتظر ملتی ہیں۔ انہی حالات نے مجهے نوجوانی ہی میں سکول کالج کی تعلیم نہ ہونے کے باوجود street smart بنا دیا تها۔ انسانی نفسیات کی کمزوریاں، آدم زاد کی اچھائیاں برائیاں، معاشرے کےخوبصورت رنگوں میں چهپے گهناونے، مکروہ چہرے، خوبصورت لباسوں کے اندر کریہہ جسم، محبت شفقت کے لبادوں میں چهپے جسمانی بهوک اور حرص کے ننگے جذبے جو رات کے اندھیروں میں بهوت پریت کی طرح چمٹ کر اپنی ہر اک عنایت کی پوری پوری قیمت جسم بھنبھوڑ کر وصول کر لیتے ہیں۔ ان سب باتوں کے تلخ تجربات نے مجهے بے حد سمجھ دار بنا دیا تها۔ رشتے ناتے، محبت، ہمدردی، دوستی، جذبات ان سب کاغذی بنا باس کے پھولوں سے میرا ایمان اٹھ چکا تها۔ تبهی اپنی خوبصورت جوانی، مضبوط کسرتی جسم، دلفریب چہرے، دلکش اداؤں اور محبت آمیز جھوٹی باتوں کی قیمت میں نے بهی یر چاہنے والے/والی سے پوری پوری وصول کی۔ یہ کہنا تو سچ نہیں ہو گا کہ محبت کے کام دیوتا یا کیوپڈ نے مجهے کبھی گھائل ہی نہیں کیا۔ عام لوگوں کی طرح محبت کی دیوی سائیکی مجھ پر بهی مہربان ہوئی مگر وہ اک علحیٰدہ داستان ہے۔ دراصل میری طرح کا ہر شخص جب زندگی بهر جھوٹ بول بول کر تهک جاتا ہے تو کسی ایسے شخص کا متلاشی ہو جاتا ہے، جس سے صرف سچ ہی بولا جا سکے۔ سلینہ میرا سچ تهی مگر جس نے میرے ہر سچ کو جھوٹ جانا…..میری سچی محبت کو کھیل سمجها، اور مجهے بالکل نہ سمجھ سکی…. سلینہ ….. جس سے میری محبت کا نچوڑ، محاصل ….. اب صرف میرے چہرے پر پڑی کرب اور درد کی گہری لکریں ہیں۔
آنکھوں کے چهنے خواب، محرومیوں کے عذاب جنہیں سراب سمجه کر اپنے حسابوں میں نے سر جھٹک کر ان سے پیچھا چھڑا لیا تها مگر میری طرح تمام سچی محبت کرنے والے لوگ اچهی طرح جانتے ہیں کہ ایسا کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ اندھیری اداس بهیانک راتوں میں یہی جذبات خواب غفلت سے جھنجھوڑ کر جگا دیتے ہیں تو پهر بستر کانٹوں کی سیج بن جاتا ہے۔ دل چاہنے والے کے صرف ایک لمس کے لئے تڑپنے لگتا ہے۔ وہی چہرہ آنکھوں کے سامنے آ کر نہایت بے دردی سے اعلان کرتا ہے کہ محبت ابهی زندہ ہے، تم چاہے جتنی مرضی کوشش کر لو، تم اسے بھول نہیں سکتے ….. یہ چہرہ تو تمھارے دل کے نہال خانے سے نکل کر تمھارے دماغ کی بھول بهلیوں میں کهو چکا ہے، تمھاری شریانوں کے جال میں چھپ کر تمهاری نس نس میں ڈنگ اٹهائے اس لمحے کا منتظر بیٹها ہے جب تم اسے بھول جانے کا سوچو…. یادیں تمھیں ڈس ڈس کر بے حال کر دیں گی، تمھیں اندر سے نیلا کر دیں گی اور پهر تم سے پوچهیں گی کہ اب بهاگ کر کہاں جاو گے؟ میں بهی سلینہ کو بهولنے کا جتن کرتا تو وہ اور بهی زیادہ یاد آنے لگتی۔ تب میں بهی اسے بهلانے کی ناکام کوششوں سے تنگ آ کر خود کو شرابوں اور دوسرے نشوں میں ڈبو دینے کی گھسی پٹی ترکیب استمال کرنے لگ پڑا۔ اس سے وقتی طور پر کچھ افاقہ تو ضرور ہو گیا مگر میری صحت بری طرح گرنے لگی۔ خدا کا شکر ہے کہ اپنی ذہانت، انتھک محنت، چالاکیوں اور کوششوں سے اور اپنے حسین چہرے اور خوبصورت جسم کی بدولت میں نے جو سنگھاسن اپنے لئے بے تحاشا دولت اکٹهی کر کے بنا لیا تها، وہ کافی مضبوط تها۔ حالات کی آندھیوں اور وقت کی ظالم گھڑیوں میں بهی اتنی ہمت نہیں کہ وہ مجھے اس سے نیچے گرا سکیں اگرچہ اب دکھ کی دیمک، تنہائی کا روگ، بیماریاں اور بے رحم بڑهاپا تیزی سے میرے جسم کے در و دیوار پر دستک دے کر میری چولیں ہلائے دیتا ہے۔ ماضی کے پچهتاوے، رنگ رلیوں کی یادیں اور سلینہ کے دئیے ہوئے غم بھیانک خوابوں کے بهُتنے بن کر دن رات میرا منہ چڑانے لگتے ہیں، تب شراب اور مِس جے کی خاموش نگاہوں میں صاف چهپی ہمدردی ہی میرا درماں بن جاتی ہے۔
اس رات بهی شاید میں نے دو ایک پیگ ضرورت سے زیادہ چڑها لئے تهے۔ رات بے حد سہانی تهی اور اپنی معطر زلفیں بکهرائے انجانی خوشبو سے سب کو بدمست کئے دیتی تهی۔ چاند پورا تها اور بادلوں کے آنچل سے اٹکھیلیاں کرتا میرے جام میں اتر آیا تها۔ انتہائی نفاست سے سجے کلب کے آرکسٹرا نے نہایت مسحور کن اور مدھر دهن چھیڑ رکهی تهی۔ تب بار پر تنہا بیٹهی اس حسینہ پر اچانک میری نظر پڑی…… کلب کے نیلگوں اندهیرے میں اس کا حسن ہیروں کی طرح جگمگاتا تها۔ شانوں پر بکهری ناگن زلفیں ڈس لینے کو مچلتی تهیں۔ یوں محسوس ہوتا تها جسے کلب میں پھیلی عجیب سی، سب کو مدہوش کر دینے والی خوشبو کا منبع صرف اسی کی ذات ہے، تمام موسیقی اسی کے ہونٹوں کی مرہون منت ہے۔ حسن کی وہ دیوی پلکیں اٹها کر اگر صبح کی کرن کو پهوٹنے کی اجازت نہیں دے گی تو یہ رات کبھی ختم نہ ہو گی۔ لڑکیاں میری کمزوری کبھی نہیں رہیں، میں البتہ اُن کی کمزوری ضرور بنا رہا ہوں مگر لڑکیوں سے ہٹ بچ کر صرف بوڑهی تنہا عورتوں کا شکار ہی میرا پیشہ تها۔ اب میں عمر کے اس حصے میں پہنچ رہا تھا جب آئینہ سچ بولنے لگتا ہے تو کچھ اچها نہیں لگتا۔ جب چہرے پر کریمیں اور بالوں میں خضاب جھوٹ کے نقاب کی طرح اوڑهنے پڑتے ہیں۔ مسکراہٹ کے ملمع کو لچهے دار باتوں سے مزید رنگ آمیز کرنا پڑتا ہے۔ آئینے اب میری عمر کی چغلی کھانے لگے ہیں۔ کم بخت اس درد اور تکلیف دہ احساس سے بے نیاز دن رات میرے کانوں میں کہنے لگے ہیں کہ میرے دن اب لد چکے، میری جوانی رخصت ہوئی۔ اب جهریوں سے اٹا بدصورت چہرہ ہی میری بے خوابی کا مظہر بنا میرا منہ چڑایا کرتا ہے۔ مجھ سے فلرٹ کرنے والی، مجھ پر مُٹهیاں بهر بهر کر دولت نچهاور کرنے والی ہستیاں کبھی کی ہوا ہو چکیں۔ اب صرف شراب کی خالی بوتلیں اور لبریز جام ہی میری تنہائی کا مسکن اور ذندگی کے ساتهی ہیں۔
ہاں تو میں اس رات کا ذکر کر رہا تها جب میں ‘بلیو وہسکی’ نامی شہر کے مہنگی ترین کلب میں اپنے غموں اور تنہائی کو وہسکی بهرے جام میں ڈوبنے کی کوشش کر رہا تها اور بار پر تنہا بیٹهی اس اَپسرا کو گھور رہا تها جس کے قیمتی مگر مختصر لباس پر لگے رائن سٹون جگنووں اور ستاروں کی طرح جگمگاتے تهے۔ اندهیرے میں اسکی آنکھوں میں جوت سی جلتی دکهائی دیتی تهی۔ اس کے کانوں میں ہیروں کے لانبے آویزے اندهیرے میں جھلملاتے تو ننهے معصوم بچوں کی طرح کھلکھلا کر ہنستے تهے۔ اس کی خوبصورت آنکھوں کا رنگ اتنی دور سے دیکھنا مشکل تها مگر پپوٹوں پر لگا جامنی آئی شیڈو انہیں پراسرار، روشن اور زیادہ بڑی بنا رہا تها۔ سوچ رہا تها کہ اگر یہ آنکهیں سلینہ کی آنکهوں کی طرح نیلی ہیں تو میں ان میں ڈوب کر مر جانے کو تیار ہوں۔ بهرپور جوانی سے لچکتا بدن، جسے دیکهتے ہی میٹهے رسیلے آم کا تصور من میں رس ٹپکانے لگے۔ مسکان سے سجے یاقوتی ہونٹوں پر چوم لئے جانے کی حسرت لئے انوکها سا اک غیر مرئی ابھار۔ …. وہ سچ مچ بہت خوبصورت تهی یا شاید مجھ پر چڑهے وہسکی کے خمار کی بدولت اَن دیکھی غیر زمینی، کسی آسمانی حور کی مانند نظر آتی تهی۔ اس نے بهی مجهے خود کو بے تحاشا گھورتے دیکھ لیا تها اور اٹھ کر گویا کچے دھاگے سے بندھی میری طرف کھنچی چلی آئی۔ وہ میرے بالکل قریب آ کر بیٹھ گئی…. اتنا قریب کہ میں اس کی معطر دلفریب سانسوں کی گرمی اپنے سرد پڑتے ماتھے پر محسوس کر سکتا تها۔ ….. اور یہیں سے وہ ناقابل یقین داستان شروع ہوتی ہے جو میں آپ کو سنانے کے لئے بے چین ہو چلا ہوں…….اسے اتنا قریب پا کر مجهے اپنی خوش نصیبی پر ناز ہونے لگا تها۔ خود پر یقین نہیں آ رہا تها۔ دس بیس برس قبل کی بات ہوتی تو تب ایسی اَن ہونیاں کچھ اتنی نایاب نہ تهیں کہ تب ایسی کئی خوبصورت لڑکیاں میرے مقناطیسی چہرے اور فولادی جسم کو دیکھ کر کچے دھاگوں سے بندھی کچهی چلی آتی تھیں۔ …..وہ اپنی مدهم ملائم سی آواز میں میرے چہرے پر جهکتی ہوئی مجھ سے پوچھنے لگی؛” Would you like to have a little…… ؟”
میرے حواسوں پر چھائے نشے انگڑائیاں لے کر بیدار ہونے لگے، شور شرابے اور تیز موسیقی سے بهری فضا میں مجهے اس کے آخری لفظ کی سمجھ نہیں آئی مگر صاف ظاہر تها کہ وہ میر ی ‘گڈ کمپنی’ کے لئے بیتاب ہے۔ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی…. میں نے فورا” اثبات میں سر ہلا کر باچھیں کھلا دیں…. اگر کوئی حسینہ اپنی محبت بهری اداوٗں کا جادو جگاتی مٹکتی اٹهلاتی یوں دلربائی سے کسی بهی میری عمر کے شخص کی سمت بڑھے تو اسے انکار کرنا کفران نعمت کے ساتھ ساتھ گناہ کبیرہ بهی شمار ہونا چاہیے۔ کسی کو کیا خبر کہ کون سی گاڑی ذندگی کے آخری اسٹیشن تک جاتی ہے۔ خوشی کی آواز کو بمشکل چھپاتے ہوئے میں نے اس کے لئے اور اپنے لئے نئے ڈرنکس کا آرڈر دیا، جسے اس نے بردباری سے سر ہلا کر اپروو کر دیا اور نہایت بے تکلفی سے شانے ہلا کر میرے کندهے پر ہاتھ رکھ کر پوچھنے لگی کہ وہ مجھ سے کب اور کہاں دوبارہ مل سکتی ہے۔ ” تمهارا .. خوبصورت نا …نام کیا ہے؟” میں نے ہکلاتے ہوئے رونی صورت بنا کر پوچها۔ اس نے متانت سے جواب دیا۔
” …Oh, I am very sorry. I must introduce myself. I am Miss J ”
” ڈیر مس جے! کیا یہ آج ہی ممکن نہیں؟” میں نے بے صبری سے لرزتی آواز چهپانے کی کوشش کرتے ہوئے پوچها؟ اس نے عجیب سی نظروں سے مجهے دیکها، شاید میں نے جلد بازی میں سارا بنا بنایا کھیل بگاڑ دیا، شاید میرے لئے بہتری اسی میں ہو کہ میں آہستگی اور صبر سے کام لیتے ہوئے اپنے جذبات چهپا کر پہلے اسے کهانے کی دعوت دوں، یا کسی فلم، اوپیرا وغیرہ کے لئے مدعو کروں، پھر آہستہ آہستہ اگے بڑهوں…. آنکھیں جهپکاتے ہوئے اور دانتوں سے ناخن کاٹتے ہوئے میں نے کہا کہ اسے جو وقت اور جو جگہ مناسب لگے، وہیں دوبارہ ملاقات کی جا سکتی ہے۔ اس نے ٹیبل پر انگلیاں نچاتے ہوئے بجتی دھن کا ساتھ دیا اور کہنے لگی کہ اج رات وہ کسی اور جگہ مدعو ہے اور کل ہفتے کے روز بهی اس کے کچھ اور پروگرام طے کئے جا چکے ہیں، ہاں البتہ اتوار کو جو پرسوں ہے، شام کے سات بجے اسی جگہ دوبارہ ملا جا سکتا ہے۔ خدایا…! میں نے سوچا۔ یہ خوبصورت آسمانی پری دِکهنے والی دوشیزہ یقیناً بہت مصروف خاتون ہے مگر اتنے بہت سے مردوں سے بهرے اس کلب میں اس نے صرف مجهے ہی کیوں چنا؟…. یہ سوچ کر خود پر فخر ہونے لگا…. آئینے… حرام ذادے …. کتنا جهوٹ بولتے ہیں! ادھیڑ پن کی راکھ تلے دبی میری جوانی کی چنگاریاں شاید ابهی مدهم نہیں پڑیں…… غیر شعوری طور پر بے اختیاری میں، میں نے اپنے احتیاط سے جمائے بالوں کو آہستگی سے تھپتھپایا اور جواباً دل ہی دل میں’ سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں ائے۔’ کہتے ہوئے سر جھکا دیا۔ اس نے ایک بڑا گھونٹ بهر کر جام خالی کر دیا اور اپنی مسکراہٹ کے شعلوں میں مجهے خاکستر ہوتے دیکھ کر چمکتی آنکھوں سے محبت کی نرم پھواروں سے مجهے شرابور کرتے ہوئے بولی؛
“او کے….پرسوں، اتوار کو سات بجے…. ٹهیک یہیں…. بهولنا نہیں!” اس کے ننھے منے اونچی ایڑی کے جوتوں کی ٹهک ٹهک دیر تک میرے دل میں ہوتی رہی، جیسے چمکیلے فرش کی جگہ ان کے دھبے میرے سینے پر منقبت ہوتے گئے ہوں…..کیسے بهول سکتا ہوں۔ ….سات بجے….. پرسوں…… یہیں….. وہ چلی گئی اور میں کلب بند ہونے تک اسی کرسی پر بیٹها رہا۔ اس کی سانسوں کی مہک، اس کے جسم کی مدھر خوشبو، اسکے لبادے کی سرسراہٹ، اس کی چمکتی پراسرار آنکھوں میں شوق کے جلتے ہوئے دیپ….. خدایا …یہ کیا ہے؟ خواب یا حقیقت….. ویٹر بل لے کر آیا تو میں نے اپنا پورا بٹوہ میز پر انڈیل دیا۔ …. اس کی باچھیں کھل گئیں….اگلے روز سہ پہر ڈھلے میری آنکھ کهلی۔ غسل لینے اور نشے ٹوٹنے پر اس کے خوبصورت چہرے کا تصور دھندلا دهندلا سا دکهنے لگا۔ کیا وہ سچ مچ کی پری تهی؟ مجهے ملی بهی تهی یا نہیں؟ یہ سب خواب تها کہ حقیقت؟ مگر پھر “پرسوں اتوار کو سات بجے ملنا، یہیں…..بھولنا نہیں” کے الفاظ کانوں میں گونجنے لگے…. وہ یقیناً حقیقت تهی اور کل پهر آئے گی…. وہیں… اسی جگہ…. سات بجے۔ ہفتے کی شب تمام رات مجهے نیند نہیں آئی، نیند کی پوری دو گولیاں کها کر سوچ کی پریوں کو بہلاتے، نیم غنودگی میں سوتے جاگتے اور سوچتے رات گزر گئی۔ صبح آنکھوں کے سرخ ڈورے اور ستا ہوا شب گزیدہ چہرہ میرے من کی ساری کہانی کہے دیتا تها۔ وقت کتنی مشکل سے کٹتا ہے، لمحے لمحہ بوجھل ہو کر سینے پہ کیسے دھرنا مار کر بیٹھ رہتا ہے۔ ۔۔۔۔یہ وہی جانتا ہے، جس نے انتظار کیا ہو۔
آخر کار خدا خدا کر کے دوپہر کے سائے ڈهلنے لگ پڑے تو اس مسافر کی طرح جس کی منزل قریب ہو، اپنی تیاری کرنے کی ٹهانی۔ نیم گرم پانی کے ٹب میں عطر کی پوری شیشی انڈیل کر دیر تک باتھ لیا تاکہ تازگی کا احساس نَس نَس میں بس کر ساری تھکن اور بے خوابی کا مداوا بن سکے۔ چہرے کو رگڑ رگڑ کر نئے سیفٹی بلیڈ سے شیو بنائی۔ آفٹر شیو لگا کر خود کو یو ڈی کلون کی پھواروں میں بسا دیا۔ کپڑے جوتے تو کل سے تیار کر کے سرہانے رکهے تهے، سارے گهر کو بهی صبح جی جان سے لگ کر چمکا دیا تها۔ قسمت کی بارآوری ہوتے دیر ہی کیا لگتی ہے۔ کیا خبر وہ خود یہاں آنے پر اصرار کرے۔ بستر کی شکنیں بار بار دور کیں۔ تیار ہوتے وقت میری ایک نگاہ گهڑی پر تهی۔ میں سات بجے سے قطعی لیٹ نہ ہونا چاہتا تها اور بہت پہلے جا کر بهی خود اپنی نظروں میں گِرنا نہ چاہتا تها۔ چاہتا تها کہ عین وقت پر وہاں پہنچوں۔ نہیں۔ تهوڑا سا لیٹ ہو جاوٗں تو کوئی حرج نہیں…. دو چار منٹ لیٹ ہونا آج کل کے ماڈرن زمانے کا تقاضہ ہے۔ نجانے مس جے نے آج کون سے رنگ کا لباس پہنا ہو گا؟ جانے وہ ائے گی بهی یا نہیں؟ میں ساڑهے چھ بجے ہی گهر سے نکل کھڑا ہوا اگرچہ بلیو وہسکی کلب صرف دس منٹ کی ڈرائیو پر تها۔ پهر وقت گزاری کے لئے میں کلب کے سامنے سے ہوتا ہوا آگے نکل گیا۔ سڑک پر ٹریفک برائے نام تهی۔ میڈن میں لگی بوگن ولیا کی جهاڑیاں رنگا رنگ پهولوں سے لدی تهیں…. کافی دور نکل آنے کے بعد دل میں اچانک خدشات جاگ اٹهے۔ …. اگر وہ مایوس ہو کر واپس چلی گئی تو؟…..یا پهر تنہا دیکھ کر کسی اور خوبرو نوجوان نے اسے پھنسا لیا تو…..؟ گاڑی واپس موڑی…. واپسی کے راستے میں ہر سٹریٹ کارنر پر سرخ بتی آن ملی….. آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا۔ من ہی من میں خود کو کوسنا شروع کیا…. مجهے پانچ دس منٹ قبل وہاں موجود ہونا چاہئیے تها۔ …Fashionably late…..مائی فٹ….. سات بج کر دو منٹ پر میں کلب کے پارکنگ لاٹ میں تها۔ اندر جانے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ وہ دروازے سے کچھ ہٹ کر باہر ہی کهڑی تهی۔ “ہائے۔۔۔” وہ مسکرائی۔ … اور پیلے پیلے دانت نکوسے۔ آنکھوں کے نیچے حلقے….. لانبی معنوعی پلکوں کی جھالر بهی انہیں چهپانے میں ناکام تهی۔
“یہ لو…” اس نے بڑی سی ٹوکری آگے بڑھائی۔ “یہ کیا؟پپی!”، “اور کیا….پپی؟ ہاں پپی، جسے گود لینے کو پرسوں تم مرے جا رہے تهے…. ” دفعتاً پوری بات مجهے سمجھ آ گئ ۔۔۔۔ پرسوں جب وہ لپک کر میرے پاس آئی تهی تو مجھ سے پوچھ رہی تهی؛ “? Would you like to have a little puppy ”
جسے میں شور کی بنا پر سن نہیں پایا تھا۔ جی چاہا کہ ٹوکری کو وہیں پٹک دوں مگر مِس جے یہ جا وہ جا….. ظالم نے پلٹ کر بهی نہیں دیکها۔ تجسس کے مارے ٹوکری کا ڈهکن کهولا تو اندر معصوم سا چہرہ لئے نیلی آنکهوں والی چهوٹی سی کتے کی بلونگڑی چیاوں چیاوں کر رہی تهی۔
کہتے ہیں پہلی نظر کا پیار کبھی نہیں بهولتا، سدا قائم دائم رہتا ہے اور دوسری محبت….خود کو بهلانے نہیں دیتی… پهر اس پِلے کا نام مس جے کیوں نہ رکها جاتا؟.
Urdu short stories and writers
Be First to Comment