Skip to content

شبِ یلدا

عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر 162
شبِ یلدا

اسماء حسن۔اسلام آباد ۔ پاکستان

” ایک گھڑ سوار نے مشرقین و مغربین کا سفر کیا ۔۔ اس نے دیکھا کہ دنیا میں پھیلتی صبح و شام کے آنچل میں ایسی اولاد آدم بھی ہے جو شر اورفساد میں حد سے تجاوز کیے ہوئے ہے ۔ جب آسمان، تیل کی تلچھٹ کی طرح گلابی ہو جائے گا تو جوابدہ کون ہو گا ؟ کون تھا ایسا جس نے بستی بستی پھیر لگا کر قہر برسانے والوں کے خلاف آواز حق بلند کی تھی ؟ غوروفکر کرنے والے، حدود کی پاسداری اور ظلم کے خلاف دیواریں کھڑی کرنے والے اس شخص نےقیامت ڈھانے والوں اور امن پسندوں کے درمیان حد فاصل اٹھا دی تھی “

وہ یہیں تک سوچ پایا تھا کہ ٹیلی ویژن سے آتی دل خراش آوازوں کی طرف متوجہ ہو گیا ۔ خون میں لت پت، ننگےوجود چیخ و پکارکرتے، سانسوں کی بھیک مانگتے دکھائی دیے تو فرعونیت کی گردن کچھ اور اکڑ گئی تھی ۔۔ اسے یوں لگا جیسے کریہہ مخلوق مرداروں پرجھپٹ رہی ہے ۔۔ وہ نم آنکھیں لیے دیکھتا رہا۔۔ خبر بدلی تو اس نےگہری سانس لی ، کچھ دیرخستہ حال چھت کو گھورا جس کی اُدھڑی سفیدی سے اُبھرتی بھیانک شکلیں زمین پر گرکرمٹی ہو رہیں تھیں ۔۔ دونوں بازو آنکھوں پر رکھ کر گردن کو صوفے کی پُشت پر ڈھلکا یا توتخیل کے دائروں میں ارتعاش بڑھنے لگا۔۔

” کیاوہ یہ ہی چاہتا تھا کہ مظلومیت پرکاری ضرب لگانے والے ھاتھوں کو کاٹ دیا جائے اور بربریت کے جھنڈوں کو جڑ سے اکھاڑکراندھیر نگری کے مسافروں کو دیے کی لو دکھائی جائے؟ جانوروں کی کھال پہننے والی اور حوا کے بطن سے جدا ہو کر ایک ہی سیدھ پر چلتی ہوئی قوم کو مردہ آبی جانوروں کا گوشت کھاتے دیکھا تو سوال اٹھایا ہوگا کہ تمہاری یہ طاقت کس کام کی جس نے کھال اوڑھنے اور مُردار خوری کے سوا تمہیں کچھ نہ سکھایا ؟ جب زمین دہکتے کوئلے کی مانند پیروں کو شل کرنے لگے تو “سدین ” کو ہموار کرتے ہوئے،فساد رستوں پر گرم لوہے اور تانبے کا لیپ کر دیا جائے ۔۔ شاید اس نے کچھ ایسا ہی سوچا ہو گا۔۔ وہ سام بن نوح کی اولاد میں سے تھا”

چیخنے چلانے کی آوازوں سے وہ پھرچونک اٹھا۔۔ قدموں کو میز سے نیچے رکھا ، ایک نظردوبارہ ٹیلی ویژن میں دکھائی جانے والی خون ریزی پر دوڑائی اورچائے کی پیالی ھاتھ میں تھامے بالائی منزل پرچلا گیا ۔۔ گگن کی بچی کھچی رنگین قبا پر سیاہ چیتھڑے نمایاں ہونے لگے ۔۔ دھنکی ہوئی، گدلی رُوئی کے سے بادلوں نےآسمان کو اپنی لپیٹ میں لیا تو پرندے گھٹن محسوس کرتے ہوئے تیز تیز پر مارنے لگے ۔۔ وہ اس سرزمین کے بارے میں سوچنے لگا جہاں کشت و خون کا کھیل کھیلا جا رہا تھا ۔۔ جہاں عزتوں کو پامال کیا جا رہا تھا ۔۔ لسانی بنیادوں سے اٹھنے والی بو نے مذہبی تنفر کا لبادہ اوڑھ لیا تھا اور ایک گروہ دوسرے گروہ کو جانے کن خطرات کے پیش نظر موت کی گھاٹی کے سپرد کیے جا رہا تھا؟ وہاں ایک ہی سایہ فگن تھا اور وہ تھا موت کا سایہ ۔۔ وہاں ایک ہی زبان سمجھی جا رہی تھی اور وہ تھی نفرت کی زبان —

وہاں زمین تو تھی مگرمُردوں کے لیے قبریں نہیں تھیں اوراتنی قبریں کھودتا بھی تو کون ؟

وہ ایسی بستی تھی جہاں سرخ آندھی نے خونخوارپنجے گاڑلیے تھے۔۔ خود کو امن پسند کا لقب دینے والے فرمانروامعصوم بچوں کی سانسیں بند ہونےپر ہنس رہے تھے۔۔ جو انسانیت کا سبق روز پڑھاتے تھے مگر اس کے مفہوم تک سے نا آشنا تھے۔ ناتواں وجود سمندرکی وسعتوں میں بھی تہی داماں ہی رہتے ۔۔ بےرحم لہریں خاموش قاتل کا روپ دھارکر انہیں سمندر کی آخری حد میں لا پٹختیں ۔
اس نےایک نظر آسمان پرڈالی اورکانوں میں پڑنے والی آوازوں کے تلاطم سے خوف زدہ ہو کر لرز اٹھا ۔۔

اُس لمحہ بھی وہ یوں ہی لرزہ تھا جب لہو صاف کرتے کرتےاس کی ہتھیلیوں پر چھالے پڑگئے تھے ۔۔ اس کے قصبہ میں ایسے لوگ داخل ہو گئے تھےجن کی آنکھوں پرمکروفریب کا جال اورھاتھوں میں خون کی سڑانڈ بسی تھی ۔۔ تلوار کا دھنی وہ شخص باطل کی شکست کے لیے زندگی کا خراج دینے نکل پڑا۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایسے بہت سے قدم اس کی پیروی میں اٹھ کھڑے ہوئے جنہوں نے گھناؤنے افکار کی سیلن زدہ قبروں کے بت بنانے والوں پر پے درپے وارکرتے ہوئے انہیں ریتلی مٹی کی طرح زمین پر ڈھیرکر دیا تھا ۔۔ مکر سے کام لینے والوں کی آنکھوں پرکائی جم گئی ۔۔ ایسی کائی جو تہہ بہ تہہ تھی ۔۔
” یہ تب یہاں ممکن تھا تواب وہاں کیوں نہیں ؟”

اس نے آسمان پر پھیلتے کالے بادلوں کو دیکھا اورنچلی منزل کی جانب دوڑ لگا دی۔۔ چند اشیاء ہمراہ لیں اوریہ سوچتے ہوئے ساتھیوں کو پکارا کہ ایسی رزم آرائی میں اس کا تنہا وجود کیا وقعت رکھتا ہے ؟ مگران کی جھکی ہوئی گردنیں دیکھ کروہ چیخ اٹھا “فرعون اتنے طاقتور ہو گئے ہیں؟” وہ گہری سانس لیتے ہوئے اس سرزمین کو بچانے کے لیے رخت سفر باندھنے لگا جہاں گدھ حالت جنگ میں تھے اور گھٹنے ٹیکے کئی نحیف البدن خون کا آخری قطرہ بہہ جانے کے منتطر، سہمے بیٹھے تھے ۔۔ امید وبیم کی کشاکش میں بہادرجنگجو کے گھوڑوں کی آہٹ کہیں دور سے آتی ہوئی سنائی دی تو وہ مسکرا دیا اوراکیلا ہی جانب منزل چل پڑا۔۔

سفرکی صعوبتوں سے پاؤں شل ہوگئے۔ زخموں سے رِسنے والا خون کچی مٹی میں جذب ہوتا تو کبھی نوکیلے پتھروں پرنشان چھوڑ جاتا ۔۔ سورج کی جھلسا دینے والی حدت بے حال کر دیتی تو کبھی بےموسم برستی بارشوں کا ریلا اس کے ہلکے پھلکے وجود کو اپنےساتھ بہا لے جاتا اورجہاں کہیں لا پٹختا وہیں خیمے گاڑ لیتا ۔۔ وہ مسلسل اس رفیق کا سوچ رہا تھا جو کہیں بھی مل جائے گا اورجب ملے گا تواس کا ھاتھ زور سے تھام لےگا اور پھر التجا کرےگا کہ بندرستوں کو کھول دے اور بے جا کھلے رستوں پر قفل لگا دے ۔۔ تھکے ماندے،شکستہ وجود کو سنبھالتے ہوئے وہ اس جانب سرک رہا تھا جہاں زندگی حالتِ تحجرمیں تھی ۔۔ وہاں پہنچا توزندہ مکین کم اورلاشوں کے انبارزیادہ دکھائی دیے ۔۔ گدھ پنڈال سجائے بیٹھے تھے ۔۔ ٹھوکر لگی تو گرتے ہوئے ھاتھ کسی نرم چیز سے جا ٹکرایا۔۔۔ اس کی آنکھوں کے علاوہ دو آنکھیں اور تھیں جوسراپا سوال تھیں ۔۔ کیا کوئی رفیق ملا ؟کچھ بازو، گردنیں اورکٹی پھٹی ٹانگیں جنہیں دیکھ کراس کی روح کانپ اٹھی ۔۔

متعفن فضا ذہن کو مفلوج کرنے لگی ۔۔ دم توڑتی زندگیوں کا کرب حلق میں کانٹے چبھوگیا ۔۔ آسمان گھومنے لگا ۔۔ زمین پھٹنے لگی ۔۔ وہ اپنے لاغروجود کوگھسیٹتا ہوا کونے میں جا لگا ۔۔ ایک سمت سے آتی عجیب وغریب آوازوں نےدہشت پھیلا دی ۔۔ سراٹھا کر دیکھا تو پیپ ذدہ سروں والی کریہہ مخلوق زمین کوگدلا کر رہی تھی۔۔وہ مرداروں کو ذخیرہ کرنے کے لیے گھسیٹ گھساٹ کر میدان سے پرے لے جانے کی کوشش میں لگ گئے ۔ فرعون تخت نشین تھا، شداد دوزخ کا ایندھن بھر رہا تھا، نمرودلاغر جسموں پر آگ کے شعلے برسا رہا تھا ، سامری سونے کے پہاڑ پرمورتیاں ٹانک رہا تھا ۔۔

اورقابیل؟ قابیل قبریں کھودتا تھک چکا تو کوے کو لعن طعن کر نے لگا “آخر تونے مجھے یہ ہنرسکھایا ہی کیوں ۔۔ مجھے کیا خبر تھی سزا کے طور پر اتنی قبریں کھودنی پڑیں گی ؟ “اتنا کہہ کرکدال اپنے سر پر دے مارا ۔۔ مردہ وجود آخری آرام گاہ سے بھی محروم ہو گئے اور سوال پھر وہیں آن کھڑا ہوا کہ اتنی قبریں کھودے بھی تو کون ؟
بستی بلبلا اٹھی ۔۔ پہاڑوں میں روئی بھر گئی ۔۔ زمین یوں لرزی کہ دوسری سمت میں شگاف پڑ گیا اورایک مخلوق دوڑتی پھرتی دکھائی دینے لگی ۔۔ اس کا دل چاہا کہ وہ ان کے منہ نوچ ڈالے ۔۔ ان دو گروہ کے درمیان حد فاصل اٹھا دے مگر اس کے گھائل وجود میں اتنی طاقت ہی کہاں رہی؟ نگرنگرتباہی کی فصیلیں سر کرتی وہ مخلوق کٹی پھٹی لاشوں کے اعضاء کونوچنے لگی ۔۔ ان کی پیاس کی شدت کسی طور کم ہی نہ ہو رہی تھی ۔۔ تالابوں کا پانی ختم کر چکے توسیرابی کے لیےخون کی ندیاں بنانے لگی ۔۔ ” قیامت کا ایک دن معین ہے مگروہاں قیامت بڑی جلدی آگئی تھی ۔۔۔ اس کی نگاہیں سام بن نوح کی اولاد کے بہادرجنگجو کو ڈھونڈنے لگیں ۔۔ ادھر ادھر نظر دوڑائی مگرکوئی رفیق دکھائی نہ دیا ۔”کیا اس جیسا کوئی ایک بھی نہیں؟” یہ کہتے ہوئے وہ عالم استغراق میں چلا گیا ۔۔

“کسی نے دیوار کھڑی کرتے ہوئے ظلم کو پرے دھکیلنے کی کوشش نہیں کی؟ کوئی تو سوچتا کہ جب آسمان تیل کی تلچھٹ کی طرح گلابی ہو جائے گا تو وہ اپنے حاکم کو کیا جواب دے گا ۔۔ ناسک ، منسک ، یاجوج ماجوج جیسی اقوام تو پیدا ہو گئیں مگر کسی ذوالقرنین نے گھوڑے نہیں دوڑائے ۔۔ یہ بستی شبِ یلدا کےمحور میں گھومتی رہے گی مگر کب تک ؟”

یہ اس کی سوچ کا آخری دائرہ تھا ۔۔ اس کارعشہ زدہ وجود مٹی ہونے لگا ۔۔ آسمان نے سیاہ اچکن پہن لی اور زمین بھیانک سایوں کی زد میں آگئی ۔۔ بستی خون میں نہا کر خاموش ہو چکی ۔۔ جھینگروں کی جھیں جھیں تک حالت سکوت میں چلی گئی ۔۔ اس نے بڑی مشکل سےآسمان کی طرف دیکھا ، جلتی نگاہوں کو خدا کے حضورتصور کیا اور ذوالقرنین کے ظہور کے لیے ھاتھ اٹھا دیئے ۔۔۔

Published inاسماء حسنعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply