عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 87
لال کبوتر
احسان قاسمی، پورنیہ ، بہار ، انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منیا پائل چھنکاتی وہاں جا پہںچی جہاں مزدور کام پر لگے تھے۔ کوسی ندی پر کافی طویل پل تعمیر کیا جا رھا تھا۔ سینکڑوں مزدور کام پر لگے تھے۔ وہ مختلف گروہوں میں بٹے مختلف کام انجام دے رہے تھے۔ انہیں میں اس کا باپ بھی تھا۔ وہ اسے بیڑیاں دینے آئی تھی مگر یہ تو صرف ایک بہانہ تھا دراصل وہ بہاری کو دیکھنےآئی تھی۔ وہ دنوا، سکھوا اور سلطان وغیرہ کے ساتھ مل کر ایک بہت بھاری مشین کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی کوشش میں مصروف تھا وہ کچھ دورکھڑی اسے نہارتی رہی۔ بہاری کے ننگے صحت مند جسم پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے اور بازؤں کی مچھلیاں پھڑک رہی تھیں۔ اس نے اپنی دھوتی کو اوپر تک سمیٹ کر کس کر باںدھ رکھا تھا۔ اس کی ننگی رانیں اور پنڈلیاں دیکھ کر منیا کا دل خوشی سے جھوم اٹھا۔ بہاری حقیقتا” پتھر کا تراشیدہ طاقت کا مجسمہ لگ رہا تھا۔ وہ تو ہمیشہ اسی کے سپنے دیکھا کرتی تھی اور جس دن کبھی تنہائی میں موقعہ پا کر بہاری اس سے دوچار باتیں کرلیتا یا ہلکے سے چھیڑ دیتا تو وہ گھنٹوں کھاٹ پر پڑی پڑی اںگڑائیاں لیتی رہتی اور پرانی کھاٹ دیر تک چرمراتی رہتی۔ وہ بڑے انہماک سے بہاری کو نعرے لگا لگا کر اس وزنی مشین کو دھکے لگاتے دیکھتی رہی۔ تھوڑی دیر کے لئے کام رک گیا۔ مزدور اپنا اپنا پسینہ پوچھنے لگے۔ اس کی نظر دنوا پر پڑی تو وہ دور سے ہی اسے آنکھ مار کر بڑے بھدّے انداز میں مسکرایا۔ غصّہ سے ناک بھوں چڑھاتی ہوئی وہ بڑبڑائی؛ ” حرامی!” مزدور پھر کام پر لگ گۓ تھے۔ دنوا آواز اٹھانے لگا؛
“زور لگاکے ہیّا۔۔۔۔۔ دم لگا کے ہیّا۔۔۔۔۔ لال کبوتّر۔۔۔۔۔۔ ہیّا!!
لال کبوتّر۔۔۔۔۔۔؟؟ وہ سر پر پاؤں رکھ کر وہاں سے بھاگی۔ دنوا کا قہقہہ دورتک اس کا پیچھا کرتا رہا۔ آںگن میں کھاٹ پرگرکر وہ ہاںپنے لگی۔ چہرا لال بھبھوکا ہو اٹھا تھا۔ ہاںپتے ہوۓ زیرلب دنوا کو لاکھوں گالیاں دیتی رہی۔۔۔۔۔ حرامی۔۔۔۔ کتّا کا پلّا— سوّر کا جنا۔۔۔۔۔۔ وہ وہیں کھاٹ پر پڑے پڑے سو گئ۔ نیند ٹوٹی بھی تو کوئی شور سن کر۔ سامنے آم کے پیڑ پر باز ایک کبوتر کو چھاپ بیٹھا تھا۔ کبوتر بری طرح چھٹپٹا رہا تھا۔ اس۔کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سن کر ہی شاید اس کی آںکھ کھل گئی تھی۔ کافی اضطراب کے ساتھ اس لڑائی کو دیکھتی رہی۔ بےداغ سفید کبوتر خون کے رںگ میں رنگتا جا رہا تھا۔ اس کی جدوجہد کمزور پڑتی جا رہی تھی اور پروں کی پھڑپھڑاہٹ معدوم ہوتی جا رہی تھی۔ بڑی دیر تک باز اسے بھںبھوڑتا رھا پھر بڑی لاپرواہی سے پیڑ کے نیچے پھیںک کر پروں کو جںبش دیتا بیکراں آسمان میں کھو گیا۔ شام تک اس کے ذہن پر بار بار خون سے رنگا وہی لال کبوتر منڈلاتا رہا۔ شاید اس واقعہ کے ناگوار اثرات اور بھی دیر تک قائم رہتے لیکن شام میں ندی کنارے سے لوٹتے ہوۓ بہاری تنہائی میں مل گیا۔ اس نے اسے ہلکے سے چھیڑا تو وہ لجا گئی۔ اس نےادھر ادھر دیکھ کر اس کی کلائی پکڑ لی تو وہ اندر تک کاںپ گئی جیسے من کی شاںت ندی میں کسی شریر بچّے نے چھوٹی سی کنکری پھیںک دی ہو۔ وہ لہروں کے سمان کاںپتی رہی۔
بہاری نے کاںپتی ہوئی آواز میں کہا؛ “راتے ندّی کنارے مِلیو۔۔۔۔ بہت جروری بات ہے۔۔۔۔ سمجھی—؟” وہ تھرتھراتے قدموں سے گھر واپس آئی اور دیر تک کھٹیا پر پڑی کاںپتی رھی جیسے جاڑا بخار آ گیا ہو۔ جب رات کا سنّاٹا کافی گہرا ہو گیا اور ساری جھونپڑیوں کے دیئے ٹمٹما کر خاموش ہو گئے تو وہ چپ چاپ گھر سے نکل کر ندی کی جانب چل دی۔ عارضی جھوںپڑیوں کی اس عارضی بستی سےنکل کر تیز چلتی ہوئی وہ اس چٹّان کے پاس آ گئ جس پر بیٹھ کر وہ ہر شام غروب آفتاب کا منظر دیکھا کرتی تھی۔ اتنی رات گئے اس جگہ آنےکا اس کا یہ پہلا اتّفاق تھا۔ چاروں جانب ایک پراسرار خاموشی چھائی تھی۔ ندی کی کاںپتی لہروں پر چاںد یوں جھلملا رھا تھا جیسے سونے کی مچھلی تیر رہی ہو۔ وہ خنک ریت پر بیٹھ گئ۔ نصف شب کی ٹھنڈی ملائم ہوا اس کےگالوں اور گردن میں گدگدی لگا رہی تھی۔ اس کا ننھا سا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ وہ سب کچھ بھول کر اس حسین منظر میں کھو گئی تھی۔ یکایک اسےاحساس ہوا کہ کسی کی گرم سانسیں اس کے عارض سہلا رہی ہیں۔ سر گھما کر دیکھا تو بہاری نہ جانے کب اس کے پہلو میں آ بیٹھا تھا۔ اس کی زبان گنگ ہو گئی۔ بس ٹکر ٹکر اس کا منھ دیکھتی رہی۔ بہاری دھیرے سے پھسپھسایا؛ “منیا!” اور اس نے بے اختیار اسے اپنی گود میں سمیٹ لیا۔ اس سےپہلے کہ وہ کوئی احتجاج کرتی اس نے اپنے پتھریلے ہونٹ اس کے نازک لبوں پر رکھ دیئے- وہ مدہوش سی اس کی بانہوں کے حلقہ میں ڈھلکی رہی۔ بہاری اس کی گداز بانہوں کو سہلاتا رہا اور اسے کچھ خبر بھی نہ ہوئ کہ کب اور کیسے بہاری کے ہاتھ کہاں کہاں پہنچ گئے۔ گرمی سے پہاڑوں کی چوٹیوں پر جما برف پگھلنے لگا اور پگھل پگھل کرنشیب میں بہنے لگا۔ پہاڑوں کی ننگی چوٹیاں تن کر کھڑی ہو گئیں۔ موجیں کناروں سے سر مارنے لگیں اور جس ندی پر اس نے برسوں سےبندھ باندھ رکھا تھا وہ گیلے ریت کے گھروندے سا بھسبھسا کر ڈھ گیا۔ وہ ساحل پر یوں بچھ گئی جیسے دھوبی کپڑے دھو کر پسارتے ہیں۔ پھر ندی کی طوفانی موجیں کناروں کو توڑ کر باہر نکل آئیں اور کھیت کھلیان باغ باغیچے سب ڈوب گئے۔ اس سیلابِ بے کنار میں وہ خود بھی غرقاب ہونے لگی تو جان بچانے کیلئے زور زور سے ہاتھ پاوٗں پھیںک تیرتی رہی۔ رفتہ رفتہ ندی کا تموّج کم ہوا۔ سیلاب کا زور ٹوٹا تو ندی کناروں میں سمٹنے لگی۔ وہ نچڑے ہوۓ زرد کپڑے کی مانند چاند کی یرقان زدہ روشنی میں ساحل کے ریت پر بچھی رہی۔ اچانک ایک کرخت آواز بم کے گولے کی مانند کانوں کے پاس پھٹی؛
” کیا ہو رہا ہے یہاں؟ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ سامنے موت کے دیوتا کی مانند دنوا کھڑا تھا۔
“اچھا، منیا اور بہاری۔۔۔۔۔ کا بات ہے ری منیا؟۔۔۔۔۔ بڑی سریپھ جادی بنتی ہے اور ای کا ہو رہا ھے ھیاں دو بجے رات میں–؟؟ ٹہر بستی بھر میں ہلّا نہ کر دیا تو ہمرا نام بھی دنوا نہیں۔۔۔۔۔۔۔!!
وہ سنّاٹے میں رہ گئی۔ بہاری دنوا کے پیروں پر گر پڑا، “دینا بھائی۔۔۔۔۔۔ دینا بھائی۔۔۔۔۔۔ معاف کر دے۔ دیکھ منیا کی عجّت کا سوال ہے اور پھر اگر اس کے باپو نے سن لیا تو۔۔۔۔۔۔۔؟”
دنوا گرج کر بولا؛ “ہمرا حصہ دو تو ٹھیک۔۔۔۔۔۔ بہاری اس کے پاس آ گیا۔ سمجھاتے ہوۓ بولا؛ ” منیا کا کرے گی بول؟ بڑی بدنامی یوگی۔۔۔۔۔ جینا حرام ہو جائے گا۔۔۔۔۔ پھر کوئی تجھ سے بیاہ بھی نہ کرے گا۔۔۔۔۔۔ جانے دے جو کہتا ھے مان جا۔” وہ خاموشی سے اس کا منہ تکتی رہی۔ بول بھی کیسے سکتی تھی؟ ندی کچھ بولتی تھوڑا ہی ہے۔۔۔۔۔۔ وہ خاموشی سے سرد ریت پر لیٹ گئی۔ دنوا بھوکے باز کی مانند اس پرجھپٹ پڑا۔ وہ پھڑپھڑاتی رہی، چھٹپٹاتی رہی، وہ بھنبھوڑتا رہا اور پھر اسے نیم مردہ سا چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا۔
“چل پاٹنر” بہاری کا ہاتھ تھامتے ہوۓ اس نے کہا اور دونوں بستی کی جانب چل پڑے۔ وہ نیم جاں سی پڑی پڑی ان ہیولوں کو زرد چاندنی اور کہرے میں گم ہوتے دیکھتی رہی۔ پھیکی چاندنی ریت کے ذروّں سے الجھی تھی۔ چاروں طرف ایک درد انگیز سنّاٹا مسلّط تھا اور خاموش ندی اس کے بغل میں سوئی تھی۔ کہیں کوئی صدا نہیں۔۔۔۔۔ نہ ملّاحوں کے گیت، نہ موجوں کی سرسراہٹ اور نہ چپّووٗں کی چھپچھپاہٹ۔۔۔۔۔۔!
یکایک اس سنّاٹے کو توڑتی ہوئی دنوا کے بھدّے انداز میں گانے کی صدا آتی ہے؛ “زور لگا کے ھیّا۔۔۔۔۔۔ دم لگا کے ھیّا۔۔۔۔ لال کبوتّر۔۔۔۔۔ لال کبوتّر۔۔۔۔۔
Urdu short stories and writers