عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 49
ظلِ الٰہی
خالد سہیل ملک، پشاور، پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چُپ کی چادر اوڑھے سُنسان شہر کی شاہراہ کے فٹ پاتھ پر اس کے قدم آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے۔ دِن کو چھوٹی بڑی، رنگ برنگی گاڑیوں اور الجھے سلجھے انسانوں کے بوجھ کو اپنے سینے پر اٹھائے وہ سڑک اس سمے مکمل سکوت اور سناٹے کا شکار تھی۔ وہ سڑک اس لمحہ موجود کی تمام تر کیفیات کے ساتھ اس کے ‘داخل’ میں اتر چکی تھی۔ فرق صرف روشنی کا تھا۔ اس کے ‘داخل’ میں میونسپلٹی کا کوئی بلب روشن نہیں تھا۔ گزرے ہوئے تین مہینوں کی کئی راتوں میں وہ اس کیفیت سے گزر چکا تھا۔ اختلاف صرف تجربے کا تھا پہلے وہ دن کے کھوئے ہوئے شہر کی تلاش میں ایسا کرتا تھا لیکن آج وہ خود اپنی جستجو میں رات کے تعاقب میں چلتے چلتے یہاں پہنچ گیا تھا۔ شہر کی کھوج تو وہ کبھی بھی کر نہیں پایا تھا، ہاں مگر رات کے اندھیرے میں کُرلاتے ہوئے شہر کی اداسیوں کا گواہ ضرور بن گیا تھا۔ اب اسے اس بات کا خوف تھا کہ جستجو ذات کا بھی کہیں یہی انجام نہ ہو۔فٹ پاتھ پر پڑے ہوئے ایک چھوٹے سے پتھر کو اس نے یونہی بغیر کسی جذبے کے ٹھوکر لگائی تو پتھر لڑھکتا ہوا بیچ سڑک میں جا کر رُک گیا۔
’’یہ میں نے کیوں کیا؟ مگر یہ تو ایک حقیر سا پتھر ہی تو تھا مگر کیا میں اس کا مختار تھا؟ کیا مجھ پر بھی کسی کا اختیار تھا۔؟ کیوں میں اس بے جان پتھر سے اپنا تعلق جوڑ رہا ہوں۔؟ نہ جانے یہ کہاں کہاں سے لڑھکتا ہوا یہاں پہنچا ہو گا۔ میں بھی تو وقت کی ٹھوکریں کھا کھا کر دائرے کے نقطہ آغاز تک پہنچا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ پتھر بھی میری طرح واپسی کے سفر میں ہو۔؟‘‘
اس دوران وہ سڑک کے عین وسط میں پہنچ چکا تھا۔ وہ بڑی دیر تک اس پتھر کو یونہی اگلی منزلوں کی طرف ٹھوکریں لگانے لگا۔ نوجوان لڑکوں سے لدی ہوئی ایک گاڑی انجن اور جوانی کی مستی کے شور کو فضا میں پھیلاتی ہوئی اس کے قریب سے گزر گئی تھی۔ گاڑی کی پچھلی نشست پر بیٹھے ہوئے نوجوانوں نے اسے عجیب نظروں سے دیکھا تھا۔
’’یہ کیا کررہا تھا میں؟ وہ لڑکے کیا سمجھے ہوں گے۔ کہ ۔۔کہ میں پاگل ہوں۔ کہیں ان میں کوئی جان پہچان والا نہ ہو۔ لعنت بھیجو۔۔۔۔۔ نہ جانے یہ لڑکے خود کو بھی پہچانتے ہوں گے یا نہیں؟‘‘
اب وہ واپس فٹ پاتھ پر آ گیا تھا۔ آگے بڑھتے ہوئے وہ باربار پیچھے مڑ مڑ کر اس پتھر کو دیکھ رہا تھا، جسے سڑک سے اٹھا کر وہ فٹ پاتھ پر رکھ آیا تھا۔ ہائی سکول کے پھاٹک کے قریب پہنچتے ہی اس کے قدم خود بخود رُک گئے تھے۔ ہرے رنگ کے پھاٹک میں لگی ہوئی آہنی سلاخوں کو اس نے یوں مضبوطی سے مٹھیوں میں بھینچ لیا تھا کہ اسے اپنی ہتھیلیوں میں ہلکا ہلکا سا درد محسوس ہونے لگا تھا۔ سکول کے برآمدے میں سو وَاٹ کا بلب اپنی زرد روشنی پھیلا رہا تھا۔
’’کتنی خوش نصیب ہے یہ عمارت بھی۔ کچھ نہیں بدلا۔ وہی پھاٹک، وہی برآمدہ، گھنٹی بھی اسی جگہ ٹنکی ہوئی ہے، تیس برس پہلے جہاں چھوڑ گیا تھا۔ میں بھی کبھی اس عمارت کا ایک حصہ تھا۔ کیا اب بھی ہوں؟ وقت کیوں بہتا پانی بن جاتا ہے؟ میں، روشن، گلزار اور داؤد ایک بار پھر ان ہی گلیوں میں وہی کھیل کھیل سکتے ہیں؟ وہی کنچے، وہی آنکھ مچولی۔۔۔۔۔ وقت ہر چیز کو کھا گیا ہے۔ پھر۔۔۔۔ پھر روشن، گلزار اور داؤد کو یہ احساس کیوں نہیں ۔؟ انہی پیاروں کو سینے لگانے کے لیے تو میں سب کچھ چھوڑ کر واپس آیا ہوں۔۔۔۔ کیوں میرا شہر اور میرے لوگ مجھے قبول نہیں کر رہے؟ میں کیوں پاگل پن کے طعنے سہہ رہا ہوں ؟‘‘
نہ جانے وہ کتنی دیر تک سکول کے پھاٹک کو یونہی گلے لگائے کھڑا رہتا اگر پریشر ہارن کی آواز کو فضا میں چھوڑتا ہوا ٹرک اس وقت سڑک سے گزر نہ جاتا۔ وہ بڑی دیر تک جاتے ہوئے ٹرک کو دیکھتا رہا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس خالی ٹرک کو سڑک پر دوڑاتے ہوئے ڈرائیور کیوں ہارن بجا رہا تھا۔ سڑک کا فٹ پاتھ اس کی انگلی پکڑ کر پارک تک لے آیا تھا۔
’’جب وہ شہر چھوڑ کر گیا تھا تو اس پارک کی جگہ ایک بہت پرانا مندر تھا اور ایک جھیل تھی۔جس میں کنول کھلتے تھے، خود رو کنول۔ اس ویران مندر میں کتنا حسن تھا اور وہ کومل جھیل؟ کیا ضرورت تھی جو اس اجاڑ مندر کو ڈھا کر اس سندر جھیل کو قتل کردیا گیا۔ کیا ایسا ناگزیر تھا یہ پارک؟ کیا اس مندر اور اس کنول اگاتی جھیل سے ہمارا کوئی رشتہ باقی رہ نہیں گیا تھا؟ اور کیا جن حوالوں سے تعلق نہ رہے بربادی ان کا مقدر ہو جاتی ہے۔”
اسے وہ پارک اچانک شہر کا سب سے بدصورت مقام لگنے لگا۔ اس کے قدم خود بخود آگے بڑھنے لگے۔ بس سٹاپ کی چار دیواری کے باہر مسافروں کے لیے ایک ہوٹل رات گئے بھی کھلا رہتا ہے۔ ہوٹل کے باہر سڑک کے کنارے بچھی ہوئی چارپائی پر بیٹھ کر قہوے کی چسکیاں لیتے ہوئے وہ اس پاگل شخص کو بھی دیکھ رہا تھا جو ہوٹل کی انگیٹھی کے پاس کھڑا تھا۔ وہ پاگل شخص تھوڑی تھوڑی دیر بعد اپنے ہاتھ انگیٹھی کی آگ سینک سینک کر اپنے گالوں پر لگاتا اور پھر چھوٹے بچوں کی طرح اچھل اچھل کر، تالی بجا کر خوش ہوتا۔ اُس نے اس پاگل شخص کو اپنے پاس بلالیا۔
’’چائے پیو گے۔؟‘‘
’’ہاں ضرور پئیں گے چائے مگر دودوھ پتی۔ ہم سادہ چائے نہیں پیتے ۔ہم تو سگریٹ بھی ڈَن ہِل کا پیتے ہیں۔ سُلگا کے دوایک۔‘‘
’’تم اس گرمی میں انگیٹھی میں ہاتھ کیوں سینک رہے تھے۔؟”
’’گرمی میں؟ اس شہر کی گرمی کو تو ٹھنڈ کھا گئی ہے۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اس شہر میں تو اب ٹھنڈ کی اور ہماری حکمرانی ہے۔ ہماری۔ہی ہی ہی ہی ۔‘‘
’’کہاں سے آئے ہو تم اس شہر میں ۔؟‘‘
’’ہم سے پوچھتے ہو۔ ہم کہاں سے آئے ہیں۔ ارے ہم ہی تو باقی بچے ہیں اس شہر کے اکلوتے وارث۔ میرے دادا نے ہی تو اس شہر کو بسایا تھا۔ یہ سب لوگ ہماری رعایا ہیں۔ ہی ہی ہی ہی ۔ تُو بتا ۔ تُو کہاں سے آیا ہے۔؟‘‘
’’میں تو۔۔۔۔ میں۔۔۔ میں۔۔۔۔،”
“چھوڑو مت بتاؤ۔ ہمیں کیا لینا کہ تُو کہاں سے آیا ہے مگر تمہیں ہمارے شہر میں رہنے کا کرایہ دینا پڑے گا۔ نہیں تو۔۔۔۔ ٹھنڈ تجھے بلا بن کر کھا جائے گی۔ ہی ہی ہی ہی۔ روز ہمیں اس وقت چائے اور سگریٹ پلانی ہو گی۔ چائے دودھ پتی اور سگریٹ ڈن ہل۔۔۔۔ سوچ لے۔ ہی ہی ہی ہی۔۔۔۔ سوچ لے۔۔۔۔‘‘
’’تم مجھے پڑھے لکھے دکھائی دیتے ہو۔ کہاں تک پڑھا ہے تم نے۔؟‘‘
’’ہم نے یہاں سے وہاں تک پڑھا ہے۔ اور وہاں سے یہاں تک۔۔۔۔ ہی ہی ہی ہی ہی۔۔۔‘‘ پاگل شخص نے ہاتھ کے اشارے سے سڑک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
ایک تانگہ کچھ سواریاں لے کر اڈے پہنچا تو پاگل شخص ہاتھ سے چائے کی پیالی میز پر رکھ کر کھڑا ہوگیا۔
’’تم جانا مت۔ ہم ابھی آتے ہیں۔‘‘ پاگل شخص تانگے میں جُتے ہوئے گھوڑے کے قریب جا کر کھڑا ہو گیا اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑانے لگا جیسے وہ گھوڑے سے بات کر رہا ہو۔ پھر وہ جُھک کر گھوڑے کے پیٹ کے نیچے سے گزر کر دوسری جانب سے نکل گیا اور تانگے کا طواف کرنے کے بعد وہ یہ عمل دہرانے لگا۔ جب تک کہ تانگہ سواریاں اتار کر آگے نہیں بڑھ گیا۔
’’تم بار بار گھوڑے کے نیچے سے کیوں گزر رہے تھے۔؟‘‘
’’تم بھی عجیب ہو۔ تمہیں نہیں معلوم کہ گھوڑے بھی انسان ہوتے ہیں اور یہ گھوڑے تو ہماری رعایا کا حصہ ہیں۔ ہمیں نے ان کو شہر کی چابی دے رکھی ہے۔ ہمارے ہی حکم پر تو یہ اس شہر میں رہ رہے ہیں۔ ہم تمہیں بھی شہر کی چابی دے سکتے ہیں مگر ایک شرط ہے۔‘‘
’’کیا شرط ہے؟‘‘
’’تمہیں ثابت کرنا پڑے گا کہ تم گھوڑوں سے بہتر انسان ہو مگر ٹھہرو۔ بھلا تم کیسے گھوڑوں سے اچھے انسان ہو سکتے ہو۔ لے۔۔۔۔ لے۔ ہم خود تمہیں شہر کی چابی عطا کرتے ہیں۔ کھڑے ہو جاؤ۔ دونوں ہاتھوں سے تھام لو شہر کی چابی کو۔ ہمارے شہر کی چابی کو۔ لے۔۔۔۔ لے یہ امانت۔۔۔۔ سنبھال کے رکھنا۔۔۔‘‘ پاگل شخص نے جیب سے اینٹ کا ایک ٹھیکرا نکال کر اس کے جُڑی ہوئی ہتھیلیوں پر رکھ دیا۔
جب وہ ہوٹل سے اٹھا تو دن کا اجالا ہر سو پھیل چکا تھا۔ شہر کی چابی کو اس نے سختی سے اپنی مٹھی میں دبا رکھا تھا۔ اس نے اسے بڑی حتیاط سے اپنی جیب میں رکھا اور پھر سورج کے تعاقب میں آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا آگے بڑھنے لگا۔
Be First to Comment