Skip to content

لور بوائے

عالمی افسانہ میلہ 2021″
دوسری نشست”
افسانہ نمبر “28”
“لور بوائے” (ایک سچے واقعہ سے ماخوذ)
افسانہ نگار . سیدانور ظہیر رہبر.(برلن جرمنی.)
ٹائٹل.مریم ثمر

سندائی تم کہاں ہو ، کیوں اپنے کمرے میں بند ہو؟ سندائی، سندائی ۔۔۔۔
سندائی کو کہیں دور سے آواز آرہی تھی۔ یہ اسکا لورز بوائے اس سے سندائی دور بھاگنا چاہتی، تھی، اسکی صورت دیکھنا بھی اب اس کو پسند نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ سندائی ہرروز فیصلہ کرتی کہ آج اُسے یہاں سے بھاگ جانا ہےاورہرروزوہ ڈروخوف سے اپنے فیصلے پرعمل نہیں کرپاتی۔ اُس نے اپنے جسم کو چھوا۔ نرم ونازک خوبصورت جسم، اب کھدرا اورعجیب سا لگنے لگا تھا اُس کو۔ وہ سر سے پیر تک خودکوچھوکردیکھ رہی تھی ۔ سندائی سندائی ۔۔۔۔اُس کی آواز قریب آرہی تھی ۔۔۔۔۔ اسے گھبراہٹ ہورہی تھی وہ سوچ رہی تھی آج وہ پھراُسےلےجائے گا، چھوٹے تنگ کپڑے پہنا کر، رینکین اسڑیٹ پر لے جاکرکھڑا کردے گا تاکہ اس رینکین اسڑیٹ پرآنے والے مرداپنی رات رنگین بنالیں ۔
افف میں کتنی بدقسمت ہوں سندائی خود کو کوس رہی تھی۔ کتنے اچھے دن تھے لیکن میں نے اُن دنوں کو خود اپنی مرضی سے خراب کیا۔ سندائی کوایک ایک پل یاد آرہا تھا ۔۔ یہ سب کچھ یاد نہ آتا اگر سندائی آج اُس علاقے سے نہ گزرتی جہاں ایک اسکول تھا ۔ وہاں سے گزرتے ہوئےاس نے دیکھا کہ وہاں ایک نوجوان اسکول کی لڑکی سگریٹ کے مرغولے میں ایک نوجوان کے کندھے پر سر ٹکائے بول رہی تھی۔
” سنومیرا نہ اسکول میں پڑھنےکا دل بالکل نہیں چاہتا “۔
اوروہ لڑکا اس سے کہہ رہا تھا۔
”چھوڑواسکول جانو، میرےساتھ رہو، زندگی کےمزے لوٹو”۔
سندائی کے کانوں میں یہ جُملے ہتھوڑے کی طرح برس رہے تھے ۔ یہی تو وہ ڈائیلاگ تھے جس نے آج اس کواس جگہ لا کھڑا کیا تھا ۔
” سندائی تم کیا کہہ رہی ہو میرے سوال کا جواب بالکل غلط دے رہی ہو۔ تم کو میں نے بارہا دیکھا ہے تم آج کل کلاس میں بالکل توجہ نہیں دیتی ہو “۔
جغرافیہ کی ٹیچر نے سندائی سے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بولا۔
سندائی بھی کب چُپ رہنے والی تھی اس نے تڑاخ سےجواب دیا،
“ارے میڈیم ! ہر روز تو دنیا میں تبدیلی آرہی ہے، نئے ممالک بن رہے ہیں، نئی سرحدیں بن رہی ہیں، دنیا کے اس ہرگھڑی بدلتےسارے رنگوں کو کب اور کیسے یاد رکھا جائے”۔
“سنو سندائی ایسا نہیں ہے کہ تم بے وقوف ہو یا ذہنی طورپر کمزور ہو۔ تم بہت عقلمند ہو لیکن تم توجہ نہیں دیتی ہو، تمھارا دھیان ہروقت کہیں اورہوتا ہے”۔
سندائی کو جغرافیہ کی ٹیچر یاد آرہی تھی ۔ لیکن اُس وقت تو وہ اپنی دنیا میں مگن تھی ۔ گھر سے اسکول کے لیےنکلتی، آدھا دن اسکول میں گزارتی تو آدھا دن اسکول کے قریبی پارک میں۔ کانوں میں ائیر فون لگائےموسیقی کی دنیا میں مگن اوردل بہلانےکو سگریٹ ہونٹوں سےلگا ہوتا۔ اس کا دل اسکول سےآہستہ آہستہ اُچاٹ ہورہا تھا۔ اسکول سےشکایت گھربھی گئ ۔ لیکن اسکےماں باپ کو اپنی لڑائ سے فرصت ملتی تووہ اسےدیکھتےاورجب ماں باپ کی علیحدگی ہوگئ تو ماں نے اخراجات بڑھ جانےکی وجہ سےکام زیادہ کرنا شروع کردیا تھا ۔ سواسکول سے دوررہنےکےلیے اسےاوروقت مل گیا تھا۔
سندائی ایک دن اپنی دنیا میں مشغول پارک کے بینچ پربیٹھی ہوئ تھی ۔ تب اسےاندوملا۔ وہ ایک بہت ہی ہنس مکھُ لڑکا تھا۔ اس کی اندو سےدوستی روزانہ کی ملاقاتوں سے مضبوط ہونے لگی تھی۔
” سندائی تم کتنی حسین ہو، نرم و نازک سی ہو۔ کہاں اس پارک میں اپنی جوان جسم پراتنی سخت دھوپ لگا رہی ہو۔ میرے پاس آجاؤ میں بھی اکیلا ہوں، دوکمرے کے ایک فلیٹ میں رہتا ہوں میرے پاس آجاؤ”۔
وہ دونوں روزانہ ہی ملتے تھے۔ اندو کا اندازاسے پاگل کردیتا تھا۔ اندو کے لہیجے میں محبت کی خوشبو بسی تھی۔ وہ اسے اچھا لگنے لگا تھا ۔ اچھےسے زیادہ اب تواسے اندو سے محبت ہوگئ تھی۔ ایک دن وہ اس کے بہت قریب آگیا ۔ سانسیں لڑکھڑانےلگی تھیں اور پھرلب لب سے مل گئے، اسکے لبوں میں نشہ تھا جو سندائی کے اندراُتررہا تھا اوروہ اسے مدہوش کررہا تھا ۔
ایک روز اندو نے سندائی سے کہا!
” سندائی! ہم روز یہاں ملتے ہیں گھنٹوں پیارومحبت کرتے ہیں اب تو تم کومجھ پراعتبار ہوجا نا چاہیےاب توتم میرے فلیٹ میں شفٹ ہوسکتی ہو”۔
یوں اندو نے اس سے یہ مشکل مطالبہ دوبارہ کردیا۔ اب سندائی کی بھی یہی خواہش تھی۔
“اندو کچھ اور دن دو مجھے۔ میں موقع ملتے ہی اپنی ماں سےبات کروں گی” ۔
اس نے اندو کو تسلی دے دی لیکن اسکے بعدوہ بہت بے چین رہی۔ اسے بھی اپنے اندو کے ساتھ رہنے کی جلدی تھی ۔
“پاگل تو نہیں ہوگئ ہوسندائی یہ کیا کہہ رہی ہو” ۔
سندائی کی ماں نے جب سنا توغصے سے بولی۔
“ابھی تُم صرف سولہ سال کی ہومیں تم کوکیسے یہ اجازت دے سکتی ہوں اور پھر جب تمھارا باپ سنے گا تو مجھےقتل کردے گا کہ میں نےتمھیں کیسےاجازت دے دی”۔
سندائی کی ماں غصے سے بولی جارہی تھی۔
سندائی کا روز ماں سے جھگڑا ہوتا اور روز وہ اندو کو تسلی دیتی کہ بس ماں تیار ہونے والی ہے۔ لیکن ماں تیار نہیں ہوئ ۔ پھراسے ہی فیصلہ کرنا پڑا کہ وہ گھر سے بھاگ کر اندو کے فلیٹ میں منتقل ہوجائے ۔ اس نے ایسا ہی کیا یہ اسکی زندگی کی سب سے بڑی تبدیلی تھی ۔ ایک سیلاب تھا جواسےگھر سے بہا کراندو کےفلیٹ میں لےگیا تھا۔
ایک مہینےتک اندو کے فلیٹ میں زندگی کے ہرطرح کےمزے اسےمل رہے تھے۔ اسےاندونے اپنےجسم کےمردانہ پن سےحصار میں لے رکھا تھا۔ وہ اسےسھکا رہا تھا کہ کن کن ملک میں کیسےکیسےاندازمیں مرد وعورت ایک ساتھ سوتے ہیں۔ اسےمختلف اندازکا اورناموں کا بھی پتہ تھا۔ لیکن یہ سب اس وقت اس کے لیےکوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا کیوں کہ وہ تو اس کے جسم کے جادو میں بےخود ہوچکی تھی ۔
“سنو ! سندائی ہم ایک ماہ سےساتھ ہیں آج میں تمھیں ایک بہت بڑا سرپرائیز دے رہا ہوں “۔
اندو نے ایک دن اس کے ہاتھ میں دو ہوائ جہاز کے ٹکٹ رکھتےہوئےکہا
“ہم دونوں اگلے ہفتے رومانیہ جارہے ہیں”۔
رومانیہ !!! اس کی خوشی دیدنی تھی ۔
اس نےاندو سے پوچھا
“مگرکیوں؟”۔
” سندائی! رومانیہ جائیں گے رومانس کرئیں گے، گھومیں گے پھرئیں گے انجواۓ کرئیں گے
بے بی”۔
اور چند دنوں بعد وہ اندو کےساتھ رومانیہ پہنچ گئ۔ رومانیہ کیا آیا کہ وہاں رومانس کے بجائےاندو کےمزاج میں تبدیلی آگئ۔ اب وہ اندونہیں تھا جواسے پہلےملا تھا۔ یہ ایک نیاانسان تھا اسکے ساتھ، ایک لورز بوائے، اُس نے سندائی کومارناپیٹنا شروع کردیا۔ تشدد کی انتہا کردی تھی۔ جب وہ باہر جاتا تو دروازے کوباہر سےتالا لگا جاتا ۔ اسےکہیں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ایک دن وہ آیا تو اپنےساتھ کئ مردوں کو لیکرآیا۔ جسےاس نےسندائی سےملایا اورکہا
” سندائی! یہ سخروف ہے اور اسکےساتھی ہیں۔ آج سےتم انکےپاس رہوگی ۔ مجھےتمھاری رقم مل گئ ہے “۔
“کیا”
وہ زورسے چیخی اورچلا کررونےلگی
” تم۔۔۔۔۔۔ اندو تم۔۔۔۔۔۔ ہم تم تو ایک دوسرےسے پیار کیاکرتےتھے، تم نےمجھے بیچ ڈالا، اپنی محبت کو”
وہ جذباتی اور ہیجانی کیفیت میں چیخ چیخ کررورہی تھی لیکن اندو کے چہرے پرایک بےحسی پھیلی ہوئ تھی ۔
“محبت وحبت کیا ہوتا ہےسندائی یہ تو میں ہردوسرے مہینےکسی نئی اورتمھاری جیسی بھولی بھالی لڑکی سے کرتا ہوں، انکا بھی یہی انجام ہوتا ہے۔ جاوانکےساتھ تم بہت پیسہ کماو گی سب کچھ تو میں نےسکھا ہی دیا ہےباقی یہ لوگ سکھادئیں گے”۔
اوہ اب وہ سمجھی تھی کہ یہ اندواسےبستر پرطرح طرح کے طریقے کیوں سکھاتا تھا۔ ان سب طریقوں کے نام بھی بتاتا تھا۔ کاش وہ اُس وقت سمجھ لیتی ۔ لیکن وہ تواُس وقت اُسکےحصار میں قید تھی۔ قید تو وہ اب بھی ہے۔ اندوسےنکلی توسخروف کےقید میں آگئ تھی ۔
سخروف اسےایک نئی دنیا میں لےگیا جہاں اس کے جیسی کئ کم عمرلڑکیاں تھیں۔ روزانہ شام کو سب لڑکیوں کو تیارکیا جاتا، سجایا جاتا، تنگ باریک اورمختصرکپڑے پہنائےجاتےاورہرایک کو اس کےمخصوص علاقے پہنچا دیاجاتا تھا۔ ہرلڑکی کا ایک لورزبوائے تھا ۔ رینکین اسڑیٹ امیر مردوں کی آمجگاہ تھی۔ سندائی کوبھی وہاں کھڑا کیا گیا۔ وہ نئی تھی، جوان تھی اور بہت خوبصورت بھی۔
بڑی بڑی گاڑیوں میں مردگاہک آتے اورانھیں ایک دلربائ انداز میں گاڑی کےشیشے کے پاس جانا ہوتا ۔ گاہک شیشہ نیچےکرکے پوچھتا
“فرنچ کر لیتی ہو۔ کتنے لوگی؟ ”
کوئ پوچھتا
“بلیک گھوڑی مل جائے گی، کتنے لوگی؟”
ہر طرح کے سیکس کےاندازکی قیمت مختلف تھی۔ لیکن بھاؤ تاؤبھی ہوتا تھا۔ یہ مردچاہتےسب کچھ تھےکہ انکےساتھ کیا جائےلیکن پیسےدیتےوقت اپنی اصلیت ضروردکھاتےتھے ۔
سخروف دور سے ساری چیزوں پر نظر رکھتا تھا اس نے سندائی کوسختی سے ہدایت دے رکھی تھی کہ پیسے میں کوئ کمی نہ کرے۔ سندائی اگر کسی گاہک کی گاڑی میں جاتی تووہ اُس گاڑی کا نمبرنوٹ کرلیتا۔ بعض اوقات تووہ تصویربھی بنالیتا تھا۔ کبھی کسی گاہک کے گھرجانا ہوتا تو پیسے ڈبل ہوجاتے۔ زیادہ تررینکین اسڑیٹ کےنکڑتک ہی جانا ہوتا تھا جہاں سخروف نے ایک فلیٹ کو مدھم روشنی سےآراستہ کرکےصرف اس کام کے لیےمخصوص کررکھا ہوا تھا۔ کبھی کبھی پولیس کی گاڑی آتی توپتہ نہیں سخروف کوکیسےمعلوم ہوجاتاوہ اسےاس دن سڑک پرنہ لاتا۔ وہ کہتا
“ابھی سولہ سال کی ہونا احتیاط ضروری ہےاٹھارہ کی ہوجاؤ گی تو پھرکوئ مسئلہ نہیں ہوگا “۔
یعنی وہ اسے ابھی یہاں کئ سال رکھناچاہتا ہے ۔
” افف میں نے یہ کیا کرلیا”
سندائی ہر روز یہی سوچتی لیکن مجبوری ایسی تھی کہ کہیں بھاگ بھی نہیں سکتی تھی ۔
آج جانے کیوں اُسکا موڈ بالکل نہیں تھا جانےکا، طبعیت بھی بوجہل بوجہل سی تھی اسی لیے آج وہ اپنےکمرےمیں بند تھی۔
سندائی سندائی، سخروف کی آواز بہت قریب آچکی تھی وہ اس کے کمرے کے دروازے پر آکھڑا تھا اور آہستہ آہستہ دروازہ بجا رہا تھا اورسندائی کوآوازدے رہا تھا۔
سندائی کو آج جانے کیا ہوا تھا اسےاپنا گھراوراپنی ماں یاد آرہی تھی ۔ آج وہ بہت روئی تھی اسکے سامنےکوئ راستہ نکل کے نہیں آرہا تھا ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب ایک لڑکی نے بھاگنے کی کوشش کی تھی تواسکاان لوگوں نے کیا حال بنادیا تھا۔ سندائی بھی ڈرگئ تھئ لیکن وہ اس زندگی سے بھی ڈری ہوئی تھی ۔ اسے یہاں آئے تین مہینے تو ہوگئے تھے ۔ لیکن کوئ دن نہ ہوتا جب وہ یہ نہ سوچتی کہ یہاں سے کیسے چھٹکارہ پایا جائے۔
” سندائی سندائی دروازہ کھولو “۔
سخروف دروازہ اب زور زور سے پیٹ رہا تھا۔
سندائی نے مجبورادروازہ کھول دیا ۔
“ارے سندائی کیا ہوا؟”
سخروف بولتا ہوا اپنے مخصوص انداز میں سندائی کو گلے لگانےآگےبڑھا۔ مگروہ پیچھےہٹ گئ۔
“ارے آج کیا ہوگیا ہے؟ دیکھو آج یہ نیا جوڑالایا ہوں جلدی سے تیار ہوکرچلومیرے ساتھ”۔
نئے منی اسکرٹ اورجسم سےچپکے بلاؤزمیں وہ بلا کی سیکسی لگ رہی تھی، سخروف خوشی سے پاگل ہورہا تھا لیکن سندائی کو اپنا آپ آج بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
سندائی کےایک گاہک نےاسےاپنےگھر لےجانے کے لیےمنہ مانگی رقم دینےکی حامی بھری تھی ۔ سندائی اسکی بڑی اورقیمتی گاڑی میں بیٹھ کراس کےگھر جارہی تھی آج اس کےدماغ میں کچھ اور ہی ہلچل تھی۔
اسکاعالیشان فلیٹ پانچویں منزل پرتھا۔ فلیٹ کیا تھا اندرسےکوئ محل تھا۔
اپنے گاہک کی ساری خواہش پوری کرکے سندائی نےاس سے پوچھا۔
“ کھڑکی کھول لوں کمرے میں بہت حبس ہورہا ہے؟”
گاہگ جو ابھی تک سندائی کےجسم کےنشےمیں چورتھا، خمارآلودہ لہیجے میں بولا،
“ڈارلنگ بالکل کھولوکھڑکی پرابھی لباس مت پہننا ابھی تمھارا وقت مکمل نہیں ہوا ہےایک بارتو اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
سندائی کمرے میں ہوتی توسنتی نا۔ کمرے کی نصف دروازے جتنی کھڑکی کھلی ہوئ تھی اور گھر کے نیچے ایک لڑکی کی برہنہ لاش پڑی تھی ۔

Published inسید انور ظہیر رہبرعالمی افسانہ فورم

Comments are closed.