Skip to content

شاہیں اور کرگس

عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر 67
شاہیں اور کرگس
ایم ایم سلیم ۔ اکولہ ، انڈیا

رمضان کا پہلاعشرہ تھا۔۔تپتی دھوپ میں شہر کے سب سے گنجان علاقے کی ایک نکڑ پر کھڑا تھا، اچانک میری نظر دور سے آتے ہوئے دو نوجوان پر پڑی۔ایک کے ہاتھ میں کاسہ اور جھولی تھی جو بھر چکی تھی پھر بھی وصدا لگائے جارہا تھا اللہ کے نام پر کچھ دے دو، رمضان کا مہینہ تھا اس لیے ہر گھر سے کوئی نہ کوئی زیادہ ثواب کمانے کی نیت سے نکل کر اس نوجوان کی جھولی اور کاسہ میں کچھ نہ کچھ ڈال رہا تھا۔ دوسرا نوجوان بھی تندرست وتوانا تھا وہ بھی صدا لگا رہا تھا کام ہے کیا ماسی ،کام ہے کیا خالہ، چپل جوتا سیتے کیا، وغیرہ وغیرہ ،دونوں نوجوان دکھنے میں بظاہر تندرست تھے لیکن ایک شاہین صفت تھا اور دوسرا کرگس کی صفت کا۔ دونوں نوجوان ہر گھر کے سامنے جاتے نوجوان فقیر کو کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا لیکن کام مانگنے والا اب بھی کسی کام کے لیے منتظر فردا تھا۔دونوں نوجوان میرے قریب آئے تو پتا چلا کہ کام مانگنے والے نوجوان کو آنکھوں سے تھوڑا کم دکھائی دیتا ہے۔پھر بھی وہ بھیک مانگنے کی بجائے کام مانگ رہا تھا ،اور وہ یہ بھی محسوس کر رہا تھا کہ بڑی دور سے دونوں ساتھ چلے آ رہے ہیں لیکن بھیک مانگنے والے کی جھولی بھر چکی ہے اور اس کے ہاتھ اب بھی خالی ہے یہ منظر دیکھ کر مجھے۔اس نوجوان پر بڑا ترس آیا اور میں نے اپنی جیب سے دس کا نوٹ نکال کر اس کے ہاتھ میں تھما دیا اس نوجوان نے کم بینائی والی آنکھوں سےمیری طرف ایک نظر دوڑائی اور آگے بڑھ گیا۔ اب وہ بھی صدا لگا رہا تھا۔اللہ کے نام پر کچھ دے دو بابا، اندھا ہوں، مجبور ہوں، لاچار و بے بس ہوں، میں نے دیکھا اسے کوئی نہ کوئی کچھ نہ کچھ دے رہا تھا۔کچھ دیر پہلے جو نوجوان عزت سے کام مانگ رہا تھا اب وہ بڑی ذلت کے ساتھ اپنے ہاتھ کو بھیک مانگنے کے لئے لوگوں کے سامنے پھیلا رہا تھا۔ جسے کچھ دیر پہلے میں شاہیں سمجھ رہا تھا اب وہ کرگس بن بیٹھا تھا،
بھیکاریوں کو محنت کی عظمت سمجھانا اور محنتی افراد کی قدر کرنا یہ عمل جس سماج میں شروع نہیں ہوتا ہے وہ لاچار و بے بس ہو جاتا ہے۔
میں نے اس نوجوان کو اپنی آنکھوں سے اوجھل ہونے تک دیکھا اور دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ میں نے صحیح کیا یا غلط،۔میں یہ سوچ کر بھی پریشان تھا کہ کیا میں نے اس پر ترس کھا کر اسے بھکاری بنا دیا؟؟؟؟؟

Published inافسانچہایم ایم سلیمعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply