Skip to content

غیرت

عالمی افسانہ میلہ “2019”

افسانہ نمبر ۔65

“غیرت”

افسانہ نگار ۔۔ ایم۔اے۔فاروقی ۔ بنارس، انڈیا

حافظ لڈن کا بیان ہے کہ ہم نئے نئے جوان ہوئے تھے، بازو کی بجلیاں پھڑکنے لگی تھیں، جسم سے شرارے ایسے چھوٹتے،جیسے دو بجلی کے ننگے تار آپس میں ٹکراگئے ہوں، پڑھنے لکھنے کا رواج کم تھا، ایک چھدام بھی جیب میں ہوتا تو خود کو نواب سمجھتے،بدھن کا بیٹا فیکے ہمارا سرغنہ تھا، مردود دیکھنے میں جھاڑو کا تنکا لگتا تھا،مگر اس کا دماغ شیطانی چرخہ تھا، بدمعاشیوں کے نت نئے طریقے ایجاد کرتا ،دن سیر سپاٹا اور آوارہ گردی میں گزارتے، شام کسی تاڑی خانے میں ہڑدنگ مچاتے، ہماری ٹولی کو لوگ شیطانوں کی ٹولی کہتے۔

ایک روز عادت کے مطابق شام کو ہم سب نے تاڑی پی، دماغ گرم ہوا تو فیکے نے تجویز رکھی ؛چلو یارو جھانگا بائی کے کوٹھے پر چلتے ہیں، گانا وانا سنیں گے اور عیاشی کریں گے، سنا ہے اس کے کوٹھے پر تازہ مال آیا ہوا ہے۔

ابے گدھو!سب تو ٹھیک ہے، لیکن یہ تو بتاؤ کسی کے گرہ میں دام بھی ہے، ہوں گھر میں نہیں دانے میاں چلے بھنانے

سارے دوستوں کو سانپ سونگھ گیا

فتو فقیرو اکنی دونی رکھ کر کوٹھے پر مجرا سننے جاؤ گے، فیکے مسکراتا رہا،اس کی مسگراہٹ بڑی پر اسرار تھی، سب اس کی طرف دیکھنے لگے، اس نے ہنستے ہوۓ کہا: اطمینان رکھو میں نے انتظام کر لیا ہے اور پھر اس نے ایک پوٹلی سے کھنکتے ہوئے بیس سکے نکالے، سب ایک ایک سکہ لے کر دیکھنے لگے ،یہ سکے ملکہ وکٹوریہ کی تصویر والے خالص چاندی کے تھے،

میں نے اس کا گریبان پکڑلیا:’جلدی بتا کہان سے چرایا ہے حرام جنے، ابے چوری کے الزام میں ہم سب کو پھنسوائےگاکیا؟”

“نہیں؛ تیرے چٹیل میدان کی قسم میں نے چرایا نہیں ہے، دادی کے پرانے والے بکس میں نہ معلوم کب سے پڑے تھے، ان کا کوئی مصرف تو تھانہیں، امان سے پوچھ کر لے لیا۔”

ہم چار دوست جھانکا بائی کے ڈیرے کی طرف چل پڑے،پانچواں رمجو اپنے ابا کی قمچیوں کے خوف سے بھاگ نکلا۔

زینے پر اندھیرا تھا، ہم لوگوں میں کھسر پھسر ہونے لگی کہ بائی جی سے کون بات کرے گا،مین نے ہمت دکھائی: نامردو! آگے بڑھو میں بات کروں گا، کوٹھے پر دھندھلی سی روشنی تھی، مین نے تو سنا تھا کہ بڑی رونق رھتی ہے، سازندے ساز بجاتے رہتے ہیں اور خوب صورت لڑکیاں رقص کرتی ہیں، مگر یہاں تو سناٹا ہی سناٹا تھا، جھانکا بائی بڑے ٹھسے سے تخت پر پیتل والا پاندان کھولے بیٹھی تھی، ہم لوگ ڈرتے ڈرتے اس کے قریب گئے، اس نے ہاتھ کے اشارے سے خستہ قالین پر بیٹھنے کو کہا، ہمیں پان کی گلوریاں دیں، سامنے چلمن پڑی ہوئی تھی، اس کے پیچھے سائے سے نظر آرہے تھے، بڑھیا نے ہم لوگوں کا جائزہ لیا، پھر پوچھا؛” گانا وانا سننے آئے ہو کہ کچھ اور.۔۔۔۔۔۔۔

