عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 42
طمانیت
امجد علی شاہ، کیلیفورنیا، امریکہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دن بھر کی شدید گرمی، حبّس اور بجلی کی طویل بندش کے بعد آج شاید قبولیت کا دن تھا۔ آج کچھ بھی مانگتی تو مل جاتا…لیکن اب افسوس کہ صرف بارش کیلئے دعا کی تھی۔۔۔۔ شام ڈھلتے ہی ٹھنڈی ہواوٗں اور پھر رات گئے ٹپ ٹپ گرتی بارش نے تو جیسے میرا دامن خوشیوں اور ان گنت سپنوں سے بھر دیا۔۔۔۔ دل چاہا کہ مدتوں اسی سرشاری کے عالم میں لیٹی رہوں۔۔۔۔ کہ اماں کی چلاتی آواز نے میری ساری خوشی پل بھر میں غارت کر دی۔
“سعدیہ جا اٹھ کر دیکھ باورچی خانے کی چھت ٹپک رہی ہے وہاں بالٹی رکھ ۔۔۔ اور سن بالٹیاں خالی کرتی رہنا ..ایسا نہ ہو صبح ابا کا ناشتہ بنانےگھسوں تو پانی بھرا ہو وہاں۔”
نجانے ہم جیسے طبقے کے لوگ اس دنیا میں بھیجے ہی کیوں جاتے ہیں۔۔۔۔ صرف گنتی پوری کرنے کے لئے اور دنیا میں غریبوں اور فقیروں کی تعداد کو کم ہونے سے روکنے کیلئے یا امیروں کا دبدبہ قائم رکھنے کیلئے۔۔۔۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ کیا واقعی ہمیں اس دنیا میں بھیجے جانے کی کوئی ضرورت بھی تھی؟؟؟ مجھے تو کبھی اس دنیا میں غریبوں کا کوئی مصرف نظر نہیں آیا۔۔۔۔ خوشی اور اطمینان جیسے لمحات ہم جیسوں کیلئے غیر مانوس ہیں۔۔۔۔ ہم ان کے جتنا قریب جانا چاہیں یہ ہم سے اتنا دور بھاگتے ہیں۔۔۔۔ اس لئے ہم جینے کے لئے ہر اس لمحے کو خوشی سمجھنے کی حماقت میں لگے رہتے ہیں جس میں ہمیں سکون سے ٹہر کر سانس لینے کی کچھ فرصت میسر آ جائے۔۔۔۔ کیوںکہ ہم نے تو جب سے آنکھ کھولی اپنے چاروں طرف صرف بے چارگی اور غربت کی نحوست کو ڈیرے ڈالے دیکھا۔
ابا بمشکل میٹرک پاس تھے اور گھروں میں رنگ و روغن کا کام کرتے تھے۔۔ اماں دن بھر سلائی کرتیں، آپا روبینہ اور میں سارا دن گھر میں کاغذکے لفافے بنایا کرتے۔ اتنی محنت کے باوجود تین وقت پیٹ بھر کھانا ملنا ہماری سب سے بڑی عیاشی کہلاتی۔۔ ہمارے گھر میں اگر کوئی نواب تھا تو وہ ہمارا بھائی رئیس تھا۔ چھوٹا ہونے کی وجہ سے وہ نہ صرف اماں ابا کا لاڈلا تھا بلکہ اسے کسی شہزادے کا درجہ حاصل تھا۔ اتنی غربت اور اوپر تلے تین تین بیٹیوں کے بعد رئیس اماں اور ابا کی زندگی میں آنے والی واحد خوشی کی خبر تھا، جسے وہ ہمیشہ سنبھال کر رکھتے تھے۔
اس تاریک اور گھٹن زدہ ماحول میں ہمارے لئے کچھ دیر کھل کر خوشی سے سانس لینے کی واحد جگہ ہماری گلی میں قائم فلاحی ادارے کے تحت چلنے والا سکول تھا جہاں نہ صرف ہمیں مفت پڑھایا جاتا بلکہ کچھ جیب خرچ بھی دیا جاتا۔ شاید اِسی ‘معاوضے’ کی وجہ سے اماں نے ہمیں سکول جانے کی بخوشی اجازت بھی دے رکھی تھی۔ اس کے علاوہ ہمیں گھر سے قدم باہر نکالنے کی بلکل اجازت نہیں تھی۔ بڑھتی مہنگائی، گھر کے کرائے اور ابا کے ہوائی کام نے ہمیں کبھی سکھ کا سانس نہ لینے دیا۔ ایک جوڑا کپڑے اور چپل کی خواہش میں ہمیں اماں کے پاس مہینوں نمبر لگوانے پڑتے۔ پچھلی عید پر کس کا بنا تھا تو اب کی عید پر کس کی باری ہو گی۔ زندگی نے ہمیں ایک ایسے قید خانے میں بند کر رکھا تھا جہاں سے فرار کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اس میں ہمیں صرف زندہ رہنے کی آزادی تھی وہ بھی مسلسل مشقت کی شرط پر۔
ٓآپا مجھ سے چھ سال بڑی تھیں ۔ان سے چار سال چھوٹی روبینہ پھر میں اور مجھ سے تین سال چھوٹا رئیس تھا۔
آپا پنے اسی فلاحی سکول سے آٹھویں کرنے کے بعد پرائیوٹ میٹرک کر لیا تھا۔ آپا ہم سب میں سب سے زیادہ محنتی اور ذمہ دار تھیں۔ انہوں نے چھوٹی سی عمر سے ہی ہمیں ماں بن کر پالا تھا۔ ہر بار بیٹیوں کی پیدائش کے بعد اماں پھر سے بیٹے کی آس دل میں سجائے ہمیں آپا کے حوالے کر چکی تھیں۔ اماں کتنی اچھی ماں تھی اس کا اندازہ ہمیں رئیس کے پیدا ہونے کے بعد ہوا ورنہ تو میں اماں کو ایک لاپروہ اور بے حس عورت ہی سمجھتی رہی جسے ہمارے رونے چلانے سے کبھی کوئی فرق نہیں پڑتا ہماری کسی بھی فرمائش کا حاصل چند گالیاں اور مزید ضدکا انجام دو چار تھپڑ ہوتے لیکن رئیس کی پیدا ہونے کے بعد تو جیسے اماں کی ہر حس جاگ گئی۔ تھک ہار کر بے سدھ سونے والی اماں اب آدھی رات کو چھت پر کودتی بلی کی آواز پر بھی ہڑبڑا کر اٹھ جاتی اور اپنے لاڈلے پر پڑھ پڑھ کر پھونکنے لگتی۔
ہماری زندگی میں سکون اور خوشی کے عارضی لمحات اس دوران آئے جب ابا کی ایمانداری سے متاثر ہو کر انہیں ایک امیر گھر میں چوکیدار کی مستقل نوکری مل گئی۔ اس طرح ایک طرف تو ابا کو روز صبح فٹ پاتھ کنارے بیٹھ کر رزق کے انتظار کی اذیت سے نجات مل گئی تو دوسری طرف ہماری مشقت میں کچھ کمی آنے لگی۔ جیسے ہی ابا کی آمدنی کچھ مستقل ہوئی اماں کو یکایک آپا کی شادی کی فکر ستانے لگی۔ آپا خوش اخلاق ہونے کے ساتھ ساتھ شکل و صورت کی بھی پیاری تھی۔ اماں نے آس پڑوس کی جاننے والیوں سے مل کر جلد ہی ایک رشتہ تلاش کر لیا۔ لڑکا قبول صورت اور بر سر روزگار تھا۔ آپا کے چہرے کے رنگ ان دنوں دیکھنے والی تھی۔ ابھی بات آپا کی منہ دکھائی سے ہی آگے بڑھی تھی کہ ۔۔۔۔ یہ خوشی بھی ہم سے روٹھ گئی۔۔۔ ابا کام سے واپس آتے ہوئے شہر میں چلنے والی اندھی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔۔۔ ابا کی گمشدگی کے وہ دو دن قیامت کی سی طوالت رکھتے تھے۔ دوسرے دن سرد خانے میں موجود ایک نامعلوم لاش ابا کی نکلی۔ اس دفعہ پہلی بار ہم لوگ تین دن تک اپنی مرضی سے بھوکے رہے۔۔۔ ہم لوگ اتنے حیران و پریشان تھے کہ ہماری آنکھوں سے آنسو تک غائب تھے۔ ہمارے پورے گھر پر موت کا سکتہ طاری تھا۔
ایسا، آخر کب تک چلتا، ابا کی موت کے دوسرے ہفتے آپا نے اعلان کیا کہ وہ گھر سے باہر نکل کر ملازمت تلاش کرے گی اس طرح ہاتھ پر ہاتھ کر بیٹھنے سے ابا لوٹنے والا نہیں تھے۔ ہمیں سر چھپانے کے لئے بہرحال اس کرائے کے مکان کی ضرورت تھی۔ آپا اگر ملازمت والی بات ابا کی زندگی میں کرتی تو گھر میں یقیناً ایک طوفان آ جاتا لیکن گزشتہ ایک ہفتے میں ہماری دنیا ہی بدل چکی تھی۔ اماں نے ہاں کہا نا نہ۔ وہ کسی شکست خوردہ انسان کی طرح بت بنی بیٹھی رہی جیسے کہہ رہی ہو، اب جو مرضی کرو۔ چند ہفتوں کی تلاش کے بعد آپا کو ایک فیکٹری میں عارضی ملازمت مل گئی جو چند ماہ میں آپا کی محنت سے مستقل ہوگئی۔ ابا کے چلے جانے کے بعد رفتہ رفتہ گھر کا ماحول ایک بار پھر پر سکون ہونے لگا۔ آپا کو اس فیکٹری میں کام کرتے چار برس ہو گئے تھے اماں بھی اب ابا کے غم کو ایک طرف رکھ کر پھر سے زندگی کی چہل پہل میں شامل ہونے لگیں۔ اماں نے آپا سے ضد کر کر اُسی فیکٹری میں ملازمت حاصل کر لی۔ اماں اور آپا دونوں ملازمت پر جانے لگے۔ گھر میں کچھ پرانے فرنیچر کے ساتھ اک عدد ٹی وی بھی آگیا۔ اماں نے اپنی دوسری ہی تنخواہ پر روبینہ اور رئیس کو موبائل فون بھی دلا دئے۔ زندگی تو اب جیسے ہماری مرضی سے چلنے لگی۔ میں اور روبینہ عمر کے اس حصے میں داخل ہو چکے تھے جہاں ہمارے اندر بھرپور خواب دیکھنے کے ساتھ ساتھ ان خوابوں سے ملنے اور ان کو چھونے کی خواہشیں بھی پروان چڑھنے لگی تھیں۔ روبینہ نے اماں کی ذمہ داریاں سنبھال لیں اور میرا حال ان دنوں بلکل کسی آزاد پرندے جیسا تھا جسے پہلی بار کھل کر اڑنے کی اجازت ملی ہو اور وہ اپنے نئے آشیانے کی تلاش میں بے چین ہو۔۔۔ میں خود کو کسی محل میں ایک بڑے سے تخت پر بیٹھی بےنیاز ملکہ کی سمجھنے لگی تھی جو اپنے سامنے سراہنے والوں کی ایک لمبی قطار دیکھنا چاہتی ہو۔۔۔ پہلی بار مجھے اپنے اِن خوابوں میں بھی اطمینان اور خوشی کا احساس ہونے لگا۔۔۔ میں اور روبینہ اب لفافوں کی لئی اور گنتی کو بھول کر دن بھر ٹی وی میں فلمیں دیکھ دیکھ کر اپنی زندگی میں آنے والے کسی راجکمار کے خدوخال اور خوبیوں کی فہرست بنانے لگے۔
اماں کی نوکری پکّی ہوتے ہی اماں پر دوبارہ سے آپا کی شادی کی دھن سوار ہو گئی۔ جلد ہی محلے کی ایک خالہ کے توسط سے آپا کا ایک بار پھر رشتہ طے ہو گیا۔ شادی چھ ماہ بعد ہونا قرار پائی۔ اماں پوری لگن کے ساتھ آپا کی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہو گئی۔ جہا ں ایک طرف ہمیں پہلی بار گھر میں ہونے والی کسی تقریب کی خوشی تھی۔ وہیں مجھے اور روبینہ کو یہ فکر لاحق ہونے لگی کہ آپا کے جانے کے بعد ہمارا کیا بنے گا۔ ہماری ساری بے فکری، خوشی اور مچلتے خواب ایک بار پھر عارضی دکھائی دینے لگے۔ اب ہم صبح شام اس امید پر کہ نجانے کونسی قبولیت کی گھڑی ہو خدا سے ایک ہی دعا کرتے کہ اب کی بار ہماری خوشیاں اور سکون مت چھیننا۔
آپا اس رشتے سے بہت خوش تھی۔ اس کے چہرے سے جھلکتا اطمینان واضح طور ہر دیکھا جا سکتا تھا۔ وہ شایدخود بھی ہمارا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے تھک چکی تھی اور جلد از جلد اس بیگار کیمپ سے بھاگ کر ایک آزاد اور پُر سکون زندگی گذارنا چاہتی تھی۔ مجھے اور روبینہ کو آپا کو یوں مسروراور مطمئن دیکھ دیکھ کر اور حسد ہونے لگا تھا۔ ہمیں یکایک آپا میں ایک خود غرض عورت نظر آنے لگی۔۔۔ روبینہ میری ہر بات سے متفق ہوتے ہوئے میری ہاں میں ہاں ملاتی لیکن کبھی اپنی زبان سے آپا کی کوئی برائی نہ کرتی۔ پتا نہیں وہ ڈرپوک تھی یا چالاک یا کچھ اور۔
ایک صبح میں یوں ہی کُھسر پُسر کر رہی تھی۔ “دیکھ روبینہ اگر آپا ہمارے لئے تھوڑی سی قربانی اور دے دیتی تو کیا چلا جاتا۔ ہم لوگوں نے بھی تو اُسے ہمیشہ ماں کی طرح سمجھا ہے۔۔۔ ویسی ہی عزت دی ہے۔ کبھی اف تک نہیں کی اس کے سامنے اگر وہ بھی ماں بن کر پہلے ہمارے گھر بسا دیتی تو کیا قیامت آ جاتی۔ آپا نے ذرا نہیں سوچا کہ اس کے بعد ہمارا کیا ہو گا۔۔۔ تو مان لے آپا بدل گئی ہے اب۔”
روبینہ مجھے ڈانٹنے لگی۔ “دیکھ ایسا مت بول۔ ہم نے زندگی میں جو سکھ چین دیکھا ہے وہ صرف اور صرف آپا کی وجہ سے ہے۔ آپا کی شادی تو ابا کے انتقال کے وقت ہی ہو جاتی۔ وہ تو اس نے خود ہماری خاطر اتنے سال تک قربانی دی۔”
میں جو پچھلے کئی روز سے جلی بھنی بیٹھی تھی، چلانے لگی؛ “ارے کیوں نہ بولوں۔۔۔کیا بڑے قربانیاں نہیں دیتے چھوٹوں کے لئے اس میں کیا نئی بات ہے اگر خدا مجھے بڑا بناتا تو آج میں یہ قربانی دیتی۔۔۔ ہم نے بھی تو بچپن سے آپا کی ہر بات بغیر چوں چراں کئے مانتے آئے ہیں۔۔۔ میں کون سا کہہ رہی ہوں وہ شادی ہی نہ کرتی۔۔۔ لیکن جہاں اتنا صبر کیا، تھوڑا اور کر لیتیں تو کیا بگڑ جاتا۔۔۔ اگر نہیں کر سکتی تھی تو ہمیں خواب دیکھنے کا موقع ہی کیوں دیا۔۔۔ پہلے ہی کر لیتی۔ ہمیں تو ذرا سا بھی سکون راس نہیں ہے۔۔۔ جس کے سہارے خواب دیکھنا شروع کئے وہی اب ہمیں چھوڑ کر چلتی بنی۔” میں اپنا فقرہ پورا کرکے پلٹی تو سامنے آپا کو دیکھ کر میرے پیروں تلے زمین کھسکنے لگی لیکن مجھے اصل حیرت اس وقت ہوئی جب آپا نے نہ مجھے ڈانٹا نہ کوئی سوال کیا، الٹا میری پڑھائی کی متعلق پوچھنے لگیں۔ آپاکی شادی میں دو مہینے باقی رہ گئے تھے۔ ۔میں آپا کو دیکھ کر خوش تو تھی لیکن میرے اندر نجانے کتنی ہی سوچیں اور وسوسے مجھے مسلسل بے چین کئے ہوئے تھیں۔۔مجھے کبھی اپنا مشقت بھرا بچپن اپنے سامنے ناچتا دکھائی دینے لگتا تو کبھی ابا کی انتقال کے بعد والے ہفتے کا خوف اور بھوک ستانے لگتی۔ اماں نے آپا کی شادی کیلئے کمیٹی ڈال رکھی تھی جو اسی ماہ ملنی تھی جس کے بعد آپا کی شادی میں حائل جہیز کی آخری رکاوٹ بھی دور ہو جانا تھی۔
اُس روز اماں اور آپا دونوں کی فیکٹری سے چھٹی تھی۔ اماں نے آپا کے ساتھ خریداری کیلئے بازار جانے کا ارادہ کیا۔ صبح سے شام ہو گئی لیکن دونوں واپس نہ لوٹیں۔ شام سے رات ہوتے ہوتے ہمارے ذہنوں میں ابا کی گمشدگی کے بعد والے دو دن کی اذیت ناک یادیں گونجنے لگیں لیکن اُس وقت تو اماں اور آپا بھی ہمارے ساتھ تھیں۔ اُس وقت ہم غمزدہ تو تھے لیکن ہمیں اپنے گھر سے ایسا خوف نہیں آیا تھا جو آج کی رات آ رہا تھا۔ رئیس رات بھر محلے کے چند بڑوں کو ساتھ لے کر پھر سے ابا والے واقعے کی طرح پولیس اسٹیشن، ہسپتالوں اور مردہ خانوں کے چکر لگاتا رہا۔ رات بھر اماں اور آپا کو کوئی خبر نہ ملی۔ ساری رات ہم دونوں بہنیں انتہائی خوف کے عالم میں ایک دوسرے سے چمٹی بیٹھی رہیں۔ ۔ہمارے آس پاس ہلکی سی آہٹ بھی ہوتی تو ہم دونوں چیخ اٹھتیں۔ ۔وہ بہت بھیانک رات تھی۔ ہمیں اپنا گھر کسی بھوت پریت سے بھرے قبرستان سے بھی زیادہ ڈراؤنا لگ رہا تھا جہاں اندھیرا تھوڑی تھوڑی دیر بعد ایک نئی بھیانک شکل اختیارکر لیتا ہے۔
دوسرے دن شام کو خبر ملی کہ اماں اور آپا بازار جانے سے پہلے مزار پر حاضری دینے گئی تھیں اور وہاں ہونے والے خودکُش دھماکے میں سینکڑوں دیگر لوگوں کے ساتھ شہید ہو گئیں۔ شام ڈھلے نجانے کب دونوں کی جلی کٹی لاشیں گھر پہنچیں۔ مجھے اور روبینہ کوکچھ ہوش نہ تھا۔ پتا نہیں کب اُن کے جنازے اٹھے، کب لوگوں نے ان دونوں کو دفنا دیا۔ ہم دونوں کے نصیب میں تو انہیں آخری دفعہ دیکھنے کی نوبت بھی نہیں آئی۔ دوسرے دن مجھے ہوش آیا تو روبینہ بھی قریب ہی نیم بے ہوش حالت میں بیٹھی تھی۔ ہمارے سامنے سرخ آنکھیں لئے رئیس بیٹھا تھا۔ ہم دونوں بہنیں رئیس کے کاندھے پر سر رکھ کر گھنٹوں روتی رہیں اور وہ ہمیں تسلیاں د یتا رہا وہ اچانک سے اتنا بڑا ہو گیا تھا۔ اماں اور آپا کے سوئم تک یہ سلسلہ اسی شدت سے چلتا رہا۔ ہماری سوچنے سمجھنے کی ہر صلاحیت ختم ہوچکی تھی۔ رئیس نے تو ابھی میٹرک بھی نہیں کیا تھا۔ ایسے میں گھر کا کرایہ اور سامنے نظر آنے والی بھوک اور ایسے ہی درجنوں سوالات تو تھے لیکن جواب ایک بھی نہیں تھا۔
سوئم کے بعد رئیس نے آ کر بتایا ۔کسی ادارے کی طرف سے مرنے والوں کیلئے دو دو لاکھ معاوضے کا اعلان ہوا ہے۔ اگلے دو دنوں میں حکومت اور دیگر اداروں کی جانب سے اعلان شدہ معاوضے کی مجموعی رقم بڑھ کردس لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی۔ پھر ہمارے تو دو افراد تھے تو اس بنا پر معاوضے کی رقم بھی دگنی ہونی تھی۔
اگلے چنددن اخبار اور میڈیا والوں کا ہجوم ہمارے گھر کو گھیرے رہا۔ روبینہ پر مسلسل خاموشی طاری تھی۔ میں ہی ہمت کرکے لوگوں کے سوالوں کے جواب میں اپنا دکھڑا سناتی رہی۔ معاوضے کی رقم بڑھنے کے اعلانات کے ساتھ ایک بار پھر سے میرے اندر ایک طمانیت کا احساس پیدا ہونے لگا۔ دوسری طرف روبینہ مسلسل روئے چلی جا رہی تھی۔ اُس کو ان اعلانات سے کوئی غرض نہیں تھا اُس کی ایک ہی رٹ تھی ہم پیسوں کا کیا کریں گے یہ ہمارے پیاروں کا نعم البدل تو نہیں بن سکیں گے۔ میں نے اسے لاکھ سمجھایا کہ دیکھ جو ہوا اُسے کون روک سکتا تھا؟ اس سب میں ہمارا کیا قصور؟ ابا کی انتقال کے وقت میں بھی ہم یوں ہی رو رہے تھے لیکن اللہ نے ابا کے انتقال کے بعد آپا کو ہمارا سہارا بنایا۔ اب کی بار اللہ ایسے ہماری مدد کر رہا ہے۔ کچھ بھی تو ہماری مرضی سے نہیں ہوا۔ ہمیں آخر کار خود پر قابو تو پانا ہی پڑے گا جیسا ابا کے بعد کیا تھا۔
روبینہ اپنے رونے پر قابو پاتے ہوئے ہچکیاں لیتے ہوئے بولی؛ “تجھے پتہ ہے سعدیہ۔ اُس دن آپا نے تیری ساری باتیں سن لی تھیں۔ وہ بہت دیر سے تیرے پیچھے کھڑی تھیں لیکن انہوں نے مجھے اشارے سے منع کر دیا تھا کہ تجھ سے کچھ نہ کہوں۔”
“کیا۔۔۔۔۔!” اور ایک گہری چیخ میرے جسم کو چیرتی ہوئی میری روح میں پوست ہو گئی