Skip to content

شرمندگی

عالمی افسانہ میلہ 2019

افسانہ نمبر 133

شرمندگی

پرویز اشرفی، نئی دہلی

طویل عرصہ گزر جانےکے بعد اس کی دعائیں قبول ہوگئیں.آخر کار اس کے آقا نے اسے ویزا دے دیا. اس مخصوص پروانئہ سفر کے ذریعے وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں بے روک ٹوک جا سکتا تھا. اس نے سب سے پہلے جس سر زمین پر قدم رکھا وہاں انسان گاہے بگاہے نظر آ رہے تھے. شہر ملبے کے ڈهیر میں بدل گیا تھا. ترقی کی کوئ نشانی نہ تهی. اسکول تهے طالب علم ندارد، بازار موجود تھے لیکن دوکاندار و خریدار کا اتہ پتا نہیں. جلے ہوئے اور منہدم مکان دور دور تک پھیلے ہوئے تھے. جو لوگ چلتے پهرتے دکھائی دیتے ان کے چہرے سہمے ہوئے تھے. بار بار ان کی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھ جاتیں اور دونوں ہاتھ اٹھا کر اپنی زبان میں چیخ چیخ کر نہ جانے کیا کہہ رہے تھے. اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا. اچانک انسانی ہجوم ادھر ادھر بهاگتا ہوا کچھ لوگ زمین پرلیٹ گئے کچھ مکانوں اور دوراں کے ملبے میں دبک گئے. جدید ترین ڈائناسور پروازیں بهرتے آسمان کو ڈهک چکے تھے. دیکھتے ہی دیکھتے علاقہ شعلوں کی لپیٹ میں آگیا. چیخ پکار سے فضا گونجنے لگی. انسانی جسموں کے ٹکڑے رہ رہ کر فضا میں بکھر رہے تھے. اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ یہ کیا منظر دیکھ رہا ہے. دهوئیں کے بادل چهٹ گئے تھے. ماحول میں گہرا سکوت طاری تھا اچانک ایک جانب سے فوجوں کی ٹولیاں نمودار ہوئیں جن کے رنگت سرخ و سفیدی مائل تهی. تلواروں کی جگہ ہاتھوں میں لوہے کے بهاری ہتھیار تهے. زرہ بکتر کی جگہ cargo لباس میں ملبوس تھے. آنکھیں بھی سیاہ چشموں سے ڈهکی ہوئی تهیں. نہایت محتاط ہو کر آ گے بڑه رہے تھے دراصل وہ فوجی کارروائی کے دوران اپنے شکار کی بو سونگھتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے. اسی لمحہ دل دہلانے والا ایک منظر اس نے دیکھا. ایک عورت اپنے دس سالہ بچے کو ان خونی پنجوں سے بچانے کے لیے دوڑ رہی تھی اس سے قبل کہ بچہ ماں کے قابو میں آتا دهائیں کی آواز آئی اور وہ معصوم غش کھا کر گر پڑا اس کے سینے سے خون کی دهار پهوٹ پڑی. ماں کا دل اچھل کر حلق میں آگیا. اس کا معصوم بیٹا خون میں لت پت گرم ریت پر تڑپ رہا تھا . فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ وہ فوجی بچے کی لاش کے قریب پہنچے. تهوڑی دیر تک اپنے شکار کو غور سے تکتے رہے پهر ٹهوکروں سے الٹ پلٹ کر خود کو مطمئن کیا. ان کے چہرے رحم جیسے جزبوں سے خالی تهے. بچے کی ماں نے مردہ بیٹے کو گود میں اٹھا لیا اس کا سراپا خون سے تر ہو چکا تھا. معصوم جسم سے بہتے خون کو اپنے چہرے پر مل کر زور سے چلائی “آءو بش میرے بیٹے کے خون کو پٹرول میں بدل لو”فوجی تهوڑی دیر تک خاموش رہے پهر واپس ہو گئے.

وہ سوچ رہا تھا یہ کس مقام پر آ گیا؟ اس کا دل گهبرانے لگا. اس منظر نے اسے بےچین کردیا تها. وہ کسی اور جانب چل پڑا. راستے میں اسے دور دور تک پہاڑوں کا لمبا سلسلہ ملا تکان سے وہ چور ہو گیا تھا شاید کوئی ندی مل جائے تو غسل کر کے ترو تازہ محسوس کر سکے. ندی تو مل گئی لیکن اس میں پانی کے بجائے خون بہہ رہا تها. کچھ لوگ اسے نفرت بهری آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کیوں کہ اس کی رنگت بهی ان ظالم وبے رحم فوجیوں جیسی تهی. وہ شرمندگی کے سبب نظریں بچا کر اس سرزمین سے دور نکل گیاکسی اور منزل کی طرف جہاں ایسے منظر نہ ہوں. جہاں انسان انسان کا شکار نہ کرتا ہو، جہاں اپنی طاقت اور صنعت کی ترقی کے لیے دوسروں کا عرصہ حیات تنگ نہ کیا گیا ہو، اپنے ملک کو خوش حال بنانے کے لیے دوسروں کی زمین پر غاصبانہ نہ کیا جاتا ہو.

وہ اس علاقے سے بہت دور نکل گیا تھا. ویزا کی مدت بهی کم رہ گئی تھی. وعدے کے مطابق اسے اپنے آقا کے پاس واپس لوٹنا تها. وہ هندو کش کے پہاڑی سلسلوں کی ایسی سرزمین پر پہنچ گیا جس نے کبھی غلامی نہیں دیکھی تھی. جہاں مہمانوں کی تواضع ان کی تہزیب کا حصہ تهی. یہاں کے باشندے امن و آزادی کے ساتھ رہے جب کسی کی حکومت میں سورج غروب نہیں ہوتا تها. ایسی پر امن سرزمین اور ان کے مکینوں کو دیکھنے کی خواہش ہوئ. …….لیکن یہاں بهی وہی منظر وہی لاشیں، وہی آسمانوں میں اڑتے ہوئے جدید ترین قوی ہیکل ڈائناسور اوپر سے برساتے آگ کے پٹارے، ٹینکوں کی دهاڑ دهاڑ، گولوں کی گهن گرج، فضا میں اڑتے انسانی جسموں کے چیتھڑے. گولیوں اور راکٹوں کی آوازوں کے درمیان اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے ماحول کو ہیبت ناک بنا رہے تهے آسمان سے آگ کے گولے برس رہے تهے. قیامت صغریٰ کا منظر پیش ہو رہا تھا. وہ سوچنے لگا ان انسانوں کو کیا ہو گیا؟ آدم کی اولادیں تو بهائی بهائی ہیں پهر یہ برہمی کیسی؟ وہ سوچ ہی رہا تھا کہ فوجی بوٹوں کی کڑک دار آواز چونکا دیا. اس سے پہلے کہ وہ کہیں چهپتا گورے فوجیوں نے اس کو محاصرے میں لے لیا. چند لمحوں کے لیے وہ گهبرایا لیکن فوراً ہی اسے اطمینان ہو گیا. کیونکہ فوجیوں کے لباس پر گولڈن راڈ کا نشان اس نے دیکھ لیا تھا. وہ پہلو بدلتا کہ ایک سخت آواز نے سوال کیا.

“تم یہاں کے باشندے تو نہیں لگتے. سچ سچ بتاءو کہاں سے آئے ہو؟ “

“یہ غیر ضروری سوال ہے.تم بتاءو کہ تم کیا چاہتے ہو؟”

“تم یہاں کس طرح داخل ہو گئے. اس علاقے کا رابطہ تو ہم نے کاٹ دیا ہے؟ “دوسرے فوجی نے سوال کیا.

“میرے پاس میرے آقا کا مخصوص ویزا جاری کیا ہوا ہے. اس لیے میں کہیں بهی جا سکتا ہوں. تم کیا مجھے کوئی نہیں روک سکتا. مگر یہ تو بتاءو تم لوگ بھی تو یہاں کے باشندے نہیں لگتے پهر تم لوگ یہاں یہ سب کیوں کر رہے ہو؟ یہ قتل غارت گری، بےقصور لوگوں کی خون میں ڈوبی لاشیں، یہ سب کس لیے؟ “

“ہاہا…..ہاہا……بےوقوف یہ ہم اپنے آقا کے حکم سے کر رہے ہیں “ایک فوجی نے زوردار قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا.

“تمهارا آقا. ….کون ہے تمهارا آقا. …کیا وہ انسانوں کا گوشت کهانےاورخون چاٹنے کا عادی ہے؟ “

“ہم سات سمندر پار سے آئے ہیں. دنیا کو دہشت گردی سے پاک کر کے امن کا پیغام دینا ہمارا مقصد ہے. یہی ہمارے آقا کا منصوبہ ہے. “

“انسانی لاشوں پر بیٹهے ہوکر دہشتگردی ختم کرنے کی بات کر رہے ہو. بهلا آگ سے آگ بجھائی جا سکتی ہے؟ “

“ہاں! بجهائ جا سکتی ہے. دیکھو غور سے، ہم نے ان ملکوں کو نیست نابود کردیا، ان کی آبادیوں کو آگ کے دریا میں غرق کر دیا. اب نہ آبادی رہے گی اور نہ دہشت گردی. .”

“لیکن یہ تو سراسر ظلم ہے. “

“تمهاری نظر میں ظلم ہے ہماری نظروں سے دیکھو یہ امن قائم کرنے کا طریقہ کار ہے. اپنے آقا کے حکم پرہم کوئی بهی فیصلہ لینے کے لیے آزاد ہیں. “

وہ خاموش کهڑا ان فوجیوں کی آنکھوں میں تشدد کے آثار دیکھ رہا تها. ایک دوسری کرخت آواز نے اسے مخاطب کیا. شاید وہ اپنی پلاٹون کا سردار تھا.

“اے بڈھے! بہت دیر سے تیری بکواس سن رہا ہوں. خاموش ہو جا ورنہ ابهی تیرا کام تمام کر کے اسی جهاڑیوں میں پهینک دوں گا. “

اس نے ٹهنڈی سانس لی اور فوجی سے کہا —

“میں صدیوں پہلے اپنے گهر سے نکلا تھا ایک ایسے ملک کی تلاشی میں جہاں کی شاخوں پر سونے کی چڑیاں بسیرا کرتی تهیں. اس کی تلاش میں سمندری لہروں کے تهپیڑے سہے، طوفانوں کا سامنا کیا، خطرناک منجدهاروں سے زور آزمائی کی، کالی راتوں کی چادر کاٹتے، تیزوتند ہواءوں کا مقابلہ کرتے میرے بازو شل ہو نے والے تهے کہ اچانک میرا جہاز ایک ساحل سے ٹکرایا، جہاں تا حد نگاہ جهاڑی ہی جهاڑی پهیلی تهی. دور دور تک کسی آدم زاد کا نشان نہ تھا.قدرت نے مجھے وہاں شاید اسی لیے بهیجا تها کہ وہاں میں گلزار بناءوں. دیکھتے ہی دیکھتے بستیاں آباد ہو گئیں. دنیا کو ایک نئی سے تعارف ہوا. اس سرزمین نے بڑا نام روشن کیا. امن کا پیغامبر اور جمہوریت کا بانی قرار دیا گیا. میں یہ سب دیکھ کر بہت خوش ہوا تها. …..لیکن صدیاں گزرنے کے بعد لوٹا ہوں تو منظر بدلا بدلا سا ہے. یہ میرا وہ گلستان نہیں ہے. میں نے اس کے لیے لہروں کا مقابلہ نہیں کیا تها. یہاں تو اب جنگل سا وحشی پن ہے اور چاروں طرف Bush ہی Bush ہیں. ان جهاڑیوں میں دنیا بهر کے انسانوں کے دامن الجه رہے ہیں. امن پسندانسانوں کے جسم لہو لہان ہیں.یہ منظر دیکھ کر اپنے آپ سے شرمندہ ہوں کہ جهاڑیوں والا خطہ مجھے کیوں ملا؟ ہاں میں شرمندہ ہوں، بےحد شرمندہ!!

Published inپرویز اشرفیعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply