عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 57
طلاق! طلاق!! طلاق!!!
آل حسن خاں، قائم گنج ، ہندوستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” کیا یہ سچ ہے ؟”
” جی نہیں !”
” یہ جھوٹ بولتا ہے قاضی صاحب !” ایک دردناک بھرائی ہوئی نسوانی آواز فضا میں ابھری.
” ایک نہیں تین بار ……اب یہ میرے لئے ایک نا محرم ہے ، میں کیسے اس کے ساتھ ر ہ سکتی ہوں۔۔۔۔ آخر مجھے بھی تو خدا کو منہ دکھانا ہے۔” یہ سنتے ہی مجمع میں بھنبھناہٹ شروع ہو گئی۔
” تین بار !” قاضی صاحب کی پروقار آواز کے ساتھ ہی سناٹا چھاگیا۔
” جی !” کی دھیمی آواز کے ساتھ ہی نسوانی سسکیاں زور پکڑ گئیں۔
” قاضی صاحب ! زینب ٹھیک کہتی ہے۔۔۔۔۔ میں نے ڈرانے کے لئے اسے تین بار طلاق کہہ دیا تھا۔۔۔۔۔ کیا معلوم تھا بات کا بتنگڑ بن جائے گا۔”
” طلاق، طلاق ہوتی ہے اس کے تین بار کہنے کے بعد زن و مرد کہ رشتہ ہمیشہ کے لئے ٹوٹ جاتا ہے اور تم اپنا یہ جق پورا استعمال کر چکے ہو۔ اب تمہارا اپنی بیوی پر کوئ حق نہیں رہ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ پھر بھی اسے اپنے پاس روکے رکھنے کی تم جو جرأت کر رہے ہو۔۔۔۔ کیا تم جانتے نہیں اس کی سزا سنگساری ہوتی ہے۔” قاضی صاحب کی بات سنتے ہی مجمع پر سکتہ طاری ہو گیا۔ انہوں نے اپنے پُر رعب چہرے کو ادھر گھمایا جدھر ایک مفلوک الحال بوڑھا کھڑا اپنے جھریوں سے بھرے چہرے کو آنسوؤں سے سیراب کر رہا تھا۔
” نتھو !” تم اپنی بیٹی زینب کو لے جا سکتے ہو۔” قاضی صاحب کا فیصلہ سنتے ہی زاہد کے پیروں سے زمین کھسکنے لگی، وہ جھپٹ کر آگے بڑھا اور قاضی صاحب کے سامنے گڑگڑانے لگا۔
” نہیں! نہیں !! قاضی صاحب!!! میری ذرا سی بھول کی اتنی بڑی سزا نہ سنائیے۔۔۔۔۔۔ میں زینب کے بغیر نہیں رہ سکتا ہوں۔۔۔۔۔۔ وہ مجھے اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے۔۔۔۔۔ آپ نہیں جانتے اس سے مجھے کتنا پیار ہے مجھے معاف کر دیجئے جو چاہیں سزا دے دیجئے لیکن اس کو مجھ سے جدا نہ کیجئے۔ میں سب کے سامنے کان پکڑتا ہوں، اب کسی حالت میں بھی یہ الفاظ اپنی زبان پر نہ لاؤں گا اور لاؤں تو میری زبان کاٹ دیجئے گا۔۔۔۔۔۔ تو اپنا فیصلہ واپس لے لیجئے قاضی صاحب !”
” کم بخت ! یہ میرا نہیں خدا کہ حکم ہے۔۔۔۔۔ جسے تو کیا کوئی نہیں بدل سکتا ہے۔” انہوں نے اسکی طرف بڑی حقارت سے دیکھا اور مڑ کر چل دئیے لیکن زاہد نے لپک کر ان کا دامن پکڑ لیا اور بچوں کی طرح مچلنے لگا۔ لوگوں نے آگے بڑھ کر اسے الگ کیا اور اس کی چیخ و پکار اور آہ و فغاں پر دھیان نہیں دیا۔ سب کے ساتھ ہی زینب اپنے باپ کو سہارا دیتی ہوئی سسکتی چلی گئی اور زاہد وہیں زمین پر پڑا سر پٹکتا اور ہاتھ ملتا رہ گیا۔
دیکھتے ہی دیکھتے اس واقعہ کو کئی سال گزر گئے اور قاضی صاحب نہ معلوم کتنوں ہی کی قسمت کے فیصلے یوں ہی سناتے رہے اور پھر ایک دن وہ اپنے کمرے میں آرام کر رہے تھے کہ یکایک گھر میں کہرام مچ گیا۔ انہوں نے ملازم کو بلا کر معلوم کیا تو اس نے بتایا۔
” صاحب ! چھوٹی بی بی کو وحید میاں نے طلاق دے کر گھر سے نکال دیا ہے۔”
” کیا ؟” قاضی صاحب آنکھیں پھاڑ کر ایسے اچھلے جیسے کسی زہریلے بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔ “میری بیٹی کو طلاق دینا کیا اتنا آسان ہے۔” بڑبڑاتے ہوئے وہ اٹھے اور باہر چل دئیے۔
چوک میں آج کافی گہما گہمی تھی قاضی صاحب نے پنچایت بلائی تھی۔ شہر کے معززین کے علاوہ بڑے بڑے علمائے دین بھی موجود تھے مقابلہ بڑا سخت تھا کیوں کہ قاضی صاحب کے سمدھی مولانا صادق شر ع کے پابند تھے وہ اس جدت سے قطعی اتفاق نہیں کر رہے تھے کے تین طلاق کے بعد بھی ان کے بیٹے اور بہو کے دمیان رشتہ ازدواج باقی ہے لیکن قاضی صاحب برابر اصرار کر رہے تھے کے جب وحید میاں نے اقبال کر لیا ہے کہ اس کے منھ سے یہ الفاظ اس وقت غیر ارادی طور پر نکل گئے جب اس کی بیوی اور ماں آپس میں جھگڑا کر رہی تھیں تو تین بار طلاق کہہ دینے کے باوجود ان کی بیٹی کو طلاق نہیں ہوئی ہے۔”
بحث کے دوران جب مولانا صادق نے قاضی صاحب پر یہ الزام لگایا کہ وہ اپنی بیٹی کی وجہ سے غلط تاویلیں پیش کر کے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں تو طیش میں آ کر انہوں نے اپنی جیب سے ایک کاغذ نکا لا اور بولے۔
“یہ میرا نہیں علماء کا فیصلہ ہے کہ ایک ہی جگہ پر ایک ہی بار میں تین طلاق کہہ دینے سے بھی طلاق نہیں ہوتی ، ابھی مولانا کی بات ختم بھی نہیں ہوئی تھی کے ان کے سر سے گرم خون کا فوارہ پھوٹا جو ان کے چہرے اور لباس کو تر بتر کر گیا اور وہ اپنی جگہ پر لڑکھڑاتے ہوئے زمین پر ڈھیر ہو گئے، جب وہ بول رہے تھے تبھی ایک وحشت زدہ انسان بھیڑ کو چیرتا درمیان میں آ کھڑا ہوا تھا اور اس نے اپنی جھولی میں بھرے پتھر ان پر برسانا شروع کر دیئے تھے۔ مجمع میں شور و غل برپا ہو گیا اور افراتفری کے عالم میں پاس کھڑے لوگوں نے اسے دبوچ لیا۔ اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے اور معلوم نہیں وہ کیا کیا بک رہا تھا تبھی بھیڑ سے ایک آواز فضا میں گونجی۔
” ارے یہ تو زاہد ہے زاہد۔”
” کون زاہد ؟”
” وہی جس نے زینب کوطلاق دے دی تھی۔ ”
“لیکن وہ تو کہیں غائب ہو گیا تھا۔”
“ہاں قاضی صاحب کے فیصلے کے بعد پاگل ہو گیا تھا۔“
Be First to Comment