Skip to content

شامی بھیا

عالمی افسانہ میلہ 2019

افسنہ نمبر102

شامی بھیا

زہرا تنویر لاہور پاکستان

سردی آنے کی دیر ہوتی شامی بھیا سر شام ہی ابلے انڈوں کا کولر اٹھائے نکل پڑتے۔ بیوی نے لاکھ سمجھایا کہ کچھ اندھیرا ہونے دو ابھی انڈے بیچنے کا ٹھیک وقت نہیں لیکن شامی بھیا نے پہلے کب کسی کی بات سنی تھی جو اب سنتے۔۔۔ ہمیشہ اپنی مرضی کی چاہے نقصان اٹھانا پڑتا۔۔۔۔ جو اکثر و بیشتر وہ اٹھاتے رہتے مجال ہے جو کبھی اپنی غلطی تسلیم کی ہو۔۔۔ شامی بھیا اپنے نت نئے کاروبار کرنے کی وجہ سے محلے میں اچھی خاصی شہرت رکھتے تھے۔۔۔ جس کسی کا کاروبار اچھا چلتے دیکھتے وہی کرنے کی ٹھان لیتے۔ پرانے والے کو ٹھپ کر کے نئے کی تیاری میں جت جاتے۔۔۔ گھر والے ان کی اس عادت سے سخت عاجز و نالاں تھے۔ “شاید جب انسان خود کو عقل کل سمجھنے لگ جائے تو کسی کی بات اور مشورے پر کان نہیں دھرتا”۔

شامی بھیا کے ساتھ بھی یہی مسئلہ تھا آگے بڑھنے کی لگن میں ایک کام ٹک کر نہ کرتے۔۔۔ پہلے والے کو ادھورا چھوڑ کر دوسرے میں لگ جاتے۔۔۔ سردی گرمی میں ان کے کاروبار مسلسل بدلتے رہتے۔پچھلی دفعہ گرمیوں میں ان کو دال چاول بیچنے کا شوق چرایا۔ اچھا بھلا کارخانے میں مشینوں کو تیل دینے کا کام ملا تھا معقول تنخواہ تھی لیکن اپنے کسی دیرینہ دوست کو لاری اڈے دال چاول بیچتے دیکھا اس کی اچھی خاصی بکری ہوتے دیکھ کر کارخانے کو خدا حافظ کہا اور بیوی کو دوپہر میں دو پتیلے دال چاول کے تیار کرنے کا حکم صادر کیا۔ وہ بیچاری ہمیشہ کی طرح سر پیٹ کر رہ گئی۔ جب سے شامی بھیا کے ساتھ بیاہ ہوا تھا ان کے کاروبار میں ساتھ دیتی آ رہی تھی۔ کوئی بھی کام دو تین ماہ سے زیادہ چل نہ پاتا یا پھر یہ کہنا ٹھیک ہو گا کہ چلایا نہ جاتا۔ شامی بھیا کام کے معاملے میں ایک طرح سے خانہ بدوش تھے اور وہ اپنی اس خانہ بدوشی سے بہت خوش ہوتے۔۔۔۔ اکثر رات کو فارغ ہو کر قریبی ہوٹل میں دوستوں کے ساتھ چائے پیتے اور فخر سے کہتے کہ دنیا کا کوئی ایسا کام نہیں جو نہ کیا ہو۔ ہر کام کا اپنا مزہ ہے یہ کارخانے والے کم بخت تو خون چوس لیتے ہیں۔۔۔ مشینوں سے زیادہ آدمی سے کام لیتے ہیں۔ اس لیے میں تو کہتا ہوں دوستو! اپنا کام کرو نہ حاضری کی ٹینسن tension ہوتی نہ مہینہ بھر تنخواہ کا انتظار۔ روز کی روز چیز بکنے میں مال جیب میں آتا رہتا ہے۔ اب سب شامی بھیا جیسا حوصلہ اور جگرا کہاں سے لاتے جو نفع نقصان کی پرواہ کیے بغیر تھوڑی بہت جمع پونجی کام میں جھونک کر سارا مہینہ فاقوں میں گزارتے۔ شامی بھیا کو اس طرف سے بھی چنداں فکر نہ تھی ان کی بیوی دوسرے محلے میں جا کر شادی بیاہ یا پھر خدانخواستہ کسی کے گھر فوتگی ہو جاتی تو کام پکڑ لیتی اور جب کبھی ہاتھ تنگ ہوتا تو ادھار کا لین دین چلا لیتی۔ بچے بھی باپ کی اس عادت سے چڑتے۔ بڑے والا کہتا۔

“ابا ساری زندگی تجھے کوئی ایسا کام نہیں ملا جس میں نفع ہو۔۔۔۔ لوگ ہمارا مذاق اڑاتے ہیں کہ ان کا ابا وہ ہے جس نے کوئی کام نہیں چھوڑا”۔

“تو تجھے کون کہتا ہے لوگوں کی باتوں پر دھیان دھرنے کو۔۔۔ اپنے کام سے کام رکھا کر۔۔۔ اور تو بھی کسی کام دھندے پر لگ گھر پر پڑا نحوست پھیلائے رکھتا ہے”۔

ابا مجھ سے یہ کام نہیں ہوتے کبھی غبارے بیچ لو۔۔۔۔ کبھی سموسے رول لگا لو میں کہہ رہا ہوں مجھے یہ سب کام نہیں کرنے۔ بڑے والا منہ بسورتے بولا۔

تو نے اس عمر میں کون سے پہاڑ توڑنے ہیں جو یہ کام نہیں کرنے تیری عمر کے لحاظ سے یہی کام ٹھیک ہیں۔ شامی بھیا سمجھاتے ہوئے بولے۔

“ابا مجھے کسی ورکشاپ میں داخل کروا دو میرے دوست بھی مکینکی کا کام سیکھ رہے ہیں”۔

تیری عقل گھاس چرنے گئی ہے اور کوئی بات نہیں باپ کے تجربے سے اولاد فائدہ نہ اٹھائےتو دوسروں سے کیا گلہ کرنا۔ شامی بھیا ناراضگی سے گویا ہوئے اور باہر نکل گئے۔

اولاد کے معاملے میں شامی بھیا بہت خوش نصیب تھے جس کو جس کام پر لگاتے بچے خاموشی سے لگ جاتے بیوی نے بہت کوشش کی کہ اسکول داخل کروا کر بچوں کو تھوڑا بہت پڑھا لکھا لیں۔۔۔ وہاں بھی شامی بھیا نے یہ کہہ کر انکار کر دیا ہمارے بچوں نے کون سا افسر لگ جانا ہے۔ آج بھی محنت مزدوری کرنی ہے کل بھی کرنی ہے تو بہتر ہے بچوں کو بچپن سے ہی کام میں لگا دیا جائے خود کو بھی فائدہ ہو اور بچے میں کام میں ماہر ہو جائیں گے۔ تینوں بیٹوں میں سے بس بڑے والا سرکش اور ضدی تھا اس کی دیکھا دیکھی بڑے ہوتے تک چھوٹے بھی اس رنگ میں رنگنے لگے (ضدی، نکمے اور بدتمیز )۔ دونوں بیٹیاں بس کھاؤ پیو اور عیش کرو کے اصول پر زندگی بسر کر رہی تھیں۔ بھائیوں سے بھی پیسے اینٹھ لیتیں اور ماں سے بھی۔ بڑی والی ابھی سترہ کی نہ ہوئی تو شامی بھیا کو اس کے بیاہ کی فکر ستانے لگی۔ یہاں بڑے والے بیٹے کو اپنی حق تلفی ہوتے نظر آئی وہ بیس برس کا ہو چکا تھا اس کی شادی کی تو کسی کو فکر نہ ہوئی۔

ماں نے بہتیرا سمجھایا کہ بہن بیٹی عزت کے ساتھ جتنی جلدی اپنے گھر کی ہو جائے اچھا ہوتا ہے لیکن اس کے دماغ میں یہ بات نہ سمائی۔ نیا نیا عشق کا بھوت سوار ہوا تھا۔ کچھ دن گزرنے کے بعد ایک شام اپنے ساتھ سرخ جوڑے میں ملبوس اپنی دلہن لے آیا۔ سب گھر والے ہکا بکا رہ گئے۔ یہ کیا غضب ڈھا دیا۔۔۔ کس راہ چلتی کو گھر لے آیا کم بخت مارے کیا تیرے ماں باپ مر گئے تھے جو خود ہی بیاہ رچا لیا۔ شامی بھیا کھانا ادھورا چھوڑ کر بیٹے کی طرف لپکے اور ایک دو ہاتھ بھی جڑ دیے۔

بس ابا بس مارنے پیٹنے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔ تم لوگوں میں نظر کہاں آتا ہوں اماں سے بھی بولا تھا لیکن یہاں کسی کو میرا خیال نہیں اس لیے خود ہی بیاہ کر لیا۔

“چل زری سلام کر اور بڑوں کی دعا لے”۔ اس سے پہلے کہ دلہن سلام کرتی شامی بھیا نے گھر سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ اس موقع پر ماں کا دل بیٹے کے لیے نرم ہو گیا شامی بھیا کی منت سماجت کی وہ پھر بھی نہ مانے۔ ان کی پرانی عادت تھی کسی کی بات نہ ماننا ہمیشہ اپنی بات پر اڑے رہنا چاہے کچھ بھی ہو جائے۔

ناچار بڑا بیٹا اپنی نئی دلہن کو ساتھ لیے چلا گیا۔ گھر میں عجیب سا سناٹا چھا گیا سب چپ چپ رہنے لگے۔ زندگی پھر سے اپنی ڈگر پر چلنے لگی اور وقت گزرنے کے ساتھ بڑا بیٹا کبھی کبھار گھر آ کر ماں اور بہن بھائی کو مل جاتا۔ بڑی بہن کی شادی بھی ہو چکی تھی۔ باپ سے سامنا ہوتا تو وہ منہ پھیر لیتا۔

“اماں یہ ابا کب معاف کرے گا اب تو شادی کو اتنا عرصہ ہو گیا ہے”۔

“پتا نہیں میں تو سمجھا سمجھا کر اب تھک گئی ہوں اس آدمی کی ضدی طعبیت نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔۔۔ نہ کسی رشتے دار سے بنا کر رکھی نہ کسی ایک جگہ ٹک کر کام کیا۔۔۔ اب اولاد کے ساتھ بھی ضد لگائے بیٹھ گیا ہے”۔ اماں بھی بھری بیٹھی تھیں اور کچھ حالات نے مزاج میں تلخی بھر دی تھی۔

“اچھا بات سن ہو سکے تو اپنی تنخواہ سے کچھ پیسے دے دیا کر۔۔۔ تیرے باپ میں پہلے والی ہمت نہیں رہی۔ پھیری کے چکر زیادہ نہیں لگا پاتا مشکل سے گزارہ ہوتا ہے”۔ ماں نے بیٹے کر گھر کی صورت حال سے آگاہ کیا۔

“اماں! مہنگائی بہت ہے میرا تو خود بہت مشکل سے مہینہ گزرتا ہے”۔ بیٹا اپنا رونا رو کر چلا گیا۔

“کتنی دفعہ تجھے سمجھایا ہے کہ ایسی ناخلف اولاد کے رونے نہ رویا کر۔۔۔ لوگوں کی اولاد بڑھاپے میں سہارا بنتی ہے ایک ہماری اولاد ہے جو اپنا بیاہ رچا کر بیٹھ گئی”۔ شامی بھیا کمرے میں لیٹے ماں بیٹے کی باتیں سن رہے تھے بیٹے کے جانے کے بعد باہر نکل کر بیوی پر غصہ نکالنے لگے۔ شامی بھیا کے نزدیک بیٹے کا خود سے بیاہ کرنا بہت بڑا جرم تھا جسے وہ معاف اور قبول کرنے میں ہرگز راضی نہ تھے۔ آج کل شامی بھیا موسمی پھل بیچ رہے تھے۔ دن چڑھنے سے پہلے قریبی منڈی جاتے اور پھر پھیری کے لیے نکل جاتے۔ 11 بجے تک گرمی کی شدت کم ہوتی اور گلیوں میں دھوپ بھی نہ ہونے کے برابر ہوتی۔ اس لیے یہ کام آسانی سے چل رہا تھا۔ ایک دن اچانک ہوٹل میں چائے پیتے شامی بھیا کی طعبیت خراب ہو گئی۔ دوست اسپتال لے گئے ڈاکٹر نے دل کے عارضے کی تشخیص کی اور مکمل آرام کی تاکید کی۔ آرام اور شامی بھیا یہ ناممکن سی بات تھی گھر والے یا باہر کے لوگ شامی بھیا کو ان کے آئے روز کے بدلتے کام پر جتنی مرضی اعتراضات کرتے درست تھا لیکن ان کی محنت کشی پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا تھا۔ کبھی کسی کام سے چھٹی نہ کی۔ ہمیشہ اپنے کام اور گھر کے ساتھ وفاداری نبھائی۔ اب جسم میں پہلے والی طاقت نہ تھی پھر بھی روٹی روزی کے لیے تو ہاتھ پاؤں مارنے تھے۔ کب تک گھر فارغ بیٹھا جا سکتا تھا۔ چھوٹا بیٹا جس ہوٹل میں کام کرتا تھا وہ روزانہ کے 100 روپے دیتے۔ بیوی آس پڑوس کے گھروں کا کام کرنے لگی تو گھر کا نظام چلنے لگا۔ بڑا بیٹا آیا گھر اور باپ کی بیماری دیکھ کر چھوٹی بہن کو بھی کام پر لگنے کا مشورہ دے کر یہ جا وہ جا۔ باپ کی چہرے پر مشقت کے درد کو دیکھ نہ پایا جو اولاد کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھاتا رہا۔

ماں نے بڑی بیٹی کو فون کر کے باپ کی بیماری کی اطلاع دی تو وہ بھی عیادت کے لیے نہ آ سکی۔ سب اپنی اپنی زندگی میں مگن تھے۔

آج صبح سے گلی میں معمول سے زیادہ چہل پہل اور شور شرابے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو گلی کو ایک کونے سے دوسرے کونے تک ٹینٹ لگا کر بند کیا گیا تھا اور زور و شور سے صفائی کا سلسلہ جاری تھا۔ معلوم نہیں ہو رہا تھا یہ تیاریاں کس تقریب کے لیے ہو رہی تھیں۔

گلی میں کھیلتے بچوں سے پوچھا تو کہنے لگے۔ “آج شامی بھیا کا دسویں کا ختم ہے”۔ یہ سب انتظام و انصرام دیکھ کر ہماری حیرت بجا تھی۔ بھلا اس سب کی کیا ضرورت تھی۔ وہ آدمی جس کی زندگی دو وقت کی روٹی کی فکر میں گزر گئی۔ ایک گلی سے دوسری گلی سے ہوتا اپنا خوانچہ سردی ہو یا گرمی موسم کی پرواہ کیے بغیر اٹھائے پھرتا رہا اس کے ایصال ثواب کے لیے اتنے وسیع پیمانے پر ختم کی تیاریاں؟

تعریفوں کے انبار لگائے گئے، اولاد کی واہ واہ ہوئی اور بس اتنی سی بات میں شامی بھیا کی یاد تازہ ہو گئی۔ اولاد بھی رشتے داروں میں فخر سے سر بلند کیے تعریفیں سمیٹتی رہی۔ جب سب اپنے اپنے گھروں کو چل دیے تو بچا ہوا کھانا محلے کے چند گھروں میں تقسیم کرنے کا عمل شروع ہوا۔

ہماری طرف بھی شامی بھیا کی بڑی بیٹی ٹرے اٹھائے چلی آئی جس میں دو قسم کے کھانے اور مختلف پھل سجے تھے۔ ہم پھر سے حیران و پریشان! آخر ہم سے رہا نہ گیا اور پوچھ ہی لیا۔

“یہ اتنا سب کچھ کیسے کر لیا”؟

“باجی بڑے بھیا نے ابو کے ختم کے لیے قرضہ لیا ہے۔

Published inزہرا تنویرعالمی افسانہ فورم
0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x