Skip to content

محبتیں ، نفرتیں

عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ ۔۔۔ 32
“محبتیں ، نفرتیں ۔
افسانہ نگار۔ اقبال حسن (اسلام آباد ، پاکستان )

خاندان میں اول تو ایسا کوئی بزرگ باقی ہی نہیں رہ گیا تھا جو آزادی کے وقت کے واقعات سناتا اور کوئی ایک آدھ دانہ بچا بھی تھا تو وہ اتنی دُور رہتا تھا کہ اُس سے رابطہ مشکل تھا۔میں نے کتابوں میں تو خوب پڑھا تھا کہ جب بٹوارہ ہوا تھا تو برصغیر کے لوگوں پر کیا گزری تھی لیکن مجھے جلد ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ کتابوں میں جو لکھا تھا وہ سب سچ نہیں تھا۔پھر جب میں فرسٹ ائیر میں تھا تو
لاہور سے ہمارے سلو ماما آئے۔اماں کے رشتے کے بھائی تھے۔بیٹوں کے ساتھ لاہور میں رہتے تھے۔بیٹے کاروبار کرتے تھے اورسلو ماما خاصے خوشحال تھے۔بیٹی کوئی تھی نہیں، بیٹے بیاہ چکے تھے چنانچہ سارا سال پاکستان بھر میں گھوم پھر کے اُن رشتہ داروں سےملا کرتے تھے جنہوں نے اُن کے ساتھ ہی پاکستا ن ہجرت کی تھی۔ایک مرتبہ اسی سلسلے میں ہمارے گھر بھی آئے۔آئے تو چند روز
کے لئے تھے مگر کوئی تین ہفتے رہے۔بڑے باتونی تھے اور یاد داشت غضب کی تھی۔سن پچیس میں ہاکی کا کوئی میچ کھیلنے راولپنڈی آئے تھے اور خوب گھومے پھرے تھے اور یہاں تک یاد تھا کہ کس بازارمیں ریڑھی والے سے خرید کے کیا کھایا تھا۔تقسیم کےوقت کے بڑے خونچکاں واقعات سنایا کرتے تھے۔

ہمارے خاندان کا تو کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا لیکن جگ بیتی سناتے وقت
ایسا سماں باندھتے کہ سخت دل آدمی کو بھی آبدیدہ کر دیتے تھے۔اُنہی سے ایسے واقعات سن کر میرے دل میں غیر مسلموں کےخلاف ایسی گرہ پڑی کہ نہ پوچھئے مگر ہونی ہو کر رہتی ہے۔غیر ملک میں نوکری ملی۔وہاں ایک کمرے میں دو آدمی ٹھہرائے گئے تھے اور میرا ساتھی ہندوستان سے آیا تھا۔نام تھا تلوک چند، میری طرح انجنئیر تھا۔وہاں اور بھی پاکستانی مسلمان تھے تو میں نے کوشش کی کہ کسی طرح اُن میں سے کسی کے ساتھ رہ لوں مگر ہماراکیمپ کا انچارج انگریز تھا اور یہ وجہ کہ میں ایک ہندوستانی ہندو کے ساتھ رہنا نہیں چاہتا تھا، اُس کے لئے کبھی قابل قبول نہ ہوتی۔تلوک چند اور مجھ میں فی الحال ایک ہی قدر مشترک تھی۔

وہ بھی میری طرح پنجابی بولتا تھا۔ہماری گفتگو کی ابتدا تو انگریزی سے ہوئی تھی لیکن پھر اُس نے خود ہی پنجابی میں بات چیت شروع کر دی تو میں بھی رواں ہو گیا۔ہم میں سے کبھی ایک کی اورکبھی دوسرے کی رات کی شفٹ میں ڈیوٹی
ہوتی تھی چنانچہ میں کمرے میں ہوتا تو وہ نہ ہوتا اور وہ ہوتا تو میں نہ ہوتا۔ایک مہینہ یوں ہی گزر گیا اور ہم قریب نہ آ سکے اور میں خود بھی یہی چاہتا تھا۔اس دوران میں کوشش کرتا رہا کہ اپنا کمرہ تبدیل کر لوں لیکن ایسی کوئی صورت بن ہی نہیں پا رہی تھی۔پھرڈیوٹیوں کے شیڈول میں کچھ ایسی تبدیلی ہوئی کہ ہم دونوں دن کے اوقات میں کام پر جانے لگے۔
چار بجے شام سے لے کر اگلی صبح سات بجے تک، نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے تلوک چند کے ساتھ ایک ہی چھت کے نیچے رہنا پڑتا تھا۔ان دوران ہی مجھے علم ہوا کہ اُس کے بزرگ اُسی شہر سے ہندوستان گئے تھے جہاں میں اب رہتا تھا۔
مجھے خوشگوار حیرت ہوئی۔گو اُسے اُس شہر کے بارے میں بہت زیادہ علم نہیں تھا البتہ جو جو اُس نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا، اُس کا تذکرہ وہ البتہ کرتا رہتا تھا۔وہاں تنہائی تھی، وہ ویران جگہ تھی، مختلف قومیتوں کے لوگ رہتے تھے اور
لے دے کے ایک پھٹیچر سا کلب تھا جس پر گوری قومیتوں کے لوگوں کا قبضہ تھا اور ہم دیسی لوگوں کو وہ وہاں آنے سے منع تو نہیں کر سکتے تھے البتہ ہماری موجودگی کے دوران ایسے منہ بنائے رکھتے تھے جیسے برہمنوں میں کوئی اچھوت گھس آیاہو، چنانچہ ہم لوگ زیادہ تر اپنے کمروں تک ہی محدود رہتے تھے۔ایک شام تلوک چند بہت پریشان تھا۔

