Skip to content

شکاری

عالمی افسانہ میلہ 2019

افسانہ نمبر104

شکاری

ایثار کشمیری ۔ترال پلوامہ جموں و کشمیر (انڈیا)

گھنے جنگل میں ایک چٹیل میدان کی دہلیز پر شکاری درندوں کی محفل سجی ہوئی تھی۔نازک ہرنوں اورغزالوں ور فربہ نیل گایوں کا شکار کرنے کے بعد ان کا پیٹ بھر چکا تھا۔ایک بہت بڑے پیڑ کے نیچے ایک چٹان پر شیروں کا جتھہ بیٹھا تھا جس کا سردار ذرا سا ہٹ کر کھلی دھوپ میں لیٹے ہوئے لمبی سانسیں لے رہا تھا۔ایک آدھ نوجوان شیر اس کے قریب ہی اپنی پچھلی ٹانگوں پر بیٹھے ہوئے اِرد گرد پر نگاہیں جمائے ہوئے تھے۔ انھیں یہ اچھی طرح سے احساس تھا کہ وہ اپنے بادشاہ کی نگہبانی کر رہے تھے۔چٹان کے بالکل نیچے چیتے اور برفانی شیروں کا جُھنڈ سستا رہا تھا۔دائیں طرف لکڑ بھگوں اور بھیڑیوں کا اجتماع تھا جب کہ بائیں طرف جنگلی کتوں نے ڈھیرا ڈال رکھا تھا۔تھوڑی سی دوری پر لومڑیوںکے مدہم سے طنزیہ قہقہے شکار ہوئے جانوروں کی زبوں حالی کو بیان کرہے تھے۔ہر چھوٹے بڑے درندے کے جبڑوں پرشکار ہوئے جانوروں کے لہو کی سرخی ملی ہوئی تھی اور وہ ابھی بھی ہانپ رہے تھے۔ان کے سانسوں میں بڑا انتشارتھا جس کی صدائے باز گشت گھنے جنگل کی وسعتوں میں ایک عجیب قسم کا ماحول پیدا کررہی تھی۔جب ان کے سانسوں میں معمول کی روانی لوٹ آئی اور وہ خود کو تازہ دم محسوس کرنے لگے تو لکڑ بھگوں کے سردار نے خاموشی توڑدی۔

”ارے ہم نے تو اتنے بڑے بھینسے کو چاروں شانے چت کر کے یوں اُچک لیا ۔اسے بہت غرورتھا اپنی جسامت کا لیکن ہمارے فریب میں آکر اپنی جان کھو بیٹھا۔۔۔“

ہر طرف سے قہقہے لگ گئے۔اتنے میں شیروں کے سردار نے منہ کھولا۔

”بڑا اچھل اچھل کے جان بچانے کی کوشش کی تھی اُس نرم و نازک ہرن نے لیکن میرے پنجوںکی پکڑ اور جبڑے کی گرفت کے سامنے اس کی کیا مجال تھی۔۔۔ویسے بڑا لذیز گوشت تھا۔۔واہ مزا آگیا۔۔ہاہاہا۔۔“

”ہاں ہاں ۔۔۔!کمال تو ہمارا ہے۔جسامت کے حوالے سے ہم چھوٹے سہی لیکن نیل گائیوںکے سردار کو ہم نے گھیرے میں لے کر اس کی بوٹی بوٹی نوچ لی۔ بے چارہ درد کے مارے کراہتے کراہتے ہمارے سامنے ایک بے جان پتھر کی طرح لڑھک کر گر گیا۔لیکن سچ کہوں کہ ہماری بھوک ابھی بھی نہیں مٹی کیوں کہ اس کے پٹھوں پر گوشت کم تھا۔۔۔خیر کل کسی فربہ سانڈ کو اپنا نوالہ بنا لیں گے۔۔۔۔“ ایک نحیف سے بھیڑیے نے کہااور ایک بار پھرلومڑیاں اپنے مخصوص انداز میں قہقہے مارنے لگے۔

شکاری درندے ایک کے بعد ایک اپنے کارنامے دہرا رہے تھے اور ہر طرف سے فاتحانہ قہقہے لگ رہے تھے۔بیچ میں ہلکا سا وقفہ ہوا اور اس مختصر سے سکوت کو ایک جوان چیتے نے اپنی دہاڑ سے توڑ دیا۔وہ کھڑے ہوکر بولنے لگا۔

”آپ لوگ خود کو بڑا بہادر سمجھتے ہو ۔بھلا ان نازک ہرنوں اور کم عقل بھینسوں اور نیل گایوں کا شکار کرنا کون سا مشکل کام ہے۔ ایک زمانہ تھا جب انسان جنگلوں کا رخ کرکے ہمارا شکار کیا کرتا تھا۔ بہادری یہی ہے کہ ہم اپنے پچھلے زمانوں کا حساب چکا لیں۔ہم ایک دم بستیوں کا رخ کر کے انسانوں کا شکار کرنا شروع کر لیں گے۔میں نے سنا ہے کہ وہاں شہروں میں انسانی گوشت کی دکانیں کھلی ہیںاور عجیب بات یہ ہے کہ انسانی گوشت بیچنے والے بھی انسان ہیں اور خریدنے والے بھی انسان۔“

”ارے کم عقل یہ مشورہ اپنے پاس رکھنا بڑھاپے میں تمہارے کام آئے گا۔کیا آپ کو معلوم نہیں کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔وہاں زندگی بہت قیمتی ہوتی ہے۔وہاں عدالتیں قائم ہیں۔وہاں انصاف ہوتا ہے۔انسانی حقوق کے تحفظ اور آبیاری کی خاطرانسانوں کی اُ س دنیا میں ہزاروں تنظیمیں کام کر تی ہیں۔وہاں انسانی لہو کا ایک قطرہ بہنے پر ساری انسانیت کانپ اٹھتی ہے۔ وہاں پھانسی کے بے شمار پھندے ہر اس شکاری کے منتظر ہوتے ہیں جو کسی آدم زاد کے لہو کا ایک قطرہ بھی بہانے کی کوشش کرتا ہے اور ایک تم ہو عقل کے کچے کہ انسانوں کا شکار کرنے کی سوجھی ہے۔تمہیں کچھ اندازہ ہے کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔۔۔“ ایک بزرگ شیر نے بڑے ہی نرم لہجے میں جوان چیتے کو سمجھایا۔۔۔۔

”وہاں کچھ نہیں ہے چاچا۔ تمہیں اپنے زمانے کی خبر ہے دنیا کافی بدل چکی ہے اور انسان بھی۔آج کا انسان صرف انسان کا شکار کرتا ہے۔باقی سب چیزوں سے اس نے اپنی نظریں ہٹالی ہیں۔وہ انسانی لہو میں کھیلتا ہے ،انسانی لہو میں نہاتا ہے اور اسی لہو کے لال لال سمندر میںاپنی خواب گاہ سجاتا ہے۔ہم نئی نسل کے درندے ہیں لہٰذا ہم بھی صرف انسانوں کا شکار کریں گے۔شروع شروع میں ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن اُن خوش نما شکاریوں کی صحبت میں رہ کر ہم یہ راز بہت جلد پالیں گے کہ انسان کاشکارکس طرح کیا جاتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہاں انسانوں کی درندگی میں ہمارا وحشی پن کسی کو نظر نہیں آئے گا۔ ۔۔“جوان چیتے نے اعتماد کے ساتھ بزرگ شیر سے جواب میں کہا۔ ساری محفل میں کانا پھوسی شروع ہو گئی ۔ہر ایک کے چہرے پر ایک مدہم سی خوشی نظر آرہی تھی۔لگتا تھا کہ جیسے ان کو نئے خوابوں کو اپنی آنکھوں میں سجانے سے پہلے ہی اُن کی تعبیرمل گئی تھی۔آخر کار درندوں کی یہ محفل یہ طے کرکے ختم ہوگئی کہ اگلی صبح وہ شہر کا رخ کر کے اپنی نئی زندگی کا آغاز کر یں گے۔

اگلی صبح کاسورج طلوع ہورہا تھا۔جنگل کے پاکیزہ ماحول میںہرے بھرے درختوں کے سر سبز پتوں پر سورج کی سنہری کرنوں کا رقص ہوش رُبا نظارہ پیش کررہا تھا۔جنگلی شکاری سبز گھاس پر شبنم کے چمکتے موتیوں میںاپنے پنجوں کو نہلا رہے تھے۔طاقتور شیر اور چیتے اپنے جبڑوں کی ورزش کررہے تھے ۔جبڑے کھلتے وقت ان کے لمبے لمبے نوکیلے دانت گویا انسانوں کو للکار للکار کر کہہ رہے تھے کہ ان کے گرم گرم لہو سے پیٹ کی آگ بجھانے جنگل کے درندے پوری تیاری کر چکے ہیں۔ تھوڑہی دیر میںبے تاب شکاریوں کا قافلہ سوئے شہر چل پڑا ۔انسانی بستی کی نزدیک والی پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ کر وہ انسانی بستی کا جائزہ لےنے لگے ۔انھوں نے دیکھا کہ ساری بستی کوکرب و بلا کے گہرے بادلوں نے لپیٹ لیا تھا جس کی دھندلاہٹ میں بستی کے نشیب و فراز گم ہو چکے تھے۔ انسان کی بے پناہ طاقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے وہ دبے پاؤں نیچے آنے لگے۔دبے پاؤں اس لئے کہ انھیں یہ احساس تھا کہ آدم زادوںکی بستی میں داخل ہو کروہ ایک ایسا ہیبت ناک مشن سر انجام دینے جارہے تھے کہ جس کے پورا نہ ہونے کی صورت میں ان کا اپنا وجود صفحہ ہستی سے مٹ جا تا۔

” ہش ش ش ش۔۔۔۔! خاموش ۔۔۔۔!دیکھو سنبھل کے چلنا۔انسان بڑا شاطر اور مکار بن چکا ہے اس کے بچھائے ہوئے پھندوں سے بچ کے چلنا۔ وہ مسکرا تا ہے لیکن اُس کے سینے میں غصے اور نفرت کا لاوا چھپا ہو تا ہے۔وہ گلے لگ جاتا ہے لیکن حسد کی آگ میں جلتا رہتا ہے۔ وہ بڑی خوش آمد کرتا ہے لیکن راستے میں کانٹے بچھا دیتا ہے۔اُس کے پاس طاقت اور جرات نہیں بلکہ مکاری ہے

اورعیاری ہے۔۔۔۔“ ایک بزرگ شیر نے کانا پھوسی کے انداز میں اپنے ساتھیوں سے کہااور وہ چل دیے۔

بستی میں پہنچتے ہی جنگلی درندوں نے محسوس کیا کہ انسانوں کی بستی کے اندر داخل ہوکر بھی کہیں سے ہاؤہو کی چیخیں نہیں سنائی دے رہی تھیں۔ وہ بے جھجک آگے بڑھتے گئے لیکن حیران تھے کہ یہ انسانوں کو کیا ہو گیا ہے کہ انسانوں کی بستی کے اندر گھسے ہوئے درندوں کو وہ پہچان نہیں پارہے تھے۔ ماحول کے پیچ و خم کو بھانپتے ہی درندوں کو برملا احساس ہو گیا کہ اُن کی کسی خاص خصلت کو انسانوں نے اپنے اندر پروان چڑھایا ہے اور اُن کے اور انسانوں کے بیچ کوئی نیا رشتہ قائم ہو چکا ہے جس کی بنا پر وہ انسانوں کو اجنبی نہیں لگ رہے تھے۔اب درندے شہر کی اندرونی گلیوںمیں پہنچ چکے تھے اور وہ بھی بغیر کسی مزاحمت کے۔ ارد گرد کا جائزہ لیتے ہوئے انھوں نے دیکھا کہ بے بس انسان خزان کی بے رحم مار سہے ہوئے پتوں کی طرح ادھر اُدھربکھرے پڑے تھے اور کچھ سنگ دل انسان اپنے ان بے جان ساتھیوں کو ایسے نظر انداز کررہے تھے جیسے انسان نہیں راہ کے پتھر ہوں۔جنگلی درندوں نے اپنے پنجوں سے پڑے ہوئے بے جان انسانوں کو ٹٹولنا شروع کیا۔ انہوں نے چند ایک انسانوں کی گردنیں دبوچ بھی لیں لیکن انھیں شکار کرنے میں وہ لذت محسوس نہیں ہوئی جو ان کے شکار کرنے کا اصل مقصد ہوتا ہے۔ چیتوں کو جنگل کے وہ نازک ہرن یاد آنے لگے جنھیں وہ میلوں پیچھا کرنے کے بعد بھی شاز و نادر ہی پکڑ پاتے ہیں۔ شیروں کو وہ کم عقل بھینسے یاد آگئے جو شیر کی طاقت کو یکسر نظر انداز کرکے ان کے سامنے سینہ تان کے کھڑے ہو کر آخری دم تک مقابلہ کرتے ہیں۔لکڑ بھگوں کو نیل گائیوں کے وہ ننھے بچھڑے یاد آگئے جوان کے مقابلے میں نہ طاقت رکھتے ہیں اور نہ رفتار لیکن کبھی ہمت نہیں ہارتے ہیں۔سارے درندے ایک دم رک گئے۔ان کا بادشاہ ببر شیر ایک گرج دار دہاڑ کے بعد بول اٹھا۔

”دوستو ایسے شکار ہم پر حرام ہیں ۔یہ تو خود اپنی گردنیںہماری چھری پر رکھ دیتے ہیں۔نہ جان بچانے کی کشمکش اور نہ بچ نکلنے کی کوئی ترکیب۔ہمارا تو اصول ہے کہ ہم جھپٹتے ہیں اور پھر پلٹتے ہیں اور پھر پلٹ کر جھپٹنے میں جو مزہ ہے وہ یہاں نظر نہیں آرہا ہے۔ایسا شکار کرنا کھلی بے غیرتی ہے۔ایسے شکار کرتے کرتے ہماری نئی پود بے رحم اور بے غیرت بن جائے گی۔چلو ہم واپس اپنی دنیا کو لوٹتے ہیں جہاں شکار کرنے کے لئے ہمیں اپنا خون پسینہ بہانا پرتا ہے۔انسانوں کو اپنی یہ دنیا مبارک ہو۔انھیں اپنی عدالتیں مبارک ہوں اور اپنا انصاف مبارک ہو۔کسی بھی لمحے انسانی حقوق کے علم بردار آئیں گے اورالزام ہمارے سر لگا کرہمارے منہ پر کالک لگانے کی کوشش کریں گے۔ ۔۔۔چلو دوستو۔۔۔۔چلو۔“

اگلے ہی لمحہ سارے درندے ایک لمبی قطار بناکر گھنے جنگل کی طرف واپس چل پڑے……..

Published inایثار کشمیریعالمی افسانہ فورم
0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x