اگر کچھ اور چاھئے تو چلمن اٹھا کر اند چلے جاؤ اور پسند کر لو،”

عیاشی کا وقت آیا تو ہم سب ہمت ہار بیٹھے، صرف فیکے اندر گیا، بقیہ لوگ چپکے بیٹھے رہے، بڑھیا نے پرانی باتیں چھیڑدیں

” کوٹھوں کی رونق تو نوابوں کے دم سے تھی، نوابی کیا گئی، رونق ہی ختم ہوگئی، ان کی اولادیں نکھٹو نکل گئیں، تمھاری ماؤں نے مرد جننا بند کر دیا ہے کوئی ادھر پھٹکتا ہی نہیں،تم لوگ کہاں سے بھول پڑے؟

ابھی ہم بات کر ہی رہے تھے کہ کچھ زنانہ شور سنائی دیا، دیکھا تو آگے آگے فیکا تھا، اس کے پیچھے کچھ لڑکیاں قہقہہ لگاتے ہو ئے آرہی تھیں، ان میں سے ایک نے کہا ؛” اماں یہ قبرستان سے مردے کا ڈھانچہ کیوں اٹھالائیں،” وہ پھر ہنسنے لگیں

ہم نے فیکے کو دیکھا اس کا چہرہ اترا ہوا تھا، کہنے لگا:” یار یہ سب چڑیل ہیں جلدی سے یہاں سے بھاگو،”

بڑھیا نے طنز بھرے لہجے مین کہا:” لونڈو!ابھی دودھ کے دانت ٹوٹے نہیں اور عیاشی کرنے چلے آئے، جاؤ بلوغت کے بعد یہاں آنا، ہاں جو کچھ جیب میں ہے، اسے یہیں ڈھیر کردو ورنہ فریدے اور شیدے کو بلاتی ہوں،”

فیکے نے سارے کھنکتے سکے اس بڑھیا کے حوالے کر دئے، ہم لوگ وہاں سے جو بھاگے تو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا،

دوسرے دن ہم لوگ ملے تو سارا غصہ فیکے پر اتارنے لگے، اس کمینے کی وجہ سے ہماری اس قدر بے عزتی ہوئی، رمجو تو تیر پر تیر چلائے جارہا تھا:” کمینو کی کتّی جوانیاں قابو میں ہی نہیں آرہی ہیں، چلے تھے عیاشی کرنے، ارے اس کے لئے دل گردہ چاھئے، چلو رشید کھانڈا کے پاس چلتے ہیں، پرانے کھلاڑی ہیں کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکالیں گے،”

ہم لوگ رشید کھانڈا کے پاس گئے، انھیں پورا واقعہ بتلایا، کہنے لگے:” بچو!تم جانتے ہو، میں نے حج کر لیا ہے، خانۂ کعبہ کا غلاف پکڑ کر اللہ سے وعدہ کر لیا ہے کہ اب کوئی بدمعاشی نہیں کرونگا ،”

ہم لوگوں نے رشید کھانڈا کے پاؤں پکڑلئے:” حاجی صاحب کچھ کیجئے، جھانکا بائی نے ہمارے پیسے گٹک لئے اور نامراد واپس کردیا۔”

حافظ جی یہ رشید کھانڈا کون تھا؟

حافظ جی نے بریک لگاتے ہوئے دخل در معقولات کرنے والے کی ماں بہن کی خبر لی اور بیان جاری رکھا۔

رشید کھانڈا بڑا دل والا بندہ تھا،اس کی مونچھوں کو دیکھ کر دماغ میں فورا کھانڈا کا تصور ابھر آتا، لڑائی بھڑائی میں ماہر، بنوٹ اور گتکا میں تو دور دور اس کا کوئی مقابل نہیں تھا، شہدے، چھٹے ہوئے بدمعاش، جیب کترےاور آوارہ گرد لونڈے اسے سلامی دیتے اور اپنی آمدنی کا ایک حصہ اس کی نذر کرتے، نماز روزہ سے کوئی مطلب نہیں رکھتا تھا،مگر اذان کی آواز کان میں پڑتی یا مسجد سامنے پڑجاتی تو فورا سر پہ رومال باندھ لیتا، اسلام کے نام پر مر مٹنے کے لئے ہر وقت تیار رہتا، غیرت کا وہ پتلا تھا، ماسٹر اسلام کی عزت اسی لئے کرتا کہ ان کا نام اسلام تھا، وہ جیسے ہی سامنے سے گزرتے کھانڈا ان کی تعظیم میں اٹھ کھڑا ہوتا، ایک بار کسی چیلے نے خبر دی؛ استاد! ماسٹر صاحب اور ان کی بیوی میں لڑائی ہورہی ہے، بس استاد کھانڈے نے آواز لگائی:” لڑکو!نکل پڑو، اسلام خطرے میں ہے،” لشکر لے کر پہنچ گئے اور للکار لگائی:’ ماسٹر صاحب ڈرنا نہیں، ہم آگئے ہیں، نعرۂ تکبیر،”

بڑی مشکل سے ماسٹر صاحب نے سمجھایا کہ یہ میاں بیوی کی معمول کی کھٹا پٹ ہے، کفر و اسلام کی جنگ نہیں۔

ایک بار تو حد ہوگئی، ایک چیلے نے یوں ہی بات میں بات نکالی:” استاد کیا زمانہ آگیا ہے، گُلما کے بیٹے مچھندر نے شدّو فقیر کی بیٹی سے شادی رچالی، “

کھانڈا نہ جانے کن خیالوں میں گم تھا ، چونک پڑا:’ہائیں کیا کہا؟شادی رچالی، پھر تو غضب ہوگیا، تین چار لونڈوں کو تیار کیا، ان سے گلما کا محلہ اور گھر پوچھا، نیفے میں رامپوری چاقو اڑسا اور چل پڑا گلما کی خبر لینے

دروازے پر دستک دی، گلما باہر نکلا اور نرمی سے پوچھا:” بھیا آپ لوگ کون ہیں؟ مجھ سے کوئی کام ہے؟

کھانڈا سخت غصے میں تھا، فورا نیفے سے چاقو نکالا، کڑکڑا کر کھولا اور بولا :’ تیری ہمت کیسی ہوئی ایک مسلمان کی لڑکی سے شادی کرنے کی، آج تیری خیر نہیں،’

گلما تھر تھر کانپنے لگا:” سرکار مجھ سے کچھ غلطی ہوگئی ہے، سب کچھ تو شدو کی راضی خوشی سے ہوااور بھیا آپ کیا کہہ رہے ہیں میں بھی مسلمان ہوں، میرا نام شیخ غلام رسول ہے، میرے بیٹے کا نام غلام غوث ہے، اب بھی یقین نہیں آیا تو ایک منٹ رکیں،”

گلما اندر گیا اور اپنی روئی دھننے کا سامان اٹھالایا، یہ مُٹھیا دیکھئے کسی غیر مسلم کے پاس ہوتی ہے؟”

کھانڈا کو اپنی بے وقوفی پر ہنسی آگئی، کھودا پہاڑ نکلی چوھیا، اور فورا معافی مانگ لی

کھانڈا ایک بار سیر سپاٹے کے لئے اپنے چیلوں کے ساتھ دیہات کی طرف نکلا، گاؤں سامنے دکھائی دیا، کھیت میں ایک کسان بیج ڈال رہا تھا، اس سے پوچھا کون گاؤں ہے اس نے گاؤں کا نام اسلام پور بتلایا فورا سر پر رومال باندھا اور چپل اتار دی ،حالاں کہ وہ خالص ہندوؤں کی بستی تھی۔

کسی نے حافظ جی کو پھر لقمہ دیا:” حافظ جی آپ پٹری سے اتر گئے، آپ جھانکا بائی کا قصہ بتا رہے تھے،”

اس بار حافظ جی نے برا نہیں مانا، صرف اتنا کہا:” بھائی سن لو ایسی کہا نیاں سننے کو نہیں ملیں گی،”

کھانڈا کو لوگ عیاش غنڈہ سمجھتے تھے، لیکن کسی شریف عورت کو اس نے کبھی نظر اٹھا کر نہیں دیکھا، ہاں کوٹھوں کا وہ رسیا تھا،بہت کم راتیں اس کی گھر پر کزرتیں، شادی بیاہ کی جھنجھٹ سے وہ آزاد تھا۔

اب اصل قصہ کی طرف آتے ہیں، بہت منت سماجت کی تو کھانڈا کی غیرت جاگ اٹھی، شعلہ بھڑکا تو ہم نے بھی اس میں گھی ڈال دیا:” دیکھئے حاجی صاحب محلے کی عزت کا معاملہ ہے، توبہ ٹوٹ گئی تو پھر توبہ کرلیں گے، دوبارہ حج کرنا بھی مشکل نہیں ہے، لیکن عزت چلی گئی تو آپ کی ناک کٹ جائے گی، اس نے ہم سب کو یہ کہہ کر واپس کردیا کل دوپہر میں آنا، آج رات اس کے کوٹھے پر جاتا ہوں، میں بھی تو دیکھوں یہ جھانکا بائی کتنے پانی میں ہے۔

دوسرے دن ہم لوگ دوپہر میں خوش خوش گئے کہ کھانڈا نے جھانکا بائی کا دماغ صحیح کردیا ہوگا۔

کھانڈا چارپائی پر بیٹھا حقہ گڑگڑا رہا تھا، ہم لوگوں کا خیر مقدم کیا، ہم لوگ منتظر تھے کہ اب ہمیں وہ خوش خبری سنائے گا، مگر اس نے تو منھ میں گھگھنیاں ڈال لی تھیں

بلآخر مجھے کہنا پڑا:” حاجی صاحب کچھ تو بتائئیے کیا ہوا؟ لگتا ہے کہ محلے کی عزت داؤں پر لگا کر آئے ہیں،”

کھانڈا نے حقے کی نے ہٹائی، پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا:” بچو میں معذرت چاہتا ہوں ، تم لوگوں کا کام نہیں کر سکا،تم لوگوں کے جانے کے بعد میں نے بہت غور کیا،دل نے کہا بیٹے کھانڈا ! ساری زندگی بے غیرتی کا کام کرتا رہا، غیرت کا موتی پہلی بار تیرے ہاتھ آیا ہے، اب اسے اپنی نادانی سے گنوا مت دینا، مجھے تم لوگ معاف کردو اپنے رب سے میں نے وعدہ کر لیا ہے کہ اب کوئی بدمعاشی نہیں کروں گا، جو کچھ ہوجائے اس وعدے کو توڑ نہیں سکتا، غیرت کا معنی تو اب سمجھ میں آیا ہے۔

پھیکے کی رقم ڈوبی تھی وہ تپا ہوا تھا، پھٹ پڑا:” ہوں؛ نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی، ایک وقت کی نماز تو پڑھتے نہیں، چلے ہیں دین داری بگھارنے،”

یہ سن کر کھانڈا ہڑبڑا کر اٹھااور تیز قدموں سے ایک طرف چل پڑا، ہم بھی اس کے پیچھے چلے، وہ محلے کی مسجد میں گھس گیا، ہم واپس آگئے۔

دوسرے دن یہ بھیانک خبر ملی کہ کھانڈا ظہر سے عشا تک مسلسل نماز پڑھتا رہا، عشا کی آخری رکعت کے سجدے میں گیا تو اٹھا ہی نہیں۔

رہے نام اللہ کا ۔

Published inایم اے فاروقیعالمی افسانہ فورم
0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x