Skip to content

لاٹھی

عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر : 13
لاٹھی
عمران جمیل مالیگاؤں، مہاراشٹر ،انڈیا

“عمیر ذرا کھڑکی سے جھانک تو بیٹا تیرے دادا کی رکشا دکھائی بھی دے رہی ہے یا نہیں”
سڑک کی جانب کی یہ کھڑکی ضرورت کے وقت ہی کھولی جاتی تھی۔
“نہیں دادای ہماری رکشا کہیں بھی نظر نہیں آرہی ہے۔ دادی فکر مت کرو دادا تو اکثر ہی رک جاتے ہیں نا نجیب دادا کے بنگلے پر!!”
کھڑکی کھلی چھوڑ کر کرسی پر بیٹھتے ہوئے عمیر نے دھیمے لہجے میں جواب دیا. اُسکی نظریں پھر سے موبائل پر جم گئیں لیکن دھیان دادی کے جواب پر ہی لگا رہا.
عمیر کے جواب کا صالحہ حجن پر کچھ اثر نہ ہوا. رنگین ساڑیوں کے گٹھّے سے ٹیک لگائے سروتے سے چھالیہ کترنے میں ہی وہ مصروف رہیں. مخملی دوپٹہ سر پر ڈھکے سفید ریشمی بوٹوں سے بنے پنجابی سوٹ میں وہ ملبوس تھیں۔ عمیر کی نظریں جواب چاہنے کے لئے دادی کے چہرے پر ہی ٹکی رہیں۔ چشمے کا باندھ توڑ کر ڈھلک آئے دادی کے گالوں پر آنسوؤں کی نمی اُس سے چھپ نہ سکی۔ کہیں دادی پھر سے سلیم چاچا کو تو یاد نہیں کرنے لگیں؟؟ دادی کی مرجھائی آنکھوں سے جب بھی موٹے قطروں کی جھڑی لگتی تو اُسے حیرت ہوا کرتی کہ اس بنجر وجود میں آنسوؤں کے آخر کتنے سوتے ہیں جو کبھی سوکھتے ہی نہیں..!! دادی کی جانب سے لمبے وقفوں بھرے جواب کی اُسے عادت سی پڑ چکی تھی۔ رکھ رکھاو والے، خاندانی جاہ و حشمت کی علامت سماج کی بھروسے مند شخصیت بشیر ہمدانی صاحب کی بیوی ہونے میں جہاں رگوں میں جوش بھرجاتا وہیں خود کے آنسوؤں کو گھونٹ کر اپنوں میں مسکراتا وجود سنبھالے رکھنا بھی ضروری ہوا کرتا۔ صالحہ منزل گلی کے نکڑ پر واقع تھا۔ کشادہ دو منزلہ پرانا گھر وسط میں مضبوط لکڑی سے بنا چوڑا ستون۔ دیکھنے والوں کو یہی لگتا کہ اسی ستون پر گھر کی چھت ٹکی ہوئی ہے۔ پہلے منزلے کی گیلری کو گلی اور سڑک کی جانب سے آٹھ نقشی دار لوہے کی کمانوں سے سہارا دیا گیا تھا۔ سڑک کی سمت سے گھر کے سامنے قدیم چائے خانہ تھا اُسی کے بازو سےانجیئرنگ ورکشاپ ہونے کی وجہ سے نکڑ پر گہما گہمی رہا کرتی۔ لوہے کے وزنی ٹکڑے پر ہتھوڑی کی ضربوں کو جھیلتی آوازیں اور مشین سے کٹتے جانے والے لوکھنڈی ٹکڑوں کے گرنے کی فولادی دھمک کی گھر کے مکینوں کو عادت پڑچکی تھی۔ ہوٹل کا گھوں گھوں کرتا پرشور سٹو اور کمسن نوکروں کی انگلیوں سے ٹکراتے چائے کے گلاس کی آوازیں بھی بیسیوں گھنٹے اپنی موجودگی درج کراتیں تو ستّر کی عمر میں قدم رکھ چکیں صالحہ حجن عمیر کے جواب کو بھلا کیسے سن پاتیں۔ صالحہ منزل کے سامنے والی گلی مسجد والی گلی کہلاتی تھی اسی گلی میں درجنوں گھروں کے بیچ سفید کپڑا بننے کا کارخانہ بھی موجود تھا۔ مدرسے میں آتی جاتی باحجاب لڑکیوں، مزدوروں اور نماز کے وقت نکڑ پر موجود پھل فروشوں کی ٹھیلہ گاڑیوں کی وجہ سے چوک اورہوٹل پر ہمیشہ بھیڑ ہوا کرتی۔ گلی کے مدرسے کے بڑے ہمیشہ ہمدانی صاحب کو تقریر کے لئے مدعو کرتے۔لیکن شہر کے علماء شریعت کے خلاف کی جانے والی بشیرہمدانی صاحب کی اکثر تقریروں سے ناراض ہی رہتے۔ ہمدانی صاحب بھی یہ بھول جایا کرتے تھے کہ رحم دلی سے کئے جانے والے فیصلوں پر بھی شریعت کا میزان لازمی ہوتا ہے۔ عیدالاضحیٰ پر خود قربانی تو کیا کرتے تھے لیکن نجی بیٹھکوں میں ہمیشہ دبے لفظوں میں یہ کہتے سنے گئے کہ اس سے اچھا ہیکہ ان ہی روپیوں سے یتیموں اور بیواؤں کی مدد کردی جائے۔ ایسے کئی قصے ان سے منسوب تھے۔
بیس سالہ کھڑے نین و نقش والا عمیر گھر خاندان میں فلسفی کے نام سے مشہور تھا سینکڑوں علوم پر مبنی کتابیں اس جوانی میں ہی وہ اتنا پڑھ چکا تھا کہ ذہانت کی گواہی کے طور پر چہرے پر ایک عدد چشمے کا اضافہ ہوگیا گھر میں موجود کمپیوٹر، صالحہ حجن کے کان کا آلہ، فریج اور موٹر بائیک جب کبھی اپنی سانسیں روک کر بیٹھ جاتے تب عمیر اپنے دست مسیحائی سے اُنہیں رواں دواں کردیتا۔
شہرکے گلی کوچوں سے، لوگوں کے رہن سہن اور اردو سائن بورڈ سے مسلم تہذیب جھلکتی۔ یہاں شعراء و ادباء کی نشستوں سے علم کے دریا بہتے۔ عمیر کو اپنے شہر کی مسلم تہذیب سے جنون کی حد تک محبت تھی۔ لا اُبالی سا عمیر اپنی عمر سے دگنا لوگوں کی محفلوں میں بیٹھا کرتا اور اکثر مباحثوں کا ہیرو بنا رہتا۔ لیکن اسکے ہیرو تو دادا اور سلیم چاچا ہی تھے۔ بڑا بیٹا شکیل ہمدانی کی چہیتی بیوی ننھی سی جان عمیرکے بدلے اپنی جان جانِ آفریں کے حوالے کرگذریں۔ اکلوتی اولاد عمیر کا ہمکنا، قلقاریاں مارنا، ننھے قدموں سے دوڑ کر پیروں سے لپٹ جانا بھی پتہ نہیں کیوں اُنہیں کبھی متوجہ نہ کرسکا۔ خاندانی کاروبار سے بےغرض لیکچررشپ اور ذاتی لائبریری میں وقت گذاری ہی اُنکی دلچسپی کے سامان تھے۔ “بابو ذرا نئے کارخانے میں بجلی کا میٹر تو لگوا دے.” مجھے فرصت نہیں ہے ابّا سلیم کو ہی کہہ دیں. ہر بات پر یہی لہجہ ہوا کرتا تھا شکیل ہمدانی کا۔ دادی کی گود سے ہی عمیر کو محبت بھری گرمی ملتی گئی۔ بڑا ہونے پر کارخانے میں چھ سات گھنٹے گذارنے بعد دادی کی زبانی شہر کی قدیم باتیں اور دادا کی ادبی و سماجی مصروفیات کے بارے میں گفتگو میں ہی اُس کا زیادہ تر وقت گذرتا۔ موڈ ٹھیک رہتا تو پہلے منزلے پر مزدوروں کے ساتھ ہی مل کر رنگین ساڑی کی فولڈنگ کرتا۔ کبھی دادی کے ساتھ ملکر پان کی ڈنڈیاں توڑوانے بیٹھ جاتا تو کبھی ساڑھی کی نئی ڈیزائنوں کی تخلیق میں کاغذ پر نقشیاں بنانے بیٹھ جاتا۔ عجیب طبیعت تھی اُسکی۔ جب بھی وہ تنہا کرسی میں دھنسا پڑا رہتا تو نہ جانے کیوں اُسکی آنکھیں بھیگ جاتیں۔ “عمیر..! میٹینگ میں تیری امی کیوں نہیں آتیں۔ ہربار تیرے چاچا ہی کیوں آجاتے ہیں؟؟” سرپرست میٹینگ کی وجہ سے اُسکی کلاس کے دوست اسکول میدان میں چہکتے اور دھینگا مستی کرتے رہتے لیکن تبریز اپنی بیساکھیوں کے ساتھ وہیں عمیر کے ساتھ پتھر کی بینچ پر بیٹھا ہمیشہ کی طرح اُس سے سوال کرتا۔ جب کبھی اسکول کے بچوں کا ہنسی بھرا شور کانوں کو پھاڑنے لگتا وہ فوراً کرسی سے اُٹھ بیٹھتا اور سلیم چاچا کے بارے میں سوچ لیتا تو مانو اسکے پورے وجود میں جنت جیسا سکون بھر جاتا۔
میکانیکی انجئیرنگ کا سکّہ تو اُس وقت اور پوری شدت سے لگا جب گیراج میں برسوں سے بند پڑی ایمبیسڈر کار کا انجن عرصے بعد جاگا تو مانوس آواز سنتے ہی صالحہ منزل کے درجنوں مکینوں نے جب گیراج میں جھانکا تو ڈرائیونگ سیٹ پر شرارتی آنکھوں میں فاتحانہ مسکراہٹ لئے عمیر بیٹھا نظر آیا، سلیم چاچا کو ہمدانی صاحب کی ایمبیسڈر کار سے بہت لگاؤ تھا اسکی صفائی کے لئے ملازم بھی رکھ چھوڑا تھا۔ کار کو ناکارہ سمجھ کر دادا کی نشانی کے طور پر اُسے گیراج کی زینت بنا دیا گیا تھا گیراج صالحہ منزل کے سامنے ہی تھا گیراج سے اوپر پہلے منزلے پر رنگین ساڑی کی تیاری میں لگنے والے خام مال کے تھیلے رکھے رہتے۔ لکڑی سے بنی چھت میں پیوست سینکڑوں ہک میں ٹنگے سوت اور رنگین ساڑیوں کی گٹھریاں بھی رکھی ہوتیں۔
آج تیسرا دن تھا ہمدانی صاحب کو نجیب صاحب کے یہاں گئے ہوئے نجیب احمد، ہمدانی صاحب کے بچپن کے دوست تھے قانونی و شرعی باریکیوں پر گہری نظر رکھتے تھے۔ آج رضیہ چاچی اجنبی سی دکھائی دے رہی تھیں۔ عمیر کئی بار رضیہ چاچی اور صالحہ حجن کو جواب دے چکا تھا کہ دادا سے فون پر بات ہوئی ہے وہ آج آنے والے ہیں۔ اسی آج کا تو سب کو انتظار تھا۔ صبح سے حبس کے مارے بے چینیاں بڑھی ہوئی تھیں لگتا تھا کہ ماحول سے کسی نادیدہ شہ نے ہوا کو چوس لیا ہو۔ گھنے بادل چھا جاتے پھر نہ جانے کیوں کسی اور طرف اُڑ جاتے۔ ثوبیہ اور صفیہ دونوں بچیاں آج سارا دن رضیہ کے ساتھ ہی لگی رہیں۔ جو گڑیا کبھی ثوبیہ کے سینے سے چھوٹتی نہیں تھی آج صوفے پر پڑی اُس گڑیا کی پھٹی پھٹی نظریں چھت میں پیوست ستون کے مرکز کو گھورے جارہی تھیں. رضیہ کی نظریں بار بار دروازے کی طرف اُٹھتی رہتیں۔ دادی چاچی کی حالت دیکھ کر کہیں پھر سے نہ رو پڑیں تو دھیان بٹانے کی غرض سے اُس نے دادی سے جاننا چاہا
“دادی یہ الماریوں کے شیشے پر صبح کا منظر اور یہ مور برسوں گذرنے بعد بھی ماند نہیں پڑ سکا مجھے تو بڑی حیرت ہوتی ہے دادی۔ یہ الماریاں سلیم چاچا کی پیدائش سے پہلے کی بنی ہوئی ہیں نا دادی؟ ”
گہرے کتھئی رنگ کی لکڑی کے موٹے ٹکڑوں سے بنی خاندانی کرسی میں بدن گرا ئے ہوئے عمیر نے زلیخا حجن سے استفسار کیا۔ یہ کرسی پورے گھر میں ابّا کی کرسی کے نام سے مشہور تھی بشیر ہمدانی کے سوا صرف اُنکے چھوٹے بیٹے سلیم ہمدانی کو ہی یہ حق تھا کہ وہ اس خاندانی کرسی پر بیٹھے۔ صالحہ منزل کے پہلے منزلے کے محرابوں والے وسیع دالان کے مرکزی ستون سے ٹکی اس کرسی نے بیسیوں شیروانیوں، اچکن اور صدری کے بدلتے رنگ دیکھے تھے حقے اور سگریٹ کے مرغولوں کو بھی پھیلتے سکڑتے دیکھا تھا سعدی، شیرازی میر وغالب اور منٹو و پریم چند کے لفظوں کی فسوں کاریوں کی گواہ بنی تھی یہ کرسی۔ ہمدانی صاحب کی شیروانی اور کرتے کا رنگ بدلتا رہا نہ بدلی تو اُنکی گود کی جگہ جہاں سلیم متانت سے گھنٹوں بیٹھا رہتا۔ نثری و شعری محفلوں کی تعداد اور سلیم کی عمر بڑھتی گئی اور گود سے کرسی تک کے سفر کے گواہ صالحہ منزل کے درو دیوار بنتے گئے پھر گھٹنوں کی تکلیف نے ہمدانی صاحب کو بھی فرشی گدّے تک محدود کردیا۔ اسکوٹر کی جگہ ذاتی رکشے سے باہری کام کئے جانے لگے۔ دادی کا بروقت جواب نہ پاکر عمیر کی نگاہ پیتل کے پاندان پر رکھے کان کے آلے پر جا پڑی وہ اُنہیں کنکھیوں سے دیکھ کر مسکرا دیا۔ قد آدم سنگھار دان کی دراز میں موبائل سرکا کراُس نے کرسی کی پشت سے سر ٹیک دیا آہ ہ! میرے سلیم چاچا۔۔۔ ایک سرد آہ ہونٹوں سے نکلی بند پلکوں سے گرم قطرے ڈھلک کر چہرے کو نم کرگئے۔” عمیر تم یہ ساڑیوں کی فولڈنگ اور کارخانے میں وقت مت برباد کرو۔ ابھی امتحان شروع ہے نا تمہارا ! میں دیکھ لوں گا سب۔” ۔۔۔”ابّا اس چھڑی کی لکڑی اور گرفت آپکے لئے بہت مناسب ہے۔ یہ میں نے باہر سے آپکے لئے منگوائی ہے۔” تین نئی صدری الماری میں رکھ دی ہیں ابّا ذرا دیکھ لینا۔” ڈاکٹر نے عشاء بعد کا وقت دیا ہے ابّا ” ….” جلدی کرنا ابّا کہیں خطبہ شروع نہ ہوجائے۔ “..امّاں..! یہ تمباکو والا پان بند کردیجیے نااب…! رضیہ او رضیہ..! امّاں کی گولی یاد سے دینا میں مارکیٹ جا رہا ہوں۔ فکر مندی و اپنائیت میں ڈوبے ایسے سینکڑوں محبت میں بھیگے جملے عمیر کے کانوں میں ہمیشہ رَس گھولتے رہے۔ ثوبیہ، صفیہ اور فرحان پر رحم کرنا میرے اللہ۔ وہ اچانک کچھ بے چین سا ہوگیا دونوں پیر سکیڑ کر کرسی میں دوہرا ہوکر بیٹھ گیا چھت میں لگے پرانے پنکھے کی دھیمی آواز میں اکثر اُسے ایک عجیب سی موسیقی محسوس ہوتی دادا کے انتظار سے چور موسیقی کی اسی دھن میں خیالات کی رَو نہ جانے پھر اُسے کہاں لے گئی۔
” امی..! ابّا عید تک اچھے ہوجائیں گے نا! ننھے فرحان کا سوال اور رضیہ چاچی کے آنسوؤں کو پی جانے کا منظر اُسے اب تک بھلایا نہ جاسکا…. آہ چاچی..!!
اُسے یاد تھا کہ متورم پلکیں اور سرخ ناک والی دبلی پتلی سی رضیہ چاچی پلنگ کی ایک طرف سے سلیم چاچا کی پشت پر ہاتھ رکھ کر اُنہیں ‌ اُٹھنے میں مدد کررہی تھیں تو دوسری جانب سے ہمدانی صاحب بھی ناتواں ہاتھوں سے بساط بھر مدد کئے جارہے تھے۔ فرحان کے سوال پر وہ بھی تڑپ اُٹھے ہاں بیٹا ہاں..! میرا سلیم اچھا ہوجائیگا.رضیہ چاچی دوپٹہ منہ میں دباے امڈ پڑنے والے سیلاب کو روکے ہوئے تھیں۔ سال بھر ہی تو ہوا تھا جب سلیم کا وزن گھٹنے لگا تھا تو پھر اُسکی باتوں اور فیصلوں کا وزن بھی بے وقعتی کا شکار ہونے لگا۔ گھر میں ہمیشہ خوشیوں کی بَہار رکھنے والے کی سانسیں بھی کبھی ایسے اُکھڑنے لگتیں کہ اس کی ڈھیلی پڑتی ڈور کی کمزوری کو ہمدانی صاحب بھی صاف محسوس کرلیتے تو وہیں چند آنکھوں میں اکثر ایک گہری سی چمک آ جاتیں لیکن سانسیں پھر اپنا حصہ کشید کرنے میں رواں ہوجاتیں تو گھر میں جیسے بَہار کا موسم آجاتا۔
کروفر والے ہمدانی صاحب کو قبرستان میں دھاڑیں مار کر بلکتے ہوئے جس نے بھی دیکھا اُنہیں بھی اپنی آنکھیں چھلکتی محسوس ہوئیں۔ چہیتے بیٹے کی قبر سے ہاتھ جھاڑ کر جب وہ اُٹھے تو اپنی مضبوط گرفت والی چھڑی ڈھونڈتے ہی رہ گئے۔
اوفوہ دادی آپ روتی ہوئی بالکل بھی اچھی نہیں لگتیں۔ وہ دادای کے پاس پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ تھکا ہارا سورج شہر سے اپنی کرنوں کو سمیٹنے میں مگن تھا۔ عمیر دادی کے ہاتھوں میں بیر جیسے فیروزی چمکتے منکوں کو بے خیالی میں گھماتا رہا..”پتہ ہے بیٹا یہ سلیم کی پیدائش کے وقت سے ہی میرے ہاتھوں میں ہے۔” گھٹن بھرے ماحول سے صالحہ حجن کا دھیان بٹاتے ہوئے عمیر دادای سے بہت کچھ پوچھنے لگا۔
“دادی..! دادا کو سب کیوں اتنا چاہتے ہیں؟؟” دادا کی بات پر صالحہ حجن کا چہرہ پرسکون ہوتا محسوس ہوا۔ ” تیرے دادا تو دن رات کتابوں میں سر کھپاتے آئے ہیں۔ گرامو فون پر دھیمی آواز میں پرانے گیت سننا، پرانے سکے نوٹ اور ڈاک ٹکٹ جمع کرنا، شاعروں ادیبوں کی اور سوت کے بیوپاریوں کی دعوت کرنا، دالان میں ادبی نشستیں سجانا، گاڑی چمکا کے رکھنا یہی سب تو شوق تھے اُنکے۔ کبھی مدرسوں کے سفیروں پر غصہ کرتے تو کبھی پانچ دس سفیروں کو گھر پر کھانے کے لئے ساتھ لے آتے۔ شروانی، واسکٹ، کرتا، کوٹ پینٹ پہننا، بال سنوارے رہنا اور ہمیشہ داڑھی مونچھ مونڈاے رکھنا۔ خود تو سارے گاوں میں دندناتے پھرتے رہے. اور مجھے ٹوپی والے برقعے کے بغیر دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے۔ دادی کہتی رہیں اور عمیر دادی سے پرے ہوکر دیوار سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کئے بیٹھ گیا۔ ماحول میں لوبان اور اگربتی کی خوشبوؤں کا اثر تھا. شائد اسی لئے پھر وہ نیم غنودگی کے عالم میں ماضی میں پہنچ گیا۔
چند ہفتوں پہلے کا پھر ایک منظر آنکھوں کے سامنے آگیا “بڑا سخت جان ہے.. مرتا بھی نہیں..” خشخشی داڑھی، اُلجھے بال اور سرخ ڈورے والی آنکھوں والے جلیل بابا اُسے ہمیشہ اجنبی ہی لگتے رہے. دستر خوان پر سبھی موجود ہوتے لیکن اُنکا کھانا کمرے میں ہی پہنچایا جاتا۔ کساد بازاری کی وجہ سے کارخانے بند تھے۔ گھرمیں رکھی ساڑھی کے گھٹے پر بیٹھے عمیر کے کانوں میں جلیل ہمدانی کی جھلاہٹ صاف سنائی دے گئی۔ اُس کے سینے میں کوئی پرندہ پھڑپھڑا کر رہ گیا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ ایک ہاتھ سے چھڑی تھامے سلیم چاچا کے کاندھے پر بھار دیے ہمدانی صاحب گھر میں داخل ہوئے اُدھر اُنکی نظریں جلیل ہمدانی سے ٹکرا جاتیں تو ہمدانی صاحب پتہ نہیں کیوں اپنا ہاتھ فوراً سلیم چاچا کے کاندھے سے ہٹا لیتے۔ چھڑی تھامنے سے پہلے تو ایسا بالکل بھی نہیں ہوا کرتا تھا۔ جب بھی وہی کاندھا تھا اور وہی ہاتھ۔ آج دادا کو وصیت سنانی تھی۔ تین دن پہلے ہی وہ نجیب صاحب کے ساتھ بریف کیس لئے نکل گئے تھے۔ خیالوں کی رَو کو جھٹک کر
وہ پھر لپک کر سڑک کی جانب کھلنے والی کھڑکی پر گیا اُس نے دیکھا کہ سڑک کے کنارے مزدور ٹھٹھول کر رہے ہیں۔ بیڑی کے دھوئیں کے ساتھ اُنکی فکریں بھی اوپر اُٹھتی جا رہی ہیں۔ چائے خانے کے باہر دوستوں کے گروپ چائے کی چسکیوں کے ساتھ ٹہاکے لگاے جا رہے ہیں، اسٹریٹ لائٹس روشن ہیں لیکن دکانوں میں اندھیرا پسرا ہوا ہے بہت سے برقعے بچے ہوئے راستے سے اپنے وجود کو سکیڑے گذرنے کی کوشش کررہے ہیں، سائیکل گھنٹیاں ہارن کی آوازیں الگ لیکن آج عمیر کو ہمدانی صاحب کی رکشا دور تک نظر نہیں آرہی تھی۔ تنکوں سے بنے آشیانے کو کوئی زعفرانی ریشوں جیسے قیمتی تنکوں سے آباد کرتا رہا اور کوئی ایسا بھی تھا جو اس آشیانے کو خس و خاشاک سمجھ کر اپنی کینہ توز نظروں کی تپش سے جھلسانا چاہتا ہو۔ ہانپتی سانسوں اور کھانسی کی آوازوں کی لہریں زعفرانی تنکے کم کرتی گئیں آشیانہ بوسیدہ و بے رنگ ہوتا گیا۔ مرکزی ستون نم ہوتا گیا اور پھر ہمدانی صاحب کی لاٹھی سلیم ہمدانی کی قبر کی بھربھری مٹی کے پاس سے کبھی دکھائی نہیں دی۔ دبی آوازیں چنگھارنے لگیں.. “ابّا آپ حیات ہیں۔ اب قاعدے نہ بھول جانا.. اب بھیج دو اُسکے بیوی بچوں کو….”چند ہفتوں سے یہی آوازیں ہمدانی صاحب کے کانوں کو جلاتی رہیں.. ابھی ہمدانی صاحب نجیب صاحب کے ساتھ گھر پہنچ کر دَم درست بھی نہیں کرپائے تھے کہ پھر وہی نفرت کے تیر اُنکی طرف پھینکے جانے لگے” بیٹا عمیر ذرا پانی تو دینا اور تیری رضیہ چاچی کو ذرا بلانا تو بیٹا۔ کہتے ہوئے ہمدانی صاحب وسطی ستون سے ٹیک لگائے بیٹھ گئے۔ آنکھیں سوچ میں غرق تھیں۔ جبڑے بھینچے ہوئے تھے۔ سرخ آنکھوں والے اُنکا عزم دیکھ کر سانسیں روکے بَس اُنہیں اور انکے ہاتھوں میں موجود کاغذ کو دیکھا کئے۔ چوک میں سبھی تہوار شدت سے محسوس ہوتے ہیں۔ تھڑاپ تھڑاپ تھڑاپ شام سے ہی چوک پر سوگواروں کی سینہ کوبی ایک مخصوص لے میں جاری تھی اسپیکروں سے چاروں جانب سے واقعہ کربلا کی آوازیں گھرکی فضاء میں گونجتی رہیں۔ ہمدانی صاحب کی نظریں اَب چوکھٹ پر گڑی نعل میں گڑی جارہی تھیں۔ ان ماتمی آوازوں کے بیچ رضیہ چاچی نے پتہ نہیں ہمدانی صاحب کی نظروں میں کیا تلاش کرلیا تھا۔ پرسوز آوازوں کے پیچھے رضیہ چاچی کے قدم چوکھٹ سے باہر نکل پڑے۔ ماتم کناں آگے بڑھتے گئے۔ ساتھ ہی ثوبیہ کا باربار پیچھے مڑ کر دیکھتا جھلملاتا وجود اور رضیہ کا سیاہ برقعہ سیاہ قمیصوں کے درمیان گڈمڈ ہوتا گیا.

Published inعالمی افسانہ فورمعمران جمیل
0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x