عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ ۔۔ 106
“عید کا دن”
افسانہ نگار ۔۔ کوثر بیگ حیدرآباد دکن( مقیم جدہ)
ارے ! مجھے کہتے میں سہارا دیکر یہاں تک پہنچا دیا ہوتا۔۔۔۔۔۔کہنے والا تو کہہ کر جاچکا مگر وہ منہ ہی منہ میں بڑ بڑانے لگی
“سہارا “ !! اس نے سہارے پر زور دیتے ہوئے کچھ توقف کے بعد خود سے سوال کرنے لگی ۔ عورت کو سب کمزور بے سہارا کیوں سمجھتے ہیں ؟ ہمیں تنکا سمجھنے والے پھر کیوں تنکوں کے بغیر نہیں رہ سکتے؟ یہاں کوئی کسی کا سہارا نہیں، ہم ایک دوسرے کے سہارے ہیں ۔ ہم سب کا اصلی سہارا وہ واحد لاشریک ذات ہے جس نے یہ دنیا بسائی ہے۔۔۔۔۔
اپنے آپ کو جواب دیتے ہوئے پلنگ کے سرہانے کی جانب بیٹھکر ایک تکیہ پر دوسرا تکیہ کھڑا رکھا پھر پلٹ کر تکیہ سے پیٹھ ٹیک کر پاؤں پسار لیے پھر آہستہ سے سرکتے ہوئے نیم دراز ہوگئی اس عمل نے خیالات کو منتشر ہونے نہیں دیا۔
محمودہ بیگم حال اور ماضی کی ریگ زار کی خاک چھانتے بہت دیر تک محو پلکیں بِھگوتی رہیں۔
ماضی کے دریچے وا ہو چکے تھے ۔ہوش سبنھالتے ہی تمام عیدین کی تصاویرلمحہ لمحہ تخیل کے پردہ سیمیں پر رقص کرتی رہیں۔
وہ متمول گھرانے کی فرد تھی لیکن والدین کی کفایت شعاری کے پیش رفت عیش و عشرت سے دور رہی اور نہ کبھی ایسے خواب دیکھنے کی ہمت تھی ۔ والد گھر کے معاملات ماں کو سونپ کر مستقبل کی فکر میں بزنس پر پورا وقت دیا کرتے ۔ ماں کھانے اور کپڑوں کے وقت تو بیٹی کو مقدم رکھتی مگر پڑھائی لکھائی پر دونوں بیٹے توجہ کا مرکز بنے رہتے ۔ ماں کا خیال تھا لڑکے زیادہ باہر رہتے ہیں انہیں حالات کے سرد گرم کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے ۔ گھر باہر سب کچھ سنبھالنے کے قابل بنانا ہوگا ۔ کچھ بننے اپنا مقام زمانے میں قائم رکھنے کے لئے پڑھنا ضروری ہے اسی خیال سے وہ پوری توجہ ان پر رکھتیں۔
۔ جب بھی ماں سے مطالعہ کے دوران کچھ پوچھنا چاہتی وہ بھائیوں کی پڑھائی میں مصروف رہتی انتظار کے بعد جو بن پڑتا پڑھکر چپ چاپ اٹھ جاتی اس طرح علم حاصل کرنے میں پیچھے ہوتی چلی گئی ۔ اسکول میں ٹیچرز کی ڈانٹ ،سہیلیوں کے سامنے ذلّت اور پڑھائی میں کمزور رہنے کے سبب بد شوق ہو گئی پھر ایک دن میٹرک میں ناکامی نے ماں کو احساس دلایا ۔ ان کی کوشش کے باوجود مزید آگے پڑھ نہ سکی ۔بابا نے مشورہ دیا کہ خالی دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے اسے امورِ خانہ داری اچھے سے سِکھا دو آخر کو ایک دن گھر گھرستی ہی سنبھالنی ہے ۔
پھر ایک دن اپنے ہی آفس کے اکاؤنٹنٹ جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا اس کی ایمانداری اور شرافت سے متاثر ہوکر بیٹی کےلئے بر منتخب کرلیا ۔ ماں ،بھائیوں نے مالی حالت کا احساس کروایا تو ہر ضرورت کی چیز خود مہیا کرنے کا بابا نے یقین دِلایا۔۔بیٹی کی خاموش سپورٹ نے بابا کو من چاہا داماد دیلادیا ۔ میاں کی خودداری نے جہیز لینے سے انکار کردیا۔زندگی محبت اور سکھ چین سے گزارنی لگی ۔ اللہ نے تین بیٹوں سے بھی نوازا ۔
وقت گزارتے دیر نہیں لگتی بھائیوں نے بھی شادی کرلی بھابیوں نے اپنے برابر کا نہ سمجھ کر رشتہ داری توڑ لی ۔ ماں بابا بھی عمر کی زیادتی اور ماحول کے بدلاؤ سے بیمار رہنے لگے ۔ بھائیاں اپنی ازدواجی زندگی میں مگن رہنے لگے تو اپنی خدمت پیش کرکے انہیں گھر لے آئی مگر انہیں زیادہ دن یہ دنیا راس نہیں آئی ۔ دونوں کچھ وقت کے فرق سے دنیا سے کوچ کر گئے۔
پھر ایک منحوس دن ایسا حادثہ ہوا جس میں سہاگ بھی لٹ گیا ۔پہلے کم آمدنی کے باوجود آسانی سے گزارا ہورہا تھا ۔ واحد ذریعہ معاش ختم ہوچکا تھا۔ چالیس دن تک رشتہ داروں کی آمدورفت اور مہمانداری ،بچوں کی سکول فیس کےلئے گھر کے قیمتی اشیاء فروغت کرنی پڑی کسمپسری میں گزارا ہونے لگا ۔ بھول کر بھی اب کوئی عزیز دیکھنے نہیں آرہا تھا ۔
بے چینی سے کروٹ بدل کر پھر اپنے آپ سے مخاطب ہوکر کہنے لگی
مجھے یاد ہے وہ ایسا ہی ایک عید کا دن تھا ۔حالات اس دن جیسے کبھی ابتر نہ تھے۔ ۔ کپڑے تو درکنار کھانے کے تک لالے پڑے ہوئےتھے۔ اسی طرح زندگی کے اتار چڑھاؤ میں کھوئی ہوئی میں
کچھ دور دولت مندوں کی رہائشی فلک بوس عمارتوں کی جانب دیکھے جارہی تھی اس پر لگے ننھے ننھے برقی قمقمہ سجاوٹ کے لئے لگائے گئے تھے ۔جو عمارت کے ساتھ میرے بھی دل میں مدھم سی امید کی کرن روشن نظر آرہی تھی۔
پھر ایک بار اپنی عدت کے دن انگلیوں پر گن کر حساب لگائی۔ ایک روز پہلے ہی عدت کی مدت ختم ہو چکی تھی ۔ دو دن سے بھوکے اپنے بچوں کے لئے باہر جاکر کھانے پانی کا انتظام مجھے ہی کرنا تھا۔ میاں کی محرومی یتیم بچوں کی ذمہ داری باہر جانے مجبور کررہی تھی ۔ مگر زندگی کے وہ شب و روز بھی بھول نہیں پارہی تھی جس میں پہلے باپ پھر میاں حسبِ استطاعت ہرنعمت گھر میں مہیا کرنے کی جستجو و سعی میں لگے رہتے ۔ پیسے کی ضرورت اور اہمیت کا اندازہ آج سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا پیسے کتنی محنت مشقت کے ساتھ آتے ہیں ۔ عزت کی روٹی گھر بیٹھے مل جایا کرتی تھی ۔ بچوں کو بھوک سے بےچین ہوتے دیکھا نہیں جارہا تھا۔ رشتہ دار منھ موڑ چکے تھے ۔ان بچوں کا واحد سہارا میں ہی ہوں۔ ۔۔۔ ۔ پڑھائی اور ہنر تو کچھ سیکھا نہیں ۔ کیا کرتی کچھ سمجھ نہ آیا ۔ مجھ قسمت کی ماری۔کو کچھ کرنا ہی ہوگا ۔ اس خیال کے ساتھ ہی مصمم ارادا کرکے برقعہ اوڑھا اور بچوں کو صبر اور انتظار کی تاکید کرکے باہر رزق کی تلاش میں نکل پڑی ۔۔
سڑک عبور کرکے پہلی عمارت میں داخل ہونے لگی ۔ گیٹ ہی پر روک دیا گیا چوکیدار روکتے ہوئے کہنے لگا ۔
اری او! کہاں گھسے چلی آتی ہے ؟
میرے بچے بھوکے ہیں انہیں کچھ کھانا چاہئے میں نے لجاجت کے ساتھ کہا تھا۔
ہاں تم لوگ باتیں تو ایسے ہی کرتے ہیں چور آچُکے کہیں کے چلو نکلو یہاں سے
میری غیرت اتنی بے عزتی کے بعد وہاں ٹھیرنے کی اجازات نہیں دے رہی تھی پہلے تو میں نے تیز تیز قدم گھر کی جانب بڑھا دئے مگر پھر بھوکے بچوں کے خیال نے مخالف سمت واپس چلنے مجبور کردیا ۔ دوسری بلڈنگ کے بلند دروازے کے سامنے پہنچ کر اندر جھانکنے لگی تو کسی نے دیکھکر اندر سے آواز دی ” ارے کون ہے تو ” اس نے دھیمی آواز میں جواب دیا ” میرے بچے دو دن سے بھوکے ہیں ۔ کچھ کھانے کو ملے گا “۔ اسے ٹھیک سے بھیک مانگنا بھی نہیں آرہا تھا۔قیمتی زیور کپڑوں سے آراستہ خاتون شاید مالکن تھی کمزور سی آواز سنکر نرم لہجہ سے وہاں بیٹھی دو عورتیں جو کام میں مصروف تھیں انہیں حکم دیا کہ آج عید کے دن کسی کو خالی ہاتھ گھر سے نہ بھیجا جائے ایک تھال کھانا کباب جو بھی بنا ہے اس غریب عورت کو نکال کر دے دو۔ یہ کہتے ہوئے ایک نگاہ ہمدردی کی دروازے کی طرف ڈالکر اندر چلی گئی ۔جیسے ہی مالکن نظروں سے اوجھل ہوئی کام میں مصروف خواتین نے اسے وہاں سے جانے کہہ دیا۔۔ مگر وہ مالکن نے تو کہا ہے کہ ۔۔۔۔ابھی جملہ پورابھی نہ ہوا تھا ۔ غصہ کے مارے وہ دونوں برس پڑی” محنت ہم کریں اور مفت میں لینے یہ آجاتے ہیں ۔ ‘چلو جاؤ یہاں سے مفت خور کہیں کی!
بہت دیر تک کھانے کی آس میں مالکن کی واپسی کا انتظار کرتی چپ چاپ کھڑی ان کا عتاب سہتی رہی مگر بار بار کی دھتکار نے وہاں سے باہر نکلنے مجبور کردیا ۔ در بہ در اولاد کی محبت ایک کے بعد دیگر گھر لے جاکرکھڑی کرتی رہی ۔ میں تھک گئی تھی مگر ہاری نہیں تھی بچوں کے کھانے کی طلب میری ہمت بڑھا رہی تھی ۔ نویں گھر کے باہر ٹھہر کر ہچکچا رہی تھی کہ کچھ لوگ اندر سے باہر آنے لگےانہیں دیکھکر گلی کی دیوار کی جانب سرک گئی ۔ ایک ایک کرتے سب ہاتھ ہلا تے اپنی گاڑیوں میں بیٹھتے رہے کچھ نے اسے دیکھا بھی وہ مدد کے لئے آواز دینا چاہتی تھی مگر سبھی تیزی سے نظرانداز کرتے جاتے رہے انہیں افسردہ بت بنی بے بسی سے تکے جارہی تھی کہ پیچھے سے آواز آئی
کون ہو تم ؟؟
“اللہ کے واسطے میری مدد کرو۔ایک مجبور ماں ہوں میرے بچے بھوکے ہیں “درد سے بھری آواز میں اب مجبوری صاف سنائی دے رہی تھی جواب دیتے آنکھوں سےبے اختیار آنسو ٹپکنےلگے۔اچھا ٹھیک ہے کچھ دعوت کے برتن سمیٹنے اور کچھ گھر کی صفائی کرنی ہے ۔
کیا تم کروگی؟ ۔۔۔۔۔
ساری صاف صفائی سے نپٹ کر رات دیر گئےگھر میں کچھ روپے اور کھانے کے ساتھ داخل ہوئی تو تینوں بچے دروازے کی طرف دیکھتے آزو بازو بے جان سے پڑے تھے۔ دوڑکر بچوں کے سر اپنے دونوں زانو پرکھیچ کررکھ لیےانکے ڈوبتے نفس دیکھکر تڑپ اٹھی پھر دیوانہ وار پکارنے لگی ۔ میرے بچوں اٹھو دیکھو میں کھانا لے آئی ہوں ۔ اٹھو کچھ کھالو ۔ اٹھو ، اٹھو اب اٹھ بھی جاؤ ۔ تم کو کھانا ہوگا ۔ کھانا ہی ہوگا ۔ کھاؤ ،کھاؤ نا ۔ میرے بچوں ں ں ۔۔۔۔۔ زاروقطار رونے لگی پھر دیوانہ وار بچوں کے منہ کھول کر کھانا ٹھونستی اورکبھی انکے ہاتھوں کو حرکت دیکر دیکھتی تو کبھی منہ پر تھپ تھپاتی جاتی ۔ غذا نے کچھ دیر کے بعد اپنا کام کیا ، بے دم بچوں میں جان آنے لگی ۔ اب ایک راہ نکل آئی تھی۔ مستقل کام کرنے روز جانے لگی ۔ ایک گھر سے دوسرا ملا اور پھر تین تین جگہ کام کرتی رہی۔ دن کا بڑا حصہ محنت مشقت میں گزارتا مگر ایک اطمینان زندگی میں در آیا تھا بچوں کو پڑھا لکھا کر اپنی محرومی دور کرنی تھی ۔ زندگی کو جینے کا مقصد مل گیا تھا۔
میں نے زمانے بھر کی تلخیاں سہہ کر رات دن اپنے بچوں کےلئے سایہ دار گھنا درخت بنی کھڑی رہی ۔ مجھے اپنی محنت کا صلح مل گیا ۔ تینوں بیٹے پڑھ لکھ کر بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوگئے ہیں ۔اطاعت گزاری فرمابرادی کے ساتھ پڑھے لکھے انکے بیوی بچوں کو دیکھکر مجھے لگتا ہے علم کی روشنی سے در ودیوار منور ہیں اور میری جہالت کی تاریکی و بد شوقی میرے کمرہ سے باہر جھانک کر مسکرا تے ہوئے غائب ہوجاتی ہے۔
اوہو یہ آواز کیسی ؟ شاید میرا پوتا پھر مجھے دیکھنے آرہا ہے ۔ آج عید کے دن فیملی کے ساتھ میرے باہر چلنے سے انکار پر اسے دیکھ رکھ کی ذمہ داری دی گئی ہے ۔
آہٹ پر اپنے موٹے آنسو چھپا کر آنکھیں تو میں نے بند کرلیے مگر ہونٹوں پر پھیلی مسکراہٹ کیسے چھپاؤں جو میرے درد کی غماز ہے۔ !!!