Skip to content

سکہ برابر، دھوپ

عالمی افسانہ میلہ 2019

افسانہ نمبر135

سکہ برابر، دھوپ

صادق اسد ۔ مالیگاؤں ۔ انڈیا

……….اور میری پشت پر میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، چہرہ سیاہ کپڑے سے ڈھنپا ہوا، اب سپاہی میرے آگے پیچھے چلنے لگے ہیں؛ میں ذرا سا دائیں بائیں ہوتا ہوں؛ تو دیواریں میرے بازوؤں سے ٹکرانے لگتیں ہیں ، میں نے محسوس کیا کہ مجھے تنگ گلی سے گزارا جا رہا ہے ، چند قدم چلنے کے بعد چابیوں کی چھن چھن سنائی دیں، ایک سپاہی میرے ہاتھوں سے بندھی رسی کھولنے لگا، اس کے رسی کھولنے تک چابی والے سپاہی نے سلاخوں سے بنا دروازہ کھول دیا، میرے سر سے سیاہ کپڑے کو نکال کر ؛ دروازے کے اس طرف دھکیل دیا گیا؛ میں دو قدم لڑکھڑا تا ہوا آگے بڑھا، کہ کوئی چیز میرے سر سے ٹکرائی، اور درد سے ایک ہلکی سی
چیخ میرے منھ سے نکل پڑی، اور میں نے ایک ہاتھ، اس جگہ پر رکھ لیا جہاں سے درد اٹھ رہا ہے ، کوٹھری میں شدید اندھیرا ہے ؛ میں اپنے دوسرے ہاتھ سے دیوار چھونے کی کوشش کرنے لگا، تبھی اس خوف ناک سناٹے میں ایک نحیف آواز آئی، “کون ہو تم” میں چونک پڑا، اوراس سمت دیکھنے لگا، ……….جب کچھ دکھائی نہ دیا تو آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا، سو میں دیوار تک جا پہنچا؛ اور دیوار کے سہارے سے بیٹھ گیا؛..
ابھی میں نے دیوار سے سر لگانا ہی چاہا تھا؛ کہ ایک اور آواز آئی، “سزا کیا ہوئی ہے”، میں پھر اندھیرے میں گھورنے لگا، کہ ایک اور طرف سے کوئی بول پڑا، “شاید اسے بھی” ………. میں اندھیرے کے سبب صرف آوازوں کا تعاقب کرتا رہا،

بات یہ ہے کہ ان دنوں میرے ملک کے تختہ پر ایسے راجہ کو بٹھا دیا گیا ہے، جو ملک کو سفید نما لوگوں کے ہاتھوں سونپ کر پتہ نہیں کہاں غائب ہو گیا؛ اور یہ لوگ اپنے زورِ بازو سے آسمان پر ریگنے والے سورج پر سیاہی مل کر، چاند ستاروں کو اپنے محلوں میں کھینچ لے گئے، اور ہمارے اطراف اندھیرے بکھرا دیئے گئے، ندی، تالابوں پر پہرے بٹھا دئیے گئے،اور منڈیوں پر قبضہ کر کے ضروری اشیاء کو گوداموں میں سڑنے کے لئے پھینک دیا گیا،جب جسم کے تندور سرد پڑنے لگے، تو مردوں کے ساتھ عورتیں بھی میلوں اور فیکٹریوں کا رخ کر نے لگیں، تب ان سفید نما لوگوں کے بستروں پر نوکریوں کے بہانے عورتوں کے بدن کی سلوٹیں پڑنے لگیں، مردوں کو آہنی مشینوں کے حوالے کر دیا جاتا، اور بہت سے پہاڑ توڑ تے ….. کئی زمین سے تیل نکالتے تو کئی سمندروں سے موتیاں ……اور ان پر سنگ دل سپاہیوں کو مسلط کر دیا گیا، جہاں وقت کا تعین نہ تھا، جب کوئی بھی شخص اپنے حصے کے سورج، چاند، ستارے مانگتا تو اسے باغی کہہ کر قید کر لیا جاتا، سپاہیوں کے دستے بھی انھیں کے بنائے ہوئے قانون پر عمل کر رہے تھے، …..ایک روز اندھیرے سے گھبرا کر ایک سکہ برابر دھوپ کے لئے سپاہیوں سے بھڑ گیا، اور ایک سپاہی کی گردن میرے بازو کسنے سے ٹوٹ گئی اور وہ سپاہی ……..پھر برف کی لادیوں پر مجھے برہنہ کرکے ……….اور کبھی پانی کے صندوق میں لٹا کر بند کر دیا جاتا، تو کبھی چھت سے لٹکا کر پیروں میں وزنی پتھر باندھ کر گھنٹوں چھوڑ دیا جاتا، جب کسی طور میری روح بدن چھوڑنے پر راضی نہ ہوئی تو آج آخری سزا کے لئے ایک بولنے والے بت کے سامنے پیش کر کے فیصلہ لے لیا گیا، اور اب دو دنوں بعد میرے ہاتھ، پیر رسیوں سے جکڑ دیئے جائیں گے، چہرہ سیاہ کپڑے سے ڈھانپ دیا جائے گا، اور گھٹنوں پربٹھاکر گولی مار دی جائے گی، ………ہم سے دن، پہلے ہی چھین لئے گئے تھے، اور رات، رات نہیں تھی، بس اندھیرا تھا، اور اندھیرا گہرا ہوتا جارہا تھا،

میرے سر میں اب بھی درد ہے اور انگلیاں چپکنے لگی ہیں، دیر تک دیکھنے کے بعد خون بھی سیاہ دکھائی دے رہا ہے، …..
میں ان لوگوں کو دیکھنے لگا، جو مجھ سے پہلے سے اس کوٹھری میں قید تھے، ” کہیں دُبکے پڑے ہوں گے،”جب وہ دکھائی نہ دئیے تو میں خود سے بول پڑا، اور اسی بیچ تنگ گلی سے جوتوں کی ٹاپیں سنائی دینے لگیں، میں سلاخوں سے بنے دروازے کی سمت دیکھنے لگا، پھر چھن چھن کی آواز سنائی دیں …اور پھر کچھ دیر بعد کئی لوگوں کی آہٹوں سے ایسا لگ رہا ہے کہ باری باری دروازے سے کوٹھری میں داخل ہو رہے ہیں، اور شاید اندھیرے کے سبب اپنے ہاتھوں سے دیوار تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہوں گے ، تبھی ان دبکے ہوئے لوگوں میں سے کسی نے آنے والوں سے پو چھا، “کون ہو تم” وہ چپ رہے، پھر ایک آواز آئی سزا کیا ہوئی ہے، تب میں نے کہا، “شاید انھیں بھی”

Published inافسانچہصادق اسدعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply