عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر109
صلیب
واجدہ تبسم گورکو
اس کو سن کے لگتا تھا کہ وہ جو کچھ بھی کہتی تھی۔ سب اس کے ٹوٹے دل کی آواز تھی۔ وہ کبھی تصویروں سے باتیں کرتی تھی اور کبھی یونہی مسکرائے جاتی تھی۔ حاصل زندگی بھی کیا جنوں ہے۔ معلوم نہیں کہ وہ بار بار آ ئینے کے سامنے بیٹھ کیوں جاتی تھی۔ کبھی کبھی اس پر جمی دھول کو بھی صاف کرتی تھی اور کبھی اپنے بالوں کو بھی سنوارتی تھی۔ دیکھ کے ہی لگتا تھا کہ وہ دل پر کوئی بڑا بوجھ لے کر جیتی ہے۔ اسی لئے وہ یہ سب حرکتیں کرتی تھی مگر بولنے کے لئے منہ کبھی کبھی ہی کھولتی تھی۔
میں نے اکثر دیکھا۔ شہر دل کی یہ اداسیاں قطاروں میں کبھی اس کے چہرے پر شکن بن کے ابھرتی تھیں اور کبھی ایک لمبی آہ بن کے حلق سے باہر آتی تھی۔ اس کے کھائے ہوئے زخم کل بھی تازہ تھے اور آج بھی تازہ ہی دکھائی دیتے ہیں کیونکہ رشتوں کی آڑ میں اس نے سانپ پالے تھے جو ایک ایک کرکے اب اسے ڈس رہے تھے۔ ظلم سے لڑنا تو اس نے سیکھا ہی نہیں تھا اور نہ ہی کبھی کوئی آواز اٹھائی تھی۔ شاید اسی لئے زندگی کے سفر کی جستجو میں اکثر وہ اپنا حوصلہ کھو دیتی تھی۔
اب دیکھئے جینا بھی کیا ستم ہے۔ کبھی وہ ایک جلتا شعلہ تھی اور آج ٹھنڈے راکھ کا ڈھیر کیونکہ اس کے شوہر کے کالے کرتوتوں نے اور سسرال والوں کے ظلم و ستم نے اس کے پھول جیسے جسم پر لفظوں کے اولے برسا کر وحشت بھری یادیں اور دل دہلانے والی مایوسی دے کر اس کے روح کو بھی زخمی کر کے خاموش زندگی کی صلیب پر چڑھا دیا تھا۔ وہ اپنے ان گنت کرداروں کی نظروں کے سامنے گھوم رہی تھی۔
آج جب اس نے مجھے مدت کے بعد دیکھا تو اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ کہا میری ساری عمر محنت میں کٹی اور باقی تمام گھر والوں کی شوخ رنگینیوں میں۔
پھر اس کے چہرے پر بچوں کی طرح عجیب مسکراہٹ پھیلنے لگی اور وہ باہر جھولے سے لٹکی رسی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کو دیکھنا اس کے لئے کوئی انوکھی یا بڑی بات نہیں تھی بلکہ یہ اس کے اپنے من کی آواز تھی۔
Be First to Comment