عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ ۔۔ 100
“قصور وار!”
افسانہ نگار۔ پروفیسر اسلم جمشید پوری ، میرٹھ
میدان حشر میں اس وقت عجیب حالات ہو گئے جب فرشتے رام پال کو کھینچتے ہوئے خدا کے حضور لائے۔
’’ خدا ئے لم یزل………یہ کافر ہے…اس کا کیا حساب کرنا۔ یہ تو جہنم میں ہی جائے گا۔ ؟‘‘
اس سے قبل کہ کوئی فیصلہ ہو تا، رام پال ، روتے گڑ گڑاتے ہوئے خدائے بزرگ و برتر سے بو لا۔
’’ اے مسلمانوں کے خدا،…کرپا، دیا، مجھ پر کچھ ترس کھاؤ۔ مجھے نرک میں کیوں بھیج رہے ہو۔میرا کسور کیا ہے؟ یہی نا کہ میں مسلمان نہیں ،ایک ہندو، ہاں،ہاں کاپھرہوں۔‘‘
جیسے ہی رام پال چپ ہوا ایک فرشتے نے زور سے ڈانٹا۔
’’ خدا سے تمیز سے بات کرو…تمہارا قصور یہی کیا کم ہے کہ تم نے اپنی پو ری زندگی کفر میں گذار دی۔دیوی، دیوتاؤں کو پوجتے رہے۔ تم ہر شکتی شالی چیز کی پو جا کرتے تھے۔ یہ سب سے بڑا شرک ہے۔خدا سب کچھ معاف کرسکتا ہے،شرک نہیں۔‘‘
’’سرک…..یہ سرک کیا ہو تا ہے؟‘‘رام پال حیرت واستعجاب سے سوال بن گیا۔
’’ اللہ کی ذات کے برا بر کسی کو سمجھنا اور ماننا اور اس کی پو جا کرنا،شر ک ہے۔‘‘
’’ ٹھیک ہے…پر مجھے پتہ نہیں تھا… ہے بھگوان…. سوری سوری ،خدا پہلے میری بات سن لو۔پھر مجھے جو سزا دو گے میں مان لوں گا۔ ‘‘
رام پال کو اپنی بات رکھنے کا مو قع دیا گیا۔
…………………
میں رام پال،بلند شہر کے معروف پنڈت گھرانے شیام لال کا بیٹا ہوں۔میرا جنم دیش آ زا د ہو جانے کے دوسال بعد ہوا۔ اس حساب سے مرنے سے پہلے میری آیو66برس تھی۔میرا بچپن کھیلتے کودتے گذرا، میں چوک بازار میں رہا کرتا تھا۔جہاں میرے دو مسلم دوست سلمان اور فیصل بھی رہا کرتے تھے۔ ہم لوگ ساتھ ساتھ کھیلتے،پڑھتے بڑے ہوئے۔ میں کبھی کبھار ان کے گھر بھی چلا جایاکرتاتھا۔فیصل کے گھروالے زیادہ دھارمک تھے۔ سلمان ،فیصل اورمیں نے ایک سا تھ دسویں کا امتحان پاس کیا۔سلمان اور میں آ گے کی پڑھائی کے لیے علی گڑھ چلے گئے۔ علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی میں مسلمانوں کی کیا شان بان ہے۔سرو سرومیں، میں ڈرا ڈرا سا رہا کرتا تھا۔ بعد میں سلمان نے میرے ڈر کو دور کیا اور میں وہاں بھی گھل مل گیا۔ ویسے وہاں کئی لڑکے بڑے کٹر قسم کے تھے،وہ مجھے پسند نہیں کرتے تھے اور کبھی کبھا ر تو مجھے کاپھر تک کہہ دیتے تھے۔ مجھے شروع میں کاپھر کے مطلب بھی پتہ نہیں تھے۔مگر میں نے اپنا دھیان ہمیشہ پڑھائی پر رکھا۔ تعلیم کے بعد مجھے ایک اچھی نوکری مل گئی۔میں پاور کارپوریشن میں انجینئر بن گیا تھا۔‘‘
’’ٹھیک ہے…..ٹھیک ہے…. یہ سب ہمیں پتہ ہے، تمہارا ایک ایک لمحہ ہمارے پاس ریکارڈ ہے…
’’ آگے بتاؤ…..تم کہناکیا چاہتے ہو۔‘‘ بیچ میں ٹوکتے ہو ئے ایک فرشتے نے کہا۔
’’ اوہ! سوری……مجھے پتہ ہے کہ آپ کو سب پتہ ہے۔ یہی تو میں بھی کہہ رہا ہوں کہ پاور کارپوریشن میں میری ایک اسسٹنٹ شمع تھی۔ اکثر آفس کی باتوں کے علاوہ شمع اپنے دھرم کے بارے میں بات کرتی۔ میں چپ چاپ سن لیتا‘‘ جیسے ہی رام پال سانس لینے کو رکا آواز آئی
’’جلدی کرو…….وقت کم ہے…دو زخ کے کارندے تمہارا انتظار کررہے ہیں۔‘‘رام پال کانپ گیا۔
’’میں قسم کھا کے کہتا ہوں کہ میں نے کبھی کوئی گلت کام نہیں کیا۔ آپ میرے ڈرائیور حیدرعلی سے پوچھ لو۔ میں نے کبھی رشوت نہیں لی۔ کسی کا برا نہیں کیا۔میری ہمیشہ یہ کوشش رہتی کہ میں سماج سیوا کے کام کروں۔ میں نے گاندھی میموریل اسپتال میں اپنے پیسوں سے دو کمرے بنوا کر دیے۔ دو مسلمان غریب عورتوں کی آنکھوں کے آپریشن اپنے پیسوں سے کرائے۔ میں ہر سال بے سہارابچوں کی شادی بھی کرواتا تھا۔ میرے در وا زے پر کوئی بھی آتا، میں اسے مایوس نہیں کرتا۔ ہر منگل کو برت رکھتا تھا اور اس دن گیارہ بھوکے لوگوں کو کھانا کھلاتا تھا اور…….‘‘
اس کی بات ادھو ری رہ گئی۔ ایک فرشتہ غصہ میں بولا۔
’’تم ہمارا وقت خراب کررہے ہو۔ یہ سب کیوں سنارہے ہو۔ ہمیں سب علم ہے۔‘‘
’’بس__بس__پانچ منٹ………‘‘ رام پال ہاتھ جوڑ کر گڑ گڑا یا۔
’’ ایک بار کی بات ہے۔ میرے پڑوس میں تبلیگی جما عت کے لوگ آ ئے۔ وہ کیا کہتے ہیں…گھومنے،نہیں نہیں…سمجھانے جو آ تے ہیں…گست کرنے۔ انہیں پتہ نہیں تھا۔ انہوں نے میرے دروازے کی بیل بجا دی۔ جیسے ہی میں باہر آیا…میرے پڑوسی سید محمد علی دوڑتے ہوئے آ ئے اور جمات والوں کو یہ کہتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے کہ ارے آپ گلت گھر چلے آئے، وہ تو رام پال ہیں، یعنی کاپھر ہیں۔…….میں حیرت سے اپنے پڑوسی کو دیکھتا رہ گیا۔‘‘
وہ گلہ صاف کرکے پھر شروع ہوگیا۔
’’ میں نے ہندو بھائیوں کی بھی مددکی۔ میں دھرم کے معا ملے میں بہت سخت تھا۔ میرا پو جا کا سمے صبح پانچ بجے سے سات بجے تک ہو تا تھا۔اس بیچ میں کوئی کام نہیں کرتاتھا۔ دل سے بھگوان کویاد کرتا۔میں اپنے ہر بھگوان کی پوجاکرتا اور دوسروں کو بھی پو جا میں بلا تا۔ ہاں مجھے یاد آ یا میں نے بابا آشا رام کو یگیہ اور کتھا کرنے کے لیے بڑی بڑی رکمیں دیں۔میں ہر مہینے ہنومان مندر اور شیومندرمیں اچھا خاصا چڑھا وا چڑھاتا تھا۔‘‘
کچھ دیر بعد وہ مزید روتے ہوئے بو لا۔
’’ میں سچ کہہ رہا ہوں میں نے کبھی چوری نہیں کی،میں نے کسی کو قتل تو کیا، تھپڑ تک نہیں ما را،آفس میں بھی، اپنے ماتحتوں کو کبھی کوئی برا بھلا نہیں کہا۔ یہی نہیں میں تو ہمیشہ ہندو، مسلم ایکتا کے لیے کام کرتا رہا۔ آپ کو تو پتہ ہی ہوگا۔‘‘وہ ایک فرشتے کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
’’بلند شہر میں جب’’ 1991ء میں فساد ہوا اور ایک بے چارے حاجی ابدل اجیج کا قتل ہو گیاتو پورے شہر میں افرتفری مچ گئی۔میں نے اپنے محلے کے تین مسلمانوں کو اپنے گھر میں چھپایا اور ان کی ہر طرح کی خد ت۔کئی دن بعد جب حالات کچھ ٹھیک ہوئے تومیں انہیں ان کے گھر پہنچا کرآیا۔ بعد میں، میں نے ہندو مسلم ایکتا منچ بنایااورسب نے مل کر شہر کی حفاظت کا ذمہ لیا۔‘‘
’’ٹھیک ہے…….تم یہ سب کیوں بتا رہے ہو…‘‘ایک فرشتہ جسے بہت غصہ آ رہاتھا بے قابو ہوتا ہوا بولا۔
’’ بس…دو منٹ اور….جب ہمارے محلے میں مسجد بن رہی تھی تو میں نے دس ہزار روپے چندہ دیا جسے تین دن بعد مسجد کمیٹی کے ہاجی غلام محمد نے یہ کہہ کر وا پس کردیا کہ تم کاپھر ہو، اور ہم مسجد میں کسی کاپھر کا ایک رو پیہ بھی نہیں لگاتے۔میرے دل کو بہت چوٹ پہنچی۔پر میں نے اف نہیں کیا۔پیسے لے کر پڑوس کی ایک مسلمان بیوہ عورت کو بھجوادیے۔
’’ بس ایک بات اور……..میں اپنے ڈرائیور حیدر علی کو بھی بہت مانتا تھا۔ وہ بے چارہ بڑامحنتی اور ایماندار تھا۔لیکن اس کے گھر کے حالات ٹھیک نہیں تھے۔ تین تین بچے اور میاں بیوی۔ اس تنخواہ سے اس کا گذر بسر مشکل سے ہو پاتا تھا۔ ایک بار اس کے ایک لڑ کے کو ایک کار وا لے نے ٹکر ماردی۔ وہ بری طرح زخمی ہو گیا تھا۔ سر پربہت زخم تھا۔ فوراْ آپریشن ہو نا تھا، جس میں تقریباً ایک لاکھ رو پے کا خرچ تھا۔بے چا رہ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے مانگتا پھرا۔کل چالیس ہزار ہی جمع ہوپائے۔ مجھے نہیں بتایا لیکن جیسے ہی مجھے پتہ چلا، میں پیسے لے کر اسپتال گیا۔ بچے کا آپریشن ہوا اور بھگوان کی کرپا سے بچہ بچ گیا۔‘‘
وہ سانس لینے کو رکا اور پھر سر جھکا کر بو لا۔
’’بس میری بات پو ری ہو گئی…………‘‘
’’ یہ تو سب ہمیں پتہ تھا۔ تم نے کیوں وقت خراب کیا۔ چلو جہنم میں تمہارا انتظار ہو رہا ہے۔‘‘
’’پر میرا کسور کیا ہے۔‘‘ وہ ایک بار پھر گڑ گڑاتے ہوئے بولا۔
’’ بھئی تمہارا کافر ہونا،شرک کرنا، یہ ایسا قصور اور گناہ ہے کہ تم ہمیشہ جہنم میں جلو گے۔ہزاروں اور لاکھوں برس جلوگے۔ تمہیں باربار زندہ کیا جائے گا اور اسی طرح ہمیشہ جلتے رہو گے۔‘‘ فرشتے نے بڑی غضب ناک نظروں نے رام پال کو دیکھا۔وہ کانپ کر رہ گیا۔
’’ پر میرے کپھریا سرک میں میرا کسور کہاں ہے؟ میرا کسور جب ہوتا، جب مجھے کسی نے سمجھایا ہوتا۔ مجھے کپھربتایا جاتا، مجھے کپھر سے دور رہنے کو کہا جاتا۔ میرا دوست فیصل جو خود بہت مذہبی تھا، میرے پڑوسی سید محسن علی،میری اسسٹنٹ شمع، یونیورسٹی کیمپس کے میرے دوست اور ٹیچر…میر ا ڈرائیور حیدرعلی…..تبلیگی جما ت کے لوگ،مسجد کمیٹی کے حاجی غلام محمد۔۔.یہ سب کے سب کسور وار ہیں۔ان میں سے کسی نے مجھے اسلام کے بارے میں نہیں بتایا۔‘‘
وہ اپنے آس پاس کھڑے فیصل، سید محمدمحسن علی، حیدر، غلام محمد کی طرف گھوم کر زور سے بولا۔
’’ ان سے پوچھو…….انہوں نے مجھے کاپھر تو کہا، لیکن اسلام نہیں بتایا…اگر میں کسور وار ہوں تو مجھ سے زیادہ یہ سب لوگ کسور وار ہیں، ان کے بھی سورگ داکھلے پر پابندی لگاؤ اور انہیں بھی میرے ساتھ کرو ….‘‘
فرشتے حیران سے رام پال کو دیکھ رہے تھے۔ان کا اس صورتِ حال سے پہلی بار سامنا ہوا تھا۔وہ رام پال کی ہمت پر بھی حیران تھے۔
کچھ ہی دیر بعد خدائے بزرگ و برتر کی جلال آمیز آوازابھری۔
’’ مجھے رام پال کی ادا پسند آئی۔ اسے جنت میں داخل کیا جائے اور اصل قصور وار اپنی پنی سزائیں کاٹ کر جنت میں جائیں گے۔‘‘
رام پال کے چہرے پر خوشی کی لالی پھوٹ رہی تھی اور آنسو اس کے دامن کو بھگو رہے تھے۔
’’ارے کب تک سوتے رہو گے۔اٹھو سورج دیوتا نکل آئے ہیں۔سوریہ نمسکار کرنا ہے۔‘‘
بیوی کے جگانے پر رام پال کا خواب ٹوٹ گیا تھا,لیکن آنکھیں کھل گئی تھیں۔انہوں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا
’’ میں آج سوریہ نمسکار نہیں کروں گا…‘
Be First to Comment