عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر ۔62
ابصار فاطمہ جعفری
لچھی کی کرسی
“لچھی” اس نے دونوں ہاتھ پلنگ کے کناروں پہ جما کے گھٹنا اوپر رکھا ہی تھا کہ پیچھے سے ایک دم اماں کی آواز نے اسے وہیں روک دیا. یہ بالکل پہلی یاد تھی جو اس کے دماغ میں پتھر پہ کھدی تحریر کی طرح پختہ اور واضح تھی. اس سے پہلے کبھی اسے پلنگ پہ بیٹھنے سے منع کیا گیا ہو یا بیٹھنے دیا گیا ہو اسے بالکل یاد نہیں. تب اس کی عمر شاید تین یا اس سے کچھ زیادہ رہی ہو گی. زمین سے اوپر کہیں بیٹھنا یاد تھا تو وہ ماں یا دادی کی گود تھی. پھر یہ اعزاز بھی چھن گیا جب وہ کچھ بڑی ہوئی اور ماں کی گود میں اس سے چھوٹا بھائی آگیا. کہنے کو وہ اکلوتی بیٹی تھی مگر اسے کبھی پتا نہیں چلا کہ اکلوتا ہونا کوئی اعزاز ہے. باپ جو دونوں بیٹوں کو ہمیشہ پلنگ پہ ساتھ بٹھاتا تھا اسے اپنے ساتھ بٹھانا تو دور کی بات نام لے کر بلانا تک گوارا نہیں کرتا تھا. باپ کو شاید یاد بھی نا ہو کہ اس کا نام لکشمی دیوی ہے اور سب اسے لچھی بلاتے ہیں. مزدوری سے واپس آتے ہی وہ سب سے پہلے اسے دیکھ کر حکم دیتا
“اے چھوکری! پانی پلا اورماں کو کہہ کھانا لاکر دے.” پورے دن میں شاید یہ واحد موقع ہوتا تھا جب وہ لچھی کو براہ راست مخاطب کرتا تھا. لچھی یا باقی لڑکیوں کے لیے یہ عجیب بات تھی بھی نہیں، کیوں کہ گاؤں کےچند ایک مردوں کو چھوڑ کے سب کا رویہ گھر کی عورتوں سے یہی تھا.
اس نے کبھی کسی جوان عورت کو زمین سے اونچی جگہ بیٹھے نہیں دیکھا تھا. ہاں البتہ اس کی دادی اور اس کے عمر کی دوسری بوڑھی عورتیں پلنگ پہ بیٹھ جاتی تھیں مگر وہ بھی ایسی عورتیں جن سے بڑا مرد گھر میں نا ہو. اس کی دادی کی ساس یعنی اس کی پر دادی بھی زندہ تھی اور جب پر دادی اور دادی ایک جگہ ہوتے تو دادی چہرے پہ گھونگٹ ڈالے پر دادی کے پیروں کے پاس زمین پہ ہی بیٹھتی تھی. وہاں سب عورتیں اپنی ساس اور جیٹھانی سے چہرہ چھپاتی تھیں. یہ اسی طرح روز مرہ کی بات تھی جیسے زمین پہ بیٹھنا. لچھی کو باقی کسی بات سے کوئی مطلب نہیں تھا شاید اس لیے کیوں کہ ابھی تک وہ پابندی اس پہ نہیں لگی تھی. ابھی تو وہ بغیر دوپٹے بھی سارے گاؤں میں گھوم لیتی تھی. مگر یہ زمین سے پلنگ کا فاصلہ اسے ہمیشہ کھٹکتا تھا. کبھی کبھی وہ کھیل چھوڑ کے بہت دیر تک کھڑی خالی پلنگ کو تکتی رہتی تھی. اسے غصہ آتا کہ بھگوان اس کی ٹانگوں کے بیچ بھی وہی کچھ دے دیتا جو اس کے بھائیوں کے پاس تھا تو یہ ذرا سی اونچائی اتنی ناقابلِ تسخیر نہ ہوتی. روز شام ڈھلتے ہی بر آمدے کے کونے میں رکھے، مٹی کے چھوٹے سے مندر میں پھولوں کے ڈھیر کے نیچے دبے کپڑے کے ننھے سے “بھگوان” کے سامنے دیا جلاتی تو یہ شکوہ بھی کرتی. تھوڑی بڑی ہوئی تو اپنی اور بھگوان جی کی قسمت ایک جیسی لگنے لگی اسے زمین پہ دھرے بھگوان سے زیادہ، دروازے پہ سب کے سروں سے اوپر ٹنگے پلاسٹک کے ہنومان جی پسند تھے جو دونوں ہاتھ ہوا میں پھیلائے، ایک دھاگے سے بندھے، یوں ڈولتے رہتے جیسے بلندیوں کی طرف اڑے جارہے ہوں.
شام سات بجے وہ جہاں بھی ہوتی ٹی وی کے سامنے پہنچ جاتی جہاں ہنومان جی کے کارٹون آتے تھے. ویسے تو سارا دن گھر میں بھارتی چینل چلتے تھے. لیکن جب ابا گھر پہ ہوتا تو کوئی سندھی خبروں والا چینل لگا رہتا تھا. بس یہی سات سے آٹھ تک کا وقت بچوں کے لیے تھا. وہ بہت غور سے کارٹون دیکھتی تھی تاکہ سیکھ سکے کہ ہنومان جی اڑتے کیسے ہیں جتنا اسے سمجھ آیا اس حساب سے تو وہ کیوں کہ سب کی مدد کرتے تھے اس لیے اڑتے تھے. یہی کوشش وہ بھی کرتی اسے اڑنا نہیں تھا بس زمین سے پلنگ تک پہنچنا تھا. ابا اور بھائیوں کے برابر. یونہی ایک دن کارٹون کے بیچ میں اشتہار آنے لگے شاید کسی ٹوتھ پیسٹ کا اشتہار تھا جس میں بہت سے بچے اجلے کپڑے پہنے کلاس روم کی کرسیوں پہ بیٹھے تھے. یہ اشتہار وہ کئی بار دیکھ چکی تھی مگر پتا نہیں کیوں یہ خیال پہلے نہیں آیا تھا. کارٹون ختم ہوتے ہی وہ ماں کے پاس پہنچ گئی کہ اسے اسکول میں داخل کروایا جائے. اس کے دماغ میں مسلسل وہ صاف ستھری کرسیاں گھوم رہی تھیں جہاں سب لڑکے لڑکیاں ایک جتنی بلندی پہ بیٹھے تھے. اماں ابا کو اس کے اسکول جانے نا جانے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا تھا مگر ابا اس کے لیے وقت نکال کے اسکول جانے پہ تیار بھی نہیں تھا. اور اماں کو تو گھر سے نکلنے کی اجازت ہی نہیں تھی. اس نے روز ضد کر کر کے اماں کو عاجز کر دیا آخر کار اماں نے چاچا تیرتھ مل کے ساتھ داخلے کے لیے بھیج دیا. چاچا کی اپنی تین بیٹیاں اسکول جاتی تھیں اور چوتھی جو ابھی چلنا بھی شروع نہیں ہوئی تھی ہر جگہ چاچا کی گود میں نظر آتی تھی. اس دن بھی چاچا گود میں جانکی کو اٹھائے اور لچھی کا ہاتھ پکڑے، داخلے کے لیے اسکول پہنچ گئے. چاچا تو پرنسپل آفس چلے گئے وہ دھیرے دھیرے چلتی اسکول کے واحد کمرے کی کھڑکی پہ پہنچ گئی. کہنے کو یہ پرائمری اسکول تھا مگر یہ واحد کمرہ پہلی سے پانچویں تک کے بچوں کو سموئے تھا. اس نے کھڑکی کی گرل پکڑ کے پنجے اونچے کیے اور سر بھی گرل سے ٹکا دیا تاکہ اندر جھانک سکے. کمرے کی دیواروں کے ساتھ چار پانچ سیدھی سیدھی بینچیں رکھی تھیں جس پہ لڑکے بیٹھے تھے اور نیچے فرش پہ لڑکیاں بیٹھی تھیں. اس نے بے جان ہوتے ہاتھوں سے گرل چھوڑ دی.
اگلے دن وہ اسکول جانے کو تیار ہوئی تو اماں نے پہلی بار اپنے پرانے دوپٹے کو آدھا کرکے اسے چھوٹا سا دوپٹہ اوڑھا دیا جس کی موتیوں والی کناری اس کے ماتھے پہ ٹکی تھی اور کمر پہ بنا سِلی کناری سے نکلے دو تین دھاگے چپکے تھے، تھوڑی دیر بعد ایک پلاسٹک کے شاپر میں ایک کاپی، پینسل اور شاپنر ڈالے وہ بھی انہی لڑکیوں کے ساتھ فرش پہ بیٹھی تھی. شاید اسے ساتھ بیٹھنا ہی کہا جاتا ہو. پچھلی دیوار کے ساتھ سیلن زدہ نیم تاریک سے کونے میں چاچا تیرتھ کی تینوں بیٹیاں سری، کِیرتی اور پونم، ان کے ہی محلے کی ایک اور لڑکی ریوتھی اور لچھی بیٹھتی تھیں. پھر ایک صف کا فاصلہ چھوڑ کے آگے باقی ساری لڑکیاں. سر کا کہنا تھا کہ کچھ بچیاں چھٹی پہ ہیں ان کی جگہ چھوڑنی ہوتی ہے، اگر وہ آجائیں تو…….!
ویسے تو باقی کمرہ کافی روشن تھا، دونوں طرف کھڑکیاں تھیں مگر لچھی کے پاس والی کھڑکیاں پتا نہیں کب سے پھول کے چوکھٹے میں پھنس گئی تھیں. جس دیوار سے وہ ٹیک لگا کے بیٹھتی تھی اس کے بالکل بیچ میں ایک پرانا سا بلب ہولڈر بھی تھا جس میں ایک ٹوٹا ہوا بلب آدھا لٹک رہا تھا مگر اسے روشن ہونے کے لیے بھی بجلی کی ضرورت تھی جو اس نے کبھی اسکول میں نہیں دیکھی تھی شاید اسی لیے اس ادھ ٹوٹے بلب کو بدلنے کی زحمت نہیں کی گئی تھی.
کسی دن بادل ہوتے تو لچھی کو کاپی کی لکیریں ناچتی ہوئی لگتی تھیں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے بھی دیکھتی تو بھی لکیر کہیں جاتی اور اس کی پینسل کہیں اور.
اسکول شروع ہوتے ہی وہ روز سب کے ساتھ اپنی پوری آواز کے ساتھ چیخ چیخ کے کلمہ پڑھتی اور پھر یاد کرتی
ہم سب مسلمان ہیں ہم سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اس نے زمین سورج چاند ستارے پیدا کیے اس نے ہی تمام انسانوں کو پیدا کیا ہے. اللہ تعالیٰ نے سب انسانوں کو برابر پیدا کیا ہے.
اس کا کئی بار دل چاہا کہ “سر” سے پوچھے کہ انسان کا مطلب سارے لڑکے یا ساری لڑکیاں؟ مگر “سر” کے پاس رکھا ڈنڈا اسے چپ رہنے پہ مجبور کردیتا تھا. پورا دن سر کم بولتے تھے یہ ڈنڈا زیادہ بولتا تھا.
اس ڈنڈے کے یاد کروائے ہوئے سبق ہر بچے کے جسم سے زیادہ روح کو یاد تھے.
آہستہ آہستہ جب اسے پکا یقین ہوگیا کہ یہ اونچائی ناقابلِ تسخیر ہے تب ہی ایک دن کلاس میں دو نئی کرسیاں آگئیں پتا چلا آج سے وڈیرا سائیں کی بیٹی اور بھتیجی اسکول آئیں گی بیبی سکینہ اور بیبی حاجرہ، مگر مکمل نام صرف حاضری رجسٹر میں لکھنے کے لیے تھے ورنہ سر سے لیکر چپڑاسی تک ہر کوئی انہیں صرف بیبی کہتا تھا.
ان کی دمکتی رنگت، سیاہ، سلیقے سے بندھے، چھوٹے سے اسکارف میں اور نمایاں ہو جاتی تھی، ان بچیوں کے ساتھ ان کے بستے پکڑے ان سے ذرا بڑا ایک لڑکا بھی ہوتا تھا. جو سارا دن ان کے پیروں کے پاس بیٹھا رہتا تھا اسکول کے زیادہ تر بچوں نے ٹی وی کے علاوہ پہلی بار باقاعدہ بستے دیکھے تھے جب جب کوئی بستہ کھلتا تھا آگے والی بینچ پہ بیٹھے لڑکے اور نیچے بیٹھی لڑکیاں بستے کی تاریک جیبوں میں یوں جھانکتے جیسے اندر کوئی الگ دنیا آباد ہو. اس شوق میں روز آگے بیٹھنے پہ جھگڑا ہوتا. سدا کے نالائق لڑکے لڑکیاں جو اسکول ہی مشکل سے آتے تھے اب سب سے پہلے موجود ہونے کی کوشش کرتے تھے. ان بستوں میں سے جو کچھ برآمد ہوتا تھا وہ بھی زیادہ تر بچوں کے لیے عجوبہ ہی تھا. صاف ستھری جلد والی کتابیں، پھول والے ڈیزائن کی کاپیاں، سادی اور رنگین پینسلیں، جانوروں اور پھلوں کے شکلوں والی رنگ برنگی ربڑیں، ٹافیاں، بسکٹ، جوس…. جو بچیوں کے ایک اشارے پہ وہ قدموں میں بیٹھا لڑکا نکال نکال کے دیتا رہتا تھا. بچیاں شاید چھ سال کی تھیں اور لڑکا دیکھنے میں آٹھ یا نو سال کا لگتا تھا. لچھی خود سات سال کی تھی اور وہ لڑکا اسے اپنے بڑے بھائی جتنا لگتا تھا.
لچھی بھی پہلی میں تھی اور وہ دونوں بھی. لچھی بغیر کسی شک و شبہ کے پہلی کی سب سے ہوشیار طالبہ تھی مگر نتیجہ نکلا تو پہلی پوزیشن پہ وڈیرہ سائیں کی بیٹی سکینہ تھی دوسری پہ وڈیرہ سائیں کی بھتیجی ہاجرہ اور تیسری پوزیشن پہ لچھی. رپورٹ کارڈ لیتے ہوئے لچھی کی آنکھوں کے سوال اتنے واضح تھے کہ شاید سر نے اور ہیڈ ماسٹر نے بھی پڑھ لیے. ہیڈ ماسٹر نے نرمی سے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا
“اگلی بار اور محنت کرنا”
نیا سال شروع ہوا تو لچھی کو نیا دوپٹہ بھی ملا جو اماں کے دوپٹہ سے چھوٹا تھا مگر چاروں طرف موتیوں کی چھوٹی چھوٹی لڑیاں لٹکی تھیں. اس بار اماں نے امتحانوں کے دوران ہی اس کے لیے دوپٹہ بنانا شروع کردیا تھا.
سکینہ اور ہاجرہ کے اسکارف کی جگہ بھی اب ذرا بڑے سیاہ چادر نما دوپٹے نے لے لی تھی.
اس کمرے میں اور بہت سی لڑکیاں تھیں مگر لچھی کو لگتا تھا اس کا مقابلہ بس ان دونوں بیبیوں سے ہے. یا شاید ان کی کرسیوں سے. اسی سال چاچا تیرتھ کی بڑی بیٹی سِری اسکول سے واپسی میں غائب ہوگئی حالانکہ یہ چاروں ایک ساتھ ہی واپس آتی تھیں مگر پھر بھی پتا نہیں کس موڑ پہ وہ گم ہوئی ان میں سے کسی کو اندازہ نہیں ہوسکا. چاچا اس دن پاگلوں کی طرح ہر جگہ بیٹی کو ڈھونڈتا پھر رہا تھا. اگلے دن تھانے گیا تو منشی نے دھتکار دیا. ان کی برداری کے ہر گھر میں عجیب آسیب زدہ ویرانی چھائی ہوئی تھی. اماں نے کئی دن اسے اسکول ہی نہیں جانے دیا. خبروں والے روز چیخ چیخ کے بتاتے کہ ” بارہ سالہ سری دیوی” نے اپنی مرضی سے پسند کی شادی کرنے کے لیے اسلام قبول کرلیا ہے. محلے کے جس گھر میں بھی ٹی وی تھا اس گھر سے سری سے متعلق کسی نا کسی خبر یا بحث کی آوازیں آرہی ہوتی تھیں. ہر چینل پہ دو تین لوگ بیٹھے کچھ موجودہ حکومت پہ اعتراض کر رہے ہوتے تھے تو کچھ ہندو برادری کے “اندرونی” مسائل کو ذمہ دار ٹہراتے تھے.
گاؤں میں جہاں دو لوگ جمع ہوتے یہی موضوع زیرِ بحث ہوتا تھا.
چاچا تیرتھ پولیس سے مایوس ہوکر وڈیرہ سائیں کے دروازے پہ پہنچ گیا. جرگہ بلایا گیا سارے گوٹھ والے جمع ہوئے لچھی کے محلے کی پانچ بوڑھی عورتیں بھی گئیں لچھی بھی دادی کے پیچھے پیچھے جرگے میں پہنچ گئی. یہ کہنے کو جرگہ تھا مگر سب پیر سائیں کے حکم کے پابند تھے. لچھی نے زندگی میں پہلی بار پیر سائیں کو دیکھا تھا. ان کے آکر بیٹھتے ہی گاؤں کے سید مردوں نے بڑھ کے ان کے ہاتھ چومے. باقی تمام گاؤں کے مردوں نے قدم چومے آخر میں ہندو برادری کی باری آئی جنہیں قدم چھونے کی اجازت نہیں تھی وہ سب مرد، پیر سائیں کے قدموں سے ذرا پرے زمین چوم چوم کے اپنی جگہوں پہ آکر بیٹھ گئے. پیر سائیں کے اشارے پہ ان کے بغل میں کھڑے ایک شخص نے تیرتھ کا مسئلہ بتانا شروع ہی کیا تھا کہ پیر سائیں نے ہاتھ اٹھا کر خاموش کرادیا.
“بابا! تم لوگ اچھی طرح جانتے ہو تمہاری لڑکیاں کیا گل کھلا رہی ہیں. جب تک لڑکی گھر میں تھی تب نظر نہیں رکھی اب ہاتھوں سے نکل گئی تو روتے پھر رہے ہو. ویسے بھی قاعدہ یہ تھا کہ پہلے صبغت شاہ کے پاس مسئلہ لے کر آنا چاہیے تھا.” پیر سائیں نے وڈیرہ سائیں کی طرف اشارہ کیا.
” اب جب تم نے تھانے کے منشی کو اپنا سائیں مان لیا ہے تو ہم سے کیا شکوہ؟ ویسے بھی تمہاری اپنی برادری میں گئی ہوتی تو ہم سنگ چٹی دلوا سکتے تھے. اب وہ مسلمان ہوگئی ہے ہماری پناہ میں ہے معاملہ ختم.” پیر سائیں فیصلہ سناتے ہی اٹھ کر گاڑی میں بیٹھ گئے. سارا میدان آہستہ آہستہ خالی ہوتا چلا گیا. چاچا تیرتھ وہیں کا وہیں کھڑا رہ گیا. میدان سے نکلتے ہوئے لچھی نے آہستگی سے دادی سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا. دادی بے دھیانی میں آگے بڑھ گئی لچھی وہیں ایک ٹوٹی دیوار کے پیچھے چھپ کے چاچا تیرتھ کو دیکھ رہی تھی. چاچا کچھ دیر گم سم اپنی جگہ پہ کھڑا رہا پھر پیر سائیں کی کرسی کے بازو پہ ہاتھ رکھ کر نیچے بیٹھتا چلا گیا. اس کا ہلکے ہلکے جھٹکے لیتا بدن دیکھ کر لچھی کا دل بھی بھاری ہوگیا.
آخر دو ہفتے بعد اماں کے منع کرنے پہ بھی لچھی اسکول جانے کے لیے نکل گئی.
چاچا تیرتھ کئی مہینوں تک روز شہر کے پریس کلب کے سامنے جا کر احتجاج کرتا رہا پتا نہیں چاچا کی محنت کا ثمر تھا یا آتے ہوئے الیکشنز کا دباؤ پتا چلا علاقے کے وڈیرے نے چاچا تیرتھ کا مسئلہ حل کرنے کے لیے پولیس پہ دباؤ بڑھا دیا تھا. سری واپس تو نہیں آئی مگر اس کا بیان خبر والے چینلوں پہ چلنے لگا.
” میں سری دیوی ولد تیرتھ مل نے اپنی مرضی سے اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا ہے اور اللہ وسایا ولد دھنی بخش سے شرعی نکاح کیا ہے. اب مجھے رحمت بی بی بلایا جائے.”
کرسی پہ بیٹھی سری کا سپاٹ چہرہ اور رک رک کے دیا بیان کچھ اور داستان سنا رہا تھا مگر تیرتھ کو چپ کروانا بھی ضروری تھا شاید. لچھی کو بیان تو کیا سمجھ آتا بس سری کا سپاٹ چہرہ اور کرسی یاد رہ گئی.
اس کے بعد تیرتھ چپ تو ہوگیا لیکن کیرتی اور پونم دوبارہ اسکول نہیں گئیں. اماں نے لچھی کو بھی اسکول سے اٹھانا چاہا مگر چاچا تیرتھ نے ایسا نہیں کرنے دیا. بلکہ روز لچھی اور ریوتھی کو اسکول لے جانے کی ذمہ داری اٹھالی. اسکول کے گیٹ پہ دونوں کو چھوڑ کے چاچا ان کے کمرے میں جانے تک گیٹ کی چوکھٹ پکڑے انہیں دیکھتا رہتا تھا. ایک دو دفعہ ایسا ہوا کہ لچھی نے مڑ کے چاچا کو دیکھا مگر پھر اسے ان آنکھوں سے ڈر لگنے لگا جن میں خوف، حسرت، بے بسی نمی بن کے چھلکنے پہ آمادہ ہوتی.
ایک سال، اور گزرا، ریوتھی بھی پانچویں کرکے چلی گئی لچھی تیسری میں آگئی نتیجہ اس سال بھی وہی تھا.
ہاں اس سال ہاجرہ اور سکینہ کی چادروں میں نقاب کا اضافہ بھی ہوگیا. ہفتے میں ایک بار آنے والی بیبیاں اب مہینے دو مہینے بعد ایک آدھ بار نظر آتی تھیں.
یہ سال بغیر کسی ہلچل کے ختم ہوگیا لچھی اس دفعہ نتیجے والے دن اسکول گئی ہی نہیں. چوتھی کی کلاسیں شروع ہوئیں تو پتا چلا کہ دونوں بیبیاں اب شہر کے اسکول میں پڑھیں گی. کمرے سے وہ دونوں کرسیاں ہٹا دی گئیں. اگلے دو سال لچھی اول آئی مگر وہ پھر بھی نتیجہ لینے نہیں گئی اسے اپنی رپورٹ کارڈ سے گھن آتی تھی ایسا لگتا تھا جیسا اول پوزیشن سکینہ کے تھوک سے لکھی ہو.
اس سے زیادہ تعلیم دینے کی اس اسکول کی اوقات نہیں تھی.
پانچویں سے فارغ ہوکے لچھی نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے محلے کے سب بچوں کو صبح صبح مندر میں جمع کرلیتی تھی. ایک طرف چار اینٹیں ملا کر اپنے بیٹھنے کی جگہ بنا لی تھی. یہاں بھگوان جی ذرا اونچے طاق میں رکھے تھے اس لیے کسی کو اس کے اینٹوں پہ بیٹھنے پہ اعتراض نہیں ہوا. اور ویسے بھی “مس” تو بچوں سے اوپر ہی بیٹھتی ہے. ایک طرف وہ کرسی پہ بیٹھنے کے شوق میں سارے محلے کے بچوں کو پڑھانے میں لگ گئی.
گوٹھ کے حالات مزید بگڑ رہے تھے پچھلے کچھ عرصے میں ان کے محلے کی کئی لڑکیاں گم ہوئیں کچھ کو گھروں میں گھس کے اٹھا لیا گیا اور بعد میں پتا چلا کہ انہوں نے اسلام قبول کرکے شادی کرلی تھی مگر ان میں سے ایک دو ہی سولہ سال یا اس سے کچھ بڑی ہوں گی. وہ بیان جو پہلے لچھی کو سمجھ نہیں آتے تھے اب بہت اچھی طرح سمجھ آنے لگے تھے. اسے نہیں پتا کہ ان لڑکیوں نے مذہب کیوں بدلا مگر اتنا اسے پتا تھا کہ ان کے دلوں میں اب بھی بھگوان جی ہی ہوں گے. کبھی کبھی وہ سوچتی کہ اگر اسے کرسی اور بھگوان جی میں سے کسی کو چننا پڑے تو وہ کیا کرے گی. وہ اندر تک لرز جاتی تھی اسے اب تک جو دیا بھگوان جی نے ہی تو دیا تھا وہ انہیں کیسے چھوڑ سکتی تھی. اسے یہ اپنی ذہانت کے لیے چلینج لگتا تھا کہ کرسی بھی مل جائے اور بھگوان جی بھی نہ چھوڑنے پڑیں. اور اسے اپنی ذہانت پہ پورا اعتبار تھا.
انہی دنوں اس نے سنا کہ صوبائی حکومت کی طرف سے بچپن کی شادیوں پہ پابندی لگا دی گئی ہے اور کرنے اور کروانے والے کو پولیس پکڑ کے لے جائے گی. اسے کچھ اطمینان ہوا اور افسوس بھی کاش یہ قانون پہلے پاس ہوا ہوتا. چاچا تیرتھ کے تکیے کے نیچے اب بھی وہ اخباری تراشے رکھے تھے جس میں سری کے اغوا اور مذہب بدلنے کی خبریں چھپی تھیں. بلوغت کی سرخی چھائی تو ہر مہینے کے ایک ہفتے اسے باورچی خانے سے دور کردیا جاتا. وہ جو سمجھ رہی تھی کہ اب وہ یہ بلندی کسی نہ کسی طرح پالے گی اسے لگنے لگا کہ اسے کسی نے زمین سے بھی نیچے کسی پاتال میں پٹخ دیا ہے.
گرمیوں کی حبس زدہ رات تھی کئی مہینوں سے اردگرد کے، کسی ہندو برادری کے علاقے سے کسی اغوا اور شادی کی خبر نہیں آئی تھی. ایسا لگتا تھا حکومت نے سب کنٹرول کر لیا ہے. لچھی بہت دیر سے سونے کی کوشش کر رہی تھی مگر گرمی سے عجیب سی گھبراہٹ ہورہی تھی. حلق بالکل خشک ہورہا تھا. کمر پہ آتے پسینے سے ایسا لگ رہا تھا جیسے باریک باریک چونٹیاں کمر پہ رینگ رہی ہیں. لچھی کچھ دیر پیاس برداشت کرنے کی کوشش کرتی رہی پھر آخر کار کمرے سے نکل آئی. باہر چاند کی ہلکی ہلکی روشنی پھیلی تھی. درخت اتنے ساکت تھے جیسے دم سادھے کچھ ہونے کا انتظار کر رہے ہیں. لچھی نے درخت کے نیچے رکھے گھڑے پہ سے اسٹیل کا گلاس اٹھایا. گلاس آہستہ سے، گھڑے سے ٹکرایا اور ٹھن کی آواز سے ایک دم لچھی کے ہاتھ کانپ گئے. پانی پیتے پیتے اسے مثانہ بھاری محسوس ہونے لگا. وہ کمرے کی پچھلی طرف بڑھ گئی اسے اپنے ایک ایک قدم کی آواز چاروں طرف گونجتی ہوئی محسوس ہورہی تھی پیچھے جھاڑیوں سے بنی چھوٹی سی جگہ پہنچ کے اس نے قمیض ٹھوڑی کے نیچے دبائی اور کمر بند دونوں ہاتھوں سے تھام لیا.
ایک دم اس کے منہ پہ کسی کا ہاتھ سختی سے جم گیا اور دوسرا ہاتھ اس کے پیٹ کے گرد. وہ جو بھی تھا اسے گھسیٹتا ہوا پتا نہیں کہاں لے جانے کی کوشش کر رہا تھا. وہ مچلنے کی کوشش کر رہی تھی مگر نہ چیخ پارہی تھی نا خود کو چھڑا پارہی تھی.
اس کا بدترین خوف حقیقت بن گیا تھا. اسے اتنا تو اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ کسی گاؤں کا ہی چھوٹا سا کمرہ ہے مگر کس گاؤں کا یہ اندازہ نہیں ہورہا تھا. دن میں ایک عورت کھانا دے جاتی تھی. رات گہری ہوتے ہی وہی عورت آکر اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کے آنکھوں پہ بھی پٹی باندھ دیتی تھی. پھر عطر کی اتنی شدید خوشبو پھیلتی کہ اس کا سر درد سے پھٹنے لگتا تھا کوئی اسے چھوتا تھا تار تار کرتا تھا اور صبح ہونے سے کچھ پہلے نہ وہ خوشبو رہتی نہ چھونے والا. تقریباً ایک ہفتے بعد وڈیرہ سائیں کا خاص آدمی ایک مولوی اور ایک اور لڑکے کے ساتھ آیا.
وہی ہوا جو لچھی نہیں چاہتی تھی اس سے نکاح نامے پہ بھی دستخط کروائے گئے اور مذہب کی تبدیلی کے اقرار نامے پہ بھی.
لچھی کو پتا تھا کہ سب معلوم ہونے کے باوجود پولیس کو کبھی مجرم نہیں مل پائیں گے.
لچھی کو وہ پرچہ بھی دیا جسے پڑھ کے اسے وڈیو رکارڈ کروانی تھی. لچھی نے ایک بار غور سے پرچہ پڑھا پھر وڈیرہ سائیں کے آدمی کو واپس پکڑا دیا.
“میں یہی بیان دوں گی مگر میری شرط ہے. یہ بیان میں میڈیا کے سامنے دوں گی.”
انہیں اندازہ نہیں تھا کہ لچھی اتنی آسانی سے میڈیا کو بیان دینے پہ راضی ہوجائے گی. اسے اگلے ہی دن پریس کلب لے جایا گیا. وہاں وڈیرہ سائیں بھی موجود تھے لچھی کے بیان سے پہلے انہوں نے ایک دھواں دھار قسم کی سیاسی تقریر کی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ موجودہ حکومت اور کچھ دوسرے شر پسند عناصر وڈیرہ سائیں کے علاقے میں مذہب کی تبلیغ میں روڑے اٹکا رہے ہیں اور مذہب دشمن عناصر کی پشت پناہی کر رہے ہیں. اور ان کی سیاسی جماعت تندہی سے مذہب کی خدمت کی کوششوں میں لگی ہے اور اسی کوشش سے آج ایک اور لڑکی اسلام کی طرف آگئی ہے.
ان کی تقریر کے بعد سب کی نظریں مائک اور کیمرے لچھی کی طرف تھے.
لچھی کے نیچے کرسی اور دل میں بھگوان جی تھے اس نے بات شروع کرنے سے پہلے ایک دفعہ آنکھیں بند کرکے دل میں بسے بھگوان جی کو ایک بار دوبارہ یاد کیا.
“میں آپ سب کے سامنے” اس نے کہنا شروع کیا مگر اندازہ ہوا کہ اس کے ہونٹ تو ہلے مگر آواز نہیں نکلی تھی. اس نے گہرا سانس لے کر دوبارہ مزید بلند آواز سے بات شروع کی.
“میں لکشمی دیوی ولد رام چند آپ سب کے سامنے یہ بیان دینا چاہتی ہوں کہ میرا جو نکاح نامہ اور اقرار نامہ دکھایا جارہا ہے وہ جھوٹا ہے اور مجھ سے زبردستی دستخط کروایا گیا ہے. ایک ہفتے تک میری عزت لوٹی جاتی رہی اور پھر نکاح نامے پہ دستخط کروائے گئے.”
روز کی غیر دلچسپ خبر ایک دم” “ایکسکلیوسیو” ہوچکی تھی. لچھی کو فوراً پولیس کی تحویل میں لے لیا گیا اور دارالامان پہنچا دیا گیا. اس کی ہر ہر پیشی پہ میڈیا کا مجمع ہوتا. اسے کسی نے بتایا کہ اس کے کیس کی مکمل پشت پناہی ایک اور سیاسی تنظیم کے کچھ رہنما اور کارکن کر رہے ہیں. اور گھر والوں کی حفاظت بھی کروا رہے ہیں.
آخر کار فیصلہ اس کے حق میں ہوا عدالت نے اس کا نکاح غلط قرار دے دیا. عدالت سے نکل کر دارالامان آنے تک کئی چینل والوں نے اس کے انٹرویو لیے. وہ جب گھر پہنچی تو کئی رپورٹر اس کے گھر میں پہلے سے موجود تھے کوئی ماں کا انٹرویو لے رہا تھا کوئی دادی کا.
کئی دنوں تک اسے مختلف چینلز پہ بلایا جاتا رہا. وہ اپنے نیچے کرسی کی مضبوطی محسوس کرتی تو لہجے میں مزید اعتماد آجاتا تھا.
ایک این جی او نے اس کی تعلیم کی ذمہ داری لے لی. آہستہ آہستہ یہ دھول بھی بیٹھ گئی مندر میں بچوں کو پڑھانے کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا. اس کے انٹر کے امتحانات کے کچھ ہی عرصے بعد ایک دن مندر کے دروازے پہ ایک گاڑی آکر رکی. اسے وڈیرہ سائیں کی مخالف پارٹی نے اس کے علاقے سے الیکشن میں اقلیت کی کونسلر کے طور پہ سیٹ دینے کی بات کی تھی. اس کے حامی بھرنے کی دیر تھی ملک بھر میں وہ مثال بن گئی اس کے الیکشن میں حصہ لینے کا باقاعدہ اعلان نہیں ہوا تھا. مگر ان لوگوں کا کہنا تھا کہ لچھی کے الیکشن میں شامل ہونے کی خبر کو یادگار بنا دیا جائے گا. اسے تقریر فراہم کر دی گئی تھی جو اسے اپنی پریس کانفرنس میں کرنی تھی.
پریس کانفرنس کی سب تیاری ہوچکی تھی مگر مہمانِ خصوصی کا انتظار تھا. لچھی اسٹیج پہ بالکل درمیانی کرسی پہ بیٹھی تھی. اس کے دونوں طرف سیاسی جماعت کے کچھ نمایاں رہنما بیٹھے تھے اس کے بالکل برابر میں مہمانِ خصوصی کی اونچی سی کرسی تھی. جو سب سے نمایاں تھی. اس کی کرسی اس کے قد کے مقابلے میں ذرا اونچی تھی اس نے ذرا آگے کھسک کے پنجے فرش پہ ٹکا لیے.
کافی دیر کے بعد معلوم ہوا کہ مہمانِ خصوصی کو کچھ دیر ہوجائے گی اس لیے لچھی کی تقریر کے علاوہ سب تقاریر کروا لی جائیں. ایک کے بعد ایک تقریر ہوگئی اب بس لچھی رہ گئی تھی.
کچھ دیر سوال جواب بھی کروا لیے گئے آخر کار جب زیادہ دیر ہوگئی تو لچھی کو تقریر کے لیے بلایا گیا. اسٹیج کے نسبتاََ دائیں کنارے کی طرف رکھے ڈائس کی طرف بڑھتے ہوئے لچھی کو اپنا دل کنپٹیوں میں دھڑکتا محسوس ہورہا تھا. ڈائس کے ساتھ ہی اسٹیج پہ براہ راست داخل ہونے کا دروازہ تھا. لچھی نے بات کرنی شروع کی.
” میں لکشمی دیوی ولد رام چند یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس کر رہی ہوں کہ…..”
“لچھی….. ” کسی نے اسے بیچ میں روک دیا. سب کی نظریں ساتھ دروازے سے اندر آتی بھیڑ کی طرف تھیں چند لوگ کسی شخصیت کو گھیرے میں لے کر اندر داخل ہورہے تھے. لچھی کو شکل نظر نہیں آئی صرف ایک تیز عطر کی خوشبو کا احساس ہوا وہ خوشبو جسے وہ کبھی نہیں بھلا سکتی تھی. سامنے کے چند لوگ ہٹے تو پیر سائیں اندر آتے دکھائی دئیے جنہیں مہمانِ خصوصی کی کرسی تک لے جایا گیا.
لچھی کے ہاتھ پسینے سے پسیجنے لگے. ہاتھوں کے نیچے رکھی تقریر کے الفاظ گیلے ہوکر ایک دوسرے میں مدغم ہوگئے اس نے دوبارہ اپنی تقریر شروع کی
میں لکشمی دیوی ولد رام چند یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس کر رہی ہوں کہ میں اپنے برادری کی بھلائی کے لیے اس سال انتخابات میں اقلیت کی نمائندگی کروں گی. میں شکر گزار ہوں جناب میر سائیں کی جنہوں نے مجھے یہ موقع دیا اور حکومتِ پاکستان کی وجہ سے ہمیں ہمشیہ اپنے علاقے میں برابر کے شہری کے حقوق ملے اور تعلیم کی سہولت ملی اب وقت آگیا ہے کہ ہم بھی پاکستانی ہونے کے ناطے ثابت کردیں کہ ہم بھی ہر پاکستانی کی طرح اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں. ”
لچھی کا چہرہ سپاٹ تھااور الفاظ رک رک کے ادا ہورہے تھے.
Be First to Comment