Skip to content

ماموں میاں کا گھرانہ

عالمی افسانہ میلہ – 2021
دوسری نشست۔
افسانہ نمبر 31
ماموں میاں کا گھرانہ
تحریر: امین صدرالدین بھایانی
اٹلانٹا، امریکا

“کچھ سُنا تم نے بیٹا۔ ۔ ۔ ۔؟ ماموں میاں نے گھرانے کا سودا کر دیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!”
امی کی بات سُن کچھ دیر کے لیے تو میں اُنھیں ٹُکر ٹُکر دیکھتا رہا کہ جیسے کچھ سمجھ ہی نہ آیا ہو کہ کون جانے امی کیا کہہ رہی ہیں مگر اگلے ہی لمحے یک لخت اُن کی بات سمجھ میں آ گئی۔
“ارے نہیں امی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ایسا بھلا کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ تو ممکن ہی نہیں۔ ماموں میاں کی تو جان ہی گھرانے میں ہے۔ وہ بھلا اُس کا سودا کیسے کر سکتے ہیں؟”
“تو تمھارا کیا خیال ہے کہ میں یہ بات اپنی طرف سے کہہ رہی ہوں۔ سارے محلے میں اِس بات کا چرچا ہو رہا ہے۔”
میں ابھی کچھ دیر قبل ہی دفتر سے گھر پہنچا تھا۔ امی کو سلام کرنے کے ارادے سے باورچی کھانے میں داخل ہوا۔ امی حسب معمول میرے لیے کھانا گرم کرنے کے ساتھ میرے پسندیدہ لوازمات کی تیاریوں میں مصروف تھیں۔ میرے سلام کا جواب دینے کی بجائے ماموں میاں کی کہانی سُنا کر مجھے حیران ہی کر دیا۔ میں اُلٹے قدموں گھر سے باہر نکل آیا اور تیز تیز چلتا ہوا محلے کے گول چوک جا پہنچا۔
گول چوک قدرے گولائی میں ہونے کے سبب اِسی نام سے مشہور تھا جو کہ وہاں موجود انواع و اقسام کی دُکانوں کے سبب ہمیشہ رونق میں ہی رہتا۔ نیم کے ایک گھنے پیڑ کے ساتھ یکے بعد دیگرے دُکانوں کا ایک سلسلہ قائم تھا۔ پہلی ہی دکان کی پیشانی پر جلتے بلب کی تیز روشنی میں جلی حروف میں لکھا نام بہت دور سے پڑھا جا سکتا تھا:
“گھرانہ جنرل و پرویژن اسٹور”
اندر داخل ہوتے ہی میری نگاہیں ماموں میاں کو تلاش کرنے لگیں۔ حسبِ معمول دُکان کے ایک کونے میں چیزوں کو اُلٹتے پُلٹتے نظر آ گئے۔
“السلام علیکم،۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ماموں میاں!” میں نے اُنھیں اپنی جانب متوجہ کیا۔
“ارے بھئی وعلیکم السلام، منیب بیٹا، آج تو خُدا سے کچھ اور بھی مانگتا تو وہ بھی مل جاتا۔ میں تمھارے بارے ہی میں سوچ رہا تھا۔”
ماموں میاں ہلکی سی مُسکراہٹ چہرے پر لاتے ہوئے بولے مگر میں نے محسوس کیا کہ ماموں میاں کی مُسکراہٹ پہلے جیسی ہرگز نہ تھی۔ کچھ بجھی بجھی اور اُداس اُداس سی تھی۔
“ارے ماموں میاں، کیسے ہیں آپ؟”
“چھوڑو بیٹا اِن باتوں کو۔ چند بہت ضروری کام نبٹانے ہیں۔ یہ بتاو آج کل میں مجھے اپنے ساتھ لے جا سکو گے؟”
میں ایک لمحے کے لیے سوچ میں پڑ گیا۔ آیا تھا امی کی کہی بات کی تصدیق کرنے اور اب ماموں میاں کے سامنے گم سم سا کھڑا تھا۔
“کیوں بھئی کیا ہوا؟”
“کچھ نہیں ماموں میاں۔ بس سوچ رہا تھا کہ کل تو نہیں البتہ پرسوں دفتر سے آدھی چُھٹی لے کر صبح ان شاءاللہ ضرور لے جا سکوں گا۔”
وہاں سے نکلا اور تھکے قدموں سے گھر کی طرف چل دیا۔
گھر پہنچ کر کھانے کی میز پر بھی میں سوچوں میں ہی ڈوبا رہا۔
جیسے تیسے، تھوڑا بہت کھا کر سونے کے لیے اپنے بستر پر جا لیٹا۔ مگر نیند انکھوں سے کوسوں دور تھی۔
اندھیرے میں چھت پر لگے پنکھے کی گردش پر نظریں جمائے دھیرے دھیرے ماضی کے دُھندلکوں میں کھو سا گیا۔
ہوش سبنھالتے ہی میں نے ماموں میاں کو ہمیشہ”گھرانہ جنرل و پرویژن اسٹور” پر ہی بیٹھے پایا۔
وہ ہمارے محلے کی سب سے مشہور اور مصروف کریانے کی دُکان تھی۔
مجھے بہت اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب میں تھوڑا سا ہی بڑا ہوا تب سے امی مجھے وہاں کبھی آٹا، چاول تو کبھی گھی، شکر کے لیے بجھوایا کرتیں۔
ماموں میاں کا گھر ہمارے ہی محلے میں تھا۔ اُن کا بیٹا ثاقب اور میں ہم عمر اور ہم جماعت تھے۔
نام تو اُن کا عاقب حُسین تھا مگر جیسا کہ عموماً ہوتا ہے محلے والوں نے اُنھیں ماموں میاں، ماموں میاں کہہ کر پُکارنا شروع کر دیا اور سارے محلے میں اُسی نام سے مشہور اور جانے پہچانے جاتے تھے۔
میں نے اُبو مرحوم کے زبانی سُنا تھا کہ وہ ثاقب کی پیدائش سے پہلے کسی سرکاری محکمے میں ملازمت کرتے جہاں بالائی آمدنی کا دورِ دورہ تھا۔ البتہ وہ خُود ناجائز آمدنی کے سخت خلاف تھے۔ دفتر کے سارے لوگ محض اِس وجہ سے اُن کے خلاف تھے کہ وہ اُوپر کی کمائی میں حصہ دار بننے کو کسی طور تیار نہ ہوتے۔
ثاقب کی پیدائش کے بعد نہ حانے کیا ہوا، اُنھوں نے ملازمت سے استعفا دے دیا۔ جمع پونجی اور ملازمت سے فارغ خطی لکھنے کے بعد حاصل شدہ رقم سے محلے میں “گھرانہ جنرل و پرویزن اسٹور” کے نام سے کاروبار کا آغاز کیا۔
ابو بتاتے تھے کہ اُنھوں نے اپنے اُس چھوٹے سے جنرل اسٹور کو اپنے خُون پسینے سے سینچا اور اِس قدر محنت کی کہ نہ دن کو دن سمجھا اور رات کو رات جانا۔
یہ تو میں نے خُود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اُن کا اسٹور صبح سورج نکلنے سے پہلے کُھل جاتا اور رات گہری ہونے تک کُھلا رہتا۔
آٹھ دس برس کے عرصے میں گھرانہ جنزل اسٹور ایک چھوٹی سی دُکان سے آگے بڑھ کر ساتھ پیوستہ مذید دو اور دُکانوں تک پھیل گیا جس میں ماموں میاں کی واحد ہستی کے ساتھ اب دو تین مددگاروں کا بھی اضافہ ہو گیا تھا۔
مجھے ثاقب پر بڑا رشک آتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔!!!
وہ محلے بھر کے لڑکوں میں سب سے زیادہ خُوش لباس سمجھا جاتا۔ ماموں میاں ثاقب سے بہت زیادہ محبت کرتے، اُس کی ہر بات اور ضرورت کا خاص خیال رکھتے تھے۔ ثاقب پورے محلے میں کا وہ پہلا لڑکا تھا جسے اُس کے ابو نے بائی سائیکل خرید کر دی اور وہ بھی کوئی عام سی نہیں بلکہ کافی مہنگی اور خُوب صورت غیر ملکی بائی سائیکل۔
اِسکول سے واپسی کے بعد کھانا کھا اور ہوم ورک مکمل کرنے کے بعد جب محلے بھر کے سارے ہم عمر لڑکے کھیلنے کے لیے جمع ہوتے تو ثاقب سر پر شاندار سی پی کیپ لگائے اپنی بائی سائیکل پر شان سے سوارہو کر آتا تو میں کیا سارے ہی لڑکے اُسے رشک بھری نگاہوں سے دیکھتے۔
ثاقب میرے ہمراہ سرکاری اسکول میں پڑھا کرتا تھا مگر چھٹی جماعت سے اُسے انگریزی میڈیم اِسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ ہم دونوں ہم جماعت تو نہ رہے لیکن ہماری دوستی روزِاول ہی کی طرح قائم و دائم تھی۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب ہم دونوں جماعتِ نہم میں تھے تو ایک روز اُس نے آ کر مجھے بہت خوشی اور فخر کے ساتھ بتایا کہ اُس کے ابو نے اُسے “پاکستان امریکن کلچر سینٹر” کے انگریزی گفتگو میں مہارت کے کورس میں داخلہ کروا دیا ہے اور کورس مکمل کر کے وہ امریکیوں کی طرح فر فر انگریزی بولا کرے گا۔
مجھے ثاقب پر بے انتہا رشک آیا اور ماموں میاں دُنیا کے سب سے اچھے ابو محسوس ہوئے۔ اُس روز مجھے خُود اپنے ابو جو کہ ایک مقامی نجی فرم میں کلرک تھے اور میری شدید خواہش کے باوجود مجھے انگریزی زبان میں مہارت کا کورس کروانے کے لیے نہیں بھیچ سکتے تھے، بہت چھوٹے، بہت ہی بے وقعت سے محسوس ہوئے۔
مجھے یہ بھی یاد ہے کہ میں نے اُس روز پہلی بار سوچا کہ کاش ماموں میاں میرے ابو ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ میں بھی ثاقب کی مانند اچھی پوشاک زیبِ تن کرتا، خُوب صورت سی بائی سائیکل چلاتا، انگریزی میڈیم اِسکول جاتا اور انگریزی زبان سیکھنے کا مہنگا سا کورس کرتا۔
میرا رشک ہر نئے آنے والے دن کے ساتھ بڑھتا ہی چلا گیا۔
میڑک کے بعد گھر کے روزافرزوں بڑھتے اخراجات اور ابو کا ہاتھ بٹانے کی نیت سے ایک مقامی نجی ادارے میں ملازمت کے ساتھ شام کے کالج میں داخلا لے کر انٹر کے امتحان کی تیاریوں میں جُت گیا۔
ثاقب کو ماموں میاں نے شہر کے سب سے اچھے کالج میں داخل کروا دیا۔ وہ بڑی آن بان کے ساتھ کالج جاتا۔ کچھ ہی دنوں میں ماموں میاں نے اُسے نئی چمچماتی ڈبل سائیلنسر والی سُرخ ہنڈا ون ٹوینٹی فائیو موٹر سائیکل بھی لے دی۔
میں جب اپنی ملازمت پر پہنچنے کے لیے دو بسیں بدل صبح سویرے سات بجے نکلتا تب کہیں جا کر نو بجے تک پہنچ پاتا۔ عین اُسی وقت ثاقب بھی اپنی نئی موٹرسائیکل پر سوار کالج جانے کے لیے نکلتا۔ کبھی کبھار ہمارا آمنا سامنا ہوتا تو وہ مجھے اپنی نئی نویلی، سُرخ چمچماتی شاندار موٹر سائیکل کے پیچھے بٹھا کر بس اسٹاپ پر اُتار دیتا۔ میں بس اِسٹاپ پر کھڑا اُس وقت تک اُسے جاتے دیکھتا جب تک وہ اپنی موٹر سائیکل پر سوار سڑک پر رواں دواں ٹریفک میں گُم نہ ہو جاتا۔ پھر گہری اور ٹھنڈی سانس لے کر دور سے آنے والی بسوں میں اپنی مطلوبہ بس کو تلاشتا۔
ایک اتوار کی شام جب میں اور ثاقب ساتھ تھے اُس نے بتایا کہ وہ بیرونِ ملک پڑھائی کے لیے جانے کا سوچ رہا ہے۔ جس کے لیے وہ مختلف غیر ملکی تعلیمی اداروں میں داخلے، ویزے کے حصول اور دیگر معاملات کی تکمیل کے سلسلے میں سرگرم ہے۔ اُس کا ارادہ ہے کہ وہ اگلے چار چھے ماہ تک کسی نہ کسی غیر ملکی تعلیمی ادارے میں تحصیلِ علم کے لیے روانہ ہو جائے گا۔
مجھے ایک بار پھر اُس پر بے حد رشک آیا۔ سوچنے لگا کہ ایک میں ہوں کہ کبھی اپنے شہر کراچی سے باہر نہیں نکلا اور ایک ثاقب ہے کہ اب وہ کسی دوسرے ملک میں جا کر تعلیم حاصل کر کے اپنی قسمت اور مستقبل چمکائے گا۔

گو کہ ابو مرحوم نے بھی حسبِ استطاعت میری پرورش بہت پیار سے کی تھی مگر نہ جانے کیوں اُس روز میرے دل کی گہرائیوں سے دُعا نکلی کہ اللہ ماموں میاں جیسا باپ ہر بیٹے کو دے۔
سوچتے سوچتے نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی۔
دو روز بعد حسبِ وعدہ صبح دفتر جانے سے قبل آٹھ بجتے ہی “گھرانہ جنزل اسٹور” پہنچ گیا۔ ماموں میاں تو جیسے میرے ہی منتظر بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی اُن کے چہرے پر ایک ہلکی سی مُسکراہٹ آ گئی۔ میں نے محسوس کیا کہ آج بھی اُن کی مُسکراہٹ میں ایک اُداسی سی تھی۔ میں نے اُسے اپنا واہمہ جانا۔
ماموں میاں میری موٹرسائیکل جو مجھے اپنے دفتر کی جانب سے آنے جانے کے لیے ملی تھی کے پیچھے سوار ہو گئے۔
“جی ماموں میاں، اب بتائیں کہاں جانا ہے؟”
“بیٹا پہلے بنک لے چلو۔”
میں پہلے بھی اُنھیں کئی بار بنک لے جا چکا تھا۔ کچھ ہی دیر میں ہم دونوں بنک میں تھے۔ مجھے یہ جان کر شدید حیرت ہوئی کہ اُنھوں نے اپنے کھاتے میں موجود کم و بیش تمام رقم کا پے آرڈر قومی بچت مرکز کے نام بنوایا۔ وہ ایک بہت بڑی رقم تھی۔۔۔۔!!!
وہاں سے فارغ ہوئے تو اُنھون نے مجھے قومی بچت مرکز کے قریبی دفتر چلنے کو کہا۔ وہاں پہنچ کر پے آردڑ کی تمام رقم “ماہانہ آمدنی اسکیم” میں ڈلوا دی۔ ماموں میاں نے جس قدر رقم جمع کروائی اُس سے ملنے والی آمدنی سے ایک نچلے متوسط طبقے کے عمومی خاندان کا گزر بسر بہت اچھی طرح سے ہو سکتا تھا۔ جب کہ ماموں میاں کے گھر میں لوگ تھے ہی کتنے؟ کُل دو نفُوس، ایک وہ خُود اور ایک اُن کی بیگم۔
میرا جی چاہ رہا تھا کہ میں اُن سے پوچھوں کہ یہ سب کیا ہے؟ آخر اُنھوں نے اِتنی بڑی رقم وہاں کیوں جمع کروائی؟
وہاں سے نکلے تو میں نے موٹر سائیکل کا رُخ گھر کی طرف کر دیا تاکہ ماموں میاں کو چھوڑ کر خود دفتر روانہ ہو جاوں۔
“سنو بیٹا میں نے ناشتہ نہیں کیا اور شاید تم نے بھی نہ کیا ہو۔ ایسا کرو کہ راستے میں کسی اچھے ایرانی ریسٹورینٹ پر روک لینا۔ وہاں بیٹھ کر اچھی سی چائے کے ساتھ مسکہ بن کھائیں گے۔”
تھوڑی دیر بعد ہم ایک ایرانی ریسٹورینٹ کی مخصوص سیاہی مائل کتھئی چوبی کرسیوں پر آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ میز پر مکھن اور جیلی لگے فروٹ بن اور چائے کے علحیدہ علحیدہ لوازمات اپنے مخصوص برتنوں میں سجے ہوئے تھے۔
میں نے کیتلی سے گرما گرم چائے کپ میں اُنڈیلی، دودھ شامل کیا اور چینی ڈال چمچ سے ہلا کر کپ ماموں میاں کے سامنے رکھا جو کہیں دور خلا میں گھور رہے تھے۔
“لیجیے، گرما گرم چائے۔”
میری بات سُن کر وہ ہڑبڑا کر کچھ یوں چونکے جسے گہری نیند سے جاگے ہوں۔
گہری نظروں سے بھاپ اُڑاتی چائے کی پالی اور ساتھ رکھے مسکہ بند جسے بڑی نفاست سے تیز چُھری کے ساتھ دو حصوں میں منقسم کر کے پلیٹ میں بڑی خُوب صُورتی کے ساتھ سجایا گیا تھا کو بہ غور دیکھتے رہے۔
“ثاقب کو بھی تو مسکہ بن بہت پسند تھا۔” ماموں میاں کی آواز کسی اندھے کنویں سے آتی محسوس ہوئی۔
“ارے ہاں، ماموں میاں، یہ بتائیں کہ ثاقب کیسا ہے اور کیا کر رہا ہے؟”
میرے اُس سوال پر ماموں میاں کے چہرے پر ایک عجب اُداس سی مُسکراہٹ آئی اور جس تیزی سے آئی اُتنی ہی تیزی کے ساتھ معدوم ہوتی چلی گئی۔
چائے کی پیالی اُٹھا کر اندر دیکھتے ہوئے اپنے ہونٹ ایسے سکوڑ لیے جیسے چاہتے ہوں کہ اُن کے دل و دماغ میں جو بات ہے کہیں ہونٹوں کی قید سے آزاد نہ ہو جائے۔
مجھے ایسا لگا کہ جیسے وہ اِس موضوع پر بات نہ کرنا چاہ رہے ہوں۔ سوچا کہ بات بدل دی جائے۔ مگر اب جو سوال میرے ذہن میں تھا، ماموں میاں سے کہتے ہوئے ہچکچا رہا تھا۔ قدرے توقف کے بعد کھنکھارتے ہوئے گویا ہوا۔
“میں نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔سُنا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔آپ نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔گھرانہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔فروخت کر دیا؟” میں نے اٹک اٹک کر اپنا سوال مکمل کیا۔
اُن کی انکھوں نے ایک بار پھر میرے سر سے بھی اُوپر کہیں دور خلاوں میں گھورنا شروع کر دیا۔ میں نے غور سے اُن کی طرف دیکھا۔ اُن کے چہرے پر اُداسی اور آنکھوں میں نمی تھی۔
“ہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔میں نے اپنا کماو پوت بیچ دیا بس قبصہ دینا باقی رہ گیا ہے۔”
“مگر کیوں۔ ۔ ۔ ۔؟”
“اِس لیے کہ مجھے خُود سے پیار نہیں۔”
“کیا مطلب۔ ۔ ۔؟” بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔
مگر جیسے میری بات اُن کے کان میں پڑی ہی نہ ہو۔ بڑبڑاہٹ کی مانند بولے۔ “اور جو خُود سے پیار نہیں کرتا وہ بھلا کسی اور سے کیا پیار کرے گا۔”
“ایسا کیوں کہہ رہے ہیں آپ؟” میں نے حیرت بھرے لہجے دریافت کیا۔
“یہ میں نہیں کہہ رہا۔ ۔ ۔ ۔! یہ ثاقب نے کہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔!!!”
“ثاقب نے۔ ۔ ۔ ۔؟”
“ہاں ثاقب نے کہا۔ ۔ ۔ ۔اور اُس نے تو یہ بھی کہا کہ مجھے صرف اپنے گھرانہ سے محبت ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ساری زندگی میں نے فقط گھرانہ سے ہی محبت کی اور اُس کے حصے کی محبت بھی گھرانہ ہی کی نذر کر دی۔” اتنا کہہ کر ایک لمحہ بھر کے لیے توقف کیا اور میری انکھوں میں آنکھیں ڈال کر گھورنے لگے۔
آُن آنکھوں میں بسی ویرانی مجھے کسی اندھے کنویں جیسی محسوس ہوئی۔ مجھے لگا کہ اگر میں نے اپنی آنکھیں نہ ہٹائیں تو میں اُس اندھے کنویں میں گر کر اُس کی گہرائیوں میں ڈوبتا چلا جاوں گا۔
ابھی میں یہ سوچا ہی رہا تھا کہ ماموں میاں کی بھرائی ہوئی آواز میری سماعمت سے ٹکرائی۔ “وہ کہتا ہے کہ نہ میں نے خود سے محبت کی، نہ اُس سے اور نہ ہی کسی اور سے۔ بس میری ساری محبت، توجہ اور وقت صرف گھرانہ تک ہی محدود ہے۔”
“یہ سب ثاقب نے کہا ہے۔ ۔ ۔ ۔؟” میں نے حیرت سے ماموں میاں کو گھورتے ہوئے پوچھا۔
ماموں میاں جواباً خاموشی سےمجھے تکتے رہے۔ مگر اُن کی آنکھیں اور چہرے کا رواں رواں اُن کی سچائی کی گواہی دے رہا تھا۔
“نہیں نہیں۔ ۔ ۔ ۔ماموں میاں، ایسا کیسا ہو سکتا ہے۔ آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی یا پھر وہ آپ سے مذاق کر رہا ہوگا۔” میں نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔ “میں سمجھ گیا۔ ۔ ۔ ۔آپ کو اُس کی جدائی نے پریشان کر دیا ہے۔ آپ اُسے واپس بلوا لیں؟”
میری بات سُن کر اُن کے ستے ہوئے چہرے اور بھنچے ہوئے ہونٹوں پر ہلکی سی ایک جُبنش ہوئی۔ میں جان نہ سکا کہ وہ جُبنش کوئی ادھوری، معدوم سی ٹھہری ہوئی غمگین مُسکراہٹ تھی یا محض ہونٹوں کی ہلکی سی پھڑپھڑاہٹ۔ جو بھی ہو میں اُس لمحے اور ہونٹوں کی اُس جُنبش کو آج تک بُھلا نہیں سکا۔
“اُس روز فون کیا تو تھا اُسے۔ ۔ ۔ ۔! بڑے چاو سے کہا کہ اب واپس آ جاو۔ ۔ ۔ ۔! تم بن بہت اکیلا پڑ گیا ہوں۔ ۔ ۔ ۔!!!” ماموں میاں ٹھہرے ٹھہرے لہجے میں گویا ہوئے۔ “وہ کہتا ہے کہ جب میں چھوٹا تھا اور اکیلا پڑ جاتا تھا تو اُس وقت تو آپ گھرانہ میں گم تھے۔ اب میں اپنی دُنیا میں مگن ہوں اور آپ شاید گھرانہ سے تھک گئے ہیں، اُکتا گئے ہیں یا پھر آپ کو گھرانہ کی ضرورت نہیں رہی تو میری یاد آئی ہے۔”
ایک لمحے کے توقف کے بعد میری آنکھوں میں گڑی آنکھیں جُھکا کر اپنے جوتوں کی طرف دیکھتے ہوئے اجبنی سے لہجے میں بولے۔ “کہنے لگا پہلے آپ مصروف تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔! اب میں مصروف ہوں۔ ۔ ۔ ۔! آپ کو تو گھرانہ سے فرصت ہی نہیں ملتی تھی۔ ۔ ۔ ۔! صبح منہ اندھیرے میرے جاگنے سے پہلے آپ گھر سے باہر اور رات دیر گئے میرے سونے کے بعد گھر کے اندر۔ ۔ ۔ ۔ ۔! جب کبھی مجھے بھی فرصت ملی تو آ کر مل جاوں گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!!!”
ماموں میاں کی بات سُن کر مجھے یاد آیا کہ ثاقب اکثر اُس سے کہا کرتا تھا کہ اُس کے ابو اُسے بالکل بھی وقت نہیں دیتے۔ کبھی گھومنے پھرنے کے لیے بھی نہیں لے جاتے۔ بس رات دن اپنی دُکان میں ہی گُھسے رہتے ہیں۔
مجھے یہ بھی یاد آیا کہ میرے ابو اتوار والے روز مجھے اور گھر والوں کو اپنے ساتھ فلم دِکھانے شہر کے مقامی سنیما گھروں میں لے جایا کرتے تو کبھی مزرا قائد، ہل پارک، چڑیا گھر جسے اُس زمانے میں گاندھی گارڈن کہا جاتا تھا، پا پھر ساحلِ سمندر ہاکس بے، پیراڈائیز پوائینٹ اور کلفٹن کی سیر کو لے جاتے۔
اگر کسی تفریحی مقام پر جانے کا جی نہ چاہ رہا ہوتا تو وہ مجھے اپنے ساتھ اپنی پرانی سُرخ ہنڈا ففٹی موٹر سائیکل پر یا تو کیماڑی کے نیٹی جیٹی پل پر مچھلیوں کے شکار تو کبھی کراچی کے مختلف علاقوں کی فُٹ پاتھوں میں جا بہ جا لگنے والے پرانی کتابوں کے بازاروں کی خاک چھاننے نکل کھڑے ہوتے۔
اور تو اور اگر کچھ بھی نہ سوجھے تو سارے گھر والوں کے ساتھ “کراچی سرکیولر ریلوے” کے ایک اسٹیشن سے سوار ہوتے۔ ٹرین سارے شہر کے گرد مکمل دائرے میں سیر کرواتی شام کو ہمیں اُسی اسٹیشن پر اُتار دیتی جہاں سے ہم سب سوار ہوئے ہوتے۔
اگلے روز جب میں ثاقب سے اِس بات کا ذکر کرتا تو وہ بڑی حسرت سے پہلے ابو کے ساتھ جانے کیا قصہ سُنتا پھر بڑے ہی اُداس لہجے میں کہتا۔ “کاش کبھی میرے ابو بھی مجھے اپنے ساتھ یوں ہی سیر سپاٹے کروائیں۔” کچھ دیر وہ گم سم سا بیٹھا رہتا پھر دھیرے سے کہتا۔ “یار مُنیب کاش کہ میرے ابا تمھارے ابا جیسے ہو جائیں۔ ۔ ۔ ۔!!!
اِگلے کئی روز تک میں مُسلسل اُسی کیفیت میں غلطاں و پیچاں رہا۔ مجھے کسی طور سمجھ نہ آتا تھا کہ کیا واقعی ثاقب نے یہ سب کچھ کہا ہوگا ماموں میاں سے۔ ۔ ۔ ۔؟ کیا وہ بُھول گیا کہ ماموں میاں نے شہزادوں کی مانند اُس کی پرورش کی۔ ۔ ۔ ۔؟ تو کیا ہوا کہ وہ اُسے وقت نہ دے سکے۔ ۔ ۔ ۔؟ اُنھوں نے اُس کی تمام ضروریات تو بہ طریقِ احسن پوری کیں۔ اعلا تعلیم دلوائی اور بیرونِ ملک بھجوایا۔ ۔ ۔ ۔! اُن کی وہ مصروفیات کس لیے تھیں، اُسی کے لیے ہی تو تھیں اور آج وہ کہتا ہے کہ وہ مصروف ہے اور جب فرصت ملی تب ملنے آ جائے گا۔ ۔ ۔ ۔!!!
مجھے ثاقب پر رہ رہ کر غصہ آ رہا تھا۔ جی چاہتا تھا کہ وہ سامنے آ جائے تو اُسے خُوب کھری کھری سُناوں۔
دھیرے دھیرے دن گزرتے رہے۔ ماموں میاں کا گھرانہ تو پہلے ہی بک گیا تھا۔ نئے مالک نے اُس کا نام تبدیل کر کے عصرِخاصر کے مروجہ طور طریق کے مطابق پھڑکتا ہوا انگریزی نام اُس کے ماتھے پر سجا دیا۔
چند برس خاموشی سے بیت گئے۔ میں کبھی کبھی اُن کے گھر چلا جاتا۔ دونوں میاں بیوی کے چہروں پر مجھے دیکھ کر کچھ دیر کے لیے رونق سی آ جاتی۔ ماموں میاں یا تو اپنی میز پر بیٹھے کچھ لکھتے یا کسی کتاب و رسالے کا مطالعہ کرتے نظر آتے۔
ایک روز مقامی اخبار کے ادبی ایڈیشن میں شائع شدہ ایک خبر میری نظر سے گزری۔
ادب، افسانہ و شاعری سے میری ازحد دل چسپی کے سبب اخبارات میں شائع ہونے والے ہفت وار ادبی ایڈیشن کا مطالعہ میرے مشاغل میں سرِفہرست تھا۔ وہ خبر پڑھ کر تو میں حیران ہی رہ گیا۔ خبر کچھ یوں تھی:
ماضی کے نامور افسانہ نگار عاقب حُسین کا افسانوی مجموعہ “گھرانہ” شائع ہو گیا۔
“تین دھائیوں قبل اپنے افسانوں سے شہرت پانے والے نامور افسانہ نگار عاقب حُسین جو کہ نامعلوم وجوہات کے باعث ادبی منظرنامے سے دور ہو گئے تھے ایک بار پھر اپنے افسانوی مجموعے “گھرانہ” کی اشاعت کے ساتھ منظرِعام پر پھر سے نمودار ہو ئے ہیں۔ ہمارے نمائیندے کے مطابق مذکورہ مجموعے میں بیس افسانے اُن کے پرانے دور سے ہیں جب کہ پانچ افسانے گذشتہ دو برسوں کے دوران رقم کیے ہیں۔”
خبر کے ساتھ کتاب اور صاحبِ کتاب کی تصویر بھی شائع ہوئی تھی۔ تصویر میں موجود مصنف کوئی اور نہیں ماموں میاں تھے۔
یہ تو مجھے معلوم تھا کہ ماموں میاں کا اصل نام عاقب حُسین ہے مگر مجھے ہرگز اس بات کا علم نہ تھا کہ وہ اپنے زمانے کے ایک نامور افسانہ بھی رہ چکے ہیں۔
اگلے روز دفتر سے واپسی پر اُردو بازار جا کر ماموں میاں کا افسانوی مجموعہ خریدا اور اُسی رات دیر گئے جاگ کر مجموعہ پڑھ ڈالا۔ ماموں میاں کے افسانے پڑھ کر تو میں حیران ہی رہ گیا۔ میرے وہم گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ ماموں میاں جنھیں تمام عمر کریانہ فروشی کرتے دیکھا وہ اِس طرح کے گہرے افسانے بھی تخلیق کر سکتے ہوں گے۔
دو چار روز بعد میں افسانوی مجموعہ لے کر ماموں میاں کے یہاں جا پہنچا۔ میرے ہاتھوں میں اپنی کتاب دیکھ کر اُن کی آنکھوں میں ایک چمک سی لہرائی۔ اُن کے دریافت کرنے پر میں نے اُن کو بتایا کہ مجھے اُن کے افسانے بے حد پسند آئے۔ میری بات سُن کر اُن کے چہرے پر ایک رونق سی آ گئی۔
“آپ نے افسانے لکھنا کیوں چھوڑ دیا تھا؟” میرے اس سوال کے جواب میں وہ کچھ دیر تک خلا میں گھورتے رہے اور پھر اُسی طرح سے خلا میں گھورتے ہوئے بولے۔
“گھرانے کے لیے افسانے سے منہ موڑا اور گھرانے نے مجھ سے منہ موڑ لیا۔ ۔ ۔!!!”
پھر چند سال اور بیت گئے۔
میں اپنی گھریلو و منصبی مصروفیات میں اس قدر مگن ہو گیا کہ ماموں میاں سے ملنے کے لیے بھی نہ جا سکا۔
پھر ۲۰۱۹ کے اوائل میں کرونا کی لہر نے جہاں ساری دُنیا کو ویران کیا وہیں ہمارا شہر بھی تالہ بندی کا شکار ہوا اور سب اپنے گھروں کے ہو کر رہ گئے۔
وبا کے شدت والے دنوں میں یکے بعد دیگرے دل دہلانے والی خبریں سُننے کو مل رہیں تھی۔ ایک روز خبر ملی کہ ماموں میاں اور اُن کی بیگم کرونا میں مبتلا ہو گئے اور پھر دونوں چند ہی دنوں کے وقفے سے کرونا کے ساتھ جاری زندگی اور موت کی جنگ ہار گئے۔
دونوں میاں بیوی کو چند رضا کاران کی مدد سے پلاسٹک میں لپیٹ کر محلے کے قبرستان میں خاموشی کے ساتھ سپرِد خاک کر دیا گیا۔
اگلے برس جب وبا کا زور کچھ کم ہوا، کرونا کے خلاف مدافعتی ٹیکے عام ہوئے اور دُنیا بھر میں تالہ بندی کا سلسلہ دم توڑنے لگا تو ثاقب بیرونِ ملک سے آیا اور ماموں میاں کا مکان فروخت کر کے بنک میں موجود جمع پونجی لے کر واپس چلا گیا۔
میں جب جب محلے کے قبرستان ابو مرحوم کے لیے فاتحہ خوانی کرنے جاتا ہوں تو ابو کی قبر سے چار قطار آگے پانچویں اور چھٹی قبریں ماموں میاں اور اُن کی بیگم کی ہیں، پر بھی فاتحہ خوانی ضرور کرتا ہوں۔
دونوں میاں بیوی کی قبروں پر لگے کتبوں پر دیگر تفاصیل کے ساتھ درج ایک لفظ پڑھنے والے کو چونکنے پر مجبور اور حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ ماموں میاں کا اصل گھرانہ تھا کون سا۔ ۔ ۔؟
گھرانہ جنرل و پرویژن اسٹور۔ ۔ ۔ ۔!
یا اُن کا اپنا گھرانہ۔ ۔ ۔ ۔!
یا افسانوی مجموعہ “گھرانہ”۔ ۔ ۔ ۔ ۔!
یا پھر اُن کی اور اُن کی بیگم کی آخری آرام گاہیں جن پر نصب کتبوں پر جلی حروف میں “گھرانہ” درج ہے ۔

Published inامین صدرالدین بھایانیعالمی افسانہ فورم

Comments are closed.