Skip to content

محاسبہ

عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 78
محاسبہ
داؤد کاکڑ (امریکہ)
وڈے زمیندار کی حویلی تک جانےوالی پتلی سڑک اس وقت ایک میلے کا سا منظر پیش کر رہی تھی۔ لوگوں کا ایک اژدہام تھا جو امڈھا چلا آرہا تھا۔ قریب و دور کے دیہات سے بسوں اور ٹرکوں میں بھر بھر کر لائے گئے عوام جن میں بچے بوڑھے جوان اور مرد و عورتیں سب شامل تھے ایک سمندر کی شکل میں حویلی کی جانب رواں دواں تھے۔ دونوں اطراف سے گھنے درختوں میں گھرا تمام راستہ رنگ برنگی جھنڈیوں سے مزیّن تھا۔ جگہ جگہ منچلے ڈھول باجے کی دھن پر دھمال اور لڈیاں ڈال رہے تھے۔ شور و غل اتنا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔
وڈا زمینداربغیرچھت کی جیپ میں سوارسر پر روایتی اونچی پگڑی پہنے ہاتھ ہلا ہلا کر اور تالیاں بجا بجا کر لوگوں کے نعروں کا جواب دے رہا تھا۔ جیپ کے پیچھے آنے والی مرسڈیز میں اس کی بیوی اورجواں سال بچے سوار تھے ۔ ان دونوں گاڑیوں کے آگے اور پیچھے کئی گاڑیاں تھیں جن میں اس کے حفاظتی دستے کے علاوہ قرب و جوار کے نامی گرامی زمیندار اوراس کےخیرخواہ شامل تھے ۔ گاڑیوں کا یہ کارواں جلوس کے درمیان میں سے راستہ بناتے ہوئے آہستہ روی سے آگے بڑھ رہا تھا۔
اب حویلی کلو میٹر بھر ہی کے فاصلے پر تھی جس کا اندازہ ہجوم کی دم بہ دم بڑھتی ہوئی رفتار سے لگایا جا سکتا تھا.حویلی کی دائیں جانب کھلے میدان میں لگی درجنوں دیگوں سے بریانی کی خوشبو ہجوم تک پہنچنا شروع ہوگئ تھی۔
آج کا دن وڈے زمیندار کی زندگی کا خوش قسمت ترین دن تھا۔ آج پنچایت نے اس کے حق میں فیصلہ دے کرنہ صرف یہ کہ ایمانداری اور سچائی کا ڈھول پیٹنے والوں کا منہ بند کر دیا تھا بلکہ اس کی سال بھر سے سولی پر لٹکی زندگی میں سکون بحال کر دیا تھا۔
باپ کے مرنے کے بعد اس کی مسند پر بیٹھ کر گزشتہ تیس برسوں میں وہ اس قدر ذلیل و خوار نہیں ہوا تھا جس قدرپچھلے ڈیڑھ برس کے دوران ہوا تھا اور وہ بھی چند سرپھرے نوجوانوں کے ہاتھوں جو تھے تو مزارعوں اور کمی کمین کی اولاد لیکن شہروں میں جاکر کالجوں یونیورسٹیوں سے دو ٹکے کی ڈگریاں لیکر جامے سے باہر ہوگئے تھے۔
اس سارے کئے دھرے کے پیچھے امجد گورے کا ہاتھ تھا ورنہ جاہل اور جدی پشتی مزارعے ایسی جرأت کا مظاہرہ نہیں کرسکتے تھے کہ وڈے زمیندار کے سامنے کھڑے بھی ہو سکتے۔ اور جن ڈگریوں کے بل بوتے پر یہ لوگ وڈے زمیندار کے منہ لگ رہے تھے وہ بھی اس کے قرضوں کی خیرات تھی جو ان کے والدین نے زمینیں گروی رکھوا کران کی تعلیم کے لئے حاصل کئے تھے۔
وڈا زمیندار قرض دینے میں بڑا کشادہ دل مشہور تھا۔ اس کے در سے کوئی قرض خواہ خالی ہاتھ نہیں لوٹتا تھا چاہے وہ اس کے اپنے گاؤں کا ہوتا یا کسی دوسرے گاؤں کا۔ اور وہ قرضے بھی بغیر سود کے دیتا تھا۔ وہ سود کو حرام سمجھتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اپنے گاؤں سمیت آس پاس کےبےشماردیہاتوں کا ہر تیسرا چوتھا شخص اس کا قرض دار تھا۔ ہاں البتہ ادائیگی کے لئے قرضے کی مالیت سے دس گنا زیادہ ضمانت حاصل کرتا تھا وہ چاہے ڈھور ڈنگر ہوتا، زیورات ہوتے یا زمین کا کوئی ٹکڑا ہوتا اور یہ سب کچھ سالہا سال سے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ چل رہا تھا کہ حالات نے اچانک پینترا بدلا۔
کوئی ڈیڑھ برس پہلے اختر بھولا وڈے زمیندارکی خدمت میں حاضر ہوا اور قرض کی واپسی کے لئے سال بھر بڑھانے کی مِنّت کی۔ اختر نے زمین کا جو ٹکڑا گروی رکھا ہوا تھا وہ کئی پیڑیوں سے ہوتا ہوا اس تک پہنچا تھااور وہ اسے کسی صورت کھونا نہیں چاہتا تھا۔ اختر بھولےکا بیٹا امجد گورا ڈگری توحاصل کرچکا تھا لیکن ابھی اسے نوکری نہیں ملی تھی۔ وڈے زمیندار کی دی ہوئی مدت یونہی گزر گئی تو اختر بھولے کو زمین کے لالے پڑ گئے لیکن وڈا زمیندار نہ مانا اور گروی زمین ساتھ والے گاؤں کے چودھری حکم داد کے ہاتھ فروخت کردی۔
اختر بھولا اپنے پُرکھوں کی زمین کھونے کا غم برداشت نہ کرسکا اور مہینہ بھر کے لئے بستر سے لگ کر اگلے جہاں کوچ کر گیا۔
بس یہی سے وڈے زمیندار کا ستارہ گردش میں آگیا اور وہ جس کے سامنے کوئی سراٹھا کر بات کرنے کا تصّوربھی نہیں کر سکتا تھا سینہ تان کراسکے سامنےکھڑاہوگیا ۔ اورلوگوں کے رویئوں میں اس انقلابی تبدیلی کا ذمہ دار امجد گورا تھا۔ گھر گھر جاکر جانے اسنے لوگوں پر کیا جادو کیا کہ وہ سب وڈے زمیندارپر انگلیاں اٹھانے لگے۔ جس جس کی زمین قرضوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے وڈے زمیندار نے بیچ دی تھی وہ زمین یا اس کی قیمت کی واپسی کا مطالبہ کرنے لگا۔
امجد گورا جو کالج کے دنوں میں سٹوڈنٹس یونین کا لیڈر رہ چکا تھا اورفر فر انگریزی بولنے کی وجہ سے گورا مشہور ہوگیا تھا ، نہ صرف گاؤں گاؤں جانا پہچانا جانے لگا بلکہ اس کی شہرت شہروں تک پہنچ گئی ۔ جس قدر امجد گورا مقبول ہوتا گیا اسی قدر وڈے زمیندارکی مٹی پلید ہوتی گئی۔ میڈیا والوں نے گاؤں کا رستہ کیا دیکھا کہ وڈے زمیندار کی زندگی عذاب ہوگئی۔ اسکی گزشتہ تیس برسوں کی کارستانیوں کے پول کھلنے لگے۔ برسہا برس سے بند فائلیں جواسکے کرتوتوں کے ساتھ ساتھ انتقال اراضی کی بدعنوانیوں سے اٹی پڑی تھیں ایک ایک کرکے منظرِعام پر آنے لگیں۔ بکاؤ پٹواریوں کے گوشوارے اخباروں کی زینت بننے لگے ۔
وڈا زمیندار عیاش نہیں تھا لیکن دولت اور اقتدار کا دیوانہ تھا اور ان دونوں کے حصول کے لئے ہر طرح کا ہتھکنڈا بلا جھجک استعمال کرتا تھا۔ کسی کو اس پر انگلی اٹھانے کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ ایک توبیشترلوگ اس کے قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے اور دوسرا اس کے ہاتھ بڑے لمبے تھے اور ملک کی کئی سیاسی شخصیات کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات تھے۔ وہ کئی سالوں سے پنچایت کا سرپنچ بھی تھا۔ یاروں دوستوں، بزنس پارٹنرز اور کاروباری و قانونی معاملات چلانے کے لئے ملازمین کی صورت میں اس نےغنڈوں بدمعاشوں کی ایک کھیپ بھی پال رکھی تھی جو اس کے ایک اشارے پر جان قربان کرنے کیلئے تیار رہتے تھے۔
امجد گورے کی قیادت میں اودھم مچانے والے ٹولےکا سب سے بڑا مطالبہ یہ تھا کہ وڈا زمیندار نہ صرف برسوں سے اور دھوکہ دھی سے ہضم کی ہوئی زمینیں اصل مالکان کو واپس کرے بلکہ ان زمینوں سے اب تک موصول ہونے والی آمدنی جس سے اصل مالکان محروم رہے، وہ بھی ادا کرے۔
پہلے تو کافی عرصے تک یہ مطالبہ محض ایک مذاق سمجھا گیا اور دولت اور طاقت کے نشے میں چوروڈے زمیندار نے اس پر کان نہیں دھرا لیکن پھر جب مطالبے نے ایک باقاعدہ تحریک کی شکل اختیار کرلی اور امجد گورا یہ سارا معاملہ عدالت لے جانے کی تیاری کرنے لگا تو وڈے زمیندار کواچانک حالات کی سنگینی کا احساس ہوگیا۔ قانونی کاروائی ایک ایسا معاملہ تھا جو اس کے لئے دلدل ثابت ہوسکتا تھا۔ اسےفکر لاحق ہوگئی۔
بڑے غوروفکر اورباہمی صلاح مشورے کے بعد فیصلہ ہوا کہ اب امجد گورے کا راستہ روکنا ضروری ہوگیا ہے لیکن پسِ پردہ رہ کر تاکہ کوئی یہ گمان نہ کرے کہ وڈا زمیندار ڈر گیا ہے یا اس کے دل میں چور ہے۔ یوں امجد گورے کے خلاف باقائدہ ایک محاذ کھول دیا گیا۔
سب سے پہلے تو اس نے چن چن کراپنے مخالفین کو یا تو اونے پونے خرید لیا اوریا جو بکے نہیں ان کو ڈرادھمکا کرامجد کی حمایت سے دستبردار کروا لیا۔ چند ایسے سر پھروں سے بھی اسکا واسطہ پڑا جو نہ بکاؤ تھے اور نہ ہی ڈرنے والے تھے۔ ایسے ہٹ دھرموں میں سے ایک کومرواکر اسے ذاتی دشمنی کا رنگ دے دیا گیا۔ آخر پولیس میں بھی تو اس کے تنخواہ دار تھے۔ قریب تھا کہ وہ امجد گورا گروپ پر حاوی ہوجاتا کہ حالات نے ایک نیا موڑ لیا اور اوپر تلے دو ایسی خبریں آئیں کہ جن کی وجہ سے اس کے سارے منصوبوں پر پانی پھر گیا۔
پہلی خبریہ تھی کہ ملک کے چند بااثر وکلاء نے امجد گورے کو اپنی خدمات مفت میں آفر کردیں۔ یہ ایک انتہائی پریشان کن خبر تھی جسکا فی الفورتوڑ ضروری تھا۔ وڈا زمیندارابھی اس نئی افتاد سے نبٹنے کی تدبیر ہی کر رہا تھا کہ میڈیا نےایک اور ایسی دھماکہ خیز خبردی کہ اس کی راتوں کی نیندیں ہی حرام کردیں۔ خبر یہ تھی کہ وڈے زمیندار کی محل نما حویلی کے تہہ خانے کی الماریاں ڈالروں سے بھری ہوئی تھیں۔ یہ ایک ایسا راز تھا جواس نے اپنے فرشتوں سے بھی چھپارکھا تھا۔ یہ بات اچانک باہر کیسے پہنچی اس کا سراغ نہ مل سکا اور نہ ہی اب اس کے پاس اتنا وقت تھا کہ اس کی ٹوہ میں لگ جاتا۔ البتہ کاکا کرمو جو اس کا موروثی نوکر تھا اور جس کے ہاتھوں میں وہ پلا بڑھا تھا، اس کے مشورے پراس نے اپنی محل نما حویلی میں جدید طرز کا سکیورٹی سسٹم لگوایا اور نوکروں کی فوج ظفر موج کی چھٹی کردی۔
اب سب سے اہم مرحلہ قانون کی گرفت سے بچنا تھا۔ دوستوں، مشیروں اور قانون کے ماہرین وغیرہ سے مشاورت کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ قانونی محازآرائی سے بچاؤ کا اس کے پاس صرف ایک ہی راستہ تھا اور وہ یہ کہ وہ خود اپنے آپ کو محاسبے کے لئے پیش کردے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ مقدمہ دہی طرز زندگی اور رسم و رواج کے مطابق عدالت میں نہیں بلکہ پنچایت میں ہو۔ اسے اس بات کا بھی پوری طرح سے احساس تھا کہ امجد گورا گروپ کو اس پر راضی کرنا اگرناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہوگا۔ لیکن اس کا یہ مسئلہ خلاف توقع چند کروڑمیں حل ہوگیا اور وہ امجد کے دو قریبی ساتھیوں کو خریدنے میں کامیاب ہوگیا۔
اس طرف سے مطمئعن ہو کروڈے زمیندار نے نہ صرف یہ کہ اپنے آپ کو پنچایت کے سامنے محاسبے کے لئے پیش کر دیا بلکہ سرپنچ کے عہدے سے مستعفی ہونے کا بھی اعلان کردیا۔
توقع کے عین مطابق امجد گورا گروپ نے اس کی کھل کر مخالفت کی اور خوب ہنگامہ کیا۔ میڈیا نے بھی اس کا خوب ساتھ دیا لیکن آخر میں جب اس کے اپنے گروہ میں دراڑ پڑ گئی اور وڈے ذمیندار کی حمایت اور مخالفت میں دو گروپ بن گئے تو امجد گورے کو وڈے زمیندار کی شرط کے آگےگھٹنے ٹیکنے ہی پڑے۔
دونوں گروپوں کی باہمی مفاہمت اور رضامندی سے پنچوں کا انتخاب ہوا اور دونوں کے اس عہد نامے کے ساتھ کہ پنچایت کا فیصلہ بلا تردّد سب کو منظور ہوگا، مقدمے کا آغاز ہوا۔
پنچایت بیٹھی اور تین دن تک مسلسل بحث ہوتی رہی۔ دونوں پارٹیاں اور ان کےحمایتی خوب بڑھ چڑھ کربولے بلکہ چینخے چلا ئے۔ پنچوں نے بھی سب کو خوب کھل کر بولنے کا موقع دیا۔ پنچایت کی ساکھ بھی تو رکھنا تھی۔ دونوں گروپوں کے حامیوں کے ساتھ ساتھ ایک بڑی تعداد تماش بینوں کی بھی تینوں دن موجود رہی۔ میڈیا نے الگ سے میلہ لگائے رکھا۔
فیصلہ ہوا اور اکثریت کی توقع کے عین مطابق وڈے زمیندار کے حق میں ہوا۔
وڈے زمیندار کو اپنی کامیابی کا اس قدر یقین تھا کہ اس نے عوام و خواص کو دعوت عام دے رکھی تھی۔
آج کا یہ ہنگامہ اسی سلسلے کی آخری کڑی تھا۔
حویلی کی جانب بڑھتا ہوا ہجوم اب سڑک کا آخری موڑ مڑ چکا تھا۔ چند سو گز کے فاصلے پر سڑک کے بائیں جانب گھنے قدآور درختوں کی اوڑ میں وڈے زمیندار کی شاندار حویلی غرور سے سر اٹھائے کھڑی تھی۔ لیکن ہجوم کا رخ ناک کی سیدھ میں اختتام پزیرہونے والی سڑک کے اس طرف کھلے میدان کی جانب ہوگیا تھا جہاں بریانی کی درجنوں دیگوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ لوگوں کی اکثریت صبح ناشتہ کر کے گھر سے نکلی تھی اور اب سہ پہر ہو چکی تھی۔ سب کا بھوک سے برا حال تھا۔ بریانی کی دیگوں پر نظر پڑتے ہی کسی سے صبر نہ ہوسکا اور لوگ دوڑ پڑے۔ ایک بھگدڑ مچ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے دائیں طرف کا کھلا میدان دھول کے غبار میں گم ہوگیا۔ البتہ گاڑیوں کے جلوس کے لئے حویلی کی جانب جانے والا راستہ کھل گیا۔ وڈا زمیندار بھی تھک چکا تھا۔ سیٹ پر بیٹھتے ہی اس نے جیسے سکھ کا سانس لیا لیکن۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس کا آخری سکھ کا سانس تھا۔ اس کے بیٹھتے ہی ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ وہ گھبرا کر ایک دم سے اٹھا اور ہجوم کی جانب دیکھا لیکن وہاں تو دھول ہی دھول تھی۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا تو اس نےاپنے آگے والی گاڑیوں کی طرف دیکھا لیکن ان سب کی نظریں تو کسی اورسمت میں تھیں۔ ڈوبتے دل کے ساتھ اس نے اپنی حویلی کی طرف دیکھا تو اس میں سے گاڑھے دھوئیں کے بادل اٹھ رہے تھے۔ حویلی میں دھماکہ۔۔۔۔۔؟ اس کے بدن میں جیسے پارہ بھر گیا اور وہ ایک ہی جست میں جیپ سے نیچے تھا۔ اس کا پاؤں کہیں اٹکا اور وہ منہ کے بل زمیں پر آرہا۔ اس کے سر پر رکھی طرح دار اونچی پگڑی دورزمین پر گری اور خاک میں اٹ گئی۔ اس کے دونوں گھٹنے سڑک سے رگڑ کھا کر زخمی ہوگئے۔ ماتھے سے بھی خون بہنے لگا۔اس کا باڈی گارڈ اسے سہارا دینے کے لئے آگے بڑھا لیکن اس کے بوڑھے جسم میں جانے کہاں سے اتنی پھرتی آگئی کہ وہ اٹھا اور حویلی کی طرف دوڑ پڑا۔ اس کے باڈی گارڈ بھی اس کے پیچھے دوڑے۔
جتنی دیر میں یہ لوگ حویلی کے قریب پہنچے، اس میں سے شعلے بلند ہونا شروع ہوگئے تھے اور آگ کے تپش ان سب تک پہنچ چکی تھی بلکہ ناقابل برداشت ہو رہی تھی۔
ارے کوئی زمیندار جی کو روکو۔۔۔۔۔۔۔ پیچھے سے کوئی چینخا
لیکن وڈا زمیندار ایک ہزیانی کیفیت میں چینختے ہوئے دیوانہ وار بھاگ رہا تھا میری دولت ۔۔۔۔۔ میرے ڈالر ۔۔۔۔۔۔۔ ارے کوئی بچاؤ ۔۔۔۔ میں برباد ہوگیا۔۔۔۔۔ میرے ڈالر۔۔۔۔۔ میرے ڈالر۔۔۔۔اور اب اس کے حلق سے عجیب عجیب آوازیں نکل رہی تھیں۔ وہ چینختا جارہا تھا اور بھاگا جارہا تھا۔
اور پھر اس سے پہلے کہ اس کا باڈی گارڈ اس تک پہنچتا۔۔۔۔۔۔ وہ حویلی کے باہر ہی سے واک آؤٹ تہ خانے (walk-out basement) کی جانب اترنے والی سیڑھیاں اتر چکا تھا۔
قریب ترین فائر سٹیشن بیس کلومیٹرکے فاصلے پر تھا اوپر سے لوگوں کا ہجوم بےکراں،جب تک فائر بریگیڈ کی گاڑیاں پہنچیں، پوری حویلی جل کر خاکستر ہوچکی تھی۔
اگلے دن وڈے زمیندار کی بھسم شدہ لاش تہ خانے کی چوکھٹ پر ملی۔ پھر شام ہونے سے پہلے اس کی تدفین بھی ہوچکی تھی۔اسی دن کے اختتام تک چاچا کرمو تہ خانے میں آگ لگانے کے الزام میں گرفتار ہوچکا تھا۔

Published inداؤد کاکڑعالمی افسانہ فورم
0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x