Skip to content

ماں

عالمی افسانہ میلہ “2021”
دوسری نشست”
افسانہ نمبر”38″
“ماں”
افسانہ نگار..روبینہ قریشی(سرگودھا،پاکستان)

اماں برکتے آج پھر گرمی میں کوٹھڑی میں گھسی ہوئی تھی
رقیہ ابھی ابھی باورچی خانہ صاف کرکے برتنوں کا ٹوکرا دھوپ پہ رکھ کے صحن سے کھیس اور سرہانے اٹھا رہی تھی
اماں.. اماں.. پھر سے اندر گھس گئی ہیں.. اتنی گرمی میں پھر بیمار پڑ جائیں گی.. اماں اندر کیا کررہی ہیں ؟؟
رقیہ روشنی سے اندر داخل ہوئی تو تھوڑی دیر کو اندھیرے میں کچھ سجھائی نہیں دیا
اماں برکتے نے جلدی سے اپنی ٹوکری بند کر کے چارپائی کے نیچے گھسا دی
“کچھ بھی نہیں بیٹا… پت پہ خارش تھی تو اندر آ کے پت پاؤڈر لگا رہی تھی،،
” لائیں . میں لگا دوں،،
رقیہ ساس کے پاس چارپائی پہ بیٹھ گئی.. سرھانے سے پت پاؤڈر کا ڈبہ اٹھایا کمر سے کپڑا اوپر کر کے جگہ جگہ سے خاش سے چھلی ہوئی جلد پہ پاؤڈر چھڑکا… ہلکے ہاتھ سے مالش کی اور کہا
” اماں.. ادھر دھریک کے نیچے آکے بیٹھ جائیں .. چارپائی چھاؤں پہ ڈال دی ہے..،،
اماں برکتے اپنی چارپائی کے نیچے جوتی اٹھانے کے بہانے جھک کے اپنی ٹوکری کا تالا یاتھ سے کھینچ کے تسلی کی کہ بند ہے اور آہتہ آہستہ چلتی ہوئی دھریک کے نیچے چارپائی پہ آ کے بیٹھ کے بہو سے کہا
” کوئی سبزی ہے تو لاؤ میں کاٹ دوں،،
نہیں اماں.. آج دال بنے گی،،
آج ایک ہفتہ ہونے کو آیا تھا.. ہر روز پکانے کیلئے رقیہ گھر سے ہی کچھ نہ کچھ نکال کے بنا رہی تھی.. ایک دن کالے چنے… ایک دن پیاز والی روٹی… ایک دن لسی میں خشک میتھی… ایک دن چٹنی..ایک دن پیازوں والے انڈے.. . ایک دن آلو کی بھجیا اور آج دال
اماں برکتے نے اتنی دیر میں مرغیوں کو ہاتھ میں پکڑی سوٹی کی مدد سے باہر کا رستہ دکھایا… اور خود انڈے نکال کے بیچنے کیلئے الگ سے رکھے
رقیہ کا شوہر نثار اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا
بچپن میں ہی یتیم ہو گیا تھا.. گھر میں غربت تھی لیکن محبت اور سکون تھا..
اماں برکتے نے بڑی محنت اور مشقت سے اپنے بیٹے کو پالا .. میٹرک تک پڑھایا.
خالہ کے گھر اس کی شادی کی.. اب وہ چار بیٹیوں اور ایک بیٹے کا باپ تھا اور ایک مل میں ملازمت کرتا تھا-
ہر مہینے کا آخری ہفتہ بہت مشکل میں گزرتا تھا..
بڑی بیٹی میٹرک میں تھی.. اور پھر با لترتیب ساری بہنیں ایک ایک سال کے فرق سے گورنمنٹ سکول میں جارہی تھیں.. سب سے چھوٹا بیٹا بھی اب دوسری میں تھا
پچھلے مہینے اماں برکتے کو ہیضہ ہو گیا تو ہسپتال کے چکر اور دوائیوں کے خرچے کی وجہ سے گھر کا سارا نظام درہم برہم ہو چکا تھا
اماں برکتے بیٹے کے جھکے ہوئے کندھے پریشان چہرہ اور زمہ داریوں میں گھرے ہوے وجود کو دیکھتی تو اس کے دل سے بیٹے کیلئے دعائیں نکلتی کہ اللہ میرے بیٹے کو کھلے رزق عزت، صحت سکون دیں
نثار نے ہوش سنبھالا تو گھر میں غربت دیکھی.. یتیمی کے درد کو محسوس کیا..اور ماں کی محبت میں خود کو محفوظ پایا
جب ماں کو خود گرمی لگتی تو اس کو بھی آکے ٹھنڈا پانی پینے پر مجبور کر دیتی..
جب خود سردی لگتی تو نثار کو زبردستی جرابیں پہنا دیتی
جب شادی ہو گئی تب بھی اپنے بیٹے کے کام اپنے ہاتھ سے کرتی
پہلے پہل رقیہ کو برا لگا کہ میرے شوہر کے کپڑے ہیں تو میں خود استری کروں گی یا کوئی سلائی ادھڑی ہوئی ہے تو میں خود لگا سکتی ہوں
لیکن کچھ عرصے کے بعد رقیہ کو سمجھ آ چکی تھی کہ ساس بیچاری اپنی محبت سے مجبور ہو کے بیٹے کیلئے کبھی کھانا بناتی ہے کبھی اس کے کچھ اور کاموں میں مصروف رہتی ہے
اماں برکتے کا بس چلتا تو بیٹے کی زندگی کی ساری مشکلات اپنے اوپر لے لیتی
اس کی جگہ پہ مل میں کام بھی خود کر کے آتی.. اسے گرم ہوا بھی نہ لگنے دیتی-اپنے نور نظر کو ہر پریشانی سے بچا کے اپنے دامن میں چھپا کے رکھتی
************
ابھی کچھ دن پہلے جب اسے ہیضہ ہوا تو اس کی ساتھ والی کنیزاں نے آ کے رقیہ سے اسکا حال پوچھا تو کہا
“کیا حال ہے تمہاری ساس کا.. بھئی ابھی تو یہ نہ مرے
تمہارے خاوند کے پاس تو مرنے پہ خرچہ کرنے کیلئے رقم بھی نہیں،،
اللہ نہ کرے کنیزاں.. کیسے منہ بھر کے ان کے مرنے کی بات کررہی ہو.. اللہ انہیں صحت سلامتی دیں.. اور تم فکر نہ کرو ہمارے پاس کچھ ہو یا نہ ہو… تم سے مانگنے نہیں آئیں گے،،
اور اماں برکتے نے خاموشی سے کمرے میں پڑی اپنی ٹوکری کو اپنے قریب کر لیا
اگست کا مہینہ شروع ہو چکا تھا
گرمی بھی گویا جانے سے پہلے اپنے سارے قہر خلقت خدا پہ برسا کے جانا چاہتی تھی
ادھر اماں برکتے کو پھر سے الٹی اور دست شروع ہو چکے تھے
محلے کی ڈسپنسری میں فوری طور پہ ڈرپ لگوانے کیلئے نثار اماں کو لے کے بھاگا
. شام تک اماں برکتے کی آنکھیں بے نور سی ہوئی جارہی تھیں اور سانس دھونکنی کی طرح
ڈسپنسری والے لڑکے نے کہا تھا کہ انہیں فوری طور پہ شہر لے کے جانا ہو گا..
شہر لے کے جانے کیلئے ٹیکسی والے کا پتہ کیا تو دوسرے گاؤں کا ایک ڈرائیور گاڑی پہ لے کے جانے کیلئے تیار ہوا.. لیکن تین ہزار اسے ایڈوانس چاہیے تھے پٹرول کیلئے
نثار فوری طور پہ گھر آیا بیوی سے پیسوں کا پوچھا..
اس نے ساڑھے تین سو روپے نکال کے دیے کہ اس وقت گھر میں یہی ہیں
بیٹی نے اپنا خزانہ توڑا تو اس میں سے بھی صرف 180 روپے نکلے
نثار کی ماں مٹھی سے پھسلتی ریت کی طرح ہاتھوں سے نکلتی جا رہی تھی
اس نے زندگی میں کبھی کسی سے ادھار نہیں لیا تھا.. لیکن آج وہ سوچ رہا تھا کہ کنیزاں کے شوہر سے کچھ پیسے ادھارے پکڑ کے ماں کو شہر بڑے ڈاکٹر کے پاس لے کے جائے
ابھی وہ اسی ادھیڑ بن میں تھا جب رقیہ کی چیخ سنائی دی
اماں… اماں
نثار بھاگا ہوا کمرے میں پہنچا تو اماں کے سانس پورے ہو چکے تھے
رقیہ اماں کے سینے پہ سر رکھ کے تڑپ تڑپ کے رو رہی تھی
” اماں… ایسے نہ کرو… اماں ایسے نہیں جانے دوں گی،،
تھوڑی دیر میں گاؤں میں اماں برکتے کی فوتگی کی اطلاع پھیل گئی
نثار گم صم بیٹھا ہوا تھا… وہ ماں کے مرنے کا سوگ منانے کی بجائے ماں کی آخری رسومات کی تیاری اور اس کے اخراجات کی سوچوں میں غلطاں و پیچاں بیٹھا ہوا تھا
جب بڑی بیٹی نے آکے چھوٹی سی پوٹلی نثار کے ہاتھ میں پکڑائی اور بتایا
“دادی نے مرنے سے ایک دن پہلے میرے سے ٹوکری کا تالا کھلوا کے یہ پوٹلی مجھے دی تھی اور کہا تھا کہ اگر میں مر جاؤں تو یہ اپنے ابا کو دیدینا اور اسے تمہارے ابا کے علاوہ اور کوئی نہ کھولے.. . اور بتانا کہ میرا کفن اور باقی چیزیں میری ٹوکری میں موجود ہیں،،
نثار نے اندر آ کے پوٹلی کھولی تو اس میں سو اور پچاس کے نوٹوں میں 10 ہزار روپے بندھے تھے.. جو نہ جانے کب سے اماں برکتے جوڑ جوڑ کے اپنی ٹوکری میں سب سے چھپا کے رکھ رہی تھی… کہ میرا بیٹا اکیلا ہے…کوئی اس کا مددگار نہیں ..کسی سے زندگی بھر ادھار نہیں مانگا.. .. تو میرے مرنے کے بعد بیٹا پریشان نہ ہو..
اب نثار دھاڑیں مار، مار کے رو رہا تھا
کاش.. ماں مجھے پتہ ہوتا تو، ان پیسوں سے میں تیری جان بچا لیتا
یہ مائیں اتنی اچھی کیوں ہوتی ہیں؟

Published inروبینہ قریشیعالمی افسانہ فورم

Comments are closed.