Skip to content

قلم کار

عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر .68
قلم کار
محمد شفیع ساگر
دراس کرگل جموں و کشمیر انڈیا

میرا نام اکرم شہباز ہے ۔ وہی شہباز جسے بر صغیر کا بڑا قلم کار مانا جاتا ہے ۔ وہی شہباز جس نے چھوٹی عمر میں ہی نام کمایا ۔ میں وہی شہباز ہوں جس سے ملنے کی لوگ تمنا کرتے ہیں ۔ اگر میں حاصل شدہ انعمیلبھات کی گنتی کروں تو شائد آپ دنگ رہ جائینگے میں دو درجن کتابوں کا مصنف ہوں ۔ جن میں تین کتابیں ایسی بھی ہیں جن کی بدولت میں کروڑ پتی بنا ۔ میں نے مضامین لکھے، افسانے لکھے اور انشائیے بھی، جو بہت مقبول ہوئے۔میں نے شعرو شاعری میں بھی کوشش کی تھی لیکن کامیاب نہیں ہو پایا ۔ مجھے وہ دن یاد ہے جب میں لکھ لکھ کے اپنی ڈائری بھرا کرتا تھا ۔ ایک دن میں نے ایک مقامی اخبار کے لیے کچھ لکھنا چاہا ۔ میں چاہتا تھا کہ میرا نام بھی اخباروں میں آجائے۔ اس کے لیے میں نے ایک اچھی تحریر کا انتخاب کرنا چاہا ۔ میں نے اپنی تمام تحریریں چھان لیں ۔ اور کافی کوشش کے بعد افسانہ ’لکیر‘ منتخب کیا اور مقامی اخبار ’امن‘ کے ایڈیٹر یوسف شاہ نورنگی کو بھیج دیا ۔ دن گذر گئے لیکن افسانہ نہیں چھپا ۔ پھر میں نے خط لکھ کے افسانہ نہ چھپنے کی وجہ دریافت کی لیکن خط کا جواب نہ دارد ۔ اُن دنوں کسی کسی کے گھر میں ٹیلی فون ہوا کرتا تھا ۔ میرے گھر میں ٹیلی فون نہیں تھا ۔ میں اپنے ایک دوست کے گھر چلا گیا اور اُن سے فون کرنے کی اجازت مانگی ۔ موصوف نے اجازت دے د ی ۔ میں نے اخبار میں دیا ہوا نمبر ڈائل کیا تو دوسری طرف سے آواز آئی’ ’ جی کہیے کس سے ملنا ہے ‘ ‘
میں نے کہا ’’میں نورنگی صاحب سے ملنا چاہتا ہوں ‘ ‘
دوسری طرف سے ایک شورسا سُنائی دیا ۔ تھوڑی دیر بعد آواز آئی ۔
’’ہاں جی میں نو رنگی بول رہا ہوں ۔ بتائے کیا کہنا چاہتے ہیں ‘‘
میں نے کہا ۔
’’جناب میرا نام اکرم شہباز ہے۔ میں نے آپ کے اخبار کے لیے ایک افسانہ بھیجا تھا۔ لیکن ابھی تک نہیں چھپا ‘‘
نورنگی صاحب ہنسنے لگے۔ اور کہا ۔
’’ارے آپ جانتے بھی ہو کہ افسانہ کیا ہوتا ہے۔ کیسے لکھا جاتا ہے ۔ ہمارا اخبار معیاری افسانے چھاپتا ہے ۔ آپ کا افسانہ غیر معیاری ہے۔ ہم اسے نہیں چھاپ سکتے‘‘
میں بڑا پریشان ہوا سوچا کہ شائد لکھنا میرے بس کی بات نہیں۔ میں مایوس ہوکر وہاں سے نکلا ۔ گھر آیا ۔ افسانہ غور سے پڑھا ۔ افسانے کے فن کو پڑھا ۔ منٹو کے چند افسانوں کا بغور مطالعہ کیا ۔ مُنشی پریم چند کے چند افسانے بھی لگے ہاتھوں پڑھ لئے۔ اپنے افسانے کو اور تھوڑا بہتر بنایا اور ایک دن افسانہ لیے روز نامہ ’کردار ‘ کے دفتر پہنچا ۔ چند لوگ کام کر رہے تھے۔ کسی نے میری طرف توجہ نہیں دی ۔ میں ایک صاحب سے مخاطب ہوا اور کہا سر میں ایک افسانہ لکھ لایا ہوں ۔ اُنہوں نے سر سے پاوں تک مجھے غور سے دیکھا ۔ اور کہا ۔
’’پھر میں کیا کروں ‘‘؟
’’ سر میں اسے آپ کے اخبار میں چھپوانا چاہتا ہوں ‘‘
حضرت نے بڑی بے رُخی سے جواب دیا ۔
’’نہیں نہیں ہم افسانے نہیں چھاپتے ‘‘
میں نے باہر واپس جانا چاہا ۔لیکن سامنے ایک کمرے کا دروازہ کھلا تھا ۔ اندر دیکھا تو ایک حضرت بیٹھے ہوئے تھے ۔ سیدھا اندر گھس گیا ۔ اُنہوں نے میری طرف دیکھا اور آنکھوں سے اشارہ کیا ۔ میں سمجھ گیا کہ حضرت آنے کی وجہ پوچھ رہے ہیں ۔ میں نے کاغذ اُن کی طرف بڑھایا ۔ اُنہوں نے کاغذ ہاتھ میں لیا اور پوچھا ۔
’’یہ کیا ہے‘‘؟
میں نے کہا ۔
’’سر یہ ایک افسانہ ہے‘‘
’’کہاں سے نقل کیا ہے‘‘ ؟
’’جناب خود میں نے لکھا ہے‘‘
’’جھوٹ بول رہے ہونگے‘‘
’’نہیں سر میں نے ہی لکھا ہے۔ خدا کی قسم ! میں اسے آپ کے اخبار میں چھپوانا چاہتا ہوں ۔ آپ ایک بار پڑھیے سر ۔ یہ بہت اچھا افسانہ ہے‘‘
اُس صاحب نے کاغذ پہ ایک نظر ڈالی ۔ اور کہا
’’اس میں بہت ساری غلطیاں ہیں ‘‘
میں نے کہا
’’جناب آپ بنا پڑھے کیسے کہہ رہے ہیں کہ اس میں بہت ساری غلطیاں ہیں ‘‘
صاحب کہنے لگے
’’ہمارا اخبار معیاری افسانے چھاپتا ہے ۔ آپ کا افسانہ نہیں چھپ سکتا ‘‘
یہ لفظ معیاری میری سمجھ سے باہر تھا ۔ میں نہیں سمجھ پایا کہ معیاری افسانہ ہوتا کیا ہے ۔ علاقے میں قلم کاروں کی کمی تھی ۔ ایک دو قلم کار تھے لیکن وہ باہر رہتے تھے ۔ کبھی کبھی ہی آ جاتے تھے ۔ میں اپنی ناکامی سے بہت مایوس ہوا ۔ میں نے بہت محنت سے لکھا تھا ۔ مجھے دکھ اس بات کا تھا کہ معیاری افسانے چھاپنے والے میرا افسانہ پڑھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔میں مایوس ہوگیا تھا اس لیے کسی اور اخبار کو بھیجنے کی ہمت نہیں ہوئی ۔
ایک دن نور عالم صاحب علاقے میں تشریف لائے ۔ نور عالم چھ کتابوں کے مصنف تھے ۔ نور عالم صاحب کے آنے کی خبر سُن کر مجھے ایک خیال سُوجھا اورمیں اپنا افسانہ لیکر نور عالم صاحب کے گھر پہنچا ۔ وہاں نور عالم صاحب چند اور لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ۔ میں نے سلام کیا نور عالم صاحب سے اپنا تعارف کروایا ۔ اورعرض کیا”جناب میں نے ایک افسانہ لکھا ہے ۔ میں آپ سے اس کی اصلاح چاہتا ہوں ۔ “یہ کہہ کر میں نے وہ کاغذ آگے بڑھایا ۔ نور عالم صاحب نے کاغذ ہاتھ میں لیا اور کہا
’’بیٹا اس وقت مجھے فرصت نہیں ہے ۔ میں کل اسے دیکھ لوں گا ‘‘
میں سلام کر کے واپس آیا ۔ پہلی بار ایک اُمید جاگی کہ نور عالم صاحب اس افسانے کی تصحیح کریں گے ۔ رات کو بار بار نور عالم کا خیال آرہا تھا کہ کتنا بڑا نام ہے ۔ کیسا نورانی چہرہ ہے۔ کم از کم افسانہ پڑھ تو لیں گے ۔ کچھ نہ کچھ صلاح ضرور دیں گے ۔ دو دن بعد صبح ناشتہ کرکے میں سیدھا نور عالم صاحب کے گھر کی طرف روانہ ہوا ۔ نور عالم صاحب کا گھر جوں جوں قریب آرہا تھا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔ دروازے کے قریب پہنچا تو ایک شخص باہر کی طرف آ رہا تھا ۔ اُنہیں روکا اور پوچھا
’’کیا نور عالم صاحب گھر میں ہیں ‘‘ ؟
اُنہوں نے مُنہ سے کچھ نہ بولا ۔ صرف سر سے اشارہ کر کے چل دیا ۔
میں اندر چلا گیا ۔ نور عالم صاحب سفید رنگ کے کرتے پائجامے میں ملبوس چائے نوش فرما رہے تھے ۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگے
’’آو بیٹا ۔ کیسے آنا ہوا ‘‘ ؟
میں نے کہا
’’جناب میں نے آپ کو جو افسانہ دیا تھا اصلاح کے لیے اُسے لینے آیا تھا ‘‘
نور عالم صاحب چونک پڑے اور ٹی پائی کے کنارے سے وہ کاغذ اُٹھا لیا جہاں اُس نے اُسے پہلے دن رکھا تھا اور کاغذ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔
’’بیٹا آپ نے جو لکھا ہے وہ افسانہ نہیں ہے ۔ دیکھئے افسانہ ، افسانچہ ، داستان ، ناول سب کہانی کی قسمیں ہیں ۔ آپ پہلے مطالعہ کیجئے پھر لکھیے ‘‘
میں نے کہا
’’ جناب کیا آپ نے اسے پڑھ لیا تھا‘‘ ؟
نور عالم صاحب نے بڑے اطمینان سے جواب دیا
’’ہاں ۔ میں نے اسے پورا پڑھ لیا‘‘
لیکن مجھے لگا کہ نور عالم صاحب جھوٹ بول رہے ہیں ۔ میں افسانہ ہاتھ میں لئے دروازے کے سامنے آیا اور نور عالم صاحب سے مخاطب ہوا
’’سر ۔ کیا میں آپ سے ایک سوال پوچھ سکتا ہوں ‘‘ ؟
’’ہاں ضرور پوچھئے ‘‘
’’ سرمیں نے یہ افسانہ کس بارے میں لکھا ہے‘‘ ؟
’’جی آپ نے۔۔۔ جی آپ نے۔۔۔جی آپ نے۔۔۔‘‘ نور عالم صاحب ہڑبڑا گئے ۔
میں نے نور عالم صاحب کے جھوٹے چہرے کی ایک جھلک دیکھ لی اور وہاں سے چل پڑا ۔مجھے ان لوگوں پہ بڑا غصہ آ رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ لوگ کتنے ظالم ہیں ۔ میری تحریر پڑھے بغیر اپنا فیصلہ سُنا دیتے ہیں ۔ چہرہ دیکھ کر کہہ دیتے ہیں کہ تحریر ناقص ہے ۔ تحریر کا چہرے سے کیا تعلق ۔؟ اب میری ساری اُمیدیں ختم ہو گئیں ۔ میں سوچ رہاتھا کہ میں نے فضول میں اپنا نام اخبار میں دیکھنا چاہا ۔ میں اپنی تحریر ڈائری میں لکھ کر خود پڑھ لیا کرتا تھا اپنے آپ کو ایک بڑا قلم کار سمجھتا تھا ۔ اور اگلی تحریر کے لیے اپنے آپ کو تیار کرتا تھا۔
جب سے چاہا کہ دوسرے لوگ میری حوصلہ افزائی کریں تب سے قلم مجھ سے دور بھاگ رہا تھا ۔میں نے اپنے حواس کو قابو میں کر لیا اور نئی تحریریں لکھنا شُروع کیں ۔ لیکن وہ افسانہ جس کو چھاپنے کے چکر میں میری حوصلہ شکنی ہوئی تھی آج بھی مجھے محبوب تھا ۔اُسے بار بار پڑھتا اور دل ہی دل میں خوشی محسوس ہوتی۔ کبھی کبھی میں اپنی تحریریں دوستوں کو بھی دکھایا کرتا تھا ۔ چھوٹی تحریریں خصوصاً طنزو مزاح والی مختصر تحریریں میرے دوست پڑھا کرتے تھے۔ لمبی تحریریں پڑھنے کا اُن کے پاس وقت نہیں تھا ۔ ہاں شعرو شاعری بڑے غور سے سُنتے تھے اور داد بھی دیا کرتے تھے ۔ ایک دن میرے ایک دوست شمیم میری ایک تحریر پڑھ رہے تھے کہ اچانک مجھ سے مخاطب ہوئے ۔
’’ارے اکرم ہمارے گھر امتیاز جوہر صاحب آئے ہوئے ہیں ۔ اُنہوں نے تین کتابیں لکھی ہیں ۔ بہت سارے اخباروں میں اُن کی تحریریں شائع ہوتی ہیں ۔ اُن کے فوٹو کے ساتھ‘‘
’’تو میں کیا کروں ‘‘ ؟ میں نے بے رُخی سے کہا ۔
’’آپ یہ ڈائری اُنہیں دکھائے‘‘
میں نے کہا ۔ ’’نہیں یہ ڈائری کسی کو دکھانے کی ضرورت نہیں ہے‘‘
’’آپ اُن سے ایک بار مل لیجئے ۔ بڑے اچھے انسان ہیں ‘‘
’’نہیں میں بہت سارے اچھے انسانوں سے مل چُکا ہوں ۔ اب مجھے اور نہیں ملنا‘‘ میں نے امتیاز جوہر سے ملنے سے صاف انکار کردیا ۔
دوسرے دن میں بیٹھا تھا کہ اچانک شمیم صاحب میرے کمرے میں داخل ہوئے اور زور سے دروازہ بند کرتے ہوئے میرے پاس پہنچے اور مجھ سے لپٹ گئے۔
’’ ارے ارے آپ کو کیا ہوا ۔ آپ ٹھیک تو ہیں ‘‘ میں نے حیرانگی سے پوچھا ۔
’’ارے یار کیا زبردست افسانہ لکھا ہے۔ جوہر صاحب بڑے متاثر ہوئے‘‘
’’کون سا افسانہ‘‘۔؟
’’وہی ’لکیر‘ ۔‘‘
’’اُنہیں یہ افسانہ کہاں سے ملا ‘‘
’’ارے وہ کاغذ جو آپ کی ڈائری میں رکھا تھا میں نے اُسے لیا تھا اور جوہر صاحب کو دکھا دیا ‘‘
’’کمینے میری اجازت کے بغیر وہ کاغذ آپ نے کیوں لیا تھا ‘‘
’’ارے اکرم چھوڑیئے یہ سب۔ میرے ساتھ چلیں جوہر صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں‘‘
’’بکواس بند کریں مجھے کسی سے نہیں ملنا ‘‘
’’ارے میں جوہر صاحب سے وعدہ کر چُکا ہوں ‘‘
’’تو اُن سے کہیے میں ملنا نہیں چاہتا ‘‘
’’ارے چلئے نا ۔ وہ آپ کی ڈائری دیکھنا چاہتے ہیں ۔ آپ کا افسانہ اُسے بہت پسند آیا ہے‘‘
’’ہاں ہاں میں جانتا ہوں مجھے سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ میرا افسانہ واپس لے آئیے مجھے اُن سے نہیں ملنا‘‘
شمیم حیران ہوکے مجھے دیکھنے لگا ۔ اور وہاں سے چل دیا ۔ مجھے شمیم پہ غصہ آ رہا تھا ۔
دوسرے دن صبح شمیم پھر وارد ہوا ۔ اُن کے ساتھ ایک چھوٹے قد کا آدمی تھا ۔ فرنچ کٹ داڑھی رکھے، گاگل پہنے ہوئے، سر کے آدھے بال غائب تھے ۔ میں نے سلام کیا اور بیٹھنے کے لیے کہا ۔ وہ مجھ سے ہاتھ ملانے لگا اور کہا’’آپ ہی اکرم شہباز ہو۔ میرا نام امتیاز جوہر ہے‘‘
میں شمیم کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ۔ شمیم برابر مسکرا رہے تھے۔
’’سر میں چائے کے لیے کہتا ہوں ‘‘
’’نہیں نہیں ہم چائے پی کر آئے ہیں ۔ در اصل آپ نے جو افسانہ لکھا ہے ۔ بڑا غضب کا افسانہ ہے ۔ یہ افسانہ پڑھنے کے بعد مجھے آپ سے ملنے کا شوق پیدا ہوا ‘‘
میرا سر شرم سے جھک گیا ۔ میں نے آہستہ سے کہا ۔ ’’سر میں آپ کے پاس آنے والا تھا ۔ لیکن ایک ضروری کام کی وجہ سے نہیں آ پایا ‘‘
’’ہاں ہاں شمیم نے مجھے بتایا ۔ بیٹا آپ نے اور کیا کیا لکھا ہے‘‘
’’جناب اس ڈائری میں میری کچھ تحریریں ہیں ۔ میں چاہتا تھا کہ یہ کسی اخبار میں آ جائیں اور لوگ انہیں پڑھیں۔ لیکن اخبار والے میری تحریریں نہیں چھاپتے۔ اُنہیں معیاری چاہیے ۔میری تحریریں معیاری نہیں ہیں ‘‘
جوہر صاحب مسکرائے۔ اور کہا ۔
’’کوئی بات نہیں بیٹا آپ اپنی تحریریں مجھے بھیجا کریں میں اُنہیں اخباروں میں شائع کرواوں گا ۔
اس کے بعد جوہر صاحب کی سفارش سے میری تحریریں اخبارات اور جریدوں میں چھپنے لگیں ۔ لوگوں کے خطوط آنے لگے ۔ آہستہ آہستہ جوہر صاحب کی سفارش کی بھی ضرورت نہیں پڑھی ۔ بڑے بڑے ایڈیٹر مجھے خط لکھا کرتے اور اُن کے اخبار کے لیے لکھنے کی فرمائش کرتے۔
آج میری کہانی سُن کر میرا بیٹا ہنستا ہے اور کہتا ہے ڈیڈی اُس زمانے کے انسان کی سوچ تنگ تھی ۔ آج ایسا نہیں ہے ۔ آج اگر تحریر میں دم ہو تو کوئی بھی لے لے گا ۔ اب کسی جوہر کی سفارش کی ضرورت نہیں ۔
میں نے بھی سوچا بیٹا صحیح کہہ رہا ہے ۔ آج کمپیوٹرا ور انٹرنیٹ کا دور ہے ۔ پھر مجھے خیال آیا کیوں نہ ہم اس زمانے کو بھی آزمالیں ۔ میں نے ایک نیا سِم خرید لیا ۔ ایک نیا فیس بُک اور نیا واٹس ایپ اکاونٹ کھولا اور ایک افسانہ ’آنچل ‘ لکھا ۔ ’’کاروان‘‘ اخبار کا ایڈیٹر میرے لڑکے کا دوست تھا ۔ میں نے پہلے اُسی کو آزمایا ۔ میں نے آنچل اُسی کو میل کر دیا ۔ میں نے اپنا نام انور خفی رکھ دیا ۔
دوسرے دن ’کاروان‘ کے ایڈیٹر اجمل مرزا کو فون کردیا اور کہا
’’جناب میں ایک نیا قلم کار ہوں آپ کے اخبار کو ایک افسانہ آنچل بھیج دیا تھا ۔ اُمید کرتا ہوں کہ اس اخبار میں آجائے ۔
مرزا صاحب کہنے لگے ۔ ’’دیکھئے سر میں میل چک کرتا ہوں ۔ اگر آپ کا افسانہ معیاری لگے تو اُسے ضرور جگہ ملے گی ‘‘
دو دن بعد میں نے پھر فون کیا ۔ اور پوچھا ۔ جناب میرے افسانے آنچل کا کیا ہو ا۔
مرزا صاحب نے بڑے اطمینان سے جواب دیا ۔
’’دیکھئے جناب آپ کا افسانہ بہت کمزور ہے ۔ آپ پہلے مطالعہ کیجئے۔ اچھے افسانہ نگاروں کو پڑھئے پھر لکھنا شُروع کیجیے ۔ میں معذرت خواہ ہوں یہ افسانہ اس اخبار میں نہیں آئے گا ‘‘
میں نے کہا’’مرزا صاحب آپ تجربہ کار آدمی ہیں ۔ آپ مجھے مشورہ دیجیے کہ میں کس افسانہ نگار کے افسانوں کا مطالعہ کروں ۔ مجھے کوئی آئیڈیا نہیں ہے‘‘
’’دیکھئے آپ منٹو کو پڑھ لیجیے ۔ پریم چند کو پڑھ لیجیے عصمت چغتائی کے افسانوں کا مطالعہ کیجئے یا آج کے نامور قلم کار اکرم شہباز کے افسانوں کا مطالعہ کیجیے ۔لکھنے کے لیے پہلے مطالعہ بہت ضروری ہے‘‘۔
میں نے مرزا صاحب کا شکریہ ادا کیا اور فون رکھ دیا ۔
اکرم شہباز نام سے شہرت پانے کے لیے جوہر صاحب نے میری مدد کی تھی آج انور خفی کے نام سے شہرت پانے کے لیے میرے پاس اکرم شہباز کی سفارش ہے ۔ لیکن میں ایسا کرنا نہیں چاہتا ۔

Published inعالمی افسانہ فورممحمد شفیع ساگر

Be First to Comment

Leave a Reply