عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 8
مانگے ہے پھر کسی کو لبِ بام پہ ہوس
طلعت زہرا
آنگن میں سائیکل چلاتی تو اس کے سنہری بال ہوا میں لہراتے، سرخ ہوتے عارض پہ اتراتے تبسم کا پھیلاؤ، اس کی خوشبو چہار سو پھیلا دیتا ۔ ایسے میں بلڈنگ کا دراز قد منیجر , چوڑا چکلا ہڈ کاٹھ ، جھریوں سے بھرپور چہرے پہ خشخشی بال ، بھنویں اُڑی اُڑی ، سفیدے کا زیرہ تمام بالوں میں نمایاں ، اِس کو غور سے دیکھتا رھتا ۔
تیرہ سالہ پلویشا کا یہ ‘اِترانا’ منیجر کو اتنا بھایا کہ تہذیب کی ساری سیڑھیاں نیچے اترتا ہوا ، نازک پھول کو بلڈنگ کی بیسمنٹ میں لا مسلا۔ ایک ٹین ایجر کی دہائی بیسمنٹ کی دیواروں میں کان نہ بنا سکی۔ کمرے کی بندشوں نے اس کی سسکیوں کو سینہ بند کر لیا۔ ریمنڈ روز ہی اترتا چڑھتا، پر جیسے پتھروں کی سیڑھیاں اس ظالم کے بوٹوں کی دھمک سے پتھرا ہی گئیں، روتی سسکتی آھیں بھرتی پلویشا دروازے کی آواز سنتے ہی کوئی جائے پناہ ڈھونڈھنے کو بھاگتی۔ اس ایک کمرے کے کس کونے میں جا کر سر چھپائے ، کہاں ماں کا سایہ ڈھونڈھے، گھبرائی سہمی سی وہ دیوار کی جانب منہ ہاتھوں میں چھپائے سمجھتی کہ کبوتر کے آنکھیں بند کرنے سے بلی بھاگ جائےگی۔ بڑا سا ہاتھ اس کاکندھا تھامتا ، فریاد کرتی آھیں بھرتی پلویشا کو گھسیٹتا تو پلویشا کا تڑپتا سسکتا کملایا سا وجود انہی دیواروں میں سر ٹکرانے لگتا۔ وہ تمام دن مجسم تصویر بنی ٹُکر ٹُکر دیواروں کو دیکھتی۔ اب تو اس کی آنکھوں کی روشنی بھی جیسے زائل ہونے لگی تھی۔ اسے جس اجالے کی تلاش تھی اس کے لئے وہ بارھا اندھیروں کے دروازوں سے سر ٹکرا چکی تھی۔ اس کو تو صحیح سے یاد بھی نہ تھا کہ اس کے نقوش کیا ہیں۔
گنگھی پٹی کرنے کے بجائے اپنے زخموں پر پٹیاں باندھتی معصوم پلویشا کُرلائی سہمی سمٹی آنکھوں میں ویرانی لئے داغ زدہ جسم و گھائل روح کو حسرت و یاس سے دیکھتی۔ ایسے میں اسے اپنی وہ ٹیچر یاد آ جاتیں جن کی باتوں میں حلم اور نرماہٹ کی بو باس ہوتی تھی۔ کبھی سکول میں معمولی زخم آنے پر فوری فرسٹ ایڈ کا انتظام کرتیں تھیں ۔ آج وہ کیوں اُن کی پناہ میں نہیں ہے۔ کیا وہ بھی مجھے ڈھونڈھ رہی ہوں گی۔ میری ساری سہیلیاں تو میرے سکول نہ آنے پر سخت برہم ہوں گی، لیکن شاید انہیں معلوم ہی نہ ہو۔ میں یہاں سے نکلتے ہی اپنی ٹیچر سے کہہ کر اس ’’جن‘‘ کو بوتل میں بند کروا دوں گی۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ ایک دن سچ مچ ایک جن مجھے اپنی قید میں رکھ لے گا۔ یہی سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ جاتی۔ خواب میں وہی دلدوز مناظر نظر آنے لگتے۔ کبھی ڈراؤنا چہرہ دکھائی دیتا تو کبھی ماں کی متجسس نگاھیں، لیکن جب اسے اپنے ہی سامنے اپنا آپ دکھائی دیتا تو وہ ہڑبڑا کر اٹھ جاتی۔ گھنٹوں اس پر فسوں طاری رھتا۔ یہ کیسا خواب ہے یہ کیسی حقیقت۔ معصوم ذہن اتنا الجھ جاتا کہ اس کے دماغ میں بہت سے شیر آپس میں لڑتے سجھائی دیتے۔ وہ ان سب کا مقابلہ نہ کر سکتی اور دیواروں سے سر ٹکرا ٹکرا کر لہو لہان ہو جاتی تو وہی جن اس کے لہو کو چاٹ چاٹ کر صاف کر دیتا۔ کراہت سے وہ اسے پرے دھکیلتی تو ناتواں ہاتھ اپنے ہی وجود کو مزید گندا کر دیتے۔
ریمنڈ سے ایسی بدبو آتی کہ اُس مرے ہوئے چوھے کی بدبو اس کے دماغ میں پھیل جاتی جو ایک بار ماں نے کچن سے نکالا تھا۔ اس کی سڑاند کو اپنے کومل ریشمی ننگے بدن پہ محسوس کرتی تو ابکائیاں آنے لگتیں۔ بھاری بھرکم وجود بالوں سے بھرا ریچھ نما جانور ، شکل ایسی منحوس کہ پلویشا کی سنہری پلکیں اسے نہ دیکھنے کی خاطر اپنی نگاھوں پہ پردہ کئے رکھتیں اور پھر کئی کئی دن یہ نگاھیں اس کے دل و دماغ کو سن کئے رھتیں ۔اسے کبھی خود پہ ترس آتا تو کبھی غصہ، کبھی دل گرفتہ ہوتی تو کبھی مایوسی کے عالم میں سارا دن گزار دیتی۔ ایسے میں ایک ماں ہی تھی جو اسے یاد آتی لیکن اس سے بھی اس کو رنجش پیدا ہونے لگی، کبھی کبھی وہ ماں کو مورد ِ الزام ٹہراتی پھر خود ہی خیالوں میں اس کی گود میں سو جاتی۔ سخت زمین پر ایک بوسیدہ گدیلا جس کی ہر ہر تہہ میں پلویشا کے نامراد بچپن کی معصوم آرزوؤں کے کِرم کلبلا رھے تھے۔ کہیں سفید تو کہیں سرخ دھبوں میں وہ اپنی ذات کا سراغ نہ ڈھونڈ پاتی۔ کھلے آسمان کی مردہ ہوتی یادوں کو زندہ کرنے کی کوشش میں چھت کو تکتی تو لوھے کی بلیوں میں زنجیروں کے آنکڑے دیکھ کر رھی سہی ہمت اس سے نظریں چرا لیتی۔ کبھی اکیلے میں دیواروں پہ نگاہ پڑ جاتی تو بےشمار آنکھیں اس پر جمی ہوتیں بالکل ایسے جیسے اس نے بچپن میں کہانی پڑھی تھی۔ خوف سے گھگھی بندھ جاتی تو گُھٹنوں میں سر دے کر گھنٹوں ہی روتی رھتی ۔ چیخ و پکار تو لاحاصل تھی کہ اب یہ فریاد کرنے کی سکت ہی کہاں رہ گئی تھی۔ سیڑھیاں اترنے اور دروازہ کُھلنے کی آواز سنتے ہی وہ آج پھر کسی گوشے کی تلاش مین بھٹک رھی تھی۔۔
’’باسٹرڈ ، کدھر مرے گی ۔یہ تیرے باپ کی دھرم شالہ نہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ریمنڈ نے ایک طنز آمیز قہقہہ لگایا۔
وہ اور بھی سہم گئی، گورے گورے گال غم و غصہ سےسرخ ہو رھے تھے، شربتی آنکھوں میں رو رو کر ڈورے واضح نظر آنے لگے تھے۔ ریشمی بال الجھ کر چہرے پر بکھر رھے تھے۔ پلویشا نے بھاگ کر ایک کونے میں چھپنا چاھا لیکن ایک ہی تھپڑ نے اس کے حواس گم کر دیئے ۔ ریمنڈ اسے گھسیٹتا ہوا گدیلے تک لایا، اور اپنی بھیانک آواز میں گرجا، ’’ اب تو یہاں کی عادت ڈال لے ، باہر کی دنیا والوں کے لئے تو اب مر چکی ہے۔‘‘
پلویشا تو جیسے کسی انجانے جنگل کی سیر کر رھی تھی۔ اسے وہ کہانی یاد آ رھی تھی جس میں ایک بھیانک وحشی، جنگل میں ایک سنہری بالوں والی گڑیا کو لکڑی کے گھر میں قید کر لیتا ہے۔ وہ گڑیا تمام جتن کرتی ہے اور آخر کار اس کو ایک شہزادہ اس کی قید سے چھڑا لیتا ہے، لیکن میرا شہزادہ کون ہو گا؟ میں نے تو اپنی باجی کی طرح ابھی کوئی بوائےفرینڈ بھی نہیں بنایا تھا۔ یہ خیال آتے ہی اس کی امیدوں پہ پانی پھر گیا اور وہ ایک جھٹکے سے واپس اسی عقوبت خانے میں آئی جہاں ایسے ہی جھٹکوں نے اس کی زندگی اجیرن کی ہوئی تھی۔ پلویشا کی آنکھ شور کی وجہ سے کھل گئی۔ ریمنڈ دیوار سے پائپ جوڑ رھا تھا، اس کے پاس ہی ایک کموڈ اور منہ دھونے کے لئے بیسن پڑا تھا۔ ریمنڈ نے ان تمام چیزوں کو ایک کونے میں فکس کیا اور چھوٹا سا غسل خانہ بنا لیا۔ آج کے لئے اتنا ہی کافی تھا۔ وہ اپنے ساتھ کھانے کا ٹفن بھی لایا تھا۔ اس نے پلویشا کے بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیرا تو پلویشا نے حقارت سے منہ دوسری طرف پھیر لیا اور سکڑ کر بیٹھ گئی۔ ریمنڈ نے انہی بالوں کو زور سے کھینچتے ہوئے اپنے غصے کا اظہار کیا:
’’ میں کھانا لے کر آیا ہوں ، پانی کا انتظام بھی کر دیا ہے منہ دھو کر کھانا کھا لینا۔‘‘
یہ کہتے ہوئے وہ وہاں سے باہر نکل گیا اور پلویشا پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔ اس کو یہاں آئے کتنے دن ہو گئے تھے، اس کا حساب تھا نہ شب و روز کا معلوم ۔ یہ ایک ایسا زندان تھا کہ جس کی کسی بھی دیوار میں ایک روزن تو کیا مُوا ایک شگاف تک نہ تھا۔ وہ اس اندھیرے کی باسی، یاسیت کا لبادہ اوڑھے، اسی گھٹن میں بڑھتی گھٹتی رھی۔
وہ ایک پتلون جو اس کی اپنی ہی وراثت سے اترتی چڑھتی رھی آج اسے تنگ تنگ محسوس ہو رھی تھی۔ پہلے تو وہ اپنی قے کرتی طبیعت کو تعفن و گند کا صلہ سمجھتی رھی لیکن آج اسے لگا کہ اس کے پیٹ پر یہ پتلون بھی نہیں سما رھی ۔ جوں جوں دن گذرتے گئے اسے محسوس ہوا کہ وہ ایک گڑیا ہے جس پر اس جن کی چبھوئی ہوئی بےشمار سوئیوں سے وہ بھی جن بن جائے گی۔ رفتہ رفتہ تہہ خانہ ایک گھر میں تبدیل ہونے لگا، کسی دن ریمنڈ اس میں گیس کی پائپ لائن میں اَوَن لگا دیتا تو کسی دن لکڑی کی الماری میں برتن سجا جاتا۔ پلویشا باوجود کوشش کے اس قیدگاہ میں ایک سراغ بھی ایسا نہ ڈھونڈھ پائی جہاں سے اس کی آواز کائنات کا کوئی ذرہ بھی اپنے اندر سمو لیتا۔ معصوم پلویشا کی ذہنی بالیدگی بانس کے پودے کی مانند بڑھتی گئی۔ روز مرتی اور پھر روز ہی مرتی پلویشا شب و روز کے اندھیروں اجالوں سے بے خبر ریمنڈ کے شجر کا بیج اٹھائے تیس سکوئر یارڈ کے کمرے میں دنیا سجائے بیٹھی تھی۔ یہ کیسی مامتا ہے جو ناگ کی طرح ڈستی رھتی ہے۔ ایک ہی سال میں اس کی کچلی ہوئی روح ، گوشت کا لوتھڑا اوڑھے اس کے برابر لیٹی تھی۔ پلویشا نے منہ دوسری طرف کر لیا، تکیے میں جذب ہوتے آنسو اس کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے بجائے، حدت کو بڑھاوا دے رہے تھے۔ اس کا جی چاہا کہ ابھی وہ نظر دوسری جانب کرے اور یہ اس کا وہی پرانا کمرہ ہو، جہاں باپ کے ہاتھوں مار کھا کر وہ آنسو بہاتی رھی ہے۔
اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک ان چاھا وجود آنکھیں جھپکائے بنا اسے دیکھ رھا تھا۔ ہو بہو اس کی طرح سنہری بال ، کانچ سی بلوری آنکھیں اور نرم و نازک چھوٹے چھوٹے ہاتھ۔ وہ رفتہ رفتہ بچی کا جائزہ لے رھی تھی۔ اچانک اس بچی کے بڑے بڑے ناخن اگ آئے اور آنکھوں میں جنوں کی سی وحشت لئے وہ اُس پر جھپٹی اور اُس کی کھال نوچ نوچ کر پھینکنے لگی۔ پلویشا نے خود کو چھڑانے کے لئے ہاتھ پاؤں چلائے تو اس کی آنکھ کھل گئی۔ اُف میں اپنی ہی بچی کو دیکھتے دیکھتے سو گئی تھی شاید؟
شام کو ریمنڈ آیا ، اس نے بچی کو اٹھایا، اپنی اِس غلاظت پر پانی ڈال کر، اسے نہلایا اور کپڑے پہنائے۔ ساتھ ہی ساتھ اپنی غلاظت بھری گفتگو جاری رکھی، اس کے خیال سے ماں کو اپنا بچہ خود نہلانا چاہیئے تھا جب کہ پلویشا تو اس کو ہاتھ لگانے کو بھی راضی نہ تھی۔ کئی دن ایسے ہی گذر گئے، شام کو ریمنڈ آتا تو بھوکی پیاسی بچی کے لئے دودھ لے کر آتا، پلویشا کو صلواتیں سناتا اور کہیں سے بچا کچھا لایا ہوا کھانا اس کے آگے ڈال جاتا۔ پلویشا غموں سے نڈھال تو تھی ہی، اس نئی آفت کو مار دینا چاہتی تھی۔ کسی کے سوچے سے کون مرا ہے۔ ماہ و سال گذرتے گئے۔ علیزہ اسی قیدخانے میں اس کی دن رات کی ساتھی بن گئی۔ ریمنڈ اپنے ایک گناہ کو بیسمنٹ میں چھپاتے چھپاتے اب دو گھروں کا کفیل بن گیا تھا۔ دن بھر دفتر میں ،جو کہ اسی بلڈنگ میں تھا، شام کو تہہ خانہ میں پلویشا اور علیزہ کے ساتھ اور رات کو بلڈنگ کے ہی ایک فلیٹ میں اپنی بیوی اور دو بچوں کےساتھ۔
مرتی کیا نا کرتی پلویشا کو علیزہ کی دیکھ ریکھ کرنی پڑی۔ اس نے بیسمنٹ میں ہی ایک جانب پردے ڈال کر علیزہ کا کمرہ بنا دیا۔ جیسے ہی ریمنڈ آتا وہ علیزہ کو اس کے کمرے میں بھیج دیتی۔ اس کے جانے کے بعد ماں بیٹی خوب گلے لگ کر روتیں۔ کچھ ہی برسوں میں اس ایک کمرے میں ایک سے دو اور پھر چار افراد کا کنبہ کِلَسنے لگا۔ پلویشا کی دنیا اب یہی تھی، اس کو یقین تھا کہ وہ اور اس کے بچے اب یہیں مر جائیں گے۔ اس نے باہر نکلنے کی امید کا چراغ پھونک دیا تھا۔
آج اس نے توے پر روٹی ڈالی ہی تھی کہ بڑی بیٹی علیزہ اس کے پاس آئی اور اپنا سرخ ہوتا جامہ دکھایا تو ماں کا دل وسوسوں سے بھر گیا۔ اس سے پہلے کہ تاریخ خود کو دھرائے اور پھر وہی باپ اپنی ہی تیرہ سالہ سگی بالغہ بیٹی/نواسی کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس خیال نے پلویشا کی چودہ سالہ ہمت کو یکجا کیا اور اس نے مصمم ارادہ کر لیا کہ وہ اپنے بچوں کو یہاں سے باہر نکالے گی۔ اس نے چھوٹے بچے کی کلائیاں کاٹ کر اس کے کوٹ میں ایک پرچہ سی دیا ۔ پولیس ریمنڈ کو ہتھکڑیاں ڈالے تہہ خانے کا دروازہ کھول اندر آئی اور پلویشا اپنے بچوں سمیت سینے میں لگائے ضبط کے پیڑ کی شاخوں کا سہارا لے کر بیسمنٹ کی سیڑھیاں چڑھ گئی۔
Be First to Comment