عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 144( آخری افسانہ(
شگفتہ
وحید احمد قمر
سورج غروب ہوئے کچھ دیر ہوگئی تھی ۔ مغربی افق پر شفق کی لالی کھلی ہوئی تھی ۔ پارک کے برقی قمقے ابھی روشن نہیں ہوئے تھے ، اس لیے فضا میں ملگجا اندھیرا پھیلا ہوا تھا ۔ وہ دونوں گھاس کے قطعات کے درمیان بنی روش پر قدم سے قدم ملا کر چل رہے تھے ۔ لڑکی نے اپنے ساتھی لڑکے کا بازو تھاما ہوا تھا اوراپنا رخسار لڑکے کے شانے سے ٹکا رکھا تھا۔ جب کہ لڑکے کا ایک بازو لڑکی کی کمر میں حمائل تھا ۔ وہ اسی طرح ایک دوسرے سے چپکے پارک کے ایک دور افتادہ کونے میں پہنچے ۔ یہاں درختوں کی قطار تلے بنچ بچھے تھے ۔ قریب ہی پھولوں کی باڑھ تھی ۔ اس وجہ سے فضا مہکی ہوئی تھی ۔ یہاں پہنچ کر لڑکے نے اپنا دوسرا بازو بھی لڑکی کی کمر کے گرد حمائل کرتے ہوئے اسے اپنے روبرو کر لیا ۔ لڑکی کی پلکیں جھکی ہوئی تھیں ۔ لڑکے نے اس کے چہرے کو محبت پاش نظروں سے دیکھتے ہوئے یہ شعر پڑھا ۔
جو آنکھ بھی دیکھے تمھیں سرسبز ہو
تم اس قدر شاداب ہو تم کون ہو
لڑکی نے آنکھیں بند کیے کیے خمار آلود لہجے میں شعر سے ہی جواب دیا۔
جو دست رحمت نے میرے دل پر لکھا
تم عشق کا وہ باب ہو تم کون ہو
” ارے ۔۔۔ تمھیں یہ غزل آتی ہے ۔۔ لڑکے نے بے خود ہو کر اسے اپنے سینے سے لگاتے ہوئے کہا ۔
میں ہر گھڑی اک پیاس کا صحرا نیا
تم تازہ تر اک آب ہو تم کون ہو
لڑکی نے سسکاری بھرتے ہوئے کہا ، تم کیا سمجھتے ہو شعر کا ذوق صرف تمھی کو ہے ۔ لو اگلا شعر سنو۔
چھوتے ہو دل کچھ اس طرح جیسے صدا
اک ساز پر مضراب ہو تم کون ہو
لڑکی کی آنکھیں اس سارے مکالمے کے دوران بند رہی تھیں جب کہ
بالوں کی ایک لٹ اس کے رخساروں سے ہوتی ہوئی لبوں کو چھو رہی تھی ۔
” اگر اجازت ہو تو میں تمھارے لبوں کو چھو لوں “
لڑکے نے اس کے کان کے قریب ہونٹ لے جاکر آہستگی سے کہا ۔
” اجازت نہیں ہے ۔” لڑکی نے جواب دیا ۔ اس کی آنکھیں اب بھی بند تھیں ۔
” یہ ظلم ہے ، مجھ سے خوش نصیب تو یہ تمھارے بالوں کی لٹ ہے “
” یہ تو میرے بالوں کی لٹ ہے ۔“
” تو کیا میں تمھارا نہیں ہوں “
” تم میرے ہو مگر تمھیں میرے لب چھونے کی اجازت ابھی نہیں ہے ۔ “
” اور یہ اجازت کب ملے گی ۔“
” جب میری ڈگری مکمل ہو گی ۔ تو میں اپنے والدین سے بات کرونگی۔ “
” اور اگر وہ نہ مانے تو ؟“
” مان جائیں گے ، تب میں ایک کامیاب لڑکی ہونگی ۔اور مجھے یقین ہے کہ میری اتنی بڑی کامیابی کی خوشی میں وہ میری خواہش کا احترام کرینگے ۔ خاص طور پر میرے والد ۔ والدہ البتہ دقیانوسی ہیں وہ تو میرے یوروپ آ کر تعلیم حاصل کرنے کی بھی سخت مخالف تھیں ، والد کی سپورٹ نہ ہوتی تو میں کبھی یہاں نہ آ سکتی ۔“
یہ کہہ کر لڑکی نے آنکھیں کھول دیں ۔۔۔۔ اور پارک میں لگے برقی قمقمے جل اٹھے۔
لڑکا اس سے الگ ہوکر بوجھل قدموں سے چلتا ہوا دور بچھے بنچ پر جا بیٹھا ۔
لڑکی کچھ دیر اسے دیکھتی رہی ۔ پھر آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اس کے قریب پہنچ کر شوخی سے بولی ۔
” فراز ، تمھاری سب ادائیں شاعرانہ ہیں ۔ ۔۔۔ آہ ، میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ کوئی لڑکا میرے دل کو اتنا بھا سکتا ہے کہ اسے اپنے اس قدر قریب آنے کی اجازت دوں ، مگر ۔۔ ۔ ۔۔۔ یہ دل ۔۔۔ کبھی سوچتی ہوں تم کوئی خواب تو نہیں ہو ۔ “
تم اصل ہو یا خواب ہو تم کون ہو
تم مہر ہو مہتاب ہو تم کون ہو
فراز منہ پھلائے بیٹھا رہا ۔
وہ اس کے قریب بنچ پر بیٹھتی ہوئی بولی
اے چاہنے والے مجھے اس عہد میں
میرا بہت آداب ہو تم کون ہو
اس نے ماتھے تک ہاتھ لے جاکر یہ شعر پڑھا تھا ۔ اس کے اس انداز پر فراز ہنس پڑا ۔
“شگفتہ ۔۔۔ اپنے چاہنے والے کو ترسانا بھی تم کٹرمذہبی لڑکیوں کی ادا ہے بس اور کچھ نہیں ۔ “
” میں کٹر مذہبی لڑکی ہوتی تو تمھیں اتنی اجازت بھی نہ دیتی کہ تم مجھے بانہوں میں بھر سکو ۔ “
فراز نے منہ دوسری طرف پھیر لیا ۔ ” آہا ۔۔۔ روٹھنے کی ایکٹنگ ۔۔۔ واللہ قیامت ہے ۔۔۔۔ شگفتہ اس کے قریب ہوتے ہوئے بولی ۔ فراز سرک کر کچھ دور ہو گیا ۔ ۔۔۔ شگفتہ پھر اس کے کاندھے سے آ لگی ۔ ۔۔ وہ کچھ اور پرے سرکنے کی کوشش میں بنچ سے نیچے گر گیا ۔ شگفتہ نے ایک فلک شگاف قہقہ لگایا ۔۔۔۔
” ارے تم مجھ پر ہنس رہی ہو ۔ یہ نہیں کہ ہاتھ بڑھا کر مجھے سہارا دو“
وہ بدقت اپنی ہنسی روکتے ہوئے بولی ۔ ” خود ہی اچھے بچوں کی طرح اٹھ جاؤ ، میں نے ہاتھ بڑھایا تو تم مجھے اپنے اوپر کھینچ لو گے ، جیسے جانتی نہیں تمھیں ۔“
” میں بھی نہیں اٹھ رہا ۔۔۔۔۔۔ بہت بور لڑکی ہو ۔۔۔۔ اتنی رومان پرور شام غارت ہو گئی ، اگلا ویک اینڈ روپا کے ساتھ گزاروں گا ۔“
” میں اپنے ناخنوں سے اس چڑیل کا چہرہ نہ زخمی کر دوں اگر اسے تمھارے ساتھ دیکھوں تو ۔“
” نہ اپنے قریب آنے دیتی ہو نہ کسی اور کے قریب جانے دیتی ہو ۔ میں باز آیا ایسی محبت سے ۔ ” فراز جو اب تک کہنی کے بل لیٹا ہوا تھا ۔ دونوں بازو پھیلا کر گھاس پر دراز ہو گیا اور آنکھیں بند کر لیں۔
شگفتہ متفکرانہ انداز میں اسے دیکھتی رہی ۔ اس کے چہرے پر شدید کشمکش کے آثار تھے ۔ اس نے پارک میں ادھر ادھر دیکھا ۔ شام کافی گہری ہوگئی تھی ۔ فضا میں ہلکی سی دھند بھی تھی ۔ جس نے ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ۔ یہاں تک کے برقی قمقموں کی روشنی بھی ماند پڑ گئی تھی ۔ ۔۔۔۔ ایک طویل وقفے کے بعد وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی فراز کے قریب آئی اور گھاس پر اس کے قریب بیٹھ گئی ۔ فراز کی آنکھیں ابھی تک بند تھیں ۔ وہ کچھ دیر خالی الذہنی کی کیفیت میں اسے دیکھتی رہی پھر اس کا سر اٹھا کر اپنی گود میں رکھ لیا ۔
اسی لمحے اس کے ذہن میں اپنی ماں کی آواز گونجی ۔ جو اس کے یوروپ آنے سے چند دن پہلے اس کے والد سے کہہ رہی تھیں ۔
اعجاز الحسن ۔ تم بیٹی کی ضد پر اسے یوروپ بھیج تو رہے ہو مگر یاد رہے ، بہت سے بچے جب یوروپ سے واپس آتے ہیں تو ان کی شخصیت بدل چکی ہوتی ہے ۔ یہ نہ ہو کہ ہم سر پکڑ کر روئیں ۔
اس کے والد نے پریقین لہجے میں جواب دیا تھا ۔
یہ میری بیٹی ہے ۔ میں اسے جانتا ہوں ۔ یہ نہ صرف یوروپ سے اعلیٰ ڈگری لے کر آئے گی بلکہ کبھی ہمارا سر جھکنے نہیں دے گی ۔
شگفتہ نے آہستگی سے فراز کا سر واپس گھاس پر رکھ دیا اور اٹھتے ہوئے بولی ۔
فراز ، تم نہ صرف آئندہ ویک اینڈ بلکہ آنے والا ہر ویک اینڈ روپا کے ساتھ ہی گزارنا ۔
اس کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔ جنہیں آنچل سے صاف کرتی وہ تیزی سے پارک کے بیرونی راستے پر دوڑتی چلی گئی ۔
Be First to Comment