Skip to content

شب دیجور

عالمی افسانہ میلہ 2019

افسانہ نمبر 14

شب دیجور

رضوانہ سید علی اسلام آباد پاکستان

خالو میاں ہانپتے کانپتے گھر میں داخل ہوئے اور نشست گاہ تک پہنچتے ہی دھڑام سے صوفے پہ جا پڑے ۔ چر چر چرر ۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر تڑاخ کی آواز آئی اور صوفہ ایک جانب جھک گیا ۔ خالو میاں کے گھٹنے پیشانی سے جا لگے اور ان کا گنبد نما پیٹ ادھر ادھر لٹک کر اپنی رونمائی کرانے لگا ۔ عامر اپنی ہنسی روکنے میں ناکام رہا تو جھپاک سے باہر نکل گیا ۔ میں اور فرح حیران پریشان ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگیں ۔ خالو میاں کے منہ سے عجیب عجیب آوازیں نکل رہی تھیں ۔ اماں باورچی خانے سے دوڑی چلی آئیں ۔ کفگیر ان کے ہاتھ میں تھا اور فرنی کے قطرے سرخ قالین پہ گلکاری کے نمونے بنا رہے تھے ۔ اماں کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ ہوا کیا ہے ۔ بولیں تو یہ بولیں ۔ ” ارے قدیر خاں ! یہ کیا ہو رہا ہے بھئی ؟ “
جواب میں خالو میاں کے منہ سے کچھ غوں غاں کی آوازیں نکلیں ۔ اماں ہم پہ الٹ پڑیں ۔ ” کمبختو ! یہ نہیں کہ بڑھ کر کچھ ہاتھ ہلا لیں ۔ کھڑی ہیں منہ اٹھائے ۔” اور پھر جوش میں آ کر خود ہی ہاتھ ہلانے لگیں ۔ ہم دونوں گھبرا کر آگے بڑھیں اور اپنے نحیف و نزار بازوؤں سے گوشت کے اس پہاڑ کو ہلانے کی کوشش کرنے لگیں جسے قسمت نے ہمارا خالو بنا دیا تھا ۔ اماں بھی اپنے دونوں توانا بازو مع کفگیر ، خالو پہ آزمانے لگیں اور کفگیر میں لگی فرنی بڑھ بڑھ کر خالو کے سر ماتھے اور ہاتھوں سے معانقہ کرنے لگی ۔ خدا خدا کر کے ہماری اور خود خالو کی کوششوں سے انہیں کھڑا کیا گیا ۔ صوفہ ان کے اٹھتے ہی کسی جھلنگا چارہائی کا منظر پیش کرنے لگا ۔ خالو کھسیا کر بولے ۔ ” آپا ! کیا کمزور سا فرنیچر جمع کر رکھا ہے ۔ آپ نے ۔”
” خواہ مخواہ کے عذر ۔ میاں ! تم خود اپنا وزن کم کرو ۔” اماں طیش کھا گئیں ۔ ” ہزار بچتوں کے بعد بمشکل یہ صوفہ بن پایا تھا ۔ ” آخری جملہ زیر لب تھامگر خالو نے سن لیا ۔ تلملا کر پہلے صوفے کو پھر اماں کو دیکھا پر بولے کچھ نہیں ۔ میں بھاگ کر پانی کا گلاس لے آئی ۔ فرح بار بار التجا کرتی رہی ۔ خالو میاں ! پلیز دیوان پہ بیٹھ جائیں ۔ یہ کئی نسلوں سے ہمارے ہاں چلا آ رہا ہے ۔ بہت مضبوط ہے ۔ آپ پہلے کئی بار اس پہ بیٹھ چکے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
پر خالو میاں نہ دیوان پہ بیٹھے نہ پانی پیا ۔ جس طوفانی رفتار سے آئے تھے اسی سے واپس ہو لئے ۔ بیچارے جانے کس لئے آئے تھے ۔ اماں کچھ دیر ٹوٹے صوفے کو گھورتی رہیں پھر سر جھٹک کر باورچی خانے کو سدھاریں ۔ میں نے اور فرح نے بوجھل دل سے ٹوٹے صوفے کو اسٹور میں پٹخا ۔ اب ایک دقیانوسی دیوان اور دو چھوٹے صوفے ہی باقی بچے تھے ۔ ٹوٹے صوفے کی خالی جگہ کیسی بری لگ رہی تھی ۔ کتنی خوشامدوں کے بعد یہ صوفہ گھر آیا تھا ۔ دیکھنے سے ہی لگتا تھا کہ بچوں یا انتہائی نازک لڑکیوں کے لئے بنایا گیا ہے۔ لیکن بیٹھنے کے بعد احساس ہوتا تھا کہ اسلئے بنایا گیا ہے کہ بچے اور نازک لڑکیاں بھی زیادہ دیر اس پہ نہ بیٹھیں ۔ پر مجبوری یہ تھی کہ ابا کی جیب صرف اس بے آرام صوفے کا بوجھ ہی برداشت کر سکتی تھی ۔ لیکن صوفہ خریدتے ہوئے کسی کو ساڑھے چھ فٹ لمبے اور ڈھائی من وزنی خالو میاں کا خیال ہی نہیں آیا ۔ اور آج ہمیں یہ روز بد دیکھنا نصیب ہوا کہ صوفہ خالو کی ایک ہی نشست کی مار ثابت ہوا ۔ شام کو خالہ کا فون آیا ۔ پوچھنے لگیں ۔ ” آپا ! کیا دوپہر کو قدیر خان تمہاری طرف آئے تھے ؟ ” کیوں ؟ اماں تنک کر بولیں ۔ ” کچھ کہہ رہا تھا کیا ؟ ” ” نہیں کہیں یا نہ کہیں ۔ جس روز منہ سوجھا ہو میں سمجھ جاتی ہوں ۔” خالہ کا اندازہ بالکل درست تھا ۔ خالو جب بھی ہمارے ہاں آتے ، اماں کی کوئی نہ کوئی بات تیر کی طرح دل پہ جا لگتی تھی ۔ پھر مہینوں ہماری طرف کا رخ نہیں کرتے تھے ۔ خالہ سے بھی دنوں روٹھے روٹھے رہتے ۔ مگر جونہی اماں ان کے گھر گئیں ۔ سب کچھ یوں بھول بھال جاتے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو ۔ ” لگتا ہے آج کچھ زیادہ ہی گولہ باری ہوئی ہے ۔ دوپہر سے منہ سر لپیٹے پڑے ہیں ۔ “خالہ کا یہ جملہ اماں کو تپا گیا ۔ اپنی پاٹ دار آواز میں کچھ ایسا کہنے ہی لگیں تھیں کہ خالہ کی طبعیت بھی صاف ہو جائے مگر میں فوراً بول پڑی ۔ سپیکر تو کھلا ہی تھا ۔ میں نے جلدی جلدی خالہ کو سب بات بتا دی ۔ عامر پھر پیٹ پکڑ کر ہنسنے لگا ۔ میں نے بمشکل اپنی ہنسی ضبط کی ۔ اچانک یوں لگا جیسے خالہ کے منہ سے دبی دبی آوازیں آ رہی ہیں ۔ خالہ ! آپ کو ہنسی آ رہی ہے کیا ؟ فرح کا یہ کہنا تھا کہ ٹیلی فون سے ہنسی کا فوارہ پھوٹ نکلا ۔ میں اور فرح بھی ہنس پڑے اور اماں بھی اب مسکرا رہی تھیں ۔
اگلے روز اماں بازار گئی ہوئی تھیں ۔ میں اور فرح گھر کے کام کاج میں مصروف تھے عامر کمپیوٹر پہ بیٹھا تھا ۔ دراصل ان دنوں گرمیوں کی چھٹیاں چل رہی تھیں ۔ اچانک دروازے پہ تیز ہارن بجا ۔ باہر کا گیٹ کھول کر خالو اندر آئے اور ان کے پیچھے ایک منی لوڈر بھی اندر آ گئی ۔ کھڑکی سے اس لوڈر پہ ایک ہیبت ناک صوفہ صاف نظر آ رہا تھا ۔ اس سے ہمارا دیوان کہیں خوبصورت تھا ۔ ” ضرور اس پہ راجہ رنجیت سنگھ بیٹھتا ہو گا ۔ پر خالو اسے ہمارے ہاں کیوں لے آئے ؟” فرح لرز کر بولی ۔
” فرح گڑیا عامر ! بھئی کہاں ہو سب ؟ ” خالو آوازیں دیتے اندر داخل ہوئے پیچھے دو آدمی وہ صوفہ لئے اندر آئے ۔ ” یہاں رکھو ۔ یہاں ۔ ہاں بالکل ٹھیک ۔” خالو نے صوفہ ” وہیں رکھوایا ۔ جہاں کل تک وہ نازک نمانی جان سجی تھی ۔ نشست گاہ اس کالے دیو جیسے صوفے کو سہار ہی نہ پا رہی تھی ۔ ” کہاں ہیں تمہاری ماں ؟ ” خالو نے پوچھا ” جی بازار گئی ہیں ۔ ” ‘ اچھا آئیں تو کہنا کہ میں نے ت ۔ ۔ تلا ۔ ۔ ۔ تلاف ۔ ۔ ۔ نہیں رہنے دو بس کچھ نہ کہنا ۔ میں جاتا ہوں ۔ بیٹھیے پانی تو پی جئیے ۔ فرح چائے ۔ ۔ ۔
” نہیں بس چلتا ہوں ۔ آفس سے اٹھ کر آیا تھا ۔
” یا اللہ ! اب کیا ہو گا ؟” اور پھر اگلے ایک ہفتے ہمارے گھر یہ سوال پوچھا جاتا رہا ۔ اس بھیانک صوفے کو گھر میں رکھنا محال ، خالو میاں کو لوٹانا ؟ ناممکن ۔ کسی کباڑئیے کو دے دینا ؟ آفت قیامت ۔ خالہ بھی کئی مشاورت کی مجالس میں شریک ہوئیں مگر مسئلہ حل نہ ہوا ۔ آخر ہم نے صوفے کو سٹور میں اور مسئلے کو کولڈ سٹورج میں ڈال دیا ۔
نشست گاہ ہمارے چھوٹے سے گھر میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی ۔ گھر کے تمام اہم کام یہیں انجام پاتے تھے ۔ ابا آرام کرسی پہ بیٹھ کر اخبار پڑھتے ، ایک کونے میں عامر کی سٹڈی ٹیبل تھی ، دوسرے کونے میں اماں کی سلائی مشین ، میں نے اور فرح نے قالین پہ گدیاں ڈال رکھی تھیں ۔ کھانے کے وقت قالین پہ دستر خوان بچھا لیا جاتا ۔ مہمان آتے تو یہیں فرشی بستر لگائے جاتے ۔ ٹی وی بھی یہیں تھا ۔ یوں یہ ہمارے گھر کا مرکزی کمرہ تھا اور ہم سب ساتھ رہ کر اپنے اپنے کام کرنے کے عادی تھے ۔ مگر کچھ دن سے کوئی کام خلاف عادت ہونے لگا تھا ۔ یوں لگتا تھا جیسے ہم میں سے کوئی ایک اپنی جگہ سے غائب ہے ۔ آخر عقدہ یہ کھلا کہ گھر کا کوئی فرد اس جہازی صوفے پہ مزے سے براجمان ہے ۔ سیاہ آبنوس سے بنا ، سیاہ چمڑے کی پوشش والا وہ شب دیجور جیسا ڈراؤنا صوفہ درحقیقت بے حد آرام دہ تھا ۔ جو اس پہ بیٹھ جاتا ، اٹھنے کا نام نہ لیتا اور اب ہر کوئی یہی چاہتا تھا کہ وہ شب دیجور پہ جب تک ممکن ہو اپنا قبضہ قائم رکھے ۔ جی ہاں اب اس کا یہ نام سب کی زبان پہ چڑھ چکا تھا ۔ پہلے تو سوچا کہ اب شب دیجور کو نشست گاہ میں لے آیا جائے پر وہ وہاں کسی طور میل نہ کھاتا تھا اور اسے رکھنے کے بعد کھانے اور سونے کی گنجائش نہ بچتی تھی ۔ اس لئے میں نے اور فرح نے کاٹھ کباڑ ادھر ادھر کر کے
اسٹور کی کافی صفائی کر دی ۔ چھوٹے سے باغیچے کی طرف کھلنے والی کھڑکی میں جالی کا پردہ ڈال دیا تھا اور یوں ہم شب دیجور پہ براجمان ہونے کا لطف اٹھانے لگے اور یہ احساس ہوا کہ کبھی کبھی الگ ،اکیلے بیٹھنا بھی نعمت سے کم نہیں ۔
ایک روز خالو میاں ہنستے مسکراتے گھر میں داخل ہوئے تو ہم سب بھونچکے رہ گئے ۔ کیونکہ لگتا تھا کہ اب کے خالو میاں کے راضی ہونے کا کوئی امکان نہیں ۔ اماں کئی مرتبہ ان کے گھر جا چکی تھیں ۔ پر وہ پلٹ کر نہ آئے تھے ۔ آج جانے کیسے آ گئے ۔ بڑے پیار سے اماں کے قریب دیوان پہ بیٹھ گئے ۔ ہم نے سلام کیا ۔ فرح شربت لینے بھاگی ۔ عامر کمپیوٹر چھوڑ کر ان کے قریب قالین پہ آ بیٹھا ۔ خالو نے ادھر ادھر نظر دوڑائی ۔ ” صوفہ کہاں ہے ؟ “
” سٹور میں ۔ ” عامر فوراً بول پڑا ۔ میرا دم نکل گیا کہ بس طوفان نوح آیا کہ آیا ۔ ” کاٹھ کباڑ میں پھینک دیا ؟ ” خالو نے پوچھا ۔ آواز میں غم وغصے کے بجائے نرم آلود سا اشتیاق جھلک رہا تھا ۔ ہم حیرت زدہ رہ گئے ۔
” ارے نہیں قدیر خان ! سبھی اس نگوڑے شب دیجور پہ فدا ہو گئے ہیں ۔ ” اماں سبزی کاٹتے ہوئے رسان سے بولیں ۔ ” شب دیجور ؟ ” خالو کا منہ کھلا رہ گیا ۔
“ارے ہاں وہی کم بخت کالے توے جیسا صوفہ ۔ نالائقوں نے شب دیجور کی رٹ لگا لگا کر میرے منہ پہ بھی یہی چڑھا دیا ہے ۔ ” اماں اطمینان سے بولیں ۔ اچانک انہیں یاد آیا کہ خالو نے کوئی تین ماہ بعد قدم رنجہ فرمایا ہے ۔ گھبرا کر ان کا منہ تکنے لگیں ۔ یاحیرت وہاں تو میٹھی سی مسکان سجی تھی ۔ ” مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ آپ کو بھلا کہاں پسند آیا ہو گا ۔ ” وہ بولے ۔ ” نہیں قدیر احمد خان ! ایسی بات نہیں ۔ا ” اماں کی تسلی ہو گئی تو وہ دوبارہ سبزی کاٹتے ہوئے بولیں ۔ سبھی اس کالے دیو پہ فدا ہیں ۔ ابھی بھی عبدالقدوس اسی پہ براجمان اخبار چاٹ رہے ہیں ۔ موا صوفہ نہ ہوا کالا جادو ہو گیا ۔ اسیر کر لیا سبکو ۔ بھئی قدیر ! برا نہ منانا ۔ تم نے زندگی میں پہلی بار کوئی ڈھنگ کا کام کیا ہے ۔ ارے یہ تینوں کتنی ہی دھما چوکڑی مچائیں۔ کچھ اثر ہی نہیں ۔ پھر نرم و ملائم ایسا کہ بیٹھتے ہی نیند آنے لگتی ہے ۔ سچ کہتی ہوں اگر تم بھی اس پہ چھلانگیں لگا لو تو اس کا بال بیکا نہ ہو ۔ پر اس کے لئے تمہیں اسٹور میں جانا ہوگا ۔ نالائقوں نے اس کا نام بھی اب عافیت کدہ رکھ دیا ہے ۔ ” اف میرے خدا ! اماں کی تقریر کے دوران ہم لوگوں کے چہروں نے کیا کیا رنگ نہ بدلے ۔ ہم بھاگ بھاگ کر خالو میاں کی مدارات میں مصروف رہے ۔ کئی بار یوں لگا کہ ابھی خالو ایک چنگھاڑ مار کر گھر سے باہر نکل جائیں گے ۔ پر ایسا نہ ہوا ۔ البتہ خالو جو مسکان لے کر آئے تھے ۔ اس کے رنگ پھیکے پڑتے گئے ۔ کچھ دیر بعد ابا بھی عافیت کدے سے نکل آئے اور انہوں نے خالو میاں کا بہت شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے گھر بھر کو کیسا اچھا تحفہ دیا ہے ۔ خالو کے جانے کے بعد عامر نے شرط لگائی کہ وہ صوفہ واپس لینے آئے تھے مگر اماں کی تقریر اور ابا کے شکریے کے بعد بیچارے چپ رہ گئے ۔ ” لو بھلا کوئی دی ہوئی چیز واپس مانگتا ہے ؟ ہم نے تو یہ کبھی نہیں سنا ۔” اماں نے اس خیال کو یکسر رد کر دیا ۔
دو چار دن بعد ہی ہمیں یوں لگنے لگا جیسے ہمارے گھر کے باہر کچھ پراسرار سی سرگرمیاں جاری ہیں ۔

ایک دن اماں نے کھڑکی کی جھاڑ پونچھ کے لئے پردہ سرکایا تو دیکھا کہ کسی نے جالی کاٹنے کی کوشش کی ہے ۔ اس پہ ابا نے بتایا کہ انہیں کئی مرتبہ رات کو شک گزرا ہے کہ باہر کوئی ہے ۔ یااللہ خیر ! ایسا کون سا خزانہ گھر آ گیا ہے ۔ پہلے تو کبھی ایسا نہ ہوا تھا ۔ اسٹور کی کھڑکی کو بند کر دیا گیا ۔ بڑے دروازے پہ ڈبل چٹخنیاں لگوائی گئیں ۔ ابا لوہے کی موٹھ والی چھڑی سرہانے رکھ کر سونے لگے ۔ اور تو اور عامر بھی اپنی چھرے والی بندوق پرچھتی سے اتار کر اسکی صفائی کرنے لگا ۔
” اس سے کیا ہو گا ؟” میں نے پوچھا ۔ ” باجی ! یہ بڑے کام کی چیز ہے ۔ ادھر ڈاکو گھر میں گھسا ، ادھر میں نے اسکی آنکھ میں چھرہ مار کر اسے کانا دجال بنایا ۔”
” اچھا ۔ اور اندھیرے میں اسکی آنکھ کیسے دکھائی دے گی ؟ ” ” میں پہلے دبے پاؤں اٹھ کر لائٹ جلاؤں گا ۔ پھر فوراً اسکی آنکھ کا نشانہ لوں گا ۔ ڈز ۔ “
” بس بس رہنے دو مچھر پکڑ کر ، اس کا منہ کھول کر دوائی ٹپکانا سبھی جانتے ہیں ۔” فرح تو تلملا ہی گئی ۔ ابا جوں توں کر کے ایک موبائل فون بھی خرید لائے کہ ان دنوں اس کا رواج ہونے لگا تھا ۔ خیال تھا کہ ٹیلی فون کی تار تو چور پہلے کاٹ دیتے ہیں ۔ مگر نہ تدبیریں کام آئیں نہ اماں کے وظیفے اور ہونی ایک دن ہو کر رہی ۔ وہ ہفتے کی شام تھی ۔ سب دیر تک ٹی وی دیکھتے رہے اور پھر گھوڑے بیچ کر سو گئے ۔ نجانے رات کا کون سا پہر تھا کہ ایک دھماکے سے سب گھبرا کر اٹھ بیٹھے ۔ گھپ اندھیرا تھا ۔ شائد لائٹ نہیں تھی اور گھر کے کسی کونے میں عجب دھما چوکڑی مچی تھی ۔ میں اور فرح تھر تھر کانپ رہے تھے ۔ ایکدم دروازہ کھلا ۔ اماں ، ابا اور عامر اندر داخل ہوئے بالترتیب تینوں کے ہاتھ میں موم بتی ، لاٹھی اور چھرے والی بندوق تھی ۔ اماں نے ہمیں چپ رہنے کا اشارہ کیا اور ہم سب کان لگا کر سننے لگے کہ آخر ہو کیا رہا ہے ۔ آخر عامر نے سرگوشی کی کہ جو بھی ہو رہا ہے اس کا مرکز اسٹور ہے ۔ ہمیں وہیں رہنے کا کہہ کر ابا اور عامر اسٹور کی طرف چلے گئے ۔ پھر عامر کی چیخ سنائی دی ۔ ابا بھی کچھ بول رہے تھے ۔ ہم بے تابی سے بھاگے ۔ ارے یہ کیا ؟ اسٹور کی کھڑکی کی جگہ ایک موکھا نظر آ رہا تھا اور شب ِ دیجور کی جگہ ایک بے ہنگم سا ڈھیر ۔ اچانک بجلی آ گئی اور ہم نے دیکھا کہ وہ بے ہنگم ڈھیر ہمارے خالو میاں تھے ۔ حواس سے عاری ، ماتھے سے خون بہہ رہا تھا ۔ ہماری تو چیخیں نکل گئیں ۔ خیر انہیں لوتھ لاتھ کر کر نشست گاہ میں لایا گیا ۔ پانی کے چھینٹے مارے ، فرح نے خون صاف کر کے پٹی باندھی ۔ خدا خدا کر کے خالو ہوش میں آئے اور عجب کہانی سنائی ۔
اس روز اماں کا طعنہ خالو کے دل پہ جا لگا تھا ۔ اگلے روز وہ آفس گئے تو وہاں پرانے سامان کی نیلامی ہو نے جا رہی تھی ۔ خالو آثار قد یمہ کے محکمے میں ملازم تھے ۔ انہیں وہاں شب ِ دیجور دکھائی دیا تو انہوں نے منتظم سے درخواست کی کہ یہ صوفہ نیلامی میں رکھے بغیر ان کے ہاتھ فروخت کر دیا جائے منتظم نے دو چار سو کے عوض صوفہ ان کے حوالے کر دیا اور خالو نے اسے ہمارے ہاں پہنچا دیا ۔ محکمے کے ڈائریکڑ ان دنوں کئی ماہ کی چھٹی پہ تھے ۔ واپسی پہ انہوں نے اس صوفے کے بارے میں باز پرس کی اور جب یہ پتہ چلا کہ کسی احمق نے اسے نیلامی کے سامان میں رکھ دیا تھا تو سر پیٹنے لگے ۔ کیونکہ وہ کسی تاریخی عمارت کے نوادرات کا حصہ تھا اور خصوصی علاج معالجے کے لئے یہاں آیا تھا کہ نوادرات کو محفوظ رکھنے کے لئے ایسی کاروائیاں وہاں ہوتی رہتی تھیں ۔ نجانے کس کی غلطی سے وہ نیلامی تک جا پہنچا مگر یہ معلوم ہوتے ہی کہ صوفہ دفتر کے ایک بندے نے ہی خریدا ہے ۔ ڈائریکٹر صاحب کے دم میں دم آیا اور انہوں نے خالو کو بلا کر ان سے صوفے کی واپسی کا مطالبہ کیا ۔ عامر کی پیش گوئی بالکل درست تھی ۔ اس روز خالو میاں شب ِ دیجور کو واپس لینے ہی آئے تھے مگر اماں کی تقریر اور ابا کے شکرئیے کے بعد چپ چاپ لوٹ گئے ۔ اب ادھر آفس سے تقاضے ، ادھر خالو میاں بے بس ۔ آخر یہ سوجھی کہ محلے کے ایک بے روز گار مجنوں سے چند سو روپوؤں کے عوض یہ طے کیا کہ وہ صوفہ پار کر لائے ۔ وہ پٹھا ہمارے گھر کے ارد گرد منڈلاتا رہا اور پھر ہمارے حفاطتی انتظام دیکھ کر جانے کیا سمجھا کہ ایک غنڈے کو ساتھ ملا لیا کہ کوئی بہت زبردست چیز ہاتھ لگنے والی ہے ۔ دونوں آدھا آدھا حصہ بانٹ لیں گے ۔ دوسری طرف خالو کے ڈائریکڑ سخت بھنائے ہوئے تھے ۔ ان کی سمجھ سے بالا تھا کہ آپا کے گھر سے صوفہ اٹھوانے میں اتنی دیر کیوں ؟ انہوں نے خالو کو نوٹس دیا کہ کل تک صوفہ آفس میں ہونا چاہیے ۔ خالو رات گئے لوڈر لئے یہاں پہنچے ۔ ارادہ تھا کہ جیسے بھی ممکن ہو آج شب ِ دیجور لے کر جانا ہے وہ ہمارے چھوٹے باغیچے میں کھڑے تانے بانے بن رہے تھے کہ صوفہ چپکے سے پار ہو سکتا ہے یا آپا سے صاف صاف بات کی جائے کہ غنڈوں کا گینگ پوری تیاری سے حملہ آور ہو گیا ۔ ۔ انہوں نے کھڑکی کا فریم اتار مارا اور شب ِ دیجور کو قابو کر لیا ۔ خالو سے برداشت نہ ہوا اور وہ اپنی کمین گاہ سے نکل کر اندر گھسے چلے آئے ایک ڈنڈا ان کے سر پہ پڑا اور وہ ڈھیر ہو گئے ۔
” ہوں ۔ ۔ ۔ تو پھر پولیس کو بلوایا جائے ۔ ” ابا اٹھنے لگے ” ایسا غضب نہ کیجیے ۔ میری نوکری داؤ پہ لگی ہے ۔ تاریخی ورثہ ہے ۔ اخبار والوں کو بھنک پڑ گئی تو ایسی ایسی کہانیاں چھپیں گی کہ ہمارا محکمہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے گا ۔ “
” تو پھر ڈائریکڑ صاحب کو بلوائے لیتے ہیں اور بیگم ! ذرا عالیہ کو بھی فون کر دیجیے ۔ ان حضرت کی پر اسرار سرگرمیوں نے بیچاری کو کانٹوں پہ لٹا رکھا ہے ۔ کل دفتر میں اس کا فون آیا تھا کہ بھائی جان ! ذرا قدیر احمد خان کا پتہ لگائیے کہ آجکل کن لچھنوں میں ہیں ۔ “
خالو میاں پہلو بدل کر کراہنے لگے ۔ کچھ دیر بعد ڈائریکڑ صاحب پہنچ گئے ۔ خالہ بھی بچوں سمیت بھاگی آئیں ۔ سبھی خالو میاں کی عقلمندی پہ اش اش کر رہے تھے ۔ طے یہ پایا کہ اس محلے دار کو پکڑا جائے ۔ یہ تدبیر کارآمد رہی ۔ وہ اصل غنڈے تک لے گیا جو ایک کچی آبادی میں سخت بھنایا بیٹھا تھا کہ آخر اس جناتی صوفے میں کون سرخاب کے پر لگے ہیں ۔ اسکے آدمیوں کی چولیں ہل گئیں ۔ وقت اور پیسہ الگ برباد ہوا ۔ شکر ہوا کہ اس نے شب ِ دیجور کو پھونک نہیں ڈالا ۔ حقیقت کھلنے پہ وہ اڑ گیا کہ بیس ہزار دو اور یہ بلا لے جاؤ ۔ بہت مشکل سے دس ہزار پہ سودا پٹا اور صبح دس بجے کے قریب وہ شاندار تاریخی نشست ڈائریکڑ صاحب کے آفس میں سجی تھی ۔ وہاں تاریخی عمارت کے منتظم صاحب پہلے ہی موجود تھے کیونکہ انہیں فون پہ اطلاع دے دی گئی تھی ۔ انہوں نے شب ِ دیجور کا بغور جائزہ لیا پھر سب سے درخواست کی کہ تھوڑی دیر کے لئے انہیں تنہائی درکار ہے ۔ سب حیران ہوئے پر خاموشی سے باہر نکل گئے ۔ منتظم نے دروازہ اندر سے بند کر لیا ۔ ڈائریکڑ صاحب سے ضبط نہ ہوا اور انہوں نے دروازے کی جھری سے آنکھ لگا دی ۔ ان کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی اور وہ پیچھے ہٹ گئے ۔ کچھ دیر بعد منتظم صاحب باہر نکلے اور ڈائریکڑ صاحب سے مسکرا کر بولے ۔ ایسا کیجیے ۔ یہ صوفہ آپ ہی رکھ لیجیے ۔ آخر آپ نے اسکے لئے اتنی خواری اٹھائی ہے ۔ میں محکمہ جاتی کاروائیاں خود ہی سنبھال لوں گا ۔ یہ کہہ کر حضرت یہ جا وہ جا ۔ ڈائریکڑ صاحب نے دانت پیسے ہوئے ابا اور عامر سے کہا کہ صوفہ آپ واپس لے جائیے اور خود خالو کو لے کر کہیں چل دئیے ۔ شب ِ دیجور گھر پہنچ کر اپنی جگہ سج گیا مگر ہم سب اس تہہ در تہہ تماشے پہ حیران پریشان بلکہ بیزار تھے یہ آخر کس طلسم ہوش ربا سے پالا پڑا ہے ۔ صوفہ ہے یا ہفت خوان معمہ ؟
شام ڈھلے خالو میاں اور ان کے باس ہمارے گھر آئے ۔ انہوں نے منتظم کے چپڑاسی کو کچھ دے دلا کر اصلیت معلوم کر لی تھی اور اب سب کےسوالوں کے جواب میں وہ ہمیں شب ِ دیجور کے پاس لے گئے ٹٹول ٹٹال کر ایک خفیہ کمانی دریافت کی جس پہ ایک خفیہ خانہ کھٹاک سے کھلا جو خالی ہی تھا ۔ معلوم ہوا کہ یہ صوفہ قدیم ضرور ہے مگر یونہی کسی راہداری میں پڑا تھا ۔ منتظم صاحب اسکے خفیہ خانے سے واقف تھے اور اس تاریخی عمارت کی دیواروں میں بچے کھچے قیمتی پتھر کھرچ کھرچ کر اس خفیہ خانے میں رکھتے رہتے تھے کہ جب پوری طرح تمام جواہر ہتھیا لیں گے تو کسی روز پار کر لیں گے روز روز خطرہ مول لینا ممکن نہ تھا کہ اس عمارت سے نکلتے ہوئے ہر فرد کی تلاشی ہوتی تھی ۔ وہ رخصت پہ تھے تو سالانہ دیکھ بھال اور پالش کے سلسلے میں کسی نے باقی اشیاء کے ساتھ شب ِ دیجور کو بھی مذکورہ محکمے میں بھجوا دیا ۔ منتظم صاحب نے اپنے ہیروں کی خاطر ڈائریکڑ صاحب کو ایسا گھمایا ، ڈرایا ، دھمکایا کہ پوری الف لیلیٰ تیار ہو گئی ۔ پر جب صوفہ ملا تو انہوں نے ہیروں پہ ہاتھ صاف کیا اور چلتے بنے ۔
خالو میاں اور ان کے ڈائریکڑ آج تک سر پیٹا کرتے ہیں پر شب ِ دیجور ہم سبکی آنکھ کا تارہ ہے اور عافیت کدے میں پوری شان سے سجا ہے ۔ اسکے خفیہ خانے میں میرے چاندی کے کڑے ، اماں کا اکلوتا گلو بند اور عامر کا سونے کا تمغہ رکھا ہے کہ ہمارے گھر کا کل اثاثہ یہی ہے

Published inرضوانہ سیدعلیعالمی افسانہ فورم
0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x