Skip to content

غار

عالمی افسانہ میلہ 2019

افسانہ نمبر 122

غار

نجمہ محمود علی گڑھ ۔ انڈیا

وجودِ مطلق کی بارگاہ میں سربسجود ہونے اور دعا کرنے کے بعد اُس نے باہر نکل کر تھوڑی دیر چہل قدمی کی۔ صبح کے دھندلکے اسے مسّرت بخش لگے ۔ تازہ ہوا میں دیسی گلابوں کی مہک بسی ہوئی تھی ۔ لان پر لگی گھاس اسے بےحد خوبصورت لگی ۔ اُسے محسوس ہوا جیسے جھاڑیاں اور پودے مسکرا رہے ہوں ۔ اس کے کمرے کی کھڑکی کے عقب میں لگا ہوا شہتوت کا درخت ۔۔۔ چہار دیواری کے اِدھر قطار لگے ہوئے اشوک ، پام ، گل مہر ، گل چینی ، بیلا اور کوچیا سب اُس سے ہم کلام ہوئے ۔ سبزہ جو ہمارا قدیمی رشتہ دار ہے ۔ چہل قدمی کے بعد اُس نے کچن میں جا کر چائے بنائی ۔ کین کی کرسی ، چھوٹی میر ، ایک دن پہلے کا اخبار اور اُس پر رکھا ہوا کارڈ اٹھا کر لان پر آگئی ۔ چند لمحے گہری سانسیں کھینچیں ۔۔۔ یوگا ۔۔۔۔ ” ٹائمز آف انڈیا” میں روزانہ شائع ہونے والا کالم سامنےتھا ۔ ” Scared Space” جس کا پہلا اقتباس یوں تھا ۔

” سب خوش رہیں ۔۔۔۔ سب صحت مند رہیں ۔ ہر شخص محسوس کرے کہ اچھائی کیا ہے ۔ کوئی دکھی نہ رہے “۔ رِگِ وید ۔

اخبار رکھ کر اُس نے وہ پکچر پوسٹ کارڈ اُٹھا لیا جو اسکی بھانجی منالی سے لائی تھی کہ اُسے معلوم ہے کہ اس کی ان خالہ کو پہاڑوں ، غاروں ، مہاتماؤں ، اور ویدوں سے گہری دلچسپی ہے ۔ کارڈ پر ایک پہاڑی منظر ، وسط میں درختوں سے گھری ایک عمارت اور اس کے پیچھے برزبانِ انگریزی ایک عطارت جس کا ترجمہ یوں ہے :

” اُرسوتی” ہمالیہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ جو تحقیقی مرکز ہے ہمالیہ کی گود میں قدیم آریہ ورت کی سرزمین پر ” اُرسوتی” جسکے معنی ہیں صبح کا ستارہ ۔ صبح جو بڑی شاندار ہوتی ہے صبح جو دائمی صحت مندی، دائمی تلاش اور کارنامے اپنے ساتھ لاتی ہے ۔ ان ہی جگہوں پر وہ ” عظیم عقل ” رگِ وید روشن ہوئے بلّوریں نگینے اور آئینے بنے یہوہ استھان ہے جہاں سے مہاتما گزرتے تھے ۔ ان غاروں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر انسانی طاقت مجتمع ہوئی اُس کے سرچشمے پھوٹے ۔ یہ جگہیں فقط خیالی نہیں ہیں ۔ کتنی شاندار ہمالیہ کی برفیلی ، چمکیلی چوٹیاں ۔ فقط ہمالیہ میں بےمثل ، سکون پرور فضائیں میّسر ہوسکتی ہیں علمی تحقیق کے لئے ۔”

اس نے سوچا ان مقدس استھانوں سے ہمارا رشتہ ٹوٹ چکا ہے ۔ انسان روح کی تلاش میں ہے جسے وہ کھوچکا ہے ، اپنی سالمیت کی تلاش میں ہے جو ریزہ ریزہ ہوچکی ہے ۔ سیم و زر کی ہوس ، قدروں کی پامالی ، علم کی ناقدری ، ٹوٹتے رشتے ، بکھرتا معاشرہ ، سازشیں ، مکر و فریب اور ظلم ۔۔۔۔ دہشت گردی ۔ ہم مغرب کے طرف سے یورش کرتے سیلاب کی زد میں ہیں جو ماضی کے سرمایہ کو بہا لے جائے گا ۔ موجودات کا بوجھ ۔ اُسے محسوس ہوا جیسے وہ معاشرے کی کمزور ترین ہستی ہے اس لیے وہ حسّاس ہے کہ وہ خلوص کا دامن چھوڑنے کو تیار نہیں کہ روحانی آفاقیت کا قانون اس کا مسلک ہے ۔

اشوک کے پتوں کے درمیان ہوا بہی ۔ اُسے یاد آیا ایک خوبصورت مصرع ” خِرد نے پیڑ کے پتّوں میں تیری معرفت ڈھونڈھی ۔” شہتوت کے درخت پر کوئی چڑیا چہچہائی ، صبح یقینا” بڑی شاندار تھی گھر کے اندر سے اس کی بیٹی نے پوچھا ۔ ” امی چائے اور لیں گی ؟”

” نہیں ۔۔۔۔۔ لیکن تم باہر آؤ ، تازہ ہوا کو خود میں اُتارو ۔ دیکھو کہ صبح کتنی شاندار ہے “۔ اسی لمحے اس کی نگاہ سڑک کے اس پار والے تالاب پر گئی جس کا پانی جادو جگا رہا تھا اور جس کے پاس خودرو درخت اور گھاس ۔ اُس تالاب کے پرے اینٹوں کا ایک شکستہ سا بھٹّا جس میں سنتے ہیں کہ وہ ہستی مع اپنے گروہ کے کبھی چھپی تھی جب کہ لوگ سیکولرزم کے معنی یاد کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ اسے محسوس ہوا جیسے باہر اور اندر کا سبزہ ایک دوسرے میں ضم ہو رہے ہوں ۔ سبزے سے ہمارا رشتہ قدیمی ہے ۔ اُسے ایک منظر کی یاد آئی جو اسکی اندرونی نگاہ کے سامنے اکثر ابھرتا رہا تھا ۔۔۔۔۔ دور تک پھیلا گھاس کا ہرا سمندر اور اُس سے بھی پرے ایک غار ۔۔۔۔۔ ! عجیب سسا امتزاج ۔ ماضی کا غار ۔ گُم گشتہ کی یادیں ۔ شہتوت کے درخت نے اُسے ورڈزورتھ کے پسندیدہ مصری درخت ” سِکامر ” کی یاد دلائی جو کہ انجیر کے درخت کی طرح ہوتا ہے جس کے سائے تلے بیٹھ کر شاعر نے بیکراں سکون کا احساس کیا تھا ۔ مقدس اور عارفانہ لمحہ، روشن لمحہ جب کہ روح خدا کی ذات میں ضم ہوتی ہے ۔ مظاہرِ قدرت اور ان میں سربستہ ہستی ۔ وجود مطلق ، ایک تجلی ، ایک نُور ۔ اُسے ورڈزورتھ کی ایک طویل نظم یاد آئی جس میں غار کا ذکر ہے جس میں اسے چشمہ پھوٹ رہا ہے ۔۔۔۔۔ شعور کا چشمہ ، شخصیت کا چشمہ ، ہم آہنگ شخصیت اُسی لمحے اُسے غارِ حرا کییاد آءی اور حضورؐ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر لکھی ہوئی گوئٹے کی بےحد خوبصورت نظم ” جُوئبار ” بھی یاد آئی ۔ غار اور گھاس کا یہ سمندر جو ذہن کے پردے پر بار بار ابھرتا ہے کس بات کی نشان دہی کرتا ہے ۔ اسے الجھن ہوئی ۔۔۔۔۔ غار کے اندر داخل ہونے کی خواہش ، جستجو ۔۔۔۔۔۔۔ تنہائی اور تاریکی کا خوف ، سنّاٹا ۔۔۔۔۔ رُکتے اور بڑھتے ہوئے قدم ۔

سامنے کے تالاب کے آس پاس چراگاہ پر گائیں اور بکریاں چر رہی تھیں ۔ اُسے تقریبا” اِسی طرح کی ایک صبح یاد آئی ۔ تب مشرق کے اُفق پر فاختئی آسمان کسی پہاڑی کی برح لگ رہا تھا ۔ چمکیلے ، سمئی بادل اُڑتے پھررہے تھے طلوع ہوتے سورج کی روشنی سے آسمان سنہری ہورہا تھا ، درخت ساکت و خاموش صبح کی دعا میں مصروف تھے کسی راہبہ کی طرح ۔ فضا میں طیور نغموں کی گونج بکھر رہی تھی ۔ اور پھر اسے خیال آیا تھا سول لائنز کے اُدھر کے آسمانوں میں لپکتے شعلوں کا ، خون کی ندیوں کا ، نزرِ آتش کیے گئے ایک چھ ماہ کے معصوم کا ، ماؤں کی دلخراش چیخوں کا ۔ یہ کیسی آزادی ملی تھی جو ہندوستان کے نقشے پر ندیوں کی تعداد میں اضافہ کر گئی تھی ، اُسے بےروح کر گئی ایک ہاتھ سے جو چیز دی گئی تھی وہ دوسرے ہاتھ سے لے لی گئی تھی اور آزادی کی مانگ اور عزت نفس کو محفوظ رکھنے کی سزا پشت کی جانب سے چھریاں مارنے کی بزدلانہ روش ۔ مردانگی شاید اسی کا نام ہے ۔ اپنی فتح کے احساس سے سرشار انسان یہ نہیں سمجھ رہا ہے کہ وہ خود کو ہلاک کر رہا ہے کہ اس کی رگوں میں خون سفید ہو چکا ہے ۔ طاقت ، دولت ، چودھراہٹ ، کرسی اور اقتدار کی ہوس کی دلدل میں لت پت ہے نکلے تو کیسے ۔

صبح کا اُجالا پھیل رہا تھا ۔ یہ پودے ، پھول ، پتے ، یہ مناظر ،وجودِ مطلق کے بیکراں حسن کے مظاہر اور انسان ۔؟ وہ نشانیاں کہاں گئیں جن کا ذکر آسمانی صحائف میں ہے ہر طرف ریزہ ریزہ انسان اور درندگی کی تمام ہوتی ہوئی حدیں ۔۔۔۔۔۔ درندگی جو لہو چوستی ہے ۔ اس کے تصور میں ابھرا ایک پُرجلال و پُرجمال گنبد جو چند ہی لمحوں میں کھنڈر میں بدل گیا ۔ اسے محسوس ہوا کہ یہ درخت ، گھاس کا یہ سمندر ، اس کا اپنا وجود ، پورا ہندوستان ، اس کا گھر ، ہر متنفّس سیلاب کی زد میں ہیں اور وہ خود چاروں طرف قہر آلود ، شورش زدہ پانیوں سے گھری، لرزہ براندام ، سماج کی سب سے ناتواں ہستی ۔ ناتواں یُوں کہ اس کی حِس بیدار ہے ۔ وہ سوچتی ہے ، محسوس کرتی ہے، سچ کی متلاشی ہے اور اس کے ہاتھ میں قلم ہے نوبت اس کی بھی ہے کہ خونِ دل میں انگلیاں ڈبونی پڑیں ۔ اس کو یاد آیا ۔ خلیل جبران کا ایک نورانی جملہ

” عظیم انسان کے دو دل ہوتے ہیں ایک سے لہو ٹپکتا ہے اور دوسرے سے صبر کرتا ہے ۔” اُس نے دعا کی کہ اے خدا اس سرزمین کی حفاظت کر ۔ اسے یاد آیا کہ بارہ وفات کا مہینہ شروع ہو چکا ہے ۔ خالقِ کائنات کی افضل ترین نشانی کی ولادت اور وفات کا مہینہ ۔ اب گھر گھر ولادتِ نبویؐ کی محفلیں ہوںگی ، سڑکوں پر عید میلاد النبی کے جلوس نکلیں گے یا سیّد الابرار نسلِ انساں اپنے وجود کے مشکل ترین دور میں ہے کہ جس زندگی کی تلاش ہے وہ زندگی نہیں ملتی ۔

آہنی گیٹ کے پاس کھڑے گل چینی کے درخت پر ایک مینا آن بیٹھی ۔ صبح کے اجالے پھیل رہے تھے ۔ اُسکے تصور میں پھر اُبھرا دور تک پھیلی ہوئی گھاس کا سمندر اور غار ۔۔۔۔۔ تاریک غار جس میں اب کی بار وہ داخل ہو گئی ۔ خود کو جاننے کی خواہش فطری ہی ہے کہ ہم خود اپنا گزرا ہوا وقت ہیں ۔ ” دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایّام تو ۔” ہمارے اوپر سے گزرے ہوئے لمحوں نے ہی ہماری تشکیل کی ہے ۔ ان ہی لمحوں کی یاد جو اگر ہمیں ہے تو ہم ہیں ۔ موجودات کی بوجھ کو جو اگر ہلکا کرنا ہے تو اس غار کے اندرون تک رِسائی حاصل کرکے اپنے وجود کی اصل کا سراغ لگائیں ۔خود شناسی سے خدا شناسی تک کا سفر کہ آسمانی صحائف یہی کہتے ہیں کہ خود کو پہچان کر اپنے آپ سے اوپر اٹھو ۔ سارے مظاہر سے ہمارا رشتہ ہے سمندر، کائنات ، دریا ، پہاڑ ، وادیاں جھرنے ، چشمے ، آسمان ، بادل ، درخت ، شاخین ، جڑیں ، پھول ، پھل ، ۔۔۔۔ چاند سورج، ستاروں کے گیت ، آہنگ ۔ اور سنہرا اَنکُر ، “ہرانیہ گربھا ” ، شعور کا چشمہ ، زندہ رود ، شعور کی لہر ، شعور کا بحرِ بیکراں ۔ پوری زندگی ایک کہانی ہے ایک نغمہ ہے ، ہمارا رشتہ ماقبل تاریخ سے ہے ۔ قدیم مصری آئسس (ISIS) یونانی ایتھینا (Athena) ، ہندوستانی اَدِتی ۔۔۔۔ تو ہے محیطِ بیکراں ۔

اچانک اس کی نظر جھاڑی کے پاس رکھے ہوئے ننھے سے خالی پنجرے پر پڑی جس میں دو روز تک سبز بھورے اور رخ پروں والے دو لال پُھدکتے تھے ۔ مختصر ترین طیور ۔ کبھی تار پر لٹکتے ، کبھی قلابازیاں کھاتے ، کبھی پانی کی کٹوری میں ڈبکی لگاتے ، کبھی دانہ جگتے ، عجیب دل چسپ منظر ۔ ایک دن اس کی ایک ” کولیک ” آئیں مع اپنی بیٹی کے ۔ لالوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں ۔ ذرا سی دیر میں دونوں چڑیاں نیند کی آغوش میں ۔ مہمان نے خیال آرائی کی ۔

” اس وقت چڑیوں کے بسیرا لینے کا وقت ہوتا ہے ” ۔۔۔۔۔۔۔”

” قانونِ فطرت ہے کہ شام کو بسیرا لیا جائے ۔۔۔۔۔” اس نے تائید کی ۔

اسی شام اس کے چھوٹے بیٹے نے اطلاع دی :

” امی ایک لال کی ڈیتھ ہو گئی ہے ۔” وہ سراسیمہ ہو کر پنجرے کی طرف بڑھی ایک لال واقعی مرچکا تھا اور دوسرا خاموش ، سرنگوں ، کھویا کھویا سا ۔ اس کے بیٹے نے مشورہ دیا ” یہ دوسرا والا اکیلا رہ گیا ہے مر جائے گا اسے اُڑا دیجئیے” اس خیال کے باجود کہ آزاد ہو کر بھی وہ زندہ نہیں بچے گا ۔ اسے اڑا دیا گیا ۔ ننھی سی جان دکھیا مر کھپ گیا ہوگا ۔ کسی پرندے کا شکار ہو گیا ہو گا ۔

شہتوت کے درخت کے پتوں کے درمیان ہوا بہی اور مشرو سے خورشید نے اپنا چہرہ ابھارا ۔ خورشید جو اُدھر ڈوبتا ہے تو اِدھر نکلتا ہے ۔ سنہری کرنوں سے اُفق آتشیں ہو رہا تھا اُسی وقت اخبار والے نے اسے تازہ اخبارات تھما دیے ۔ ہر اخبار کے پہلے صفحہ پر سرخیاں جمنا میں سیلاب ۔ اُسے یاد آیا ایک سیلاب تو اُس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا ۔ گومتی میں سیلاب ۔ پورا کالج تہہِ آب ، ندی کے قہر آلود پانیوں کا قیامت خیز شور ، ہاسٹل کی لڑکیاں بالکنی پر لرزہ براندام ۔۔۔۔ سیلاب جب جب آتے ہیں ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں ۔۔۔۔ ہر طرف بربادی چھوڑ جاتے ہیں ۔، برباد فصلیں ، برباد گھر ، برباد جسم ، کیڑے مکوڑے ، سانپ بچّھو ۔۔۔

اور پھر اس کے تصّور میں ابھر گھاس کا وہی سمندر اور پھر تاریک غار ۔ وہ اب اندر تھی گُھپ انھیارا ، کسی کسی لمحہ روشنی کی ایک جھلک ۔۔۔۔ عود و عنبر ، لوبان کی مہک ۔۔۔۔۔ نابینائی ۔۔۔ تاریکی ۔۔۔۔ اجتماعی لاشعور ۔ الجیلی ، ینگ وہ اُن تاریکیوں سے گویا ہوئی :

” اے معطر تاریکیو! کیوں زمانہ سے بےنیازی پر اُکساتی ہو ؟ کون سا نغمہ پنہاں ہے تم میں ؟ شاید وہ نغمہ جس نے کبھی ان کھڑکیوں کو مسحور کر دیا تھا جو بھیانک سمندروں کی جھاگ کی طرف کھلتی تھیں ۔ کیٹس کی بلبل کی آواز میں ۔ اُسے محسوس ہوا کہ وہ تنہا بہت دور نکل آئی ہے دائمی تلاش اور جستجو ۔ کون اتنی دور تلک اُس کا ساتھ دیتا لیکن اُسے تو پہنچنا ہے اور آگے بڑھی ۔ اچانک ایک روشن لمحہ میں اس کو نظر آیا محراب دار حجرہ جس کے در میں ایک مہربان پیکر ، جمال و جلال سے آراستہ ۔ ایک تجلّی ، ایک نور ۔۔۔۔۔۔ اس کے قدم بیتابانہ اُدھر بڑھے ۔ ” سوئے مادردید و مشتاقانہ دید ۔” اور پھر ایک دوسرے روشن لمحے میں اُسے نظر آئی ایک چنگاری ۔۔۔۔۔ چیتنا کی چنگاری ، سنہرا اَنکر ، ۔۔۔۔۔ شعور کا رواں دواں چشمہ ، ایک لہر، ایک سمندر ۔۔۔۔۔ لوگوس ۔۔۔۔۔۔۔۔ ” نورِ محمدی” کا سفر ۔۔۔۔۔ اور پھر سارے آسمانی صحائف ، عجب سحر انگیز منظر تھا ۔۔۔۔۔ وہ اُس میں ڈوب گئی

اور جب چونکی تو سورج طلوع ہو چکا تھا ۔ سنہرا آتشیں سورج ۔ ہوا درختوں کے بیچ سرسرائی تب اُسے یاد آئی رِگِ وید کی دعا :

” سب خوش رہیں ، صحت مند رہیں اور ہر شخص محسوس کرے کہ اچھائی کیا ہے ، کوئی دُکھی نہ رہے ۔ ” اور پھر اس کی نظر پڑی سامنے رکھے ہوئے کارڈ کے ان الفاظ پر

” یہ وہ استھان ہے جہاں مہاتما گزرتے تھے ان غاروں میں انسانی طاقت مجتمع ہوئی ، اس کے سرچشمے پھوٹے ۔ ” اور پھر اُسے یاد آیا غارِ حرا جس میں اُس عظیم ترین ہستی کو الوُہی اَسرار منکشف ہوئے تھے جس کو اپنشدوں میں مَحامد کہا گیا تھا ، جس کی بعثت کی پیشین گوئی رام چندر جی نے کی تھی ۔ وجودِ مطلق کی محبوب ترین ہستی ” فطرت کا سرودِ ازلی جس کے شب و روز ، جو کہ صفت سورۂ رحمان آہنگ میں یکتا ۔۔۔۔۔ ” کہ دائرہ جہاں سے شروع ہوتا ہے وہیں پر ختم ہوتا ہے ۔

آج کی صبح یقینا” بڑی شاندار تھی جو دائمی صحت مندی اور تلاش اپنے ساتھ لاتی ہے ۔ اُس نے وجودِ مطلق کی بارگاہ میں اپنے وژن کے ساکار ہونے کی دعا کی اپنے عزیز ساتھیوں کو خدا حافظ کہا اور ایک نئے عزم کے ساتھ اُٹھی ، جھاڑیوں اور سبزے پر پھیلی ہوئی الوُہی روشنی کو سراہتی ہوئی کہ اُسے زندگی کو اپنے ہاتھ سے سنوارنا تھا !

Published inعالمی افسانہ فورمنجمہ محمود
0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x