Skip to content

شاہ مت

عالمی افسانہ میلہ 2020

افسانہ نمبر 10

“شاہ مت”

فاطمہ عمران

لاہور ، پاکستان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“ہیں اس عمر میں کون لڑکی دے گا آپ کو؟”

اماں نے انہیں بغور دیکھتے ہوئے کہا تو میں جو ٹی وی دیکھنے میں مشغول تھی ۔میرا دھیان بھی ان کی جانب چلا گیا۔

شاہ چچا ہماری اماں ابا کے رشتہ دار تھے۔ ہمارے اماں ابا بھی چونکہ آپس میں رشتہ دار تھے اسلیے شاہ چچا

کی آمد کو اپنے اپنے کھاتے میں لکھ کر دل کو تسلی دے لیتے کہ انہی کا رشہ دار آن ٹپکا ہے۔۔شاہ چچا اکثر ہمارے گھر چکر لگایا کرتے تھے۔ خاص طور پر جب ہمارے گھر سے انکا کوئی کام نکلتا ہو۔ عمر کوئی پینسٹھ برس کے قریب اور رنگ مسور کی دال کی طرح سبزی مائل کالا تھا لیکن صحت اچھی ہونے کے باعث کسی آلو بخارے کی طرح دکھتے تھے۔اوپر سے سر پر بال ندارد۔ نہانے سے پہلے اچھی طرح تیل لگا لیتے تو ایسا لگتا تھا جیسے کسی توے پر روٹی ڈالنے سے پہلے مکھن لگا کر اچھی طرح چپڑ لیا ہو۔ لباس کا خاص خیال رکھتے تھے۔ خوش لباسی کا یہ عالم تھا کہ بغیر کسی سلوٹ کے کلف لگی سفید شلوار قمیض پہنتے تھے۔

اولاد میں فقط ایک بیٹی تھی جو کب کی اپنے گھر کی ہو چکی تھی۔ بیگم جس کو اگلے جہاں سدھارے چار پانچ برس ہو چکے تھے کا نام و نشان تک دل سے مٹا چکے تھے۔ اور یہی وجہ تھی ہمارے گھر ہفتے میں تیسری بار آمد کی۔ موصوف دوبارہ شادی کرنا چاہتے تھے مگر اب کی بار نوجوان اور خوبصورت لڑکی سے۔ اپنی بیگم کے بارے میں انکا خیال تھا کہ جوانی میں بھی بال خاندانی سفید ہونے کی وجہ سے بوڑھی دکھتی تھیں۔

انکے ساتھ اکثر ٹی وی دیکھتے ہوئے باتوں باتوں میں انکی خوب و صورتی کے معیار کا مجھے اچھی طرح اندازہ تھا۔ جب بھی مادھوری سکرین پر آتی انکی نظریں کسی لیزر لائٹ کی طرح اسکی ہڈیوں کے گودے تک کا معائنہ کر لیا کرتی تھیں۔اور جب وہ رقص کرتی تھی تو شاہ چچا بھی بھنویں اچکا اچکا کر ایک ہونٹ دانتوں تلے دبا کر گویا اسکے ساتھ محو رقص رہتے تھے۔ انکا یہ بھی خیال تھا کہ قدرت مادھوری کو تخلیق کرنے کے بعد سے خود حیران ہے کہ کیا شاہکار بنا ڈالا؟

لہذا اب انہیں کس قسم کی لڑکی چاہیے تھی اسکا اندازہ تو سب کو تھا مگر کوئی ایسی مخلوق جس پر لڑکی کا نام بھی چسپاں کیا جا سکے بھلا شاہ چچا سے شادی کے نام پر خودکشی کیوں کرنا چاہے گی؟ لیکن شاہ چچا کو کون سمجھائے۔ اماں نے دبے الفاظ میں یہی مدعا اٹھانے کی کوشش کی تو تھی مگر شاہ چچا کی خود اعتمادی نوجوانوں کو بھی مات کیے دیتی تھی۔

“کیوں کیا ہوا ہے میری عمر کو؟ بچپن ساٹھ سال بھی کوئی عمر ہے بھلا؟ اس عمر میں تو گورے کام کاج چھوڑ کر زندگی کا لطف اٹھانے کا خیال کرتے ہیں اور تمہارا مطلب ہے کہ میں قبر میں لیٹ کر اوپر مٹی ڈال لوں کہ لو بھئی عمر ہو گئی اب فاتحہ پڑھو میری”

عمر کے پورے دس سال بیچ میں سے غائب کرتے ہوئے شاہ چچا بولے تو اماں بھونچکی رہ گئیں۔

“میرا مطلب ہے کہ اگر کوئی لڑکی دینے کو راضی ہے تو بتا دیجئے ہم گھر چلے جائیں گے”

اماں کو کچھ سمجھ نہ آئی کہ بات کیسے سنبھالیں۔

“ہاں ہے ایک رشتہ میری نظر میں۔تم گڈو بیٹے سے بات کر لینا۔پھر لڑکی والوں کے گھر چلے جائیں گے”.

والد محترم خاندان میں گڈو کے نام سے جانے جاتے تھے۔والدہ نے سر ہلا کر رضامندی کا اظہار کیا تو شاہ چچا کو گویا سکون کا سانس آ گیا.اماں رضامندی کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتی تھیں۔

تھوڑی دیر ادھر ادھر کی بات کرنے کے بعد شاہ چچا گھر سے گئے تو میں نے اماں پر دھاوا بول دیا۔

“یہ شاہ چچا کیا کہہ رہے تھے دوسری شادی کا؟ “

“کچھ نہیں سٹھیا گئے ہیں اس عمر میں۔میں تو حیران ہوں کہ کس لڑکی کو گھر والوں سمیت شکار کر لیا ہے جو اگلے رشتہ دینے پر راضی ہیں۔اب اس عمر میں گھوڑی چڑھیں گے””

اماں نے کہا تو بےاختیار میرے ذہن میں تصویر بن گئی جس میں شاہ چچا گھوڑی پر بیٹھے بار بار سہرا سیٹ کرنے میں مشغول ہیں کیونکہ چندیا ہونے کی وجہ سے دھاگہ سہرے سمیت بار بار پھسل کر آگے گر جاتا تھا” اس خیال پر ایسی زور سے ہنسی آئی کہ اماں نے غصے سے دیکھتے ہوئے تنبیہہ کی کہ شاہ چچا کے آگے اپنی ہنسی منہ میں ہی سنبھال کر رکھوں ۔

کچھ دن کی گڈ مڈ کے بعد طے ہوا کہ لڑکی والوں کو ہمارے گھر بلایا جائے کیونکہ شاہ چچا کو تو لڑکی والوں پر پہلے سے ہی کوئی اعتراض نہ تھا۔لہذا لڑکی والوں نے جو اعتراض جمع کروانے ہیں وہ شاہ چچا کے بڑوں میرا مطلب چھوٹوں کے آگے جمع کروا دیں۔

اللہ اللہ کر کے پیر کا دن مقرر ہوا۔ شاہ چچا کا خیال تھا کہ مبارک دن ہے۔حالانکہ میرے خیال میں اب اس لڑکی کی زندگی میں کچھ بھی “مبارک” کہنا لفظ مبارک کی توہین تھی۔

صبح سویرے ہی شاہ چچا ہمارے گھر آن پہنچے۔ انکی تیاری ایسی دیکھنے لائق تھی کہ گویا آج ہی شب عروسی بھی منا لیں گے۔ لال کرتا۔۔جس کو دیکھ کر اماں ابا شاہ چچا کو کم اور ایک دوسرے کو زیادہ دیکھتے رہ گئے اور اس کے نیچے سفید جوتے جو شکل سے کافی مہنگے لگ رہے تھے۔ اوپر سر پر وگ دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی گنید پر کپڑا ڈال دیا جائے تو وہ دونوں اطراف سے کچھ اٹھا سا رہتا ہے۔

مجموعی طور پر شاہ چچا کا حلیہ کچھ یوں لگ رہا تھا کہ لال کرتا، سفید پاجامہ، آلو بخارے جیسا منہ اور تربوز جیسی توند جو کرتے کے بیچ میں پھنسی ایسی گھٹی ہوئی معلوم ہو رہی تھی جیسے کرتا پھاڑ کر باہر کھلی ہوا میں گہری سانس لینا چاہتی ہو۔میری تو ہنسی روکنا مشکل ہوئی جا رہی تھی لہذا اماں گالیاں دے کر باورچی خانے میں کام سونپے جا رہی تھیں۔

خیر سے لڑکی والوں کی آمد ہوئی۔ شاہ چچا یوں چھوئی موئی بن کر اندر داخل ہوئے جیسے اٹھارہ انیس سال کی لڑکی پہلی بار رشتہ دیکھنے آنے والوں کے سامنے چائے لے کر جاتی ہے۔ انکے پیچھے میں بھی سموسوں کی پلیٹ اٹھائے اندر داخل ہوئی۔

لڑکی والوں نے حیرانی سے دیکھا۔دعا سلام کے بعد ایک خاتون جو غالبا لڑکی کی والدہ ہی ہوں گی بولیں “یہ لڑکے کے کیا لگتے ہیں “؟

میں، امی، ابا سب دنگ رہ گئے۔ اچانک ہی میرے منہ سے پھسلا “یہ تو خود لڑکے ہی لگتے ہیں”۔

“جی؟؟؟ ” خاتون نے حیرت سے پوچھا تو میں نے فورا کہا “سموسے لیجیے نا” ۔ انکے چہروں پر بےچینی اور بے یقینی صاف دیکھی جا سکتی تھی۔اتنا تو ہم سب کو اندازہ ہو گیا تھا کہ لڑکی والوں نے “لڑکا” دیکھنے کیلئے ہی آنے کی حامی بھر لی تھی۔اگر پہلے سے دیکھا ہوتا تو یقینا انکا قیمتی وقت بچ جاتا۔

چاہ چچا کے بارے میں ایک بات تو بتانا بھول ہی گئی۔ خوش لباس ہی نہیں ۔ خوش گفتار بھی تھے۔ایسی لچھے دار باتیں کرتے تھے کہ اگلا انسان گھنٹوں تک انکے اس جال سے راہ فرار حاصل نہ کر پاتا تھا۔ لہذا اماں ابا تو کیا ہی کچھ کہتے۔ شاہ چچا نے بات شروع کی۔ انہوں نے پہلے تو اپنے خاندانی رئیس ہونے کے ایسے قصے بیان کیے کہ میں بھی فخر میں مبتلا ہو گئی۔ واہ !ایسے اونچے خاندان سے تعلق ہے ہمارا ۔ مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا۔اور اس پر اپنی ذاتی جائیداد جو گنوائی۔۔مجھے تو لڑکی والوں کی قسمت پر رشک آنے لگا۔ کہ ماشاءاللہ سونے کی پلیٹوں اور چاندی کی چمچ سے کھلانے والا داماد مل رہا تھا انکو۔

اوپر سے شاہ چچا نے ذکر چھیڑ دیا کہ اب آ ہی گئے ہیں تو بات پکی کر لی جائے ۔لڑکی والے بچارے اس آفت ناگہانی پر سٹپٹا سے گئے۔ شاہ چچا کی باتیں سننا اور سر دھننا ایک طرف اور اپنی لڑکی کا بیاہ کرنے سے پہلے شاہ چچا کا مکھڑا دیکھنا دوسری طرف۔

“عمر کیا ہو گی آپکی “

پینتالیس سال””..شاہ چچا نے گویا سب کو کرنٹ لگا دیا۔

“جی وہ تو بس بیگم کی وفات نے ایسا روگ لگایا کہ پانچ دس سال بوڑھا دکھنے لگا ہوں “. چہرے پر اتنی رقت طاری کر کے بولے کہ دل نے بےاختیار شاہ چچا کو اس ایکٹینگ پر داد دی۔

“ہمیں تھوڑا وقت تو دیجیے سوچنے کا۔ یہ تو رشید بھائی کے کہنے پر ہم لڑکا دیکھنےآ گئے۔ مگر رشتے بنانے میں وقت تو لگتا ہی ہے نا”رشید بھائی شاہ چچا کے لنگوٹیا یار تھے۔اور اکثر انکی الٹی سیدھی حرکتوں کے پیچھے رشید بھائی کا ہی ہاتھ نکلتا تھا۔

لو بھئی ایک بات تو صاف ہوئی کہ اس گورکھ دھندے کے پیچھے بھی رشید بھائی کی کارستانی تھی ۔ رشید بھائی جو پارٹ ٹائم رشتے کروانے والی ماسی کا کام بھی سرانجام دیتے تھے نے نہ جانے کیا بہلا پھسلا کر بچاری لڑکی والوں کو “لڑکے” کے خواب دکھا کر انہیں شاہ چچا کی جانب روانہ کیا تھا۔ بہرحال لڑکی والے شریف لوگ معلوم ہوتے تھے۔ لہذا جھگڑا کرنے سے گریزاں لگ رہے تھے۔

“مگر پہلی ہی ملاقات میں بات پکی کچھ صحیح معلوم نہیں ہوتا” اب کی بار ساتھ آئے مرد حضرت بولے۔

“اجی یہ سب تو پرانے زمانے کی باتیں ہیں۔ ہم نوجوانوں کو اب نئے طور طریقے بھاتے ہیں۔ آپ لوگوں نے ہمیں دیکھ بھال لیا۔ ہم نے آپ کو۔بسمہ اللہ کیجیے بس۔”

شاہ چچا نے پھر اماں ابا کو بولنےکا موقع دیے بغیر کہا تو لڑکی والے تھوڑا سٹپٹا سے گئے۔

“دیکھیئے ہم نے کہا نا”

شاہ چچا نے بات بیچ میں کاٹ دی “ارے اب کہنے کو کیا بچا ہے بس بات پکی کیجئیے کہ کب بارات لے کر آپ کے گھر تشریف لائیں”

شاہ چچا نے ساتھ ہی سموسہ دانتوں کے بیچ باقاعدہ دبوچا۔ تبھی آدمی بولا

“عجیب آدمی ہیں آپ۔بات سننا ہی نہیں چاہتے۔کیا صاف صاف کہہ دیں کہ ہمیں رشتہ نہیں منظور؟ لڑکا؟ لڑکے کی دادا کے عمر کے آپ؟ اور رشید بھائی نے تو کہا تھا خوبصورت نوجوان۔ ارے آئینہ دیکھا ہے آپ نے؟ ہونہہ” اس کے بعد آنا فاناً لڑکی والے یوں اٹھ کر گئے کہ ہم سب ششدر ہی رہ گئے۔

شاہ چچا کا سموسہ جو دانتوں میں ہی دب کر رہ گیا تھا ۔انہوں نے منہ سے نکال کر باہر رکھا اور کرسی پر ٹیک لگا لی۔شاہ چچا ایک دم نڈھال سے ہو گئے۔ انکا چہرہ ایک دم اتنا لٹک گیا کہ لگ رہا تھا جیسے برسوں کی مسافت طے کر کے تھکے ہارے مسافر کی طرح اب جا کر کسی درخت سے ٹیک لگائی ہو ۔مجھے شاہ چچا سے ہمدردی محسوس ہونے لگی۔ ایک دم ہی اپنی عمر سے بیس سال بوڑھے نظر آنے لگے تھے۔ اچانک میری نظر سموسے پر پڑی۔۔شاہ چچا کی بتیسی سموسے میں آدھی پھنسی تیز ہوا میں تار پر پڑے کسی کپڑے کی طرح لٹکی ہوئی تھی۔

Published inعالمی افسانہ فورمفاطمہ عمران

Comments are closed.