عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 85
فیصل ریحان
لاپتہ کہانی کا ورق
”دیکھو! میری کہانی سنو”۔ وہ بڑی سنجیدگی سے مجھ سے مخاطب ہوا۔ اک ذرا توقف کے بعد پہلے اس نے گہرا سانس لیا اور پھر کہنے لگا۔ ”میں جو کہانی تمھیں سنانا چاہتا ہوں، یقین جانو ایسی کہانی تم نے ہند سند میں نہ سنی ہوگی۔اس لیے میری کہانی دھیان سے سنو اور اپنے پاس سنبھال کے رکھ لو۔ جب میں نہ رہوں تو پھر تم اسے لوگوں کو سنانا۔” ”پر تم کیوں نہ رہو، جیون جوگے! کہاں جا رہے ہو؟ یورپ یا آسٹریلیا؟” میں نے ایک استہزاء سے اس کی بات کاٹتے اور اپنے تئیں اس کا مذاق اڑاتے ہوئے پوچھا۔ آخر تمھیں کہاں جانا ہے ز یر زمیں قارون کا خزانہ لانے یا پھر بالائے آسماں مریخ و مشتری کے پاس؟بولو کہاں؟ منزل ہے کہاں تیری ۔ ۔ ۔ کسی معروف شعر کا یہ مصرعہ الاپنے کی کوشش میں میرے بے سُرے گلے سے ایک پھٹی ہوئی آواز نکلی۔لیکن وہ تو جیسے میری بات سن ہی نہیں رہا تھا، مجھے احساس ہوا، اس کی ساری توجہ اپنی کہانی سنانے پر مرکوزہے۔وہ چاہتا ہے کہ میں پورے دھیان اور توجہ سے اس کی کہانی سنوں اور اپنے پاس سینت کر رکھ لوں اور جب وہ نہ رہے تو پھر لوگوں کو اس کہ کہانی سنائوں۔
ظاہر ہے یہ سب کچھ میرے لیے قابل قبول نہ تھا اور اسی لیے میں اس کی باتوں کو استہزاء میں اڑا رہا تھا۔ جانے وہ کون سی شبھ یا منحوس گھڑی تھی جب وہ پہلی بار مجھ سے ملا تھا اور جانے کہاں ملا تھا اب تو یاد بھی نہیں اور یاد ہو بھی تو اب کیا فائدہ؟ میں ویسے بھی اس طرح کی بے فضول باتوں میں نہیں پڑتا۔ اب اس کا اور میرا ایک دوستانہ بن چکا تھا حالانکہ ہماری عمروں میں کافی فرق تھا۔ وہ چوبیس پچیس برس کا گبھرو جوان تھا اور میں کنپٹی میں اتری سفیدی لیے ادھیڑ عمری کی چوکھٹ پر کھڑا خود کو جوان تر سمجھتا اور کہتا تھا۔ بھلا مرد کب بوڑھا ہوتا ہے اور سالا گھوڑا بھی۔ خدا جانے اس بات میں کتنی صداقت ہے ،اور ہے بھی یا نہیں، کسی باتونی نے یو نہی ایک جملہ گھڑ لیا جو رفتہ رفتہ لوگوں میں مشہور ہوتا گیا۔
اس کے اور میرے بیچ پہلی ملاقات میں ہی خاصی بے تکلفی پیدا ہو گئی تھی۔ وہ ایسا ہی تھا کسی سے بھی کسی بھی وقت کوئی بے تکلفانہ بات کر سکتا تھا۔ شاید اس کی اسی ادا نے میرا دل موہ لیا تھا۔ اس لیے عمروں کے فرق نے ہمارے ذہنوں اور رویوں میں ایک دوسرے کے لیے فاصلوں کا زہر نہیں بھرا تھا۔ ہم کئی بار مل چکے تھے، کبھی راہ چلتے، کبھی کسی چینکی ہوٹل میں، کبھی وہ مجھے کہیں بیٹھا دیکھ کر میرے پاس آجاتا، کبھی اسے دیکھ کر میں ر ک جاتا۔ میری پسندیدہ جگہ”گلاب ہوٹل ”تھا جو دراصل گلاب خان کا چینکی ہوٹل تھا، جہاں اکثر میں شام کی چائے پینے جاتا، گلاب خان اب بھی پرانے زمانے کی طرح دہکتے انگاروں پر چھوٹی چھوٹی چینکوں میں چائے بناتا، اس کے سامنے تانبے کا بڑا سا سماوار دھرا ہوتا جس میں پانی مسلسل ابلتا رہتا ، وہ شام کے اوقات میں اکثر پرانے انڈین گانے اپنے اتنے ہی پرانے ٹیپ ریکارڈر پر بجاتا اور ماحول کو رومانی بنا دیتا جبکہ وہ خود سماوار سے گرم پانی اوردیگچے سے دودھ نکال کر سامنے انگاروں پر دھری چینکوں میں انڈیلتا، چینی پتی حسب ضرورت ڈالتا اور گاہکوں کو پیش کرنے سے قبل چمچ سے ذرا سا گھونٹ بھر کرچائے کا ذائقہ چکھتا رہتا۔ پرانے انداز کے اس طرح کے ہوٹل اب کوئٹہ میں پان سات ہی باقی بچے تھے۔ گلاب خان ایک قوی ہیکل شخص تھا جسے اپنے نام سے زرا نسبت نہ تھی ۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جن کی سوئی عمر کے ایک خاص حصے میں کہیں اٹک جاتی ہے اور وہ اسی جگہ اپنی پوری زندگی بتا دیتے ہیں۔ پرانے مزاج کے اکثر لوگ اس ہوٹل پر چائے پینے آتے، ہر روز شام کو کافی رش ہو جاتا۔میں بھی باقی لوگوں کی طرح انگاروں پر بنی یہاں خالص دودھ کی انگاروں پر بنی چائے کا لطف لینے آتا تھا۔ وہ مجھے ”گلاب ہوٹل ” پر بیٹھا دیکھ کر اکثر میرے پاس آ جاتا، میں اس کے لیے الگ چینک کا آرڈر دے دیتا، جسے وہ اپنی عزت افزائی سمجھتا، حالانکہ اصل بات یہ ہوتی کہ میں اسے اپنی چائے میں شریک نہ کرنا چاہتا کہ اس طرح چائے کم ہونے سے میرا نشہ پورا نہ ہوتا اور کوئی بات نہ تھی۔ہم چینی کی چھوٹی چھوٹی گول پیالیوں میں چائے انڈیلتے، اورایک ساتھ چسکیاں لیتے، وہ چائے پیتے ہوئے اکثر سڑپ سڑپ کی زوردار آواز نکالتا جو شروع میں مجھے بری لگی تھی مگر بعد میں اس کی عادت سی ہو گئی تھی۔ گھڑی دو گھڑی ہم مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے، وہ موجودہ سیاسی حالات سے سخت نالاں نظرآتا، کہتا اس ملک کو ایک عدد ہٹلر کی ضرورت ہے جو آکر سب کو لٹکا دے، پھر یہ ملک ٹھیک ہو گا؛اس کی باتیں بڑی تیکھی اور دو ٹوک ہوتیں اور لہجہ قدرے کڑوا کسیلا، اس کے بعد وہ چلا جاتا۔
”تم نشہ کرتے ہو؟” ایک بار اچانک اور غیر متوقع طور پر اس نے پوچھا۔میرا جواب نفی میں پاکر اس نے فوراً اگلا سوال داغ دیا، ”کیوں؟” اب بھلا اس سوال کا میں کیا جواب دیتا، بس یہی کہہ پایا۔
”کیوں کا کیا مطلب؟ بس نہیں کرتا، میری مرضی۔” میرے جواب میں ناپسندید گی کے ساتھ ساتھ ایک تلخی بھی تھی۔ شاید یہ دیکھ کر وہ مجھے زچ کرنے پر اتر آیا، کہنے لگا ۔ ”بے نشہ سر تو کدو ہوتا ہے۔” اس کا جواب مختصر تھا مگرمختصر کہاں تھا۔حقیقت یہ ہے کہ اس کی ایسی کافر باتوں نے ہی میرا دل موہ لیا تھا اور مجھے اس کا گرویدہ کر چھوڑا تھا۔تب میں نے پوچھا۔”کیا تم کرتے ہو نشہ؟”۔ ”ہاں نا”۔ اس کا جواب دو ٹوک تھا۔” کبھی کبھی چرس کاسوٹا لگاتا ہوں۔ ایک آدھ سگریٹ بھی دن میں چلتا ہے۔ اور جب دوستوں کے ساتھ مہینے دو میں پک نک یا کھا نے کا پروگرام بنتا ہے تو ایک آدھ گلاس بھی، پورا دانشور ہوں اڑے” یہ سب اس نے بغیر پلکیں جھپکائے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں اس بلا کا اعتماد تھا جس نے مجھے ریزہ ریزہ کر دیا تھا اور مجھے خود سے یعنی اپنی مردانگی سے شرم آنے لگی تھی۔ ” مگر لگتا تو نہیں ” شاید کچھ ایسے ہی مردہ لفظ میرے منہ سے نکلے تھے۔ ” لگے گا کیوں، بلوچ ہوں بھنگی تو نہیں”۔ اس نے پھر تڑاخ سے جواب دے مارا تھا۔
”دیکھو پروفیسر! میری کہانی سن لو۔” وہ ایک بار پھر بولا۔ میرے تمام تر استہزاء کو وہ نظر انداز کر چکا تھا یا شاید وہ اسے قطعی کوئی اہمیت دینے کو تیار نہ تھا کہ اس کے سر پر اپنی کہانی سنانے کا بھوت سوار تھا۔ اسے اپنی کہانی سنانے پر اس قدر اصرار کیوں تھا میں سمجھ نہ سکا۔ مجھے اس کا پروفیسر کہنا برا لگا تھا۔ مجھے یاد آیا جب پہلی بار اس نے مجھے پروفیسر کہا تھا تب میں نے اسے ٹوک کراس کی تردید کی تھی کہ میں پروفیسر نہیں ہوں۔ ”کیا فرق پڑتا ہے۔” اس کا جواب ہمیشہ کی طرح مختصر اور دو ٹوک تھا۔ ایک اور موقع پر میرے اس طرح ٹوکنے پر کہ بھئی! میں پروفیسر نہیں ہوں ۔ اس نے کہا تھا ۔ ” دیکھو! ناراض ہونے کا ٹیم نہیں، وقت بہت نازک ہے۔” میں ہر فارغ آدمی کو پروفیسر کہتا ہوں۔ ”فارغ” میں نے لفظ فارغ پر زور دے کر گویا اس کا مطلب پوچھنے کی کوشش کی۔ فارغ مطلب فارغ جو بندہ کام سے ، مال سے، عقل سے یعنی ہر لحاظ سے فارغ ہو جیسے تم !!! یہ کہتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر ایک شریر سے مسکراہٹ کھل اٹھی تھی؛اور تب میں نے بے جا بحث سے اجتناب کرتے ہوئے گویا ہار مان لی تھی کہ اب ضد کا فائدہ؟ جو کہتا ہے کہے ویسے بھی کیا فرق پڑتا ہے۔ اس ملک میں تو کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ میں مزید بحث کروں گا تو یہ دماغ کا دہی بنا ڈالے گا۔ اب جب اس نے کئی بار کے اصرار کو دہراتے ہوئے پھر کہانی سنانے کا کہا تو میں نے اس کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔ ”اچھا یار! سنائو، کیا ہے تمھاری رام کہانی؟” یہ کہتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ اس نے بتایا تھا اسے ٹی وی ڈراموں میں کام کرنے کا بہت شوق ہے اور وہ جمال شاہ بننا چاہتا ہے۔ اسے جمال شاہ بہت پسند تھا، شاید اس لیے بھی کہ وہ بھی کوئٹہ سے تعلق رکھتا ہے، حال ہی میں ایک موبائل کمپنی نے اپنے اشتہار میںجمال شاہ کی ایک بہت بڑی تصویر کوئٹہ کی جناح روڈ پر واقع ایک بڑے ہوٹل کی چھت پر لگائی تھی، اس تصویر نے لوگوں خصوصاً نوجوان لڑکیوں کو پاگل کر رکھا تھا، لڑکے تو اسے اپنا آئیڈیل ماننے لگے تھے۔ میں نے اسے بتایا تھا کہ ٹی وی میں کام کرنے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ جب تک وہاں پہلے سے کوئی سفارش نہ ہو، کام نہیں بنتا۔یہ ٹھیک ہے کہ بہت سارے پرائیویٹ چینلز نے کام کے مواقع پیدا کیے ہیں مگر ان تمام چیلز پر نوجوان لڑکوں لڑکیوں کا رش بھی اسی قدر زیادہ ہے۔ اس کے پاس قدرت کی بخشی اچھی صورت تو تھی مگر سرمایہ تھا نہ ہی تعلیم۔ اسے امید تھی وہ بھی دلیپ کمار کی طرح کسی چینل کی کینٹین میں کوئی چھوٹا موٹا کام ڈھونڈ کر آگے جا سکتا ہے اور نہیں تو ”باروالا” بن سکتا ہے۔ وہ اس کے لیے ذہنی طور پر تیار لگتا تھا مگر سات ہی کبھی لگتا جسے وہ یہ ساری باتیں جھوٹ موٹ یا ٹیم پاس کے طور پر کرتا ہے۔ اس کا اصل پروگرام کوئی اور ہے۔ اگر ایسا تھا بھی تو مجھے اس سے کیا سروکار تھا۔ ہمارے معاشرے کے اکثر لوگ اسی طرح دوغلی زندگی جیتے ہیں، ظاہر میں چہرے کے لحاظ سے پرسکون دکھتے ہیں جبکہ اندر خانے کئی طوفان لیے پھرتے ہیں۔ میرے لیے یہ سب کچھ اب نارمل اور قابل قبول رویہ بن چکا تھا کہ آدمی آخر کس کس سے لڑتا پھرے۔ ”تو سنائو ! اپنی کہانی” میں پھر بولا۔ من ہی من میں ، مَیںیہ سوچ چکا تھا کہ اس کی کہانی سن لینے میں کیا حرج ہے۔ تب وہ ،میری طرف ذرا سا جھک آیا اور کہنے لگا۔ ” شکر ہے تم مانے تو۔ یہ کہانی میں نے ابھی تک کسی کو نہیں سنائی۔ پہلی بار تمھیں سنا رہا ہوں۔” دھیان سے سنو! ”میں ہمہ تن گوش ہوں” میں نے اسے یقین دلاتے ہوئے کہا۔اس پر وہ ایک بار پھر تمہید باندھنے لگا۔ ”دیکھو! امارا کہانی بڑا جاندار ہے۔ وہ کیا بولتا ہے سالا فلمی لوگ، اس میں بڑا تھرل ہے۔” جانے اس نے تھرل کا لفظ کہاں سے سن سیکھ لیا تھا۔ شاید کسی فلم میں سنا ہو گا ۔ میرا اندازہ ہے کہ وہ اس کے صحیح معنی سے واقف نہ ہوگا۔اس نے اپنی بات جاری رکھی۔ ” میری کہانی میں رونے رلانے والا مسالہ بھی کافی ہے”۔ میلو ڈرامہ، میرے دل سے آواز نکلی جبکہ ہونٹوں پر سکوت طاری رہا۔ پتہ نہیں یہ کیسی کہانی سنانے جا رہا ہے۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا۔ لیکن یہ جو کچھ بھی تھا مجھے اب سننا تھا۔تب اس کی آواز آئی۔ ” میں جانتا ہوں تم دل کے اچھے آدمی ہو لیکن اگر میری کہانی کے دوران تمھارا آنسو نکلا تو اچھا نہیں ہو گا۔ مجھے روتے ہوئے مرد زہر لگتے ہیں۔” ”بے فکر رہو اور اپنی کہانی سنائو”۔ میں نے مضبوط لہجے میں اسے یقین دہانی کراتے ہوئے کہا۔” تو سنو پروفیسر” اور پھر وہ یوں گویا ہوا۔
” ہم سات لوگ تھے گھر میں۔ تین بھائی، دو بہن اور ماں باپ۔ سب اچھا تھا اور زندگی سکون سے گزر رہی تھی۔ عزت سے جو روکھی سوکھی ملتی اس پر رب کا شکر ادا کرتے۔ ہمارے باپ کو زیادہ پیسے کا لالچ نہ تھا۔ ایک رات کا فی دیر سے ہمارے دروازے پر دستک ہوئی۔ بابا نے بڑے بھائی کو کہا۔ خانہ آباد! دیکھو تو، اس وقت کون آیا ہے۔بڑا بھائی باہر گیا اور تھوڑی دیر کے بعد اندر آکر بیٹھک کی طرف جاتے ہوئے بابا کو بتا یا ۔ کچھ مہمان آیا ہے۔ خدا خیر! اس ناوقت کون مہمان ہے۔ بابا کے منہ سے نکلا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب مہمان سو گئے تو بھائی نے بابا کو لاپرواہی سے بتا یا۔ چار نفر ہے، شاید سرمچار ہے۔ ”کیا تم ان کو جانتا ہے؟”۔ بابا نے پوچھا۔” نہیں بابا” بھائی نے جواب دیا اس پر بابا بولا ”پھر تم ان کو اندر کیوں لایا؟” تب بھائی نے بتایا۔ ” ان لوگوں نے پناہ مانگا تھا ۔ ہم کیسے انکار کرتا۔ بلوچ میار کا سوال ہے۔ ویسے بھی ان کے پاس کلاشن ہیں۔” بھائی نے آنے والوں کی کلاشن کو فوں کا دانستہ بتایا تاکہ بابا سمجھے وہ مجبور تھا۔” کلاشن ہے تو کیا ہے۔ کوئی ہمارے گھر زور سے تو نہیں رہ سکتا۔” بابا کے لہجے میں غصہ تھا۔” بابا! ایک رات کا بات ہے صبح چلا جائے گا یہ لوگ۔” بھائی نے بابا کو تسلی دیتے ہوئے کہا مگر بابا پریشان تھا۔” خانہ آباد!یہ زمانہ بہت نازک ہے۔ کسی نے جاسوسی کر دی تو ہم مفت میں بر باد ہو جائے گا۔”
اگلے روز وہ لوگ منہ اندھیرے چلے گئے تھے۔ چند روز بعد آدھی رات کو ہمارا دروازہ زور زور سے بجنے لگا۔ سب پریشان ہو گئے۔ اس بار آنے والے سرکاری لوگ تھے۔ وہ بابا اور بھائی کو اپنے ساتھ لے جانے لگے اور ہمیں کہا پریشانی کی ضرورت نہیں۔ ہمیں کچھ تفتیش کرنی ہے ۔یہ لوگ واپس آ جائیں گے۔ اس پر میرے دوسرے بھائی نے ان کے ساتھ خوب منہ ماری کی۔ اس کے بعد ۔ ۔ ۔ اوراس کے بعد کی کہانی وہ تفصیل سے مجھے سنانے لگا۔ کہانی کیا تھی ایک المناک داستان تھی۔ اس کی تفصیل رونگٹھے کھڑے کر دینے والی تھی۔ اس دوران کئی بار میری آنکھوں میں گہرے بادل امڈے۔ درون ِ ذات ایسی جل تھل ہوئی کہ پہلی کبھی نہ ہوئی تھی۔ مگر میں نے خود کو سنبھالے رکھا، اسے قول جو دیا تھا۔ بلوچ نہ ہونے کے باوجود میں بلوچ سرزمین پر قول کی اہمیت سے پوری طرح واقف تھا۔
جب وہ اپنی داستان سنا چکا تو آخر میں کہنے لگا۔ ” اب صرف میں بچا ہوں اور ظاہر ہے اب میری باری ہے۔ جلد یا بہ دیر وہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے جائیں گے اور۔۔۔” ۔” وہ کون؟” میں نے بے دھیانی میں اس کی باے کاٹتے ہوئے پوچھا۔ وہ ۔ وہ ۔ پر زور دے کر بولا۔ اور پھر غصے میں کہنے لگا۔” تم بالکل گھامڑ ہو پروفیسر! وہ کو نہیں جانتے۔” پھر وہ جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا اور کہا۔ ”فرشتے ، اب سمجھے؟ جبریل و میکائیل۔” جاتے جاتے اس نے پھر دہرایا۔ ” میری کہانی یاد رکھنا۔ یہمیری امانت ہے تمھارے پاس۔” اور چل دیا۔
اس ملاقات کے بعد وہ مجھے ہفتہ ، دس دن یا شاید کچھ زیادہ عرصہ کہیں نظر نہ آیا۔ میں اس سے ملنا چاہتا تھا مگر وہ تو ایسے غائب تھا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
پھر ایک روز بازار میں چلتے چلتے میں اس جگہ جا نکلا، جہاں وہ سنگی دیوار تھی جس پر کچھ لوگوں نے شہر سے لاپتہ ہونے والوں کی تصویریں چسپاں کی تھیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان میں اضافہ دیکھنے میں آتا تھا۔ یہ تصویریں جو بھی دیکھتا اس کا دل ملال سے بھر جاتا۔ اس لیے میں قصداً اب اس طرف نہیں آتا تھا، جانے اس روزکیسے رستہ بھول گیا کہ ادھر آ نکلا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میری نگاہ اس طرف اٹھ گئی۔یوں محسوس ہوا وہاں لگی ہوئی بہت ساری تصویروں میں سے ایک چہرا کچھ شناسا اور دیکھا بھالا ہے ۔یہی سوچ کر کچھ قریب گیا تو جیسے مجھ پر کوئی پہاڑ ٹوٹ کر آن گرا۔ میرا شک یقین میں بدل چکا تھا۔ یہ عین مین وہی تھا۔ یہ اسی کی تصویر تھی جو اب لاپتہ لوگوں کی دیوار پر چسپاں تھی۔ میرے لیے یہ انکشاف کسی سانحے سے کم نہ تھا۔ میں نے غور سے اس دیوار پر لگی تصویروں کی طرف دیکھا۔ ان سب کی آنکھیں بہت روشن تھیں۔ میں نے سنا تھا روشن آنکھوں والے لوگ بہت خوبصورت خواب دیکھتے ہیں۔ جانے ان روشن آنکھوں والوں نے کیسے خواب دیکھے تھے۔ جن کی پاداش میں اب یہ لوگ غائب ہو چکے تھے۔ ان لوگوں میں اب وہ بھی شامل تھا۔ وہ جو میرا دوست تھا ، وہ جو میرا دشمن تھا وہ جسے میں جانتا تھا، وہ جسے میں بالکل نہیں جانتا تھا۔ مجھے تو اس کانام اور قبیلہ تک معلوم نہ تھا۔ نہ یہ خبر تھی کہ وہ کردگاپ سے تعلق رکھتا ہے یا آواران سے۔ میرے لیے تو وہ ایک انسان تھا ،ایک بیش قیمت انسان۔ مجھے یقین تھا کہ وہ قارون کے خزانے کی تلاش میں زیر زمین جانے والوں میں سے نہیں۔ تو کیا وہ مریخ و مشتری کا مہمان ہو چکا تھا۔میں نے اپنے ذہن پر زور دے کر اس کی کہانی یاد کرنے کی کوشش کی مگر مجھے ناکامی ہوئی ۔ مجھء یوں لگا جیسے میرا ذہن ایک تاریک خلاء ہے جہاں کسی کہانی کا کوئی نقش باقی نہیں۔ یہ کیسا المیہ تھا کہ میں شہر افسانہ کے ایک اہم کردار کی سچی مگر دردناک کہانی کھو چکا تھا۔بہت ذہن پر زور دیا مگر دو چار بے ربط سے لفظ ہی مجھے یاد آسکے۔
وطن۔۔۔ آزادی۔ ۔ ۔ مسخ لاشیں ۔ ۔ ۔ بے بس عدالت ۔ ۔ ۔ کالے بوٹ ۔ ۔ ۔ سفید جھوٹ۔۔
Urdu short stories and writers
Be First to Comment