اُس کے گھر سے خط آیا تھا۔بہن کی شادی کا قصہ تھا۔سسرال والے دس لاکھ نقد مانگتے تھے اور جہیز کا ایک طومار اس کے علاوہ۔اُس کا چھوٹا بھائی ابھی طالب علم تھا۔ماں بیمار تھی اور باپ ایک آدھ سال میں ریٹائر ہونے والا تھا۔
تلوک چند نے دل کھول کے میرے سامنے رکھ دیا۔میں نے جب اپنے اور اُس کے حالات کا موازنہ کیاتو ہم دونوں ایک ہی کشتی کے سوار نکلے۔میری اماں بھی بیمار رہتی تھیں، بہن کی شادی چند ماہ بعد ہونے والی تھی۔چھوٹا بھائی میڈیکل کے
آخری سال میں تھا اور ابا جی چند ماہ بعد ریٹائر ہونے والے تھے۔ ہم دونوں کے مسائل ایک سے تھے۔ہم دونوں کے دُکھ سانجھے تھے اور ہم دونوں ایک جیسے حالات کے جلتے صحرا کے پیاسے تھے۔اُس رات میں سونے کے لئے لیٹا تو میں نے ایک ہندو تلوک چند کے بارے میں نہیں، ایک انسان تلوک چند کے بارے میں سوچا۔ایسے سوچنا مجھے اچھا لگا۔شروع میں حیرت ہوئی کہ ہندو اورمسلمان ایک ہی جیسے حالات کا شکار بھی ہو سکتے ہیں؟
بہنوں کی شادیاں، بھائیوں کی تعلیم، ماؤں کی بیماریاں، سبھی دکھ سانجھے بھی
ہو سکتے ہیں؟کیا فرق تھا ہم میں؟وہ ہر صبح شام اپنے سامان سے ایک مورتی نکال کے اُس کے سامنے اگربتی سلگا کر ہاتھ جوڑکرآنکھیں بند کرتا تھا اور میں ایک کونے میں جائے نماز بچھا کر نماز پڑھ لیا کرتا تھا۔ہمارے مذاہب الگ تھے مگر مسائل یکساں۔
اپنے اپنے گھروں کی فکریں، اپنے اپنے رشتہ داروں سے محبت، اپنے اپنے مستقبل کی پروا، سبھی کچھ تو ایک جیسا تھا۔پھر وہ واقعہ پیش آیا جس نے مجھ سے یہ کہانی لکھوائی۔البرٹ ہمارا کیمپ انچارج تھا۔ہمدرد سا بڈھا جو وطن سے اتنی دُور محض اس لئے نوکری کر رہا تھا کہ بقول اُس کے اُسے اپنی بیوی سے نفرت تھی۔البرٹ نے مجھے ایک صبح اپنے دفتر میں بلایا اور بولا۔
’’ایک افریقی نوکری چھوڑ کر جا رہا ہے۔اگر تم چاہو تو میں تمہیں اُس کے کمرے میں شفٹ کر سکتا ہوں کیونکہ تم ایک سے زیادہ مرتبہ مجھ سے یہ بات کہہ چکے ہو۔تم اب بھی یہی چاہتے ہو؟‘‘۔
تقسیم کے وقت ہندوؤں کے مظالم کی سلو ماما سے سنی کہانیاں یکدم میرے ذہن میں تازہ ہو گئیں۔تلوک چند اُسی قوم کا فرد تھا۔مجھے موقع مل رہا تھا کہ میں کسی ظالم کی اولاد سے اپنا کمرہ الگ کر لیتا۔اس میں وقت ہی کتنا لگنا تھا۔میرے پاس سامان
ہی کیا تھا۔ایک بڑا سا سوٹ کیس جس میں میرے کپڑے اور شیونگ کا سامان تھا۔وہ کمرہ جس میں البرٹ مجھے بھجوانا چاہ رہا تھا،
تین کمرے چھوڑ کر تھا۔البرٹ مجھے غور سے دیکھ رہا تھا۔پھروہ مسکرایا اور بولا۔
’’میرا خیال تھا تم لوگوں نے اتنے برسوں میں کوئی سبق لیا ہوگا لیکن مجھے اس وقت بڑی مایوسی ہوئی تھی جب تم نے کمرہ شفٹ کرنے کی بات کی تھی، بہر حال یہ رہی چابی۔تم اسی وقت دوسرے کمرے میں جا سکتے ہو‘‘۔
پتہ نہیں اس وقت سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں میرے سامنے سے ایک عنقریب ریٹائر ہونے والا بوڑھا، ایک کالج جانے والا نوجوان اور ایک ایسی لڑکی گزر گئی جس کی شادی مسئلہ بنی ہوئی تھی۔میں نے گھوم کر دیکھا۔تلوک نجانے کب کمرے میں آیا اور میرے پیچھے ہی کھڑا تھا۔میں نے اُس کا چہرہ غور سے دیکھا۔وہاں میری ہی طرح کا ایک پریشان اور حالات سے لڑنے والا شخص کھڑا تھا۔میں کھڑا ہوا اور میں نے چابی واپس البرٹ کی طرف کھسکائی جو عین اُس کے ہاتھوں کے قریب رک گئی۔
’’نو؟‘‘ البرٹ نے حیرت سے پوچھا۔
،،نو،، میں نے کہا۔
البرٹ ہنسا اور بولا۔
’’بلڈی ہل۔تم سے پہلے میں نے تلوک کو یہ کمرہ آفر کیا تھا۔اُس نے بھی یہی جواب دیا تھا۔تم لوگوں کی محبتیں اور نفرتیں سمجھ میں نہیں آتیں!

Published inاقبال حسن خانعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply