Skip to content

محبت کی عمر

عالمی افسانہ میلہ 2021
پہلی نشست
افسانہ نمبر 17
محبت کی عمر
رابعہ الرباء ۔ لاہور ، پاکستان

محبت موسموں کی طرح ،زندگی کی طرح ، بچپن کی طرح ،جوانی کی طرح، دن کی طرح ،رات کی طرح ،سال کی طرح ،محبت کی بھی اک عمر ہوتی ہے۔ کسی کی عمر دراز یا عمر بھرتو کسی کی مختصر۔ مگر اس کے بعد محبت کی بھی وفات ہوجاتی ہے۔مگر اس کی میت نہیں ہوتی لہذا جنازہ نہیں اٹھتاتو قبر بھی نہیں ہوتی۔
وہ بول رہی تھی۔ اور اس کی گہری سمندر جیسی آنکھیں جیسے اس کی باتوں کی تائید کر رہیں تھیں۔ ان کی چمک سورج کے طلوع جیسی تھی۔
اس کی روانی طوفان کے بعد پانی کے دریا میں اتر جانے والی تھی۔ اس کے ہاتھ جیسے سیلاب کے بعد گھروندا پھر سے بنا چکے تھے۔ مگر اس کے لفظ اس کی زندگی کی تھکن سے گندھے ہوئے تھے۔ وقت سے پہلے زندگی نے اس پہ بھید کھول دیا تھا۔اور اس کا وزن اتنا تھا کہ وہ اکیلی سہہ نہیں پا رہی تھی۔
اس نے چلتےچلتے اپنے رومی کو تلاش کر لیا۔یا اس کا رومی اسے مل گیا۔ اور اس نے یہ بھید اس کے سینے میں اتار دیا۔
رومی ششدر نگاہوں سے اسے دیکھتا رہ گیا۔
محبت کی عمر ہوتی ہے۔میت، جنازہ اور قبر نہیں ہوتے۔۔۔۔
وہ بول رہی تھی رومی کسی اور ہی دنیا میں چلا گیا۔
……………
وہ مجھے ملا۔ مجھے چاہا ،ٹوٹ کے چاہا۔ اس کا رنگ روپ بدل گیا۔ضبط کے پیمانے ٹوٹ گئے ۔اس نے مجھے ہی علاج مجھے ہی درد بنا لیا۔ مگر مجھے خبرہوتے تک ایک برس لگ گیا۔ایک برس بعد میں نے اسے اس محبت کا بوجھ جو اب اس سے اکیلے اٹھایا نہیں جا رہا تھا ۔آدھا لے لیا۔ ہم نے محبت بانٹ لی۔اس کے سوا اور کیا کر سکتے تھے ہم؟جو کر سکتے تھے دستور زمانہ کے مطابق وہ خالی کاغذ میں نے اسے دے دیئے تھے۔ مگر اس نے یہ کہہ کر واپس کر دئیے کہ عمر بھر نہیں۔
مطلب؟ محبت کی کی عمر کا تعین اس نے پہلے سے کر رکھا تھا۔کہ میت جنازہ قبر نہیں ہوتے۔
رومی نے بوجھ توبانٹ لیا تھا۔مگر گناہوں ثوابوں سے ماورا۔ اسے میت جنازہ اورقبر کی شناخت کی خواہش تو تھی۔
اس لڑکی کی بات نے اس کے اندر کے سمندر میں ان سب شناختوں کو ڈال کر لہروں کے حوالے کر دیا۔ بلکہ جو آدھابوجھ اس نے محبت کا اٹھایا تھا۔اسے بھی سمندری پانی میں بہا دیا تاکہ وہ کسی انسان کو کھا نہ جائے بلکہ لہر کا ہاتھ تھامے ساحل پہ چھوڑ جائے ۔
اس کے بعداچانک اس کے اندر تیز ہواؤں کی آندھی چلی اوراپنے ساتھ سب کچھ اڑا لے گئ ۔وہ خالی بہت خالی ہوگئ ۔پتھروں جیسی حیران آنکھیں اس آدھی محبت کی پوری خواہش کو دیکھتی تو بس یہ سوچتی کہ اسے محبت کی عمر کا تعین تھا یا اس نے کیا ہوا تھا۔
محبت طاقت بھی تو یے کیا وہ مجھ سے طاقت لے کر کہیں اور منتقل کر دیتا ہے۔کیا اس کو طاقت سے محبت تھی ہاں اس کو طاقت سے محبت تھی۔ محبت کی طاقت سے محبت تھی۔
رومی اس کو محبت کی طاقت سے محبت ہے۔اور ایسی محبت قربانی نہیں دیتی۔
اس سوچ نے اسے ایک بار پھر کسی زلزلے کی طرح جھجھوڑ کر رکھ دیا۔
اور واپس اپنی دنیا میں خالی خالی لوٹا تو وہ سمندر آنکھوں والی سامنے بیٹھے مسلسل بول رہی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب مجھےپتا لگا اس وقت تین ماہ گزر چکے تھے۔
جب مجھے پتا لگا ۔اس وقت تین ماہ گزر چکے تھے۔ وہ پریشان تھی ۔اس نے مجھ سے بات کی کہ میں شاید کوئ رستہ نکال سکتی ہوں۔ کہ محبت سے حبس نکل جائے ۔مگر
مگر یہ اتنا آسان نہیں تھا۔جتنا آسان محبت کر لینا تھا۔جتنا آسان محبت میں قربان ہو جانا تھا۔
میں اس پر برہم ہوئی کہ محبت ایسے کرتے ہیں ؟ جیسے تم نےکی۔ مجھے دیکھو محبت ایسے کرتے ہیں۔مجھے حبس نکالنے کی ضرورت نہیں تمہاری طرح ۔یہ ہوتی ہے محبت،خوشبو کی طرح ۔ تمہاری طرح بد بو دار نہیں ہوتی۔
مجھے غصہ تھا ۔بے بسی تھی یار،اس لئے شاید میں زیادہ سخت لفظ استعمال کر گئی مگر کیا کرتی۔
اس وقت مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ یہ راز ہے تو فاش نہیں کرنا اور فاش ہے تو راز رکھنا ہے۔
یہ کیسی محبت تھی۔ جو جان پہ کھیل کر اس نے کی تھی۔
اسی بحث تکرار میں ہم سو گئے ۔
یہ صبح قیامت کا سورج لے کر چڑھی تھی ۔
وہ میرے ساتھ سو رہی تھی اور اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی ۔میں ڈر گئی۔سائیں کو جگایا کہ دیکھو گڈی کے منہ سے جھاگ نکل رہی ہے ۔ رات تو اچھی بھلی سوئی تھی۔
سائیں بھی چکرا گیا۔ بہن کی بیٹی اپنی بیٹی ہوتی ہے۔ اسے کیا بتائے گا۔ اس کے گھر میں یہ کیا ہو گیا ہے۔ کیا کھیتوں سے کوئی سانپ آکر کاٹ گیا ہے۔یا کوئ زہریلا کیڑا؟
اس نے جلدی سے اسے اٹھایا۔ اور مجھے کہنے لگا چلو۔گاڑی کی چابی پکڑو اور جا کر دروازہ کھولو۔
میں نے دوپٹہ پکڑا جو میرے سرہانے تھا اور میز سے چابی اٹھائ چپل پہنی اور دوڑتے ہوئے گاڑی کا دروازہ کھولا۔
سائیں نے اسے پچھلی سیٹ پہ لٹایا دروازہ بند کیاپریشانی سے چابی پکڑتے گاڑی سٹارٹ کی۔میں جلدی سے ساتھ بیٹھ گئ۔
وہ جتنی تیز گاڑی چلا سکتا تھا چلاتے ہوئے ہسپتال تک لے گیا۔ہسپتال ایمرجنسی کے سامنے گاڑی روکی تو سٹریچر پہلے سے موجود تھا عملہ جلدی سے آ گیا۔ اسے گاڑی سے نکال اندر پہنچایا۔
ڈاکٹر نے فوری چیک کیا اور بتایا کہ اس نے کوئ زہریلی شے کھا لی ہے۔ معدہ واش کرنا پڑے گا۔
سائیں پریشانی میں باہر نکل گئے۔ ڈاکٹر اسے اندر لے گیے۔ایک نرس نے آکر رسید میرے ہاتھ میں تھما دی۔
میں نے سائیں کو دے دی ۔ وہ باہر پریشان بیٹھا تھا۔میں نے اس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر تسلی دی سب ٹھیک ہو جائے گا ۔جبکہ میرا اپنا دل بھی اندر سے کانپ رہا تھا۔
بس دعااور بے بسی تھی ۔ابھی تو سائیں کومیں نے رات کی بات بتانی تھی کہ سویر کا سورج بھی نہیں چڑھنے دیا گڈی نے۔
سویر کو بھی چن چڑھا دیا۔
چن چڑھانا بھی اتنا آسان نہیں ہوتا یہ اپنی زندگی کے ساتھ کیوں کھیل رہی ہے۔اتنی سی عمر ہے ۔ابھی بھر جوانی پڑی ہے۔زندگی نے نجانے کتنے موڑ لینے ہیں۔ مگر اس عمر میں سمجھ کب آتی ہے۔
میں سوچ ہی رہی تھی کہ مجھے پتا بھی نہیں لگا سائیں کب اٹھے اور کب آ گئے۔
یہ لو ۔۔۔۔
اس آواز نے مجھے چونکا دیا۔میرے سائیں کی تھی۔ ایک اور پرچی پہلی پرچی کے ساتھ مجھے پکڑاتے ہوئے بیٹھ گئے۔
میں خامشی سے اٹھی جیسے مجھے میری آہٹ بھی سنائ نہ دے ۔اور اندر جا کے کاونڑ پہ اسی نرس کو دونوں پرچیاں تھما دیں ۔
اس نے ایک کاغذ میرے حوالے کر دیا۔
اور اندر چلی گئ جس دروازے سے گڈی کو اندر لے کر گئے تھے۔
میں خالی آنکھوں سے دیکھتی رہ گئ ۔کسی اور نرس نے مجھے باہر جانے کا کہہ دیا۔
میں بت کی طرح کسی چابی والے کبوتر کی مانند آ کر سائیں کے پاس بیٹھ گئ۔
رونا چاہتی تھی سائیں کے کاندھے پہ سر رکھ کر ۔مگر معاشرہ شوہر سے لپٹنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔
یہ بھی مجھے پتا تھا۔میری آنکھوں سے دو قطرے بے بسی کے ٹپکے اور گالوں تک ہی آئے تھے ۔ سائیں کو پتا لگ گیا۔
اب وہ مجھے تسلی دے رہا تھا۔
کملی اے سب ٹھیک ہو جائے گا۔
لفظ کبھی کبھار بنیاد اور ستون بن جاتے ہیں۔ کوئ لمحہ قبول ہو جاتا ہے ۔ ایک نرس باہر آئ وہی والی تھی ۔میں سمجھ گئ ۔ہمیں کچھ کہے گی اور کوئ مریض نیا نہیں تھا۔ میں بے چینی سے اٹھ کھڑی ہوئ۔
گڈی ؟
میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔
تووہ بولی آپ کے مریض کو وارڈ میں شفٹ کر دیا ہے۔ آ جائیں ۔
ہم دونوں نرس کے پیچھے چل دیئے جیسے زندگی چپکے سے موت کے پیچھے چل دیتی ہے۔
پہنچے تو گڈی اپنی ہوش میں نہیں تھی ایک بازو پہ ڈرپ لگی دھڑکن کی طرح صدائیں دے رہی تھی ۔
…………………
تبریز کو رومی مل گیا تھا۔ دوسری طرف رومی نے تبریز کی محبت میں خود سے جدائ اختیار کر لی تھی۔
شمس تھا سمجھ تو گیا تھا۔مگر سمجھاتاکیسے کہ دیکھو ہم محبت نہیں کرتے عشق کرتے اور مشق کی طرح کرتے ہیں کہ فنا ہو جاتے ہیں ۔فنا کی روح رومی میں بھی تھی ۔
کسی مقام پہ رومی تبریز بن جاتا تھا تو کسی پہ تبریز رومی ۔
دونوں طرف تبریز نے انتقال کے بعد رومی کے ہی پہلو میں آنا ہے ۔یہی منتقل ہونا تھا۔ اور رومی کے نہ ہوتے ہوئے بھی بے قرار رکھنا تھا۔
محبت کے کچے بوٹے وہ کھاتا ہے جس نے پھل نہ کھانا ہو۔
اس کی یہ بات رومی کو ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ پھل نہیں کھانا تو کچے پتوں کا کیا مزا۔یہ تو مزا بھی نہیں دیتے۔کیایہ ظلم نہیں ہو گا۔ عشق بذات خود ظلم ہے تو اس میں ظلم کا کیا سوال؟ سوال تو بہت تھے مگر ان کو پھل نہیں لگنے تھے۔ان کے پھولوں کی مہک سے کسی رات میں رانی نہیں آنی تھی۔
کیا عاشق کو ایسی بے پر محبت کو پی نہیں جانا چاہیے ۔ کہ وہ تو منتقل ذات کر کے آگے بڑھ جائے گا۔
لیکن ہر ہستی مٹی تو نہیں ہوتی کہ خود میں چھپا لے گی۔ کوئ ہستی پانی بھی تو ہوتی ہے جو بے وزنی شے کو ساحل دے دیتی ہے۔
جس آگ پہ ہانڈی نہ چڑھانی ہو،ہاتھ نہ سیکنے ہوں ۔ اس دوزخ کو مٹی نہیں کر دینا چاہئے ۔
بیک وقت تبریز اور رومی ذات اپنی آپ میں گم ہو گئ۔
محبت کی عمر متعین کر کے آنے والے اس کو دفن بھی تو کر سکتے ہیں۔ جن کے لئے محبت اختیاری شے ہے۔ اختیار ہے تو بے حساب ہونا چاہیے۔یہ معمولی سا اختیار عشق کو نہیں بھاتا۔ عشق کو پورے کا پورا بندہ مانگتا ہے۔ جو پورا نہیں آ سکتا تو اسے اپنے پاوں میں رنجیر خود باندھ لینی چاہیے ۔اور عشق پی جانا چاہئے ۔
کیونکہ عشق تو پورے کا پورا بندہ مانگتا ہے۔۔۔۔۔
محبت منتقل کر دی جائے آس و خواہش کی پینری لگا دیتی ہے۔اور یہ پنیری عشق و امر بیل کی طرح بندہ کھا جاتی ہے۔
وہ دو دنیاوں میں اکھٹے سفر سے کبھی یہاں تو کبھی وہاں نکل جاتی تھی
……………
اس کی آنکھیں بند تھیں اور ہم دونوں کی پھیل گئیں تھی ۔
اب چپ دونوں کو کچھ کہنے اور سننے کا پیغام دے رہی تھی۔
سائیں باہر نکل گئے میں انہیں جاتا دیکھتی رہی۔کیسے بتاون سب کچھ
“انہیں کچھ دیر تک ہوش آ جائے گا معدہ واش کیا گیا ہے۔ چند گھنٹوں بعد آپ جا سکتے ہیں “
وہ یہ کہتے ہوئے میری طرف دیکھ رہی تھی ۔
جیسے کچھ پوچھ رہی ہو۔
“ہمارے پاس ایسے کسیز آتے رہتے ہیں ۔ لڑکیاں جذباتی عمر میں خود کشی کی کوشش کرتی ہیں۔”
مجھے سمجھ نہیں آیا کہ وہ پوچھ رہی تھی یا بتا رہی تھی ۔
ہوں۔۔۔۔۔۔
بس میں اتنا کہہ سکی ۔وہ شاید سمجھ گئ کہ میں بولنا نہیں چاہتی۔
“لیکن پھر بھی جوان بچوں والے گھروں میں ایسی زہریلی چیزیں نہیں رکھنی چاہیئں۔ “
میں پھر سکتے میں آ گئ۔
وہ میری خامشی اور حیرانی سے بیزار ہو کر شاید دوسرے بیڈ کی طرف چلی گئ۔
میں ساتھ رکھے بینچ پہ بیٹھ گئ اور بینچ کو دونوں ہاتھوں سے یوں پکڑ لیا جیسے مجھے کوئ اسے اٹھا نہ دے یا جیسے یہ اڑ نہ جائے۔
رب جانے کب تک بیٹھی رہی۔ اور کیا سوچتی رہی۔ ایک خاتون پیچھے سے آئیں ۔
“کیا ہوا ہے ان کو کیا لگتی ہیں آپ کی ؟
میں اس کی آواز سے ڈر گئ شاید گڈی بھی ڈر گئ اس نے ہلکی سے آنکھیں کھولیں۔جسم میں جنبش ہوئ تو دل کو جیسے سانس آئ۔
خاتون نے میرے کاندھے پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔
“اللہ بہتر کرے گا”
اور چلی گئیں۔
گڈی آنکھیں کھول رہی تھی۔ اس نے مجھے دیکھ کر منہ دوسری طرف موڑ لیا۔ میں پریشان ہو گئ۔
گڈی میں نے یہ تو نہیں کہا تھا۔ گڈی محبت میں نے بھی کی تھی۔مگر کچی پنیری جیسی نہیں۔
کچے بوٹے کا مزا وہ لیتا ہے جس نے اس کا پھل نہ کھانا ہو۔”
گڈی
میں نے اسے آواز دی
اس نے آنکھیں کھولے بنا ہوں کیا۔
گڈی تو ٹھیک ہے ناں اب ؟
“ہوں”
کہہ کر اس نے چور آنکھوں سے مجھے دیکھا۔ میں اٹھ کر اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گئ۔
گڈی ہم گھر چلیں ۔بس تیری ڈرپ ختم ہو لے تو ڈاکٹر سے پوچھ کر گھر چلتے ہیں۔ اور دیکھ فکر نہ کر میں سب کروا دونگی ۔کسی کو پتا نہیں لگے گا۔ مگر تیرے ماموں کو تو بتانا پڑے گا نا ۔وہ ڈانٹیں تو سن لینا۔ بعد میں میں اسے سمجھا دونگی”
گڈی کو اب کچھ حوصلہ ہوا۔
میں اٹھ کر باتھ روم چلی گئ اور بند آواز سے روتی رہی۔ پھر منہ ہاتھ دھو کر باہر نکل آئ جیسے کچھ بھی نہیں ہوا۔
باہر گئ سائیں کو بتایا کہ گڈی کو ہوش آ گیا ہے مگر اب سائیں ہوش میں نہیں تھا۔
رب جانے کیا سوچ رہا تھا۔جیسے بیٹھا تھا بنا جنبش بیٹھا رہا۔ بس آنکھ اٹھا کر مجھے دیکھا اور پھر سوچ میں گم ہو گیا۔
میں گڈی کے پاس آ گئ کہ اس کی چپ اب بول رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے سائیں کو سب کچھ بتا دیا۔ اس نے گڈی کو کچھ نہیں کہا اور میری پکی محبت میرا ساتھ دینے کو تیار ہو گئ۔
وہ محبت جوکچی مٹی سے آگ پہ تاپ کر آج پکے گھر کی چھت بنی ہوئ ہے۔ایسی چھاوں سے ہم کچی محبتوں والوں کے دکھ ،اور جذبے سمجھ سکتے تھے ۔سمجھ سکتے تھے کہ پیر کہاں اور کیسے پھسلتے ہیں اور کیسے زندگی ساتھ دیتی اور چھوڑجاتی ہے تجربے کی بھٹی ہم نے سینک رکھی تھی ۔سو ہماری بنیاد ستون اور چھت مضبوط تھے ۔
اس لیے سب کو کہتی ہوں محبت کا تاپ سہنا سیکھو۔ ورنہ راکھ بن جاو گے۔ تاپ ہیرا بنا دیتا ہے ۔راکھ کو ہوا کا جھونکا بھی اڑا لے جاتی ہے ۔
سائیں سے میں نے اسے فون کروایا اور ہم نے اسے اپنی سرکاری دفتر بلایا۔
سائیں نے کوئ بات نہ کی۔ اس کی آنکھوں کا رنگ بتا رہا تھا اس کا خون اتنا کھول اٹھا ہے کہ شاید میں ساتھ نہ ہوتی تو وہ اسے جان سے مار دیتا۔
“تم جانتے ہو تم نے کیا کیا ہے؟
کیوں کیا ہے ۔کیا تمہارے گھر میں ماں بیٹی نہیں ہیں ۔ کہ تمہیں احساس ہی نہ ہوا؟کہ کسی کی بیٹی کی زندگی عمر بھر کے لیے برباد ہو سکتی ہے۔
حرام ۔۔۔۔”
یہ کہہ کر میرا خون کھول گیا۔ اور دل کیا اسے گولی مار دوں۔
میں خاموش ہو گئ
تو سائیں نے مجھے پانی دیا
شادی کرو گے اب ؟
“نہیں جی وہ تو میں نہیں کر سکتا”
سائیں کو اب اس نے اتنی ڈھٹائی سے جواب دیا تو مجھے اور غصہ آیا
“شادی نہیں کر سکتا۔ حرام ۔۔۔ یہ جواب تو دے سکتا ہے پہلے کسی بات کا کوئ جواب تیرے پاس نہیں تھا۔ “
پانی کا آدھ بھرا گلاس میں نے اس کے سامنے بیٹھے اس خبیث کے پیروں کی طرف پھینک دیا جو چکنا چور ہو گیا۔
شادی کر نہیں سکتا شلوار کا ناڑا تو باندھ سکتا تھا ناں ۔وہی باندھ کر رکھتا۔ میں نے اس کے سر کے بال پکڑ کر اس کا منہ اوپر اٹھا لیا۔
“تیرا بچہ ہے ناں یہ،تیرا حرامی بچہ ؟”
اس نے سر جھکانے کی کوشش کی۔ مگر میں نے بال نہیں چھوڑے۔
بول کسی گندی والدین کی گندی اولاد بول۔۔۔
جی جی۔۔۔۔
یہ دو لفظ اس کے منہ سے نکلے ۔تو اس کا سر زور سے جھٹک کر میں سامنے کرسی پہ آ کر بیٹھ گئ
اب تو پیسے دے گا۔اس حرام کی اولاد کو ضائع کروانے کے۔ حلال کی ہوتی تو ہم رکھ لیتے مگر حرام کی ،مرتے دم تک حرام کی ہی رہتی ہے۔”
نہیں جی میں غریب بندا ہوں اتنے پیسے کہاں سے دے سکتا ہوں
مجھے پھر شدید غصہ آ گیا۔ دل کیا مار ڈالوں اس کو۔
کہ مجرم بھی تو اور مظلوم بھی تو۔یہ والی بات تو نہ کر اب۔
پیسے دے تاکہ ہم اس بچے کا بندوبست کریں۔ غریبی گند گھولتے کیوں یادنہیں آئ تجھے؟
کسی بھینس بکری سے کر لیتا۔ الو کے ۔۔۔۔
سائیں کی یہی عادت مجھے بہت پسند ہے شدید غصے کو پی جاتا ہے اپنے اندر گہرا سمندر ہے ۔
میں یہی سوچ رہی تھی سائیں نے جا کر اس کے منہ پہ دو تھپڑ پوری طاقت سے رسید کر دئیے۔
تجھے تیری اوقات یاد نہ دلا دی تو مجھے کہنا۔
غریب آدمی ہوں۔کردار کا بھی غریب ہے تو تو۔۔۔اور کتنی لڑکیوں کے ساتھ کیا ہے یہ سب ؟
اس کا یہ جلال میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
نہیں جی بس یہی غلطی ہوئ ہے۔نہیں جی کبھی یہ کام تو سوچا نہیں۔۔۔۔
سائیں نے ایک اور تھپڑ اسے دے مارا۔
پہلی ہی غلطی تیری رنگ لے آئ اور اب دیکھنا، پہلی ہی غلطی کو میں آخری کیسے بنواتا ہوں ۔”
میں بیچ میں کود پڑی
سالے پیسےتجھے دینے پڑیں گے ۔ورنہ تیرے پورے خاندان کو گھسیٹ دونگی۔یاد رکھنا۔
باجی میں غریب بندا ہوں۔میرے پاس پیسے نہیں ہیں ۔
مجھے سمجھ آ گیا یہ پیسے نہیں دے گا۔ اور اگر ہم نے بات کھولی تو سب سے پہلے گھر میں آگ لگے گی ۔ یہ بھی نہیں کرنا تھا۔
مگر چھوڑنا بھی نہیں تھا۔ وقت بھی کم تھا چوتھا مہینہ چڑھنے والا تھا۔
ہم اسے چوکیدار کے حوالے کر کے گھر آ گئے۔

قصبے کے ایک پرائیویٹ ہسپتال کی ڈاکٹر میری سہیلی تھی ۔میں نے سائیں سے کہا مجھے وہاں چھوڑ دے۔
اسے سب کچھ بتایا اور پیسے طے کئے۔ معمہ چھپ کر کرنے والا تھا اس لئے سرجری کے بعد لڑکی کو ہسپتال بھی نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ خیر وہ مان گئ۔
اوراگلی رات آٹھ بجے کا وقت دیا۔
ہم آٹھ بجے پہنچے کاونٹر پہ پیسے جمع کروائے ضروری فائلز وہ تیار کروا چکی تھی۔
نوبجے گڈی کو سرجری کے لئے لے گئے۔
ہم دونوں اتنے بے بس زندگی مین کبھی نہیں ہوئے تھے۔
اب تک سب کو پتا بھی چل چکا تھا کہ گڈی نے رات زہر کھا لیا تھا۔ مگر ہم نے عیادت کے لئے کسی کو آنے سے منع کر دیا ۔
اس لئے کہ ڈاکٹر نے اسے ریسٹ بتایا ہے۔ ہم کیا بتاتے بیچ والا معاملہ کیا ہے۔
یہ قصبوں دیہاتوں کی راتیں جلدی چڑھ جاتی ہیں اور ان کی سویر بھی جلدی ہو جاتی ہے۔ لہذا آٹھ
ساڑھے آٹھ
رات گہری نیند سو چکی تھی ۔
جب گڈی کو آپریشن تھیٹر لے کر گئے تو رات خراٹے لے رہی تھی ۔ جب ہم اسے ہسپتال سے گھر لائے رات تہجد کی بانگ کا انتظار کر رہی تھی۔ سائیں نے نیم بے ہوش گڈی کو ہمارے بیڈ پر لٹا دیا۔
بہت خیال رکھنا، میری جان ہے اس میں کہہ کر باہر نکل گئے۔
میں گڈی کے ساتھ لیٹ گئ ۔جسم یوں چور تھا جیسے گڈی کانہیں میرا آپریشن ہوا ہے ۔
جیسے میرے بدن میں سے میرے بدن کو جدا کیا گیا ہے۔ جیسے میری کوکھ خالی ہوئ ہے۔
میں بہت خالی تھی بہت خالی بہت کمزرو بہت بے بس۔
اپنے آپ سے جنگ لڑتے رب جانے مجھے بھی کب نیند آ گئ ۔
گڈئ کی اک آہ سے میری آنکھ کھلی وہ نیم بے ہوشی میں اسی کم بخت مارے کا نام لے رہی تھی جس نے اس کے جذبات کی تو کیا جان کی پروا بھی نہیں کی۔
اسے محبت کہتے ہیں تو محبت کا مشکوک لفظ آنکھیں جھکانے کے لئے کافی تھا۔
مجھے سائیں پہ پیار آ گیا کہ وہ میرے جذبات سے کھیلا نہیں ۔اپنے گھر کا دروازہ کھول دیا کہ آؤ میرے ساتھ رہو۔ جنگ ہی لڑنی ہے تو اکٹھے لڑ لیں گے۔ تنہا تنہا بھی تو جنگ ہی لڑنی ہے ۔
شکر کے جتنے کلمے تھے سارے اس وقت سائیں پہ وار دینے کو دل کیا۔
گڈی نے اک سانس زور سے کھینچ کر لی۔اس کے جسم کی جنبش میں نے دوسری کروٹ سے محسوس کی ۔اس کی آہ نکلی
پلٹ کر دیکھا۔
گڈی
میری جان نکل گئ ۔
گڈی کی نبض چیک کی۔ دل دھڑکا کیا میرے حواس کام نہیں کر رہے ہیں ہاتھ کام نہیں کر رہے ۔ سائیں کو جگایا جو باہر صحن میں چارپائ پہ لیٹا۔ دو ملتے وقتوں کو غور سے دیکھ رہا تھا۔
لگتا تھا وہ سویا نہیں
“سائیں گڈی”
کیا ہواگڈی کو؟
سائیں اس کی ۔۔۔سائیں میرا دل گھبرا رہا یے ۔ میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں آ کر گڈی کی نبض چیک کریں ۔
وہ اچھل کر اٹھا اور جوتے پہنے بنا کمرے کی طرف بھاگا۔
اور گڈی کی نبض چیک کی۔
گڈی
سائیں کی آواز بلند سے ہلکی سی ہوگئ۔
گڈی سو گئ ہے ۔مجھے لگتا ہے گڈی سو گئ ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبریز رومی میں سارا اپنا آپ اتار چکا تھا۔ اب جینے کی نہ تمنا تھی نہ جواز تھا اور اسی کے پہلو میں سو گیا۔
دوسری طرف رومی نے تبریز سے اس کا آدھا عشق لے لیا تھا اور اسے پورا کرنے کی خواہش میں سویر ہو گئ۔تو روشنی آنکھوں کو چندھیانے لگی۔رومی سہم سا گیا۔ روشنی اور نور میں بہت فرق ہے۔مان اور ارمان میں بہت فاصلہ ہے۔سوچ اور سمجھ ضروری نہیں اکھٹے رہتے ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
سب کو پتا تھا گڈی نے زہر کھا لیا ہے ۔اندھیریاں چلیں تو چھپائے نہیں چھپتیں۔
رب نے گڈی کی عزت رکھ لی یے۔ گڈی نے جذباتی عمر میں زہر کھا لیا تھا۔وہ شہر پڑھنے جانا چاہتی تھی مامی کی طرح پڑھ لکھ کر دوسروں کو پڑھانا چاہتی تھی۔کوئ نہیں ماناتولڑ کر ماموں کے پاس آ گئ۔
رب کیسے کیسے عزت کی چادریں آسمان سے اتارتا ہے ۔کیسے کیسے کہانیاں بن لیتا ہے ۔
بندہ سوچ بھی نہیں سکتا۔
مگر میرے میز پہ رکھا فون جب میں نے دو دن بعد چیک کیا۔ گڈی نے اس خبیث کو ہی آخری کال کی ہوئ تھی۔دو منٹ بات ہوئ تھی ۔میں سوتی رہ گئ مجھے پتا ہی نہیں لگا۔
موت اور محبت ساتھ ساتھ چلتے ہیں مگر ایک فریق کو خبر ہی نہیں ہوتی تعجب ہے اور اگر خبر ہوتی ہے تو وہ اتنا بےحس کیسے ہو جاتا ہے
آج
گڈی کے دسویں کا ختم تھا۔ میں اپنی نند کے گھر ختم کے لیے آنی والی عورتوں کے لیے انتظام کروا رہی تھی۔سب کو ملال تھا کاش گڈی کو پڑھنے بھیج دیتے۔
میں چپ کا پردہ تانے رب کے رنگ دیکھ رہے تھی۔
بہت سی عورتیں قرآن خوانی اور تسبیحات میں مصروف تھیں ۔میں سائیں کا انتظا ر کر رہی تھی کہ آ کر بتائیں مسجد مین دعا ہو گئ ہے تو روٹی کھول دوں۔
اتنے میں سائیں نے دروازے کے باہر سے آواز دی
دعا ہو گئ ہے۔
میری ایک آنکھ اس پہ پڑی کہ دروازہ کھلا تھا ۔ساتھ والی ماسی کا بیٹا بھاگتا آیا۔
اور اونچی آواز میں کہنے بتانے لگا باؤ حمید پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے۔
میری دوسری آنکھ بھی سائیں کی آنکھوں کو تلاش کرنے لگی۔۔۔
اور دل نے دل میں کہا کیا؟
سائیں آنکھیں چڑا کر نکل گیا۔
عورتیں روٹی چھوڑ ماسی غفورا کو دلاسا دینے لگیں۔۔۔
“ہائے میرا پتر ۔۔۔۔۔۔۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت کی ایک عمر ہوتی ہے۔اور ہر کسی کی اپنی عمر ہوتی ہے۔جس نے پھل کھانا ہو وہ کچے بوٹے نہیں توڑتا۔اس کو کچے بوٹے کا مزا بھی نہیں آتا۔
محبت کا بوجھ بانٹےوالے ندی کے دو کناروں کی طرح تنہا و ساتھ رہتے اپنے جذبے کی توانائ پانی کو عطا کر دیتے ہیں۔اور پانی کہیں فصلیں سیراب کرتا تو چوپاوں چرند پرند کی پیاس سیراب کرتا ہوا اپنے سینے پہ کشیتوں میں دریا پارکرواتا۔تو سمندر کو ہیبت و رومان میں بدل کراپنے سینے پہ سیاحوں کو رومان شناس کرتا تو کبھی بحری جہازوں کی گزر گاہ بن جاتا ہے ۔
محبت ایک طاقت ہے اسے خود کشید نہ کیا جائے تو زمانہ فیض یاب ہو جاتا ہے ۔مگر محبت کی پھر بھی ایک عمر ہوتی ہے۔ نہ میت ہوتی ہے نہ جنازہ۔
رومی کو تبریز نے آگ کی تاپ پر سارا علم دے دیا۔ دوسری طرف رومی نے عشق کی آنچ سمجھ لی تھی تبریز کے کاندھوں سے عشق کا بوجھ بانٹ لیا۔
لیکن اب اسے پتا تھا
محبت کی اک عمر ہوتی ہے ۔مگر اس کی میت اور جنازہ نہیں ہوتا۔لہذا نہ قبر ہوتی ہے نہ کتبہ
لیکن
محبت کی بھی اک عمر ہوتی ہے۔

Published inرابعہ الرباءعالمی افسانہ فورم

Comments are closed.