عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 112
“سچ”
مصنّف : ڈاکٹرابواُسامہ(اِبن آدم)
مالیگاؤں۔ مہاراشٹر 423203
اچانک زمین تھم گئی ۔ ایک ایک کرکے ساری چیزیں غائب ہونےلگیں،سارے منظر بھی چھومنترہو گئے اور پھر یمدوت، انجنا کے سامنے آکھڑا ہوا۔ مگر یہ کیا! یہ تو سُریندرتھا۔وہ سُریندر کو اپنے سامنے دیکھ کر کِھل اُٹھی۔ مگر پھراس خیال سےلرز گئی کہ کہیں سُریندر کو کل رات کا قصّہ معلوم نہ ہو گیا ہو۔ کل رات وہ ہوش ہی میں کہاں تھی! اُس نے شراب جوپی رکھی تھی۔نہیں نہیں، یہ سچ نہیں ہے۔سُریندر، یمدوت نہیں ہو سکتا! وہ تو محبّت کا دیوتا ہے جو مسرّت اور تسکین بانٹتا ہے۔ وہ بھلا کیوں قتل کرنے لگا!؟ وہ قتل نہیں کرسکتا! آہ،یہ سردرد!! مگر اب وہ ،سُریندر کو کیا جواب دے!؟ خوف کم کرنے کے لیے اُس نے وہی دلکش مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر سجالی جس پر شہرکاسب سے بڑاکنجوس ’بنسی لال‘ بھی اپنی دولت لُٹا دیا کرتاتھا۔ انجنا نے اپنے لہجےمیں شہدگھولتے ہوئے پوچھا، ’’سُریندر، شام ہوتے ہی تم کہاں چلے گئے تھے!؟ مَیں نے تمھیں کتنا ڈھونڈا تھا! ہم تو رات ساتھ گزارنے والے تھے نا!؟‘‘
سُریندر نے دردبھرے لہجے میں کہا،’’ انجو،آخرتم نے مجھے بھی دھوکہ دے دیا۔ لوگ سچ ہی کہتے رہے کہ جو عورت اپنے پتی کو دھوکہ دے سکتی ہے وہ تمھاری بھی نہیں ہوسکتی ،مگر میرا دل یہ ماننے کو تیار نہیں تھا۔ مَیں نے اپنا سب کچھ تم پر نچھاور کر دیا یہاں تک کہ اپنی پتنی اور بچوں کو بھی بھُلا بیٹھا لیکن تم نے! تم نے میرے بھروسے کوتوڑ ڈالا! تمہاری محبّت نے مجھے کہیں کا نہ رکھا. اب مَیں سماج میں رہنے لائق ہوں نہ ہی پتنی اور بچوں کے ساتھ. تمھاری محبّت نے مجھے جیتے جی مار ڈالا. اب مَیں تمھیں زندہ نہیں چھوڑوں گا. ” انجنا نے سسکتے ہوئے کہا،”یہ سچ نہیں ہے سریندر! میرا یقین کرو. مَیں نے تمھیں دھوکہ نہیں دیا. کیا تم مجھے ایسی ہی بے وفا سمجھتے ہو؟ شاید میرے قتل کے بعد تمھیں میرا یقین آئے گا. اگر یہی سچ ہے تو تم مجھے مارڈالو. مگر یاد رکھو کہ مجھے مار کر تم بھی چین سے زندگی نہیں گزار سکو گے.”
سُریندر نے جھپٹ کر اس کی گردن دبوچ لی اور غصّے سے کہا،”تمھیں مارنے کے بعد مَیں بھی دریا میں چھلانگ لگا دوں گا۔‘‘ انجنا کو اپنے گلے پر سُریندر کی اُنگلیوں کا دباؤ بڑھتا ہوا محسوس ہوا۔ اس کے دل میں درد کی لہر اُٹھی اور حلق میں آ اٹکی۔ آنکھوں سے آنسو بھی اُمڈ پڑے۔ اُس نے تڑپتے اور سسکتے ہوئے کہا، ’’ نہیں سُریندر، یہ سچ نہیں ہے۔مَیں مجبور تھی۔ مَیں نے تمھیں دھوکہ نہیں دیا. یہ سچ نہیں ہے سُریندر.‘‘
نجانے انجنا کی آواز میں کیاتھا کہ سُریندر کا ہاتھ ایک جھٹکے سے اُس گردن سے ہٹ گیا۔ مگر وہ اب بھی غصّے میں تھا۔ شدید غصّے کی وجہ سے سُریندر کا چہرہ بگڑنے لگا۔ اس کی ناک ،طوطے کی چونچ کی طرح ٹیڑھی ہونے لگی اور اس کے چہرے پر جھرّیاں پڑنے لگیں۔ انجنا سسکتے ہوئے نفی میں سرہلانے لگی۔ اس کا دل کہنے لگا، یہ سچ نہیں ہے!یہ سچ نہیں ہوسکتا۔ اس کا محبوب اُسے قتل نہیں کرسکتا۔شاید یہ سچ نہیں تھا کیوں کہ اب سفید بالوں اورپچکے گالوں والی ایک بوڑھی عورت اس کے مقابل کھڑی تھی. وہ اپنی سُرخ آنکھوں سے اُسے گھور رہی تھی۔ انجنا کو یاد آیا۔ یہ پڑوس کے فلیٹ میں رہنے والی ’میسزگپتا‘ تھی۔مگر ’میسز گپتا‘ کہاں سے ٹپک پڑیں۔ نہیں!ایسا نہیں ہوسکتا۔ یہ سچ نہیں ہے۔ ابھی تووہ سُریندر سے باتیں کررہی تھی! پھر!!؟ کہیں یہ پچھلی رات کی شراب کا اثر تو نہیں!؟ وہ تذبذب میں تھی کہ بڑھیا نے لرزتی ہوئی آواز میں ڈانٹتے ہوئے کہا، ’’بیوقوف لڑکی، میرے منع کرنے کے باوجود کل رات تُو نے پھر شراب پی!!‘‘
انجنانے بُرا سا منہ بناتےہوئےکہا،’’پارٹی میں تو آج کل شراب ہی پی جاتی ہے میسزگپتا! البتہ اپنی جوانی میں آپ گنگا جل پیتی رہی ہوں تو مجھے معلوم نہیں۔ اور اپنی بڑی بڑی لال آنکھوں سے مجھے ڈرایا مت کیجئے۔مَیں آپ کی بیٹی یا بہو نہیں کہ ان ہتھکنڈوں سے ڈر جاؤں گی۔ ‘‘
بُڑھیا نےتیزآواز میں کہا،’’سچ تو یہی ہے کہ تُو میری بیٹی یا بہو نہیں اور مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے اپنی آنکھیں لال کرنے کا۔کل تُو نشے کی حالت میں ’ماں‘، ’ماں‘ چیختی رہی۔جس کی وجہ سے مَیں رات بھر سو نہ سکی۔ یہ لال آنکھیں تیری اسی کرتوت کا نتیجہ ہے۔آخر تو شراب پیتی ہی کیوں ہے؟‘‘ انجنا نے طنزیہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہا،’’کیوں!؟ شراب پینا کوئی جرم تو نہیں؟ یہ تو امیر لوگوں کا شوق ہے. شاید آپ کبھی ہائی سوسائٹی والوں میں نہیں رہیں، اسی لیے ایسی باتیں کہہ رہی ہیں.‘‘
بُڑھیا طنز کے نشتر کھا کر چیخ پڑی،’’ مَیں یہ کب کہہ رہی ہوں کہ شراب پینا گناہ ہے۔ مَیں تو یہ کہہ رہی تھی کہ اس طرح رات بھر چیخنا اور شور مچانا ہائی سوسائٹی والوں کا ذوق نہیں بلکہ کمتر ذات والوں کا وطیرہ ہے۔مَیں پوچھتی ہوں کہ جب تُو شراب ہضم نہیں کرسکتی تو پیتی ہی کیوں ہے؟‘‘ کمتر ذات کے ذکر پرانجنا غصّے سے بپھرگئی۔ اُس نے غرّاتے ہوئے کہا،’’ بڑھیا تُو کون ہوتی ہے میرے معاملات میں ٹانگ اڑانے والی؟ مَیں تجھے کیوں بتاؤں کہ مَیں کیوں شراب پیتی ہوں۔ تُو مجھے کمتر ذات کہہ رہی ہے!؟ اچھا تو اب مَیں تجھے اپنی ذات بتاؤں گی، روز شراب پیوں گی اور خوب شور مچاؤں گی۔دیکھتی ہوں تُو میرا کیا بگاڑ لیتی ہے۔‘‘
یہ سن کر بُڑھیا تلملا اُٹھی، اُس کا ہاتھ اُوپر اُٹھا ۔اس ہاتھ میں ایک چمکدار خنجر تھا۔ اچھّا، تو پہلی ملاقات میں اُس نے میسز گپتا کے بارے میں جو رائے قائم کی تھی وہ صحیح تھی۔ ہاں ،تو یہ میسز گپتا ہے،جو اُسے قتل کرنا چاہتی ہے۔ رہ رہ کر سر میں اُٹھنے والی درد کی لہریں، انجنا کو بے چین کیے جارہی تھیں۔ قاتل کو پہچان کر غصّے کی شدّت میں اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ خود اس منحوس بُڑھیا کو قتل کر دے گی۔ اس طرح کم ازکم اس کے دل کی ایک خلش تو مِٹے گی۔اُس نے بھی تیزی سے ہاتھ بڑھایا اور میسز گپتا کا خنجر والاہاتھ پکڑلیا۔وہ خنجر چھیننے کے لیے زور آزمائی کرنے لگی۔ اس کی نظریں بُڑھیا کی پتلی ہڈیوں والے ہاتھ پر ٹکی ہوئی تھیں۔ خنجر اس کے ہاتھوں میں آنے ہی والا تھا کہ یکایک بوڑھے اور نحیف سے ہاتھ کی جھرّیاں غائب ہونے لگیں۔ اس پر گوشت کی دبیز تہہ چڑھنے لگی۔ وہ بھاری بھرکم اور مضبوط ہونے لگا۔ پتلی پتلی اُنگلیاں پھول کر موٹی ہوگئیں اورخنجر پر ان کی گرفت سخت ہو گئی. خنجر پر اپنی گرفت کمزور پڑتی دیکھ کر انجنا گھبرا گئی مگر اُس نے حوصلہ نہیں کھویا اور زور لگاتی رہی. اس نے دیکھا کہ کچھ اُنگلیوں میں سونے کی انگوٹھیاں اُبھر آئیں اور ان میں جڑے ہوئے قیمتی نگینوں سے تیز روشنی پھوٹنے لگی. اس روشنی سےانجنا کی آنکھیں خیرہ ہونے لگیں۔پھر نگینوں کی چمک دماغ میں اُتر کر ٹیس پیدا کرنے لگی. برداشت سے باہر ہوا تو اُس نےگھبرا کر بے ساختہ اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا۔ ذہن میں روشنی کی چبھن کا احساس کم ہوا اور سرد تاریک سکوت در آیا تب اس نے آنکھوں سے ہاتھ ہٹالیا ۔ اُس کا پچپن سالہ ،دولت مند شوہر ’بنسی لال ‘سامنے کھڑا ہوا تھا۔ اس کے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے۔ اس کی موٹی اور بھدّی ناک شدید غصّے کے سبب مزید سیاہ ہوکر اور تیزی سے پھول پچک رہی تھی۔ آنکھیں اپنے حلقوں سے اُبل پڑ رہی تھیں۔وہ جب بھی غصّے میں آتا تو اُس کی شفاف کھوپڑی چودھویں کے چاند کی طرح روشن ہو اُٹھتی تھی۔ انجنا تو اکثر یہی محسوس کیا کرتی تھی۔ مگر فی الحال تو چکنی کھوپڑی سورج کی طرح دہک رہی تھی. اس کی آنچ آنکھوں سے اُتر کر انجنا کے دل کو پگھلائے دے رہی تھی۔ اُسے اپنے شوہر پر کسی بپھرے ہوئے کالے سانڈ کا گماں ہورہا تھا۔
اُس نےخود کو سنبھالا اور لہجے میں محبّت اور حیرانی پیدا کرتے ہوئے پوچھا،’’ہنی، کیا یہ تم ہو!؟ سچ بتاؤ،کیا یہ تم ہی ہو!؟کیا تم مجھے ڈرا رہے تھے!؟‘‘
بنسی لال کے پتلے پتلے ہونٹ ہلے اور اس نےکھرکھراتی ہوئی آواز میں کہا، ’’کمینی،کیا تُو اپنے شوہر کو بھول گئی! چڑیل کہیں کی!! لوگ سچ ہی کہتے ہیں کہ تیری آنکھوں میں صرف تیرے یار سُریندر کی شکل بسی ہوئی ہے. مَیں تو تجھےنظر ہی نہیں آتا۔ سچ سچ بتا! کہ کل رات شراب کے نشے میں تُو نے سُریندر کے ساتھ رنگ رلیاں منائیں تھیں یا نہیں؟‘‘
انجنا کا دل لرز اُٹھا۔ مگر عادت کے مطابق اُس نے خود پر قابو پالیا اور فوراً ہی اپنی جادوئی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجالی۔ وہ، میٹھی نظروں سے بنسی لال کی آنکھوں میں یوں تکنے لگی، جیسے اُس نے کچھ سُناہی نہ ہو۔بنسی لال نےاُسے جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا،’’ بولتی کیوں نہیں ڈائن؟ آخر تُو نے کل رات کس کے ساتھ منہ کالا کیا؟‘‘
انجنا نے بیویوں کے سے انداز میں جھوٹا غصّہ دکھاتے ہوئے کہا،’’ جاؤ،مَیں تم سے بات نہیں کرتی۔ تم بھی کس کس کی باتیں سن لیتے ہو اور میری محبّت پر شک کرتے ہو۔ ہنی، لوگوں کا تو کام ہی ہے پتی پتنی کے بیچ شک کی دیوار کھڑی کرنا اور پھر دُور سے تماشہ دیکھنا۔‘‘
انجنا نے قدآدم شفاف شیشے والی کھڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،’’ اگر تمھیں یقین نہیں آتا تو وہ دیکھو، دُنیا والے ہمیں لڑتا جھگڑتا دیکھ کر قہقہے لگا رہے ہیں۔ وہ کتنے خوش ہیں۔وہ یہی سب تو دیکھنا چاہتے تھے۔ ‘‘
انجنانے اپنی نظریں نیچی کرلیں اور پھر دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ اس انداز سے چھپا لیا جیسے وہ رونے لگی ہو۔ اس کا سر درد سے پھٹا جارہا تھا۔ اُسے ہلکے چکّر بھی آرہے تھے۔ وہ سوچ رہی تھی کہ یہ سچ نہیں ہوسکتا۔ یہ سچ نہیں ہے۔ رات پارٹی میں اُس نے اتنی زیادہ پی لی تھی کہ اس کا چلنا پھرنا کیا کھڑے رہنا بھی دشوار ہوگیا تھا۔ پھر کوئی سہارا دینے کے بہانے اُسے اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ وہ سمجھی تھی کہ شاید محبّت کے دیوتا ’سُریندر‘ کو اُس کی حالت پر رحم آگیا ہے۔ مگر محبّت کرنے کا وہ انداز !! سُریندر کا تو نہیں تھا! اگر وہ سُریندر نہیں تھا تو پھر!!؟ خیر وہ کوئی بھی رہاہو، ظالم نے اس کی مدہوشی اور مجبوری کا خوب فائدہ اُٹھایا تھا۔
اُسے پچھلی باتیں یاد آرہی تھیں۔ یعنی رات کا نشہ اُتر رہا تھا۔اُسے یہ یقین ہوچلا تھا کہ وہ خواب دیکھ رہی ہے۔ اتنے میں بنسی لال کی آواز سنائی دی۔ ’’ذلیل عورت، تیری ہوس نے مجھےسماج کی نظروں میں بے عزّت کرکے رکھ دیا۔ اس بدنامی کی زندگی سے تو یہی اچھا ہے کہ مَیں تجھے کھڑکی سے باہر پھینک دوں اور باقی عمر ہری دوار جاکر پربھو کے چرنوں میں گزار دوں۔ شایداس طرح میرا کلنک دھل جائے اور مجھے مُکتی مل جائے۔‘‘
بنسی لال اُسے کھینچتا ہوا کھڑکی تک لے آیا۔ انجنانے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپالیا۔ دماغ کی رگیں دردسے پھٹی جارہی تھیں۔ شاید اب وہ جاگ پڑے گی اور یہ خوفناک خواب بھی ختم ہو جائےگا۔ بس تھوڑی دیر اور اُسے اپنی اداکاری کے کمالات دکھانے ہیں۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اب اُسے عورت کا آخری ہتھیار استعمال کرنا پڑے گا جس کے آگے سبھی بے بس ہوکر بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔ منہ سے سسکیوں کی آواز نکالتے ہوئے اس نے کوشش کی کہ آنکھوں کی نیلی جھیل سے ایک قطرہ ہی نچوڑ کر اپنے سُرخ رخسار پر سجالے، مگر سر کادرد اُسے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دے رہا تھا۔اس نے آنکھوں پر اس طرح ہاتھ پھیرا جیسے اپنے آنسو پونچھ رہی ہو۔اُسے یقین تھا کہ اُسے روتا دیکھ کر بنسی لال کے ذہن سے شک کی پرچھائیاں غائب ہو جائیں گی۔ وہ بے چین ہو اُٹھےگا اور پھر اُسے منانے کی کوشش کرنے لگے گا۔
’’میڈم چائے‘‘ کی آواز سن کر وہ چونک پڑی۔ اُس نے آنکھوں سے ہاتھ ہٹایا۔سامنے بے داغ یونیفارم میں ایک نوکر، چائے کا سامان تشتری پر سجائے، ہاتھوں میں لیے کھڑا تھا۔ یہ سوچ کروہ خوش ہوگئی کہ آخرکار خوفناک خواب ختم ہوا اور وہ بیدار ہو گئی۔اُس نے دیکھا کہ وہ کسی عالیشان ہوٹل کے بالائی منزل کے ایک کمرے میں ہے. وہ ایک کھڑکی کے پاس کھڑی ہوئی تھی جس پر قدآدم شیشے لگے ہوئے تھے۔ شیشوں سے صبح کے سورج کی نرم روشنی چھن کر اُس کے گدازجسم کو گرما رہی تھی جبکہ پُشت پر دبیز گدّوں والی ایک خوبصورت مسہری تھی. اُسے حیرانی ہوئی کہ وہ کھڑکی کے پاس کیا کررہی ہے !؟اُسے تو نرم بستر پر ہونا چاہیے تھا!! مگرپھر یہ خیال آتے ہی کہ اُس کے سامنے ایک نوکرکھڑا ہے اُس کے چہرے پر تکبّر پھیل گیا۔اُس نے اپنی ساری درست کی اور پلّو شانے پر ڈالا ہی تھا کہ اُسے غش آیا. اُس کا جسم لہرانے لگا۔ اس نے تیزی سے پلکیں جھپکتے ہوئے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ سر میں درد کی شدید لہر اُٹھی۔ سرتھام لینے کے لیے اس کے ہاتھ بے ساختہ اُٹھے تبھی داہنا ہاتھ تشتری سے ٹکرایا۔ برتنوں کے ساتھ تشتری بھی چمکتے فرش پر گر پڑی۔ تیز آواز سے کمرہ گونج اُٹھا۔ برتنوں کے زمین پر گرنے کی آوازیں اس کے سر پر ہتھوڑے برسانے لگیں۔یکلخت زمین تیزی سے گھومی۔ اُس نے آنکھیں موندلیں۔ اُس کے گٹھنوں میں جیسے جان ہی نہ رہی اور وہ گرنے لگی ۔ تبھی کسی نے اُسے تھام لیا۔ اُسے محسوس ہوا کہ وہ ان باہوں کو پہچانتی ہے. یہ سُریندر کی مضبوط باہیں تھیں، جو اُسے کبھی گرنے نہیں دیتی تھیں۔ ہاں یہی تو وہ باہیں ہیں جو اُسے پستیوں سے نکال کر سماج کی نفرت بھری اور حاسد نظروں سے دُور آسمان کی بلندیوں پرلے جاتی تھیں۔ وہ ان سخت انگلیوں کو پہچان کر کھِل اُٹھی۔ یہ وہی شوخ و گُداز اُنگلیاں تھیں جو اُس کے دل کے نہاں خانوں تک اُتر جایا کرتیں اور چھُپی ہوئی مایوسی اور افسردگی کو کھینچ باہر کرتیں تھیں۔ انجنا اپنے چہرے پر پڑنے والی ان گرم سانسوں کو بھی کیسے بھول سکتی تھی جو اس کے خوف سے سرد پڑے ہوئے جسم کو زندگی کی بھٹّی میں تبدیل کردیا کریتی تھیں۔وہ مسکرانے لگی۔ آخر محبّت کے دیوتا کو اس پر رحم آگیا۔ سُریندر نے اُسے معاف کر دیا۔ اس خیال سے انجنا کا دل جھوم اُٹھا۔
اُس نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں۔دیکھا تو نوکر اُس پر جھکا ہوا تھا۔اُسے شدید غصّہ آیا۔ ایک کم درجہ نوکر نے اُسے ہاتھ لگانے کی جرأت کی۔وہ فوراً اُٹھ کھڑی ہوئی۔بے ساختہ اُس کی زبان سے نکلا،’’بدذات کہیں کے، تیری یہ مجال۔‘‘ غصّے سے اُس کے جبڑے بھینچ گئے۔اس نے اپنے نازک ہاتھوں سے نوکر کو پیچھے کی جانب دھکیلا۔ نوکر لڑکھڑا کر دُور ہونے لگا۔ مگر پھر وہ حیران رہ گئی۔ کیونکہ نوکر کا چہرہ اچانک خود اُس کے چہرے میں ڈھل گیا تھا اور وہ ڈگمگاتی اور لہراتی ہوئی، کھڑکی کے قدآدم شیشے سےجا ٹکرائی۔ اُس کی پُشت اس زور سے ٹکرائی کہ شیشہ، چھناکے سے ٹوٹ کر بکھر گیا اور وہ نیچے گرنے لگی۔گرتے وقت اس کی پُشت زمین کی طرف تھی جبکہ بے کراں نیلا آسمان نظروں کے سامنے پھیلا ہوا تھا۔اس کی کالی گھنی زلف، سلوٹوں والی رنگین ساری کے پلّو کے ساتھ ہوا میں لہراتی ہوئی آسمان کی طرف اُڑی جارہی تھی۔ہوا میں صبح کی خنکی تھی. سبزوں کی ہلکی ہلکی خوشبو نتھنوں سے دل میں اُتر رہی تھی۔ یکایک اُسے گماں ہوا جیسے کہ وہ ایک خوش رنگ ننھی چڑیا ہے جو مسزگپتا جیسی چیل اور بنسی لال جیسے عقاب کے نکیلے اور خوفناک پنجوں سے آزاد ہو کر کھلی فضا میں اُس سمت اُڑی چلی جارہی ہے جہاں سُریندر اپنے بازو پھیلائے اُس کا انتظار کر رہا ہے۔
Be First to Comment