Skip to content

صرصر آلام

عالمی افسانہ میلہ 2015

افسانہ نمبر 54

صرصرِ آلام

اسماء حسن، ہانگ کانگ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے آنسوؤں میں گِھری آواز، کائنات کی ساری خاموشی سمیٹے، اُس کے حلق کے کسی آخری حصے میں دبکی بیٹھی تھی کہ اگر ہلکی سی بھی جنبش کی تو مخلوقِ خُدا سُن لے گی اور اُس کے صبر کا پیمانہ ٹُوٹ کر اُن لوگوں کے قدموں میں جا بکھرے گا جو اُسے روندنے میں لمحہ بھر کی تاخیر نہ کریں گے۔۔۔۔۔ اور وہ باتیں۔۔۔۔ جو وہ اپنے رب سے کرتی ہے اُنہیں شکووں کا نام دے کر کافر ہونے کا فتوٰی جاری کر دیں گے۔ لبوں کی حرکت ساکت تھی اور دل رب کے حضور سجدے میں ڈوبا التجائیہ نظریں جمائے اُس کی قبولیت کے ایک اشارے کا منتظر تھا۔

اس سے پہلے کہ زمانہ میری سسکیوں سے آشنا ہو جائے اور جھوٹی تسلیاں میرے کندھوں پر بوجھ بن جائیں ۔ اس سے پہلے کہ میرے الفاظ میری زبان کا ساتھ چھوڑ دیں اور میرا دل جبر اور قدر کی سمجھ بھول جائے۔۔۔۔ میرے اندر اپنی مُحبت کا وہ جذبہ پیدا کر دے جو مُجھے تیرے ہر فیصلے کو لے کر رضامند ہونے پر راضی کر لے ۔۔ اے کُل کائنات کے مالک، اے جزا و سزا کے دن کے حاکم اگر یہ میرے گُناہوں کی سزا ہے تو مُجھے معاف فرما دے کہ تجھ سے بڑھ کر درگزر کرنے والا کوئی نہیں اور اگر یہ میری آزمائش ہے تو بھی مُجھ پر نگاہِ کرم ڈال کہ میں گناہگار تیری آزمائشوں کے قابل بھی نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔ اے ملتجیوں کے سُننے والے، میرے تھکے وجود کی شکستہ دیوار میں بہت سی دراڑوں نے اپنا آشیآنہ بنا لیا ہے۔۔۔۔ میرے سیم زدہ الفاظ کی عمارت دھیرے دھیرے بوسیدہ ہو رہی ہے مجھ پر کرم فرما کہ میں تیرے فضل کی طالب ہوں

وہ اکژ اپنے کردہ اور نا کردہ گُناہوں کی معافی مانگتی رہتی تھی۔۔۔۔ اُس وقت کے اُن گُناہوں کی بھی جب نامہء اعمال میں لکھے جانے کے تصور سے بھی آشنا نہ تھی وہ۔ جب آنکھوں میں اشکوں کی دُھند نے گھیرا تنگ کر دیا۔۔۔۔ جب سارے الفاظ ذہن کی پرتوں سے متصادم پو کر ادھر اُدھر مُنتشر ہونے لگے تو اُس نے قدرے دُور پڑے میز پر سے پانی کا گلاس اُٹھانے کو ہاتھ بڑھا یا تاکہ خشک گلے کو پانی کی چند بوندوں سے تر کر لے کہ اُسے پھر سے مشقِ دُعا جاری رکھنی تھی لیکن اُس کی سعیِ ناکام نے پانی سے بھرے گلاس کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے فرش پر ادھر اُدھر بکھیر دیا ۔۔۔۔ اُس نے التجائیہ نظریں آسمان کی طرف اٹھائیں لیکن کوئی فرشتہ مدد کو نہ آیا۔۔۔۔ بے بسی کی دیواریں پھلانگتے ہوئے وہ ان کرچیوں میں اپنے وجود کے کئی ٹکڑے دیکھتی رہی۔۔۔۔۔ کہیں پر اَرغوانی آنکھ دکھائی دی تو کہیں پر لرزتے ہونٹ۔

نمازِ عصر کا وقت ڈھلنے کو تھا۔ سورج آہستہ آہستہ اپنی جگہ چھوڑتے ہوئےکھڑکی کے راستے کمرے میں آنے والی روشنی کو الوداع کہہ رہا تھا۔۔۔ دودھیا سفید بادلوں نے لباس بدلا اورگہری لال، پیلی ، جامنی اوڑھنی اوڑھ لی ۔۔۔۔۔ ۔سورج نصف النہار سے رخصت لیتا ہوا مغرب کی جانب سفر طے کرنے کے بعد غروب ہونے کے قریب قریب تھا۔۔۔ پرندے حسب معمول ٹولیاں بنا کر نجانے کون سے مسکن کی تلاش میں اڑے چلے جا رہے تھے۔۔۔۔ محلے میں کھیلتے بچوں کو ماؤں نے گھروں کے اندر بلا لیا تھا۔ یخ بستہ شام کو رات کے کہرے نے دبوچ لیا تھا۔۔۔۔ اندھیرا بڑھتا گیا اور کمرے میں پڑی ہر شے کی شکل غیر واضح ہوتی چلی گئی۔۔۔۔ وہ اپنے تھکے ماندے وجود کو جائے نماز سمیت گھسیٹتی ہوئی، ساتھ ہی پڑے پلنگ کی طرف سرک گئی۔ اپنےدائیں بازو کو تکیہ بناتے ہوئےاس نے پلنگ کی پٹی پر ہی سر ٹکا دیا اور نیم دراز ہو کر ایک لمبی آہ بھرتے ہوئےآنکھوں کو بند کر لیا۔ وہ جب بھی آنکھیں بند کرتی تھی تو ماضی کی کوئی نہ کوئی یاد خواب بن کر اس کی آنکھوں میں اُمڈنے لگتی تھی اور پھر یادوں کی دستک اس کی آنکھوں کی کھڑکیوں کو پٹخ پٹخ کر کھول دیتی تھی۔ یادیں تلخ ہوں تو انسان کے وجود کو اندرسے ریزہ ریزہ کر دیتی ہیں پھر نہ تو بارش کی رم جھم اچھی لگتی ہے نہ سرد ہواؤ ں میں نکلتی سُورج کی کرن ہی دل کو بھاتی ہے اور نہ ہی چہچہاتے پرندوں کا سُر من کے تاروں کو چھُوتا ہے۔

ماہم اٹھو جلدی سے۔۔۔۔ سکول کا وقت ہو گیا ہے۔۔۔۔”، خیال ِ گزشتہ کی پہلی جھلک میں اُس کی ماں نے اُسے آواز دی تھی۔

سردیوں کی منجمند صبح میں بچوں کو سکول کے لئے اُٹھانا بھی جوئے شیر لانے کے مُترادف ہے۔ بچوں بیچاروں کا کیا قصور؟ اتنی سردی میں کس کا من کرے گا لحاف چھوڑنے کو۔ بہرحال سکول تو جانا ہے پڑھنا تو ہے ناں”۔ وہ منہ میں من من کرتے ہوئے جیسے خود ہی کو تسلی دے رہی تھی۔ لحاف اُتارتے ہوئے مہرو بیگم نے ماہم کے ماتھے پر پیار بھرا بوسہ دیا۔ تو ماہم کے تپتے جسم کی حدت سے گھبرا گئیں۔

اسے تو بہت تیز بُخار ہے۔” وہ جلدی سے تھرما میٹر لینے دوسرے کمرے کی جانب بھاگیں۔ بیٹی کے کمرے سے اس کے کمرے کا ٖفا صلہ جو چند قدم تھا، مہرو بیگم کے لئے طے کرنا جیسے پہاڑ ہو گیا۔ تھرما میٹر اُٹھایا اور اُ لٹے قدموں ماہم کے کمرے کی طرف دوڑیں۔ بخار چیک کیا تو ماں کا کلیجہ منہ کو آنے لگا۔ دس سالہ بیٹی کو آئے دن بخار میں تپنا پڑتا تو مہرو بیگم کو ڈاکٹر کی کہی ہوئی بات یاد آ جاتی۔

بخار از خود کوئی بیماری نہیں بی بی ، یہ ایک قسم کا سگنل ہے جو بتاتا ہے کہ ہمارے جسم میں کوئی غیر معمولی تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔

یہ سوچتے ہوئے اس نے کانپتے ھاتھوں بیٹی کے ننھے بدن پر سے قمیض ہٹائی تو آنکھوں سے آنسو سیلاب بن کر امڈنے لگے اور اسے ڈاکٹر کی کہی ہوئی بات پھر سے یاد آنے لگی۔ مہرو بیگم تہجد گزار خاتون تھیں۔ زندگی کے ہر موڑ پر جب تک مہرو بیگم کی سانسیں چلتی رہیں۔ ماہم نے ہمیشہ انہیں جائے نماز پر بیٹھ کر رب کے پاس آہ و فریاد کرتے ہی سنا تھا۔ زار و قطار آنسوؤں کے ساتھ، ھاتھ جوڑے ہوئے ہر نماز میں، تہجد میں، وہ صرف اس کے لئے ہی دُعا مانگتی رہتی تھیں۔ شائد ماں کا شیوہ ہی یہی ہے۔

ڈاکٹرز کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ماہم کو ہر دوسرے، تیسرے مہینے چیک اپ کے لئے بلایا جاتا تھا جہاں اس کے ڈھیروں ٹیسٹ ہوتے اور ہر ٹیسٹ کے بعد ڈھیروں ادویات اس کے ہمراہ کر دی جاتیں۔ چھوٹی سی عمر میں ماہم نے زندگی کے تلخ اور بھیانک روپ دیکھ ڈالے تھے۔۔۔۔ کبھی خوشی کی چھاؤں تو کبھی دکھ کے سائے اس کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔

اسی نشیب و فراز میں وقت نے کروٹ بدلی اور دس سال پنکھ لگا کر اڑ گئے۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی ماہم کا شباب کچھ سر چڑھ کر بولا۔ اپنے پرائے سبھی اس کے حسن پر فریفتہ ہوئے بغیر نہ رہ پاتے۔ سب کہنے لگے یہ تو بالکل اپنی ماں پر گئی ہے، وہی ستواں ناک، گورا رنگ، بڑی بڑی آنکھیں، کسی طور بھی وہ کسی حسین دوشیز ہ سے کم نہ تھی۔۔۔۔۔ پر نک چڑی بھی خوب تھی وہ جسے بچپن سے ہی بیماری نے گُھن کی طرح پیسا ہوا تھا، زبان سے زہر اگلنا اس کے لئے شائد کوئی بڑی بات نہیں تھی۔

اللہ کے نام پر دے دو کچھ۔۔۔۔ بابا دعا کرے گا تیری زندگی کی خوشیوں کے لئے بھیک مانگے گا۔۔۔۔ اس گھر کی رونقوں کو کسی کی نظر نہ لگے ۔۔۔۔۔” دروازے پر فقیر کی صدا جاگتی آنکھوں دیکھتےخواب پر ہتھوڑا بن کر برسی اور وہ چونک کر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے ماں کی موہوم تصویر اور اس کی باتوں کے تانے بانے پھر سے بُننے لگی اور کمرے میں ماں کو کھوجنے لگی۔ کیا فرق تھا اس کی اور ماں کی دعاؤں میں۔’ وہ سوچنے لگی۔۔۔۔۔۔ یہ وہی جائے نماز تو ہے جس پر اس کی ماں نماز پڑھتی تھی۔ یہ تسبیح بھی اس کی ماں ہی کی تو ہے جس پر اسی کے بتائے ہوئے درود پڑھا کرتی تھی وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا سوائے اس کے، کہ مہرو بیگم کی جگہ ماہم نے لے لی تھی۔ سرکش ٹھنڈی ہوائیں ادھ کھلی کھڑکی کو سٹپٹاتی چلی جا رہی تھیں۔۔۔۔۔ اس نے بڑی مشکل سے ہاتھ بڑھا کر کھڑکی کو ہوا کے جابر سندیسے سنانے سے روکا اور دوبارہ ماضی کے دھندلکوں میں خود کو تلاش کرنے نکل پڑی۔۔۔۔ اس کے بند کواڑ کھولے تو دھول میں اَٹی یادیں ادھر ادھر منڈلانے لگیں۔

ماہم تمہیں ہیل والے جوتے پہننے کی کیا ضرورت ہے۔ تم تو ویسے ہی اتنی پیاری لگ رہی ہو ۔ کالج کی سب لڑکیاں تمہیں دیکتھی رہ جائیں گی۔ دیکھو تمہارا سوٹ کتنا خوبصورت ہے اور میری بیٹی پر پیلا رنگ کھلتا بھی تو بہت ہے۔” مہرو بیگم بیٹی کے اصرار پر اسے لمبی لمبی تاویلیں پیش کر رہی تھیں مگر وہ ایک نہ سنتی اور بولتی چلی جاتی تھی۔

اس سوٹ کے ساتھ ایسا بند جوتا اچھا لگے گا کیا ؟ یا پھر یہ فضول سی چپل! بھلا کون پہنتا ہے ایسے جوتے ایسے کپڑوں کے ساتھ۔ اللہ نے بھی اتنا حسین بنا کر بھی ایک عیب ڈال دیا اگر اتنااااااااااااا سا قد اور بڑھا دیتا تو ہیل والے جوتے کے لئے اتنا تو نہ مرتی میں۔” وہ “اتنااااا:” پر زور دیتی اور انگلی کی ایک انچ کی پور کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ماں کو باتیں سناتی چلی جاتی تھی۔ دوسرے بہن بھائیوں کو کھیلتا ، کودتا دیکھتی تو دل میں درد کی لہر اٹھتی اور خواہشات کی چنگاریاں آسمان کی طرف پرواز کرتی ہوئی دم توڑ دیتی تھیں۔ ماں کو تکلیف نہ ہو اس لئے وہ اپنے آنسوؤں کو پلکوں کی چلمن تک آنے سے روکے رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتی تھی۔

گرمی، سردی زیادہ ہوتی تو اس کے بدن پر لال رنگ کے چھوٹے چھوٹے دانے بن جاتے جو پھوڑوں کی مانند درد کرتے تھے۔ ساری ساری رات ماں اس پر ڈاکٹر کی بتائی ہوئی کریمیں لگاتی رہتی تھی۔ ٹانگوں پر، بازؤں پر، پیٹ پر، کوئی ایسی جگہ نہ تھی جو سرخ دھبوں سےخالی ہوتی سوائے چہرے اور ھاتھوں کے۔ روزمرہ کے ایسےحالات سے وہ تنگ آ جاتی تھی تو پھر جو منہ میں آتا کہتی چلی جاتی۔ لوگ اس کا ظاہری حسن دیکھتے اور اس کا تلخ لب و لہجہ۔۔۔۔ باطن میں جھانکنے کی کبھی کسی نے کوشش ہی نہ کی۔ بہت سے لوگ تو اس کے سامنے ہی اس کی ماں کو کہہ دیتے تھے۔

تمہاری بیٹی بڑی منہ پھٹ ہے مہرو۔ اسے کچھ عقل دو کل کو کسی دوسرے گھر بیاہ کر جائے گی اور ایسے بولے گی تو اس کی اس قسم کی حرکتیں کون سہے گا۔

جب کبھی مہرو بیگم ، ماہم سے شادی کی بات کرتی تو وہ غصے سے لال پیلی ہو جاتی اورسرخ دانوں سے بھرے بدن پر سے کپڑا ہٹا کر کہتی؛ ” کون کرے گا اس گلی سڑی لڑکی سے شادی، پہلی رات ہی طلاق دے کر مجھے گھر بھیج دے گا پھر آپ ساری عمر ایک طلاق یافتہ بیٹی کی خدمتیں کریں گی۔ آپ کیوں نہیں سمجھتیں امی کہ میں شادی کے قابل نہیں ہوں۔ یہ تو اللہ نے اچھی شکل و صورت دے کر میرا بھرم رکھ لیا ہے کہ لوگ صرف میرے ظاہری حسن کو جانتے ہیں ۔ رشتہ لے کر آنے والوں کو کبھی میرے بدن پر بنے یہ پھوڑے نما دانے دکھایئے گا اور ان سے کہیئے گا میری بیٹی کو اپنا لیں تو دیکھئے گا، ان کا جواب کیا ہو گا۔ “۔۔۔۔ اور پھر دونوں ماں بیٹی ایک دوسرے سے نظریں چراتے ہوئے اپنے اشکوں کو اپنی آنکھوں میں ہی دبوچ لیتی تھیں لیکن اندر ہی اندر اس کی شادی کی فکر مہرو بیگم کو دیمک کی طرح چاٹتی رہتی۔ چھوٹی بیٹی کا رشتہ ہوا تو ماں کو ماہم کی فکر اور زیادہ ستانے لگی۔ اب وہ روز کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر ماہم کو منانے کی کوشش کرتی تھیں۔

دیکھو ماہم میری بات غور سے سنو، یہ دنیا تمہیں جینے نہیں دے گی۔ زندگی کا سفر بہت طویل ہے۔ جیون ساتھی کے بغیر رہنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہ معاشرہ مرد کا ہے کیسے رہو گی۔ ماں باپ سدا ساتھ نہیں رہتے۔ آج تم خوبصورت ہو تو اچھے رشتے آ رہے ہیں۔۔۔۔ کل نہیں آئیں گے۔۔۔۔۔ آج تمہاری خالہ کا فون آیا تھا اس نے اسد کے لئے تمہارا ھاتھ مانگا ہے۔ میں تمہاری خالہ کو سب کچھ بتا دوں گی۔۔۔۔ تم مان جاؤ ۔ میری خاطر۔۔۔۔

ماں کے بندھے ھاتھ اور التجائیہ نظریں دیکھیں تو کرسی سے اٹھ کر کھڑی ہوئی اور کہنے لگی۔” ٹھیک ہے میں مان جاتی ہوں مگر میری شرط ہے میں اسد سے خود بات کروں گی اور اسے سب کچھ بتاؤں گی اور اسے یہ دھبے بھی دکھاؤں گی کہ دیکھو تمہاری ہونے والی بیوی کتنی گلی سڑٰی ہے۔ اگر آپ کو یہ شرط منظور ہے تو میں شادی کے لئے تیار ہوں ۔

ماں ماہم کے غصے اور ضد سے واقف تھی اس لئے آگے کچھ نہ کہہ سکی اور شائد اس نے بھی یہی مناسب سمجھا۔ اگلے دن مہرو بیگم نے بہن کو فون کیا اور ماہم کی مرضی بتائی۔ بہن نے اسد کو اس کے گھر بھیج دیا۔ ماہم کے حسن پر تو سب فریفتہ تھے تو وہ کیونکر انکار کرتا۔ جب وہ گھر پہنچا تو ماہم نے اس کے آگے اپنی ساری میڈیکل رپورٹس رکھ دیں اور شلوارکا پائنچہ سرکا کر کہنے لگی۔

ایسے دھبے میرے پورے جسم پر ہیں۔ ایسی بیوی منظور ہے تو مجھے تم سے شادی کرنے پر کوئی اعتراض نہیں، مگرزندگی میں تم مجھے کبھی کوئی طعنہ نہیں دو گے۔

یہ رپورٹس اپنے پاس رکھو مجھے نہیں دیکھنیں۔ بس اتنا ہی کہوں گا کہ زندگی بھر تمہیں کبھی کوئی طعنہ نہیں دوں گا۔ اب تمہیں کوئی اعتراض نہ ہو تو امی کو بھیجوں؟ تاکہ میں اس نک چڑی سی لڑکی کو اپنی شریک حیات بنا سکوں۔

حیرت اور خوشی کا ملا جلا امتزاج ماہم کی آنکھوں میں آنسو بن کر اترتا چلا گیا۔ شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ مدتوں کے بعد مہرو بیگم کے گھر میں ایک ایسی خوشی نے قدم رکھا تھا جس کا کوئی ثانی نہ تھا۔ اسد اور ماہم گھنٹوں فون پر باتیں کرتے رہتے۔ آنے والے حسین دنوں کے سپنے سجاتے۔ شب و روز حسین سے حسین تر ہوتے چلے گئے تھے۔ ماہم کی ہزار ادویات اور دکھ، اسد کے عنایت کئے ہوئے سکھ کے بوجھ تلے دبتے چلے گئےلیکن کبھی کبھی کوسی شام میں لپٹی زندگی سورج کی ایک نِگی کرن کے لئے ترستی رہتی ہے۔ آسودگی کہیں منہ چھپائے نالاں ہوئے بیٹھی رہتی ہے۔

ایک بار پھر سے صرصرِ آلام نے ماہم کی ہنستی کھیلتی زندگی پر بڑی زور سے دستک دی تھی۔ بے رحم جاڑے کے دن تھے اور خوشیاں بھی جیس نقطہء انجماد پر آ کر ٹھہر سی گئیں تھیں۔ ماہم کے بائیں پاؤں کے ٹخنے پر ایک لال دانہ ابھرا اور زخم کی صورت اختیار کر گیا۔ زخم تھا کہ بڑھتا چلا گیا جو چند دنوں میں ہی سوراخ بن کر نمودار ہوا تھا۔ ماہم کی ہنستی کھیلتی زندگی پر غم و اندوہ نے بڑی بے رحمی سے نقب لگایا تھا۔ گھر پر افسردگی نے پھر سے ڈیرے ڈال لئے۔ آہستہ آہستہ سوراخ بڑھتا چلا گیا، خون کی گردش میں کمی واقع ہوئی اور دیکھتے دیکھتے ماہم کے بائیں پاؤں کی انگلیاں نیلی پڑ گئیں اور درد اس قدر بڑھ گیا کہ وہ ذبح کئے جانے والے جانور کی طرح تڑپتی رہتی۔ گلی سے گزرنے والے راہگیر تک اس کی چیخیں سن کر رک جاتے تھے۔ ہمسائے اور رشتہ دار بھاگے چلے آتے اور جھوٹی تسلیاں دے کر آگے بڑھ جاتے تھے۔۔۔۔ کوئی تو یہ تک کہہ جاتا۔

اس سے کہو اپنے گناہوں کی معافی مانگے۔۔۔۔ یہ منہ پھٹ بھی بہت ہی ہے۔۔۔۔۔ دعائیں لیا کرو بیٹی۔۔۔۔ تاکہ تمہارے دکھ کم ہو سکیں۔۔۔۔۔ کبھی کبھی انسان کی تکالیف اس کے اپنے کرموں کی وجہ سے ہی ہوتی ہیں۔۔۔ توبہ توبہ اللہ معاف کرے۔۔۔۔

اس کا نیلا پڑتا پاؤں دیکھ کر ڈاکٹروں نے مشورہ دیا تھا کہ ماہم کی زندگی چاہتے ہیں تو اس کی انگلیوں کو کاٹ دیا جائے تا کہ بیماری آگے بڑھنے سے روکی جا سکے۔ ایک دن تکلیف اس قدر بڑھ گئی کہ اسے نیم بے ہوشی کی حالت میں لا کر ہسپتال کے آپریشن تھیٹر میں لٹا دیا گیا۔ بہن، بھائی، ماں اور اسد سب آپریشن تھیڑ کے باہر کھڑے اس کی سلامتی کی دعا مانگ رہے تھے۔ لال بتی جل اٹھی۔ سب کی اشکوں سے دھندلائی آنکھیں آپریشن تھیٹر پر تاک لگائے ہوئے تھیں۔۔۔۔ دو گھنٹے بعد ایک ڈاکٹر باہر نکلا اور اس کے بھائی کو ہاتھ کے اشارے سے بلایا اور کچھ کہہ کر اندر چلا گیا۔ بھائی کے چہرے پر خوفناک آثار نمایاں تھے جو ماں کے کلیجے کو چیر رہے تھے۔ اس نے اپنے لب کھولے تو سب سکتے میں آ گئے۔۔۔۔ لال بتی دوبارہ جل اٹھی۔۔۔۔ مزید دو گھنٹے گزر گئے۔۔۔۔۔ بتی بجھی اور ماہم کو کمرے میں منتقل کر دیا گیا۔۔۔۔ جب اسے ہوش آیا تو سب اس کے ارد گرد کھڑے تھے سوجی ہوئی لال آنکھیں لئے بالکل آپریشن تھیٹر کی جلتی ہوئی لال بتی کی طرح ۔۔۔۔۔۔ اسے ہوش میں آتا دیکھ کر سب نے خود کو سنبھالا۔۔۔۔ پاؤں کے پاس کھڑی چھوٹی بہن، ساتھ بھائی اور ماں اور پھر اسد کا چہرہ دھندلاہٹ لئے اسے نظر آنے لگا۔ بھائی نے حوصلہ کیا اور آگے بڑھ کر پوچھا۔

ماہم کیسی ہو اب ۔۔۔۔

جی بھائی اب پاؤں میں درد نہیں ہے۔۔۔۔ کافی ٹھیک ہے۔۔۔۔ اس نے بے ربط جملوں میں جواب دیا۔ یہ الفاظ سنتے ہی ماں کی برداشت کی ساری حدیں ٹوٹ گئیں اور وہ آنسو لئے باہر نکل گئیں۔ اس نے کروٹ لینے کی کوشش کی تو اسے اپنے جسم کے کسی حصے کا بار ہلکا محسوس ہوا۔ تذبذب اور کرب کے عالم میں اس نے ٹانگ کو ہلایا کہ جیسے وہ اپنی کوئی گمشدہ قیمتی چیز ڈھونڈ رہی ہو۔ اسے لگا وہ کوئی بھیانک خواب دیکھ رہی ہے۔ جیسے بچپن میں دیکھا کرتی تھی۔ وہ خود کو جھنجھوڑتی ہوئی اس دردناک عذاب سے نکلنے کی کوشش کرتی ہے مگر خواب اپنی پوری طاقت لگائے اسے جکڑے ہوئے ہے۔۔۔۔ بے بسی میں زور زور سے آنکھیں کھولنے کی کوشش کرتی ہے مگر نہیں کھول پاتی، اٹھنا چاہتی ہے مگر اٹھا نہیں جاتا، اس کرب سے نکلنا چاہتی ہے مگر نکلا نہیں جاتا۔۔۔۔ پھر تھوڑی دیر میں اس کی ماں یا کوئی بہن یا بھائی اسے جگا دیتا تو وہ سکون پاتی تھی۔ ابھی کوئی آئے گا اور اسے چٹکی کاٹ کر اٹھا دے گا مگر آج کوئی نہ آیا اور کسی نے کوئی چٹکی نہ کاٹی اس نے دیوانہ وار سوالیہ نظروں سے بھائی کی طرف دیکھا۔ بھائی نے آگے بڑھ کر اس کو گلے سے لگایا اور اپنے آنسوؤں پر قابو پانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بولا۔

تمہاری زندگی کے لئےخطرہ تھا اس لئے ڈاکٹروں کو یہ فیصلہ فوراً لینا پڑا ۔

اب اسے یقین ہو گیا کہ وہ کوئی خواب نہیں دیکھ رہی۔ ان بے رحم الفاظ کے بعد ماہم کی چیخیں ایک بار پھر گونجیں اور کمرے سے باہر کھڑی ماں کے دل کو چیرتی چلی گئیں۔۔۔۔۔ ہسپتال کے کمرے سے باہر مہرو بیگم ، ماہم کے جوتے سینے سے لگائے، پاگلوں کی طرح انہیں گھورتی چلی جا رہی تھیں۔۔۔۔ اس کے ذہن میں بار بار ماہم کا ہیل والا جوتا پہننے پر اصرار گونجتا اور اس کی سسکیاں رک ہی نہ پاتیں۔

تم جو فیصلہ بھی کرو گے ہمیں منظور ہو گا۔ ہمیں معلوم ہے ہماری بہن اب معذور کہلائے گی اورزندگی بھر کون کسی کا ساتھ دیتا ہے۔۔۔۔ تم ہر فیصلہ کرنے پر قادر ہو مگر اتنی سی گزارش ہے کہ فی الحال اسے کچھ مت کہنا۔ جھوٹی تسلی ہی دے دینا کہ تم اس کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑو گے۔ ابھی اسے تمہاری ضرورت ہے۔ وہ ایک اور صدمہ برداشت نہیں کر پائے گی۔۔۔۔” یہ الفاظ تھوڑی دیر پہلے ہی ماہم کے بھائی نے ھاتھ جوڑتے ہوئے التجا کرتے ہوئے اسد سے کہے تھے۔ ماہم نے اسد کی طرف دیکھا اور آنکھیں دوسری طرف پھیر لیں جیسے آج وہ اپنے ہونے والے جیون ساتھی سے ہی شرمندہ ہو بیٹھی تھی۔

صرف اتنا کہوں گا کہ زندگی بھر تمہیں کبھی کوئی طعنہ نہیں دوں گا۔” کیا اتنے سے جملے کے سہارے زندگی کاٹی جا سکتی ہے ؟ وہ سمجھ گئی تھی کہ اسد اسے صرف جھوٹی تسلی دے رہا ہے وہ کیونکر زندگی بھر ایسے بوجھ کو اٹھائے اٹھائے پھرے گا۔

اللہ کے نام پر دے بابا۔۔۔۔ کب سے تیرا در کھٹکھٹا رہا ہوں۔۔۔۔ پورے محلے کا چکر لگا کر واپس آیا ہوں۔۔۔۔ جو اس فقیر کو دے کر بھیجے گا تو کبھی کسی کا محتاج نہ ہو گا۔” فقیر کے کہے ” محتاج ” کے لفط نے اسے ماضی کے بھیانک خواب سے جگا تو دیا مگر وہ بوکھلاہٹ کے عالم میں ماضی اور حال کے فرق کو کھوجنے لگی اور ٹھنڈی زمین پر جاڑوں کی بے مہر رات کے سائے میں جائے نماز پر بیٹھی ایک آخری التجا میں مصروف ہو گئی۔

رات قدرے گھنی ہو چلی تھی۔ سکوتِ شب کسی خوفناک سائے کی طرح پورے گھر پر منڈلا رہا تھا۔ سانس لینے کی آواز بھی بھاگتی دوڑتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔۔ کمرہ کسی زِنداں خانے کی مانند گھپ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ عشاء کی اذان کی صدائیں بلند ہونے لگیں؛ “اللہ اکبر۔۔۔۔ اللہ اکبر” اس کی آنکھوں میں جکڑے آنسو اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو گئے۔۔۔۔۔ ٹپ ٹپ جائے نماز پر گرتے تو کمرے کے گونگے پن پر ہتھوڑا بن کر برستے محسوس ہو رہے تھے۔ اس کے حلق میں اٹکی سانسیں بحال ہونے لگیں۔۔۔۔ ساکت لب کشاء ہوئے اور مشقِ دعا پھر سے جاری ہونے لگی۔۔۔۔ گیٹ کھلنے کی آہٹ محسوس ہوئی۔۔۔۔ کوئی دبے پاؤں اندر داخل ہوا اور گھر میں اندھکار دیکھ کر پریشانی کے عالم میں ماپم کو آوازیں دینے لگا۔۔۔۔ گھر کی بتیاں جلا دی گئیں تھیں۔۔۔۔ قدم کمرے تک آتے آتے رک گئے۔۔۔۔ کمرے میں کرچی کرچی ہوا شیشہ الگ منظر پیش کر رہا تھا۔ جسے دیکھتے ہی وہ سمجھ گیا تھا کہ ماہم کو پیاس لگی ہو گی۔ اس نے جلدی سے پانی سے بھرا گلاس ماہم کے خشک لبوں کو لگایا اور بولا۔

ماہم تم پھر رو رہی ہو ۔ کتنی مرتبہ سمجھاتا ہوں تقدیر بہت اوپر لکھی جاتی ہے جہاں تک کسی کی رسائی نہیں ہے سوائے دعا یا پھر صبر کے۔

کون سی دعا اور کیسا صبر ؟ میری دعا اور صبر کی مدت تو بڑی طویل ہے۔ بچپن سے لے کر اب تک دعا اور صبر کے درمیان ہی تو جی رہی ہوں۔ کیا میری التجائیں مقبولیت کا در نہیں کھٹکٹا سکتیں۔۔۔۔ کیا میرے الفاظ، آسمان کی بلندیوں تک پہنچنے سے پہلے ہی کہیں دبوچ لئے جاتے ہیں۔۔۔۔ تم نے مجھے کبھی کوئی طعنہ نہ دیا مگر میں نے۔۔۔۔۔ میں نے تمہیں کیا دیا؟ بارہ سال سے اس بے جان جسم کا سا ایک لوتھڑا۔۔۔۔ یا پھر۔۔۔۔ دکھ۔۔۔۔ تنہائی، محرومی اور صرف محرومی۔۔۔۔ وہ ایک ایسے سائل کی مانند بِلک رہی تھی جس کی خوشیاں مدتوں سے درماندگی اور لاچاری کی بُکل مارے سو رہیں تھیں۔

اسد نے اپنے آنسو چھپاتے ہوئے اس کے گالوں پر بہتے جھرنے صاف کئےاور فرش پر جابجا بکھرے کانچ کے ٹکڑے اٹھانے میں مصروف ہو گیا۔ اسے اپنے اندر کچھ ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا جس کی آواز کمرے میں نہیں اس کے دل و دماغ کے نہاں خانوں میں گونجی تھی۔ فضاء میں اللہ اکبر کی صدایئں متواتر بلند ہورہیں تھیں۔۔۔۔ ماہم نے منوں بھاری آواز میں اللہ اکبر کہا اور نیت باندھ لی، مگر اسے یاد نہیں تھا کہ اس نے کون سی نماز پڑھنی ہے

Published inاسماء حسنعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply