Skip to content

مداوا

عالمی افسانہ میلہ 2019

افسانہ نمبر87

مداوا

ڈاکٹر عبدالشکیل خان ،بھوپال انڈیا

یوں تو عذرا اور عمران پچھلے چار سالوں سے کالج میں ہم جماعت تھے۔ اور اب پانچواں اور آخری سال شروع ہوئے بھی تقریباً دو ماہ کا عرصہ گذر چکا تھا۔ اور اس طویل عرصے کے دوران ان دونوں کے مراسم رسمی سلام ودعا سے آگے نہ بڑھ سکے تھے۔ وجہ صاف تھی۔ عذرا شہر کے نامی گرامی قدیمی اشیاءکے تاجرکی اکلوتی حسین و جمیل پری تھی جس کے پاس نہ تو روپیہ پیسے کی کمی تھی اور نہ ہی سماجی وقار کی ۔ جبکہ عمران کے والد محکمہ ریلوے میں چوتھے درجے کے ملازم تھے۔ اور ریلوے کالونی کے ایک چھوٹے سے کوارٹر میں اپنے بھرے پورے کنبے کے ساتھ کسمپرسی میں زندگی بسر کررہے تھے۔ عمران کی دو بڑی بہنیں صوفیہ اور یاسمین اوردو چھوٹے بھائی ذاکر اور شاکربھی زیر تعلیم تھے۔

کالج میں انتخابات کی گہما گہمی دھیرے دھیرے پروان چڑھ رہی تھی۔ کالج کی دیواریں امیدواروں کے ناموں سے رنگی ہوئی تھیں۔ بینر اور پوسٹر سے پورا کالج سج رہا تھا۔ یوں تو کئی طلباءاپنی اپنی قسمت آزما رہے تھے مگر اصل مقابلہ عذر ااور عمران کے درمیان ہی تھا۔دونوں ہی کالج کی اسٹوڈینٹ یونین کے صدر بننے کے خواہش مند تھے۔ دھواںدھار تقریروں کا دور چل رہا تھا۔ عذرا اپنی سہیلیوں کے ہمراہ روپیہ پیسے اور وسائل کا بھرپور استعمال کررہی تھی جبکہ عمران کے پاس خرچ کرنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔ لیکن اس کی باتوں میں وہ جادو تھا جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ جو بھی ایک دفعہ اس کی تقریر سنتا وہ اس کا گرویدہ ہوئے بنا نہیںرہتا۔ اسی لیے عمران کے ساتھ طلباءکے کئی بڑے گروپ وابستہ ہوگئے۔۔

انتخابات ختم ہوئے اور آخر کار نتیجہ آہی گیا۔عمران کو اس کے دوست کاندھے پر بٹھائے گلے گلے تک پھولوں کے ہار پہنائے ہوئے اور پیچھے ڈھول تاشوں کے ساتھ پورے کالج کا چکر لگارہے تھے۔ اُدھر عذرا ایک کمرے میں اپنی سہیلیوں کے ہمراہ خاموش بیٹھی کسی گہری سوچ میں گم تھی۔

جیسے ہی عمران کا جلوس وہاں پہنچا جہاں عذرا بیٹھی ہوئی تھی۔ عمران وہیں ٹھہر گیا۔

عذرا عمران کو اپنے روبرو دیکھ کر گھبرا گئی۔ڈھول تاشوں کا شور ختم ہوچکا تھا اور کمرے میں ایسا سکوت طاری تھا کہ سوئی گرنے کی آواز بھی صاف سنی جاسکتی تھی۔

”عذرا“ عمران نے پرخلوص انداز میں اسکو دعوت دی ۔”مجھ پربہت بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے اس سے عہد برآ ہونے کے لیے مجھے تمہارے تعاون کی ضرورت ہے۔“

عمران جذباتی ہوگیا۔”بولو عذرا ، تم میرا ساتھ دو گی نا“ اس سے پہلے کہ عذرا کچھ کہہ پاتی کمرے میںموجود طلباءکا ایک ساتھ شور اُبھرا۔ ”ہاں کہہ دو عذرا‘ ہاں کہہ دو عذرا“۔اکثریت کی آواز سے مغلوب ہو کر اس نے حامی بھر دی۔

رات تاریک تھی۔ عذرا اپنے بنگلے کے بیڈ روم میں اپنے بستر پر کروٹیں بدل رہی تھی۔ آج نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ وہ صرف عمران کے متعلق سوچ رہی تھی کہ آخراس معمولی شکل وصورت کے عام سے نظر آنے والے لڑکے میں ایسا کیا ہے کہ ہر کوئی اس کا گرویدہ ہوجاتا ہے۔ عذرا جتنا عمران کے متعلق غوروفکر کررہی تھی اتنا وہ خودکو عمران کے نزدیک محسوس کررہی تھی۔ سوچتے سوچتے دیر رات نیند نے اس کو اپنی آغوش میں لے لیا۔

اگلے دن عمران اپنے دوستوں کے ہمراہ کینٹین میں بیٹھا ہوا تھا۔ مبارکبادی کا سلسلہ جاری تھا۔ عذرا پھولوںکا گلدستہ لیے عمران کے سامنے تھی۔ ”مبارک ہو عمران“اس کے لہجے میں بلا کی اپنائیت تھی۔ عمران نے بڑھ کر گلدستہ قبول کیا۔یہیں سے دونوں جواں دلوں میں پیار کی داغ بیل پڑی ۔ اورپھر ملاقاتوں کاسلسلہ ایسا چلا کہ ان دونوں کے عشق کے چرچے عام ہونے لگے۔ ویسے بھی کہتے ہیں کہ عشق و مشک چھپائے نہیںچھپتا ۔اپنا سراغ دے ہی دیتا ہے۔ لیکن لوگوں کی باتوں سے بے خبر عذرا اور عمران کی دوستی پروان چڑھتی رہی۔ دونوں نے مل کر کالج کی ترقی ، طلباءکی فلاح و بہبودی، کالج کے سالانہ کھیل اور سالانہ جلسوں کو منعقد کرکے مقبولیت کی نئی مثال قائم کی۔ان سب مصروفیات میں وقت کیسے گذر گیا پتہ ہی نہ چلا۔ امتحان سر پر آگئے۔کالج میں طلباءکا آنا جانا بہت کم ہوگیا ۔ زیادہ تر طلباءاپنے گھروں میں رہ کر ہی امتحانات کی تیاری میں مصروف تھے۔ ایسے ہی موقع پرایک دن عمران اور عذرا کالج کینٹین میں ملے۔ وہ کینٹین جو کبھی طلباءکی وقت گذاری کا مسکن ہوا کرتا تھا،جس میں طلباءآزاد پرندوں کی طرح چہچہایا کرتے تھے اور ہنسی مذاق ، مسکراہٹیں اور قہقہوں سے گونجا کرتا تھا آج وہاں خاموشی اور سنّاٹاتھا۔وہ دونوں بھی خاموش تھے۔ کولڈ کافی گرم ہوچکی تھی۔

عذرا کافی پینے کے بجائے اِسٹرا گلاس میںگھمائے جارہی تھی۔

”عذرا“ عمران نے خاموشی کا طلسم توڑتے ہوئے بڑے پیار سے کہا۔ ”تم میرا انتظار کروگی نا؟“۔ اس سے قبل عذرا کچھ کہہ پاتی عمران نظریں جھکائے کہتا رہا۔”دیکھو میں ایک مشترکہ خاندان کا چشم و چراغ ہوں اور تم تو جانتی ہو مشترکہ خاندان کی روایتیں، اصول، پابندیاں اور مجبوریاں ہوا کرتی ہیں۔ مجھے تمہارے گھر آکراپنا پیغام دینے میںکچھ وقت لگ سکتا ہے لیکن تم صبر کا دامن مضبوطی سے تھامے رہنا ۔“

عذرا اپنی غزالی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے عمران کو تکے جارہی تھی۔

یہ اور ایسے ہی کئی عہدو پیمان باندھ کرعذرا اور عمران اپنے اپنے گھروں کو چل دیے۔

امتحان ختم ہوچکے تھے ۔عمران مقابلہ جاتی امتحانوں کی تیاری میں مصروف تھا۔وہ آئی۔ اے۔ ایس۔ افسر بننا چاہتا تھا لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ایک دن صبح صبح عمران کے والد کو دل کا دورہ پڑا اور وہ اپنی بیوی اور بچوں کو روتا بلکتا چھوڑ کراس دنیا سے رخصت ہوگئے۔سارا کنبہ ماتم کدہ بن گیا تھا۔ عمران پر تو غموں کا پہاڑ ٹوٹ گیا لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اوراپنے خوابوں کو ادھورا ہی چھوڑ کر والد کی جگہ پر ریلوے محکمے میں بطور اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹرملازمت کرلی۔

ملازمت کی مجبوریاں اورگھر کی ذمہ داریاں عمران پرحاوی ہوچکی تھیں۔ باوجود اس کے شاید ہی ایسا کوئی دن گذرا ہوجب وہ عذرا کی یادوں سے غافل ہوا ہو۔

انہیں دنوں کئی گھرانوں سے اس کے لیے رشتے آنے لگے۔ عموماً ایسا ہوتا کہ جب کبھی وہ رات کی شفٹ سے اپنے گھر لوٹتا تو اماں کھانا کھلاتے وقت یہ کہتیں کہ تمہارے تکیئے کے نیچے ایک لفافہ رکھا ہوا ہے،تصویر دیکھ کربہنوںکو اپنی رائے بتا دینا۔مگر عمران نے ان لفافوں کو کھول کرتصویر دیکھنا تک گوارہ نہیں کیا۔ کئی لفافے رنگ کھو چکے تھے۔ عمران کو خود سے زیادہ اپنی بہنوں کی شادیاں اور چھوٹے بھائیوںکی تعلیم کی فکر تھی۔اور پھر ایسا ہوا کہ اس کی ماں بھی اکثر بیمار رہنے لگیں۔

جب اس کی چھوٹی بہن یاسمین بھی خیر سے اپنے گھر بار کی ہوگئی تو عمران نے پہلی بار سکون کی سانس لی۔ لیکن اس دوران چار سال کا عرصہ بھی بیت چکا تھا۔ پُل کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا وقت کا دریا بھلا کب رکتا ہے۔اس کے چھوٹے بھائی دوسرے شہروں میں اعلیٰ تعلیم کے لیے جاچکے تھے۔ جب عمران اپنی نوکری پر چلا جاتا تو اماں کی دیکھ بھال کرنے والا گھرمیں کوئی موجود نہ ہوتا۔ اماں صبح و شام عمران کی شادی کے خواب دیکھ رہی تھیں۔ ایک شام صوفیہ اور یاسمین اپنے مائیکے آئی ہوئی تھیں اور عمران سے اس کی پسند جاننے کی ضد کررہی تھیں تب عمران نے بھی اپنے سارے جذبات و احساسات اپنی بہنوں کے سامنے ظاہر کردیے۔ اس نے عذرا کی خوبصورتی، اس کے عادت و اطوار کے ایسے قصیدے پڑھے کہ بہنیں بھی حیرت زدہ رہ گئیںکہ ان کا بھائی کسی کو اتنا ٹوٹ کر چاہتا ہے لیکن اپنی محبت کو کس قدر پوشیدہ رکھا کہ کسی کوپتہ ہی نہ چلنے دیا۔ دوسرے دن صوفیہ اور یاسمین ، عذرا کے گھرپہنچ گئیں۔

”بیٹی میں نے آپ دونوں کو پہچانا نہیں، کہاں سے تشریف لائی ہیں۔ “عذرا کی والدہ نے ان سے پوچھا۔

”خالہ جان“ صوفیہ نے کہا۔ ”ہم فتح گڑھ سے آئے ہیں۔ ہمارے بھائی کے لیے آپ کی بیٹی عذرا کا رشتہ لیکر۔“

”کہاں ہے عذرا“ یاسمین نے چہکتے ہوئے پوچھا،اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا۔اب اور انتظار کرنا اس کے لیے محال تھا۔ وہ جلد سے جلد اپنی ہونے والی بھابھی کے دیدار کرنا چاہتی تھی۔

عذراکی والدہ یہ سن کر حیرت زدہ رہ گئیں،پھر بولیں۔

”آپ کوشایدیہ نہیں معلوم کہ عذرا کی شادی دو سال قبل ہوچکی ہے اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ افریقہ میں مقیم ہے۔

”جی! دونوں بہنوں نے ایک سُر میںحیرت سے کہا۔ اور پھر کچھ دیرخاموش رہ کر اجازت چاہی۔واپسی کا سفر کاٹے نہیں کٹ رہا تھا۔ جیسے پاﺅں من بھر کے ہو گئے ہوں۔جیسے تیسے دونوں گھر پہنچیں۔ شام کو عمران دفتر سے جلد لوٹ آیا خوشی اس کے ہر مسام سے پھوٹے پڑ رہی تھی۔ وہ خوش خبری سننے کے لیے بے چین تھا،مگر اسے کیا معلوم تھا کہ ایک ایسی خبراس کی منتظر ہے جو اُس کے دل کی کائنات کو زیرو زبر کر دے گی۔

عذرا کی شادی کی خبر سن کر عمران نے کسی طرح کا رد عمل ظاہر نہیں کیا ۔سب کے ساتھ خاموشی سے کھانا کھایا اوراجازت لے کر اپنے کمرے میں سونے چلا گیا۔لیکن رات بھر سو نہ سکا۔ کالج کی ایک ایک بات یادآکر اس کو بے چین کررہی تھی۔ خصوصاًاپنے کہے ہوئے آخری الفاظ ”عذرا! تم میرا انتظار کروگی نا“۔ رات بھروہ جاگا اور اس نے بہت غوروفکر کیا ۔ وہ رات اس کے لیے فیصلے کی رات تھی اور اس نے فیصلہ کرلیا تھاکہ وہ اب شادی نہیں کرے گا۔اس کے بعد بہنوں نے کئی جگہ اس کے لیے لڑکیاں تلاش کیں لیکن عمران کسی طرح شادی کے لیے راضی نہ ہوا۔

عمران کی شادی کی آرزو دل میںلیے اماں بھی مالکِ حقیقی سے جا ملیں۔ چھوٹے بھائی ذاکراور شاکر نے دوسرے شہروں میںاپنے ساتھ کام کرنے والی لڑکیوں سے اپنے پسند کی شادیاں کرلیں اور وہیں کے ہو رہے۔ صوفیہ، یاسمین بھی اپنی گھر گرہستھی میں ایسی الجھیں کہ اب مائیکے آنے کا وقت بہت کم میسر ہوپاتا۔ لیکن عمران نے اپنے آپ کو نوکری میں ایسا مصروف رکھا کہ پتہ ہی نہیں چلا کہ کب ریٹائرمنٹ کی تاریخ آگئی۔

ایک شام عمران ڈپارٹمنٹل اسٹور میںاپنی ضرورریات کا سامان خرید رہاتھا اور سامان سے بھری ٹرالی کو اسی بیزاری کے ساتھ گھسیٹ رہا تھا جس طرح اس نے اب تک اپنی زندگی کی گاڑی گھسیٹی تھی۔ سامان لے کر وہ کاﺅنٹر پر پہنچا۔جہاں خاصی بھیڑ تھی۔ اسی بھیڑ میں ایک شناسا چہرہ اس کا مرکزِ نگاہ تھا۔وہ چہرہ جس کی شادابی ہمیشہ عمران کے تصور میں پیار کی مانند حیات پاتی رہی تھی۔عمران کو پہچاننے میں ذرا بھی دیر نہ لگی کہ وہ عذر اتھی۔عمران اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور بول پڑا ”ہیلو عذرا کیسی ہیں آپ “ عذرا چونکی اسے کب امید تھی کہ اس طرح اچانک اس کے سامنے اس کا ماضی عمران کی صورت میں مجسم ہواٹھے گا۔گو عمران کے بالوں میں چاندی نے اپنی سفیدی گہری کر لی تھی۔ آنکھوں میں اُداسیاں تھی لیکن تھا تو وہ عمران ہی جو اس کے خوابوں کی تعبیر ہوا کرتا تھا۔تبدیلی تو عذرامیں بھی آئی تھی۔ وہ کھلنڈراپن کب کا رخصت ہوچکا تھااس کی جگہ عمر کی پختگی نے لے لی تھی خوبصورت جھیل سی آنکھیں چشمہ میںپوشیدہ ہوگئی تھیں۔ ”ارے! عمران کیسے ہو“ عذرا نے حیرت سے پوچھا۔

عمران نے ڈپارٹمنٹل اسٹور کے ملازم کو بلایا اور کچھ ضروری ہدایات دیں ۔ اور پھر عمران اور عذرا ڈپارٹمنٹل اسٹور کے پانچویں منزل پر کافی لاﺅنج میں بیٹھے تھے۔ کولڈ کافی آج بھی دونوں کے سامنے موجود تھی۔ دونوں آج بھی خاموش تھے۔ عمران نے آج بھی خاموشی کو توڑنے میں پہل کی۔”عذرا تم نے تو وعدہ کیا تھانا کہ تم میرا انتظار کروگی۔پھر……..“ عذرا نے کوئی جواب نہیں دیا۔بلکہ بات کا رُخ دوسری سمت موڑتے ہوئے کہا۔ ”عمران اپنی ہمسفر کی تصویر نہیں دکھاﺅگے۔ میں اسے دیکھنا چاہتی ہوں۔کتنے بچے ہیں تمہارے، کیا کررہے ہیں؟ عذرا نے کئی سوال ایک ساتھ داغ دئے۔ عمران نے عذرا کے سبھی سوالوں کے جواب میں صرف اتنا ہی کہا۔ ”میں نے شادی نہیں کی عذرا“۔”کیا؟“ عذرانے حیرت زدہ ہوکر کہا” ایسا کیوں کیا تم نے عمران؟“ عمران نے سنجیدگی سے کہا ۔ ”کیوںکہ تم نے تو کسی اور سے شادی کرلی تھی نا“۔ اب عذرا سنجیدہ ہوگئی اور اس کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے ۔ اُس نے اپنا چشمہ اتارا اور دوپٹے سے کانچ صاف کرتے ہوئے کہا۔دیکھو عمران میرے والد تم سے میری شادی کرنے کے لیے تیار نہیں تھے لیکن میں نے ان کو منا لیا تھا۔وہ خود میری تصویر ایک لفافے میں رکھ کر تمہارے گھر دے کر آئے تھے۔ پورے ایک ہفتے کے بعد تمہارے انکار کے ساتھ وہ تصویر واپس لوٹادی گئی۔ اب بتاﺅعمران میرے پاس تمہارے انتظار کی کوئی وجہ تھی؟“عمران یہ سن کر حیرت زدہ رہ گیا اور عذرا کا منھ تکنے لگا۔

عمران نے کہا ”میرے دل و دماغ پر تم اس طرح چھائی ہوئی تھیں کہ تمہارے علاوہ کسی دوسری لڑکی کی تصویر دیکھنا اور اس میںوہ نقص نکالنا جو اس میں موجود نہ ہو اور پھر رشتے سے انکار کرنا میرے اصولوں کے خلاف تھا۔ اس لیے عذرا میں نے ان لفافوں کو کھولنا ہی گوارہ نہیں کیاتو پھر بھلا میں کیسے جان پاتا کہ اس لفافے میں وہ تصویر تمہاری تھی؟ عذرا کا چہرہ دھواں دھواں ہوگیا اسے چکر آگئے اور وہ وہاں سے جلد اُٹھ جانا چاہتی تھی۔ عمران نے پوچھا۔تم تو افریقہ میں تھیں، پھر یہاں کیسے؟ عذرا نے ایک سرد آہ بھری اور مختصرسا جواب دیا۔ ”میرے شوہر سائنسداں تھے کچھ عرصے قبل ایک حادثے میں نہیں رہے اس کی آواز بھرّا گئی اس نے بمشکل خود پر قابو پایا۔شوہر کے جانے کے بعد افریقہ میں کیا کرتی۔ اپنے دس سال کے بیٹے کو لیکر یہاں چلی آئی اور اب یہیں ہوں۔“ اتنا کہہ کر عذرا اپنی جگہ سے اُٹھ گئی۔ ابھی وہ چند قدم ہی چل پائی تھی کہ عمران کی آواز نے اس کے قدم آگے بڑھنے سے روک لیے۔ عمران کے لہجے میں یاسیت بھی تھی ، اپنی کوتاہی کا پچھتاوا بھی۔عمران کہہ رہا تھا ” عذرا اپنے بیٹے کا ہاتھ تھامو اورمیرے پاس چلی آﺅمیری بے رنگ زندگی میں خوشیوںکے رنگ بھر دو۔“چلی آﺅمیری ویران زندگی کو گلزار کردو۔یہ تمہارے لیے بھی اچھا ہوگا کیونکہ اب تم بھی تو تنہا ہو اور میں بھی دیکھو میں آج بھی دونوں بانہیں پھیلائے کتنی شدت سے تمہارا منتظر ہوں۔“

عذرا وہیں ٹھہر گئی وہ عمران کے پیارکو محسوس کررہی تھی۔تبھی بے انتہا چاہنے والے مرحوم شوہر اور معصوم بیٹے کی تصویر اس کی نظروں کے سامنے گھوم گئی۔اسے لگاکہ اگر وہ زیادہ دیر اور رکی تو موم کی طرح پگھل جائے گی۔وہ اپنی ایڑیوں پرگھومی اور بغیر کسی سے نظریں ملائے خارجی دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ہال میں خاموشی تھی اور عمران ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح کھڑا ہوا دروازے کی جانب دیکھ رہا تھا۔

Published inڈاکٹر عبدالشکیل خانعